پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ یہاں ہر روز کوئی
ایسی بلا منظر عام پر آتی ہے کہ سابقہ مسائل اور پریشانیاں پس منظر میں چلی
جاتی ہیں اور نئی بلا کالی آندھی کی طرح ملک پر چھا جاتی ہے۔ حالیہ واقعات
کو دیکھیں تو ایسا لگتا ہے جیسے کوئی خون آشام درندہ ہاتھ دھو کر اس ملک
اور یہاں بسنے والے عوام کے پیچھے پڑ گیا ہے، صبح اٹھتے ہی یہ فکر ہوتی ہے
کہ رات کو کہیں کوئی اندوہناک واقعہ تو پیش نہیں آگیا، رات کو یہ اندیشہ کہ
خدا جانے اس رات کی صبح کیسی ہوگی؟ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان
میں امن و امان، قانون کی حکمرانی، عدل و انصاف ، روزگار، روٹی، کپڑا اور
مکان کی فراہمی کی عمومی صورتحال انتہائی ناگفتہ بہ ہے، اس امر میں بھی
کوئی شک نہیں کہ یہاں امیر امیر تر اور غریب، غریب تر ہوتا جارہا ہے۔ وسائل
کی غیر منصفانہ تقسیم نے لوگوں کے مسائل اتنے زیادہ بڑھا دئے ہیں کہ ان کو
حل کرنے کی کوئی راہ سجھائی نہیں دیتی۔ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ہی کی
وجہ سے ایسے مسائل جنم لے رہے ہیں کہ جس سے معاشرے میں نہ صرف بگاڑ پیدا
ہورہا ہے بلکہ مختلف طبقات آپس میں باہم برسر پیکار نظر آتے ہیں۔ یہ بات
یقیناً سچ ہے کہ مشرف کی آمریت کے خلاف پاکستان کے وکلاء نے ایک عظیم الشان
تحریک کی بنیاد رکھی، اس تحریک کی اپنے خون اور پسینے سے آبیاری کی، جانوں
کے نذرانے دئے، سول سوسائٹی، طالب علموں، ڈاکٹرز، انجینئرز وغیرہ نے بھی
وکلاء کا ساتھ دیا، سیاسی جماعتوں اور کارکنان نے کندھے سے کندھا ملایا اور
میڈیا نے اپنے بے انتہا اچھے اور قابل تعریف کردار سے اس تحریک میں نہ صرف
جان ڈال دی بلکہ اس پودے کو تناور درخت بنانے میں انتہائی اہم حصہ ڈالا۔
تحریک کامیاب ٹھہری (کس طرح کامیاب ہوئی اور کن طاقتوں نے 16 مارچ کو حکومت
کو عدلیہ کی بحالی کے لئے مجبور کیا، یہ سوال اپنی جگہ) اور اس کے بعد اس
ملک کے عوام نے متذکرہ بالا تمام طبقات خصوصاً عدلیہ، وکلاء اور میڈیا سے
کچھ امیدیں وابستہ کرلی تھیں!
دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ امیدیں اور توقعات پورا ہونا شروع ہوئیں یا معاملات
پہلے جیسے یا پہلے سے بھی گھمبیر شکل اختیار کر گئے؟ عوام کو وکلاء سے توقع
تھی کہ اتنی بڑی تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کرنے والے آئندہ بھی اس ملک
میں آئین اور قانون کی رکھوالی کریں گے۔ ایک لاکھ خدائی فوجدار عوام کو
افسر شاہی، وڈیروں اور سیاسی چالبازوں سے چھٹکارا دلائیں گے اور ان کے حقوق
جن کی کبھی بھی پاسداری نہیں کی گئی، وہ حقوق مکمل طور پر انہیں دلائیں گے۔
لوگوں کو وکلاء نجات دہندہ نظر آ رہے تھے۔ لوگ سمجھ رہے تھے کہ پاکستان کے
وکلاء متحد ہیں، اگر کسی کام کا بیڑا اٹھا لیں تو اس کو پایہ تکمیل تک
پہنچائے بغیر ان کو سکون نہیں ملتا۔ لیکن پھر کیا ہوا، چشم فلک نے وہ نظارے
دیکھے کہ پورا ملک تو کیا پوری دنیا پریشان ہوکر رہ گئی۔ اس ملک کے دشمنوں
اور سازشی عناصر نے سر اٹھایا، وکلاء کی صفوں میں موجود چند کالی بھیڑوں کو
اکٹھا کیا اور جوش و جذبات سے معمور وکلاء کے اندر ایک خاص ایجنڈا دے کر
