ایک عورت کسی اسٹور میں خریداری کر رہی تھی،
اس نے یہ چیزیں خریدیں: ساڑھے پندرہ لیٹر کا چار فی صد کے برابر دودھ، پونے
دو درجن انڈے، ایک چوتھائی جوس کا پیکٹ، تین چھوٹے اور ایک بڑا کافی کا ڈبہ
اور ایک کلو میدہ۔ جب وہ یہ چیزیں لے کر ادائیگی کرنے کاؤنٹر پر پہنچی تو
قریب کھڑا ہوا ایک سگریٹ نوش اسے غور سے دیکھنے لگا۔ عورت نے اپنی چیزیں
کاؤنٹر پر رکھیں اور کیشئر کو بل بنانے کے لیے کہا۔ اچانک اس شخص نے عورت
سے کہا”تم یقیناً غیر شادی شدہ ہو!“ایک لمحے کے لیے عورت اس غیر متوقع جملے
کو سن کر بوکھلا گئی، کیوں کہ حقیقتاً وہ غیر شادی شدہ تھی۔ سخت حیرانی کے
عالم میں اس نے سگریٹ نوش کی طرف دیکھا اور وہ بولی”ہاں! تم نے ٹھیک کہا،
میں واقعی غیر شادی شدہ ہوں، لیکن تمہیں کیسے پتا چلا؟“سگریٹ نوش نے اس پر
اچٹتی سی نگاہ ڈالی اور لاپروائی سے جواب دیا ”کیوں کہ تم خاصی بد صورت ہو۔“
اس واقعہ نما لطیفے کو سنانے سے یہ تو ثابت ہو گیا کہ سگریٹ پینے والے
عموماً ذہین ہوتے ہیں، لیکن یہ ثابت نہیں ہو سکا کہ سگریٹ نوشی کوئی اچھی
عادت ہے۔ تاہم یہ عادت اس قدر بری بھی نہیں، جتنا واویلا کیا جاتا ہے۔
سگریٹ نوشی کے خلاف عالم گیر مہم کو دیکھتے ہوئے بعض اوقات تو یوں محسوس
ہوتا ہے، جیسے دنیا اگر تباہی کے دہانے کی طرف جارہی ہے، تو اس کی وجہ صرف
سگریٹ نوشی ہے۔ دنیا نے جتنی پابندیاں سگریٹ کے خلاف لگائی ہیں، اتنی صرف
ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف ہی لگی ہیں، جس سے بظاہر یہی ثابت ہوتا ہے کہ سگریٹ
پینا اور کسی ملک پر ایٹم بم برسانا برابر کا ہی جرم ہے۔ دنیا کے ملکوں میں
سگریٹ کی جس طریقے سے فروخت کی جاتی ہے، وہ بھی بہت دلچسپ ہے۔ ایک دفعہ
مجھے تھائی لینڈ میں اس چیز کا تجربہ ہوا۔ میں نے اپنے والد صاحب کی فرمائش
پر تمباکو نوشی کا پائپ خریدنا تھا، سو اس غرض سے میں ایک بڑے ڈیپارٹمنٹل
اسٹور میں چلا گیا۔ پوچھنے پر مجھے بتایا گیا کہ تمباکو سے متعلقہ اشیاء
اسٹور کے آخری کونے میں دستیاب ہیں۔ وہ کونا اسٹور کے ایسے حصے میں واقع
تھا، جہاں تک مجھے پہنچتے پہنچتے دس منٹ لگ گئے۔ وہاں ایک سیلز مین سے پائپ
کے بارے میں دریافت کیا تو اس نے مجھے اوپر سے نیچے دیکھتے ہوئے ٹوٹی پھوٹی
انگریزی میں کہا”آپ یقیناً اٹھارہ سال سے زیادہ عمر کے ہوں گے؟“ میں نے دل
ہی دل میں اس کے ”مشاہدے“ کی داد دی اور اثبات میں سر ہلا کر دانت نکال
دیے۔ اس پر وہ سیلز مین بھی جواباً مسکرایا اور پھر مجھے مزید کونے میں لے
گیا، جہاں ایک الماری رکھی تھی، جس پر باوا آدم کے زمانے کا موٹا سا تالا
لگا ہوا تھا۔ اس نے چوری کے سے انداز میں اِدھر اُدھر دیکھا اور پھر جیب سے
چابی نکال کر اس الماری کا تالا کھولنے لگا۔ الماری میں مختلف تمباکو آئٹمز
