پر دم ہے اگر تو نہیں خطرہ افتاد؟
(Prof Akbar Hashmi, Rawalpindi)
شاہین کی پرواز، نگاہ باریک بیں،
جھپٹ ایسی کچھ کہاوتیں بڑی مشہور ہیں۔ یہ اعلیٰ فکرو دانش کی باتیں ہیں جو
حضرت علامہ اقبال نے مسلمان قوم بالخصوص مسلم نوجوانان ِ اسلام کے بارے
فرمائیں۔ لیکن آج قوم کی سوچ و فکر کو اعلیٰ سے ارذل بنادیا گیا ہے ۔ کرکٹ
کے کھلاڑیوں کو شاہین سے کیا نسبت ، منشیات کا استعمال کرنے والے، جواباز،
سفارشی اور لڑکیوں کے شائقین (کچھ مثتثنیٰ) شاہین سے کیا علاقہ رکھتے ہیں
ہاں کچھ تھوڑا بہت انکا رشتہ گدھ سے بن سکتا ہے۔ یہ تذکرہ تو اتفاقا ہوگیا
وگرنہ میرا یہ موضوع نہ ہے۔ جس ملک کا سارا نظام درہم برہم ہو وہاں ایک
مذموم کھیل کا ہی ذکر کیا معنی رکھتا ہے۔ جہاں کے حکمران دشمنان ِ اسلام کے
ایجنٹ ہوں، ملکی خزانہ لوٹ کر دوسرے ممالک میں اسے منتقل کرتے ہوں۔ جن کے
مالی اثاثے غیر ممالک میں ہوں، وہاں پچاس ساٹھ ارب کی خطیر رقم محض ذاتی
لوہا اور سیمنٹ کھپانے اور اپنے خاندانوں کو نوازنے پر خرچ کیئے جاتے
ہوں۔جہاں کوئی پوچھنے والا ہی نہ ہو۔ اوصاف حکمرانی سے یکسر بے بہرہ
ایوانہائے اقتدار پر قابض روزانہ درجنوں ناحق خون اپنے سر لیتے ہوں۔ ایسے
میں کس کس بلائے ناگہانی کا ذکر کیا جائے۔ وزراء ، اراکین قومی و صوبائی
اسمبلی ، سینیٹ اور ایک بڑی تعداد اسٹیبلشمنٹ کی محض بھاری تنخواہوں اور
دیگر مراعات سے گنگا کے کنارے اشنان میں مصروف عمل ہے۔ امن و امان کی صورت
حال تو غمازی ہے کہ اس ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں۔ قانون پر عمل
درآمد کے لیئے قوت نافذہ حکومت ہوتی ہے۔ اگر اسکے کارندے خود ہی قانون شکن
ہوں تو نفاذ قانون کیسے ہوگا۔ نظام عدل کی خرابیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں
کہ ایوان عدل میں اکثریت سفارشیوں اور سیاسیوں کی ہے۔ مقدمات کی دستاویزات
انتظار میں بوسیدہ ہوجاتی ہیں۔ من مانے مقدمات سنے جاتے ہیں۔ جن کے پیچھے
کوئی نہ ہو وہ التوا میں ہی رہتے ہیں۔ اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کا آئین
اسلامی لیکن پینل کوڈ انگریز کی باقیات ہے جو پاکستان کے نظام عدل پر چھایا
ہوا ہے ۔ اس وقت قانون کی تمام کتب ، حوالہ جاتا اور عدالتی تحریریں یا
ریکارڈ انگریزی زبان میں ہے جس سے یہ امر واضح ہے کہ ہماری قومی زبان نظام
عدل کو چلانے کے قابل نہیں اور زبان ہی قوموں کی شناخت ہوتی ہے ۔ جب زبان
ہی ناکارہ اور فرسودہ زمرے میں لائی جائے تو ہم اپنا ستیاناس خود ہی کرتے
ہیں۔ عدالتوں میں انگریز ی رسم و رواج کو اہمیت حاصل ہے، انگریز کی غلامی
کا جوا بطور خاص ٹائی (جو صلیب کا نشان ہے) اوپر سے نیچے تک سب کے گلے میں
ہے۔ یاد رہے کہ انگریزکی برصغیر میں آمد سے قبل ٹائی کبھی مسلم لباس کا حصہ
نہ رہی۔ ایسی ہی صورت حال نے ملک کو ڈکیتی، لوٹ مار، قتل و غارتگری کا