گھسا دیا۔ وہ وکلاء جنہوں نے نہتا ہونے کے باوجود ایک باوردی کمانڈو آمر کو
بھگا دیا تھا اپنے اندر گھسنے والی کالی بھیڑوں کو نہ پہچان پائے۔ پہلے چند
وکلاء کی انفرادی حرکات سے پولیس کے ساتھ مسائل پیدا ہوئے، جب میڈیا نے اس
کی کوریج کرتے ہوئے تمام وکلاء کو ”غنڈہ“ ”بدمعاش“ اور نہ جانے کن کن
القابات سے نوازنا شروع کیا تو وکلاء کی اکثریت میں میڈیا کے ناروا سلوک سے
مخالفانہ جذبات پیدا ہونا شروع ہوگئے۔ چنانچہ کچھ عرصہ وکلا، میڈیا چپقلش
چلتی رہی، اسی دوران وکلاء کو عدلیہ سے لڑانے کی سازش بھی کی گئی جس میں
جسٹس خواجہ شریف کی جانب سے بھری عدالت میں وکلاء کے کوٹ اور ٹائیاں
اتروانے کے عمل نے جلتی پر تیل کے مترادف کام کیا۔ وکلاء کو سب سے بڑا
اعتراض یہ تھا کہ کسی ایک وکیل کے کسی انفرادی فعل کی وجہ سے میڈیا کی جانب
سے پوری وکلاء برادری کو نشانہ کیوں بنایا جاتا ہے۔ جب میڈیا کی جانب سے
کسی کے خلاف جھوٹ پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے، کسی کی پگڑی اچھالی جاتی ہے تو اس
کو کبھی میڈیا گردی کا نام نہیں دیا گیا لیکن کسی ایک شخص کی جانب سے کئے
گئے کام کو پورے ملک کے وکلاء کو بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور ان کو
نشانہ بنا لیا جاتا ہے۔ ایسا کیوں کیا جاتا ہے اور اس کے پس منظر میں کونسی
طاقتیں اور کونسے عوامل موجود ہوتے ہیں؟
حالیہ شازیہ قتل کیس کو ہی لے لیں، اس میں رتی برابر بھی شک نہیں کہ اس
معصوم بچی پر انسانیت سوز ظلم کیا گیا جس پر ہر ذی شعور کی آنکھ اشک بار ہے۔
دنیا کا کوئی بھی شخص اس واقعہ کی مذمت کئے بغیر نہیں رہ سکتا اور اس معصوم
بچی کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھنے والوں اور اسے موت کے گھاٹ اتارنے والوں
کو بلا شبہ قانون کے مطابق کڑی سے کڑی سزا ملنی چاہئے تاکہ اس کے غریب
لواحقین کو انصاف مل سکے۔ اس بات سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ چوہدری
نعیم ایڈووکیٹ، جو لاہور بار کے سابق صدر بھی ہیں، اگر اس واقعہ میں ذاتی
طور پر ملوث نہیں بھی تو پھر بھی وہ اس کے مکمل طور پر ذمہ دار ہیں۔ پہلی
بات یہ کہ ایک بارہ، تیرہ سال کی بچی کو ملازمت پر رکھنا بذات خود ایک غیر
قانونی اور غیر اخلاقی فعل ہے۔ کسی بھی قانون پسند اور قانون پر عمل کرنے
والے شخص کو ایسی غیر قانونی حرکت نہیں کرنی چاہئے کجا کہ اس معصوم بچی پر
ظلم کے پہاڑ توڑے جائیں اور اس کا بہیمانہ اور ظالمانہ طریقہ سے قتل کردیا
جائے۔ دوسری بات یہ کہ اگر ملزم چوہدری نعیم اس قتل میں براہ راست ملوث
نہیں بھی ہے تو یہ قبیح فعل ہوا تو ان کے گھر میں ہی ہے، اس کی ذمہ داری تو
گھر کے سربراہ پر ہی عائد ہوتی ہے جس سے وہ کسی صورت انکار نہیں کرسکتے! اس
واقعہ کے بعد جب پوری دنیا کے ساتھ ساتھ وکلاء بھی اس کی شدید ترین الفاظ
میں مذمت کررہے تھے، ایسی کیا بات ہوئی کہ لاہور بار کو چوہدری نعیم کے حق
میں نہ صرف قرارداد منظور کرنا پڑی بلکہ عدالتوں کے بائیکاٹ تک نوبت آن
پہنچی! اگر ہم غور کریں تو یہ صرف اور صرف میڈیا کا وہی پرانا رویہ ہے جس
نے اس واقعہ کی مذمت کرنے والے وکلاء کو بھی مجبور کردیا کہ وہ صرف میڈیا
کی یلغار کی وجہ سے ملزم کا ساتھ دیں! ابھی ایف آئی آر بھی درج نہیں ہوئی
تھی کہ میڈیا نے چوہدری نعیم ایڈووکیٹ کے خلاف شواہد بھی پیش کردئے اور
گواہ بھی، مجرم ثابت بھی کردیا اور سزا دینے کی کوشش بھی شروع کردی!اس میں
کوئی دوسری رائے نہیں ہوسکتی کہ معصوم شازیہ کا قتل کسی بھی درد دل رکھنے
والے شخص کے لئے ایک مستقل روگ ہوگا، یہ سوال راتوں کی نیند اور دن کا چین
ختم کرنے کے لئے کافی ہے کہ اس بیچاری کو کس جرم کی سزا دی گئی؟ اس ننھی
جان کا قتل حشر تک پاکستانیوں کے ضمیر پر ایک بوجھ کی طرح رہے گا، لیکن اس
کے ساتھ ہی ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ پچھلے کچھ عرصہ اس طرح کے کیسز ہی
کیوں میڈیا پر اچھالے جاتے ہیں جن میں پاکستان اور پاکستانی عوام کی تذلیل
سامنے آتی ہو! جس میں پاکستانی عوام کو بے ضمیر ثابت کیا گیا ہو اور
اقلیتوں پر ظلم کے حوالے سے کیچڑ اچھالا گیا ہو؟ بلا شبہ میڈیا آزاد ہے، اس
نے عوام کو اپنے حقوق کا شعور دیا، آگاہی دی لیکن کیا میڈیا کو مادر پدر
آزاد ہونا چاہئے کہ وہ ملک کے امیج کو اتنا داغدار کردے کہ پاکستانی بطور
قوم پوری دنیا میں کسی کو منہ دکھانے کے لائق نہ رہیں۔ جہاں ہر مکتبہ فکر
کے لئے کچھ راہنما اصول، ضوابط، قوانین اور رولز موجود ہیں تو میڈیا کے
متعلق کیوں نہ ہوں! کیا میڈیا مالکان کو اس بارے میں غور و فکر نہیں کرنا
چاہئے؟ اگر میڈیا یکطرفہ پراپیگنڈہ کرے، کوئی چینل یا اس کا کوئی نمائندہ
اگر کسی کو بلیک میل کرے تو وہ کہاں جائے؟ کیا یہ بات ڈھکی چھپی ہے کہ جس
طرح کالی بھیڑوں کا وجود ہر جگہ موجود ہے اسی طرح میڈیا میں ”کالی“ اور
”زرد“ دونوں طرح کی بھیڑیں موجود ہیں۔ میڈیا کا حق بلکہ فرض ہے کہ وہ قوم
کو سچ دکھائے، قوم کا ضمیر جگائے لیکن اس کے ساتھ یہ امر بالخصوص سامنے
ہونا چاہئے کہ میڈیا کو عدلیہ کا کام نہیں کرنا چاہئے۔ مختلف ٹی وی چینلز
پر خبریں پڑھنے والے لوگوں کو کسی بھی مکتبہ فکر یا گروہ کے خلاف معاندانہ
رویہ نہیں رکھنا چاہئے بلکہ غیر جانبدار ہوکر تصویر کے دونوں رخ عوام کے
سامنے رکھنے چاہئیں اور کسی ایک واقعہ کے بارے میں مخصوص وقت کے لئے ہی خبر
پیش کرنی چاہئے۔ ہمارے یہاں جس خبر کی اہمیت کسی اخبار کے لئے اندرونی
صفحات پر بمشکل ایک کالمی ہوتی ہے، ٹی وی چینلز پر اسے کھینچ کھینچ کر
چوبیس گھنٹے تک پھیلا دیا جاتا ہے۔ میڈیا میں موجود پالیسی سازوں کر اس بات
پر بھی غور کرنا چایئے کہ کیا وہ ایسی نشریات سے عوام کو حقائق سے آگاہ
کررہے ہوتے ہیں یا انہیں اضطراب اور ذہنی خلجان میںمبتلا کررہے ہوتے ہیں؟وہ
بزعم خود معاشرے کو سدھار رہے ہوتے ہیں لیکن انہیں اس بات پر بھی ضرور غور
کرنا چاہئے کہ وہ معاشرے میں بگاڑ اور بے چینی پیدا کرنے کے مرتکب تو نہیں
ہورہے؟ دوسری طرف وکلاء کو بھی اپنی عزت اور وہ احترام جو انہوں نے تحریک
کی صورت میں حاصل کیا ہے اس کا بھی بھرم رکھنا چاہئے، ایک ملزم چاہے وہ
وکیل ہی کیوں نہ ہو، کسی بھی حوالہ سے اس کی حمایت کی جانی ہرگز مناسب نہ
تھی اور اس پر لاہور بار کی طرف سے باقاعدہ ہڑتال کی جانی تو زیادہ قابل
مذمت ہے!
میڈیا کے بے لگام اور طفلان مکتب یہاں کے ڈاکٹرز کے ساتھ بھی تقریباً ایسا
ہی سلوک کرچکے ہیں اور میرے علم کے مطابق میڈیا کے اسی روئے کی وجہ سے بہت
سے سینئر