سجے ہوئے تھے، جن میں مختلف قسم کے پائپ بھی تھے۔ میں نے جلدی سے ایک پائپ
پسند کیا، جس کے بعد سیلز مین نے احتیاط سے ویسے ہی الماری کو مقفل کیا اور
پھر ہم اس کونے سے نکل آئے۔ اس ساری کاروائی کے دوران مجھے یوں لگا جیسے
میں تمباکو نوشی کے لیے پائپ نہیں، بلکہ ہیروئن خریدنے آیا ہوں۔
سگریٹ سے متعلق ہر قسم کے اشتہارات پر بھی پابندی ہے۔ سگریٹ ساز کمپنیاں
اگر اشتہار بازی کرنا چاہیں تو اس کا قانونی طریقہ یہ ہے کہ ان کا کوئی
نمائندہ کسی راہ چلتے شخص کو روک کر سلام کرے اور پھر بڑے ادب سے پوچھے کہ
کیا وہ اٹھارہ سال کا ہے اور اگر جواب ہاں میں آئے تو اگلا سوال داغے کہ
کیا وہ سگریٹ پیتا ہے اور اگر اس کا جواب بھی اثبات میں ملے، تو پھر وہ اس
شخص کو قائل کرنے کی کوشش کر سکتا ہے کہ وہ اس کی کمپنی کے برانڈ کا سگریٹ
آزما کر دیکھے۔ تاہم اشتہار بازی کی یہ قانونی تیکنیک عملی طور پر خاصی
مضحکہ خیز ثابت ہو سکتی ہے، خاص طور پر اگر اسے کسی پر آزمایا جائے! مجھے
ذاتی طور پر سگریٹ نوشوں سے بے حد ہمدردی ہے، کیوں کہ ان کے سگریٹ پینے پر
تقریباً ہر جگہ پابندی ہے اور جس جگہ پابندی نہیں، وہاں انہیں سگریٹ پینے
سے پہلے ارد گرد کے لوگوں سے ایسے اجازت لینی پڑتی ہے، جیسے یہ کوئی بہت
قابلِ شرم حرکت ہواور دلیل یہ دی جاتی ہے کہ چوں کہ سگریٹ پینے والا اپنے
سگریٹ کے دھوئیں کے ذریعے آس پاس کے لوگوں کو بھی متاثر کرتا ہے، اس لیے
سگریٹ نوشی کی درجہ بندی شخصی آزادی والے خانے میں نہیں کی جا سکتی۔ اگر اس
منطق کو درست مان لیا جائے تو پھر کار چلانے پر بھی پابندی ہونی چاہیے کہ
اس کا دھواں سگریٹ سے کہیں زیادہ مہلک ہوتا ہے اور سر عام ہزاروں لوگوں کو
متاثر کرتا ہے ۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریباً سوا کروڑ بالغ مرد سگریٹ
نوشی کرتے ہیں اور ان کی سگریٹ پھونکنے کی اوسط تقریباً سترہ سگریٹ روزانہ
ہے جو دیگر ممالک جیسے ترکی، اٹلی وغیرہ سے کافی کم ہے جہاں یہ اوسط
تقریباً تیس سے تینتیس سگریٹ ہے۔ ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ سگریٹ پینے
والوں کی تعداد پوری دنیا میں کم و بیش یکساں رہتی ہے، کیوں کہ اوسطاً جتنے
لوگ ایک سال میں سگریٹ نوشی ترک کرتے ہیں، تقریباً اتنے ہی اس سال سگریٹ
نوشی شروع کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ایک سگریٹ زندگی کے دس منٹ کم کر دیتا ہے،
جب کہ ایک قہقہہ زندگی کے دس منٹ بڑھا دیتا ہے، چنانچہ سگریٹ پینے والوں کو
میرا یہی مشورہ ہے کہ ہر سگریٹ پینے کے بعد ایک قہقہہ لگالیں اور اگر کسی
وجہ سے قہقہہ لگانے میں دشواری محسوس کریں تو فوراً ٹی وی لگا کر کسی ق
لیگی کا کوئی انٹرویو دیکھ لیں، جس میں وہ اپنے سابق آقا پرویز مشرف سے لا
تعلقی کا اظہار کرتا ہوا نظر آئے ، انشاء اللہ افاقہ ہوگا۔ |