میدان کارزار بنا دیا ہے۔ ایسے میں اب ملک اور قوم کو بچانے کی ذمہ داری
صرف اس ادارے کو پوری کرنی پڑ رہی ہے جسے لوگوں نے کہا کہ یہ ہمارے تنخواہ
دار ہیں۔ شائد انہیں کبھی ہوش آئے اور اپنے الفاظ پر شرمسار ہوں۔
مغربی جمہوری نظام کے ذریعہ اقتدار تو حاصل کرلیا مگر قوم کی خدمت کرنے کے
بجائے قوم کو لونڈی اور غلام کی حیثیت دے رکھی ہے۔ پولیس کا بیشتر حصہ قومی
خزانہ لوٹنے والوں کے تحفظ پر متعین ہے۔ جبکہ مارکیٹوں ، بنکوں ، دکانداروں
اور تعلیمی اداروں کو کو اپنے تحفظ کے لیئے مسلح حفاظتی عملہ رکھنا پڑتا ہے
جبکہ انہی مقاصد کے لیئے حکومت ٹیکس وصول کرتی ہے۔خود کش بمباروں کی لعنت
بھی ہمارے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کا ثمرہ ہے۔ اگر ہم پر مسلط لوگ ملک
اور قوم کی خدمت اور اسحکام کی نیت سے آئے ہوتے تو یہ صورت حال ہی پیدا نہ
ہوتی۔ امریکہ اور بھارت کے ساتھ والہانہ دوستی کا نتیجہ ہے کہ انکے ایجنٹوں
کو وسیع پیمانے پر کام کرنے کا موقع مل گیا۔ ملک و قوم کو بچانے کے لیئے اب
صرف افواج پاکستان ہی عوام کا واحد سہارا ہیں۔ جنکی خدمات ہرلحاظ سے سے
پاکیزہ ہیں۔ موجودہ حالات میں افواج پاکستان ملک کے طول و عرض میں ہر سطح
پر قوم کی خدمت کررہی ہیں۔ دہشت گردوں کے خلاف عسکری اداروں کا جہادہو یا
ناگہانی آفات ہوں ، عوام کو ہر شک و شبہ سے بالاتر ہمدرد نظر آتے ہیں تو وہ
فوج کے سپاہی ہیں۔ غیر لڑاکا ملکی منتطمین نے ملک کو تباہ کر دیا ہے۔ اس
صورت حال میں ملک کے اصل خیرخواہ اور پاکیزہ سوچ رکھنے والی کور کمانڈر ز
کابینہ ہے۔ جن کی تنخواہیں اور مراعات ہمارے حکمرانوں اور بیوروکریسی کی
نسبت بہت کم ہیں۔ سول حکمران تو قومی خزانے کے مالک ہیں جتنا چاہیں جیسے
چاہیں لوٹیں کیونکہ ان پر کوئی قدغن نہیں۔انکی مثا ل اب وہی ہے کہ نہ کام
کے نہ کاج کے دشمن اناج کے ۔ جب کوئی کام ان سیاسی حکمرانوں سے ممکن نہیں
تو انکے وجود سے ایوانہائے اقتدار کو پاک کرلینا ہی مناسب ہے۔ ویسے بھی
زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو والی بات ہے کہ عوام الناس کی زبان پر بھی یہی
بات ہے کہ یہ لوگ قومی خزانے پر بلاوجہ کا بوجھ ہیں۔ جب سارے کام یعنی امن
و امان یہ لوگ قائم نہیں رکھ سکتے اور عدلیہ عوام کو جلد مفت انصاف فراہم
نہیں کرسکتی اور پھر یہ سارے کام افواج کو ہی کرنے ہیں تو یہ دعویٰ پایہ
ثبوت کو پہنچا کہ افواج پاکستان میں ملک کے تمام نظام کامیابی سے چلانے کی
صلاحیتیں موجودہیں۔ شاہین کبھی پرواز سے تھک نہیں گراکرتا۔افواج پاکستان کا
لوہا ساری دنیا مانتی ہے۔ جس میدان میں اترے کامیاب و کامران لوٹے۔ وزراء
اور تمام سیاسی مفت خوروں کو کام پر لگا دیا جائے۔ ملک کا سارا نظم و نسق
افواج پاکستان سنبھال لے ۔ جس دن اس تجویزپرعمل درآمد ہوگا وہ دن ملک و قوم
کی تاریخ کا روشن ترین دن ہوگا۔ |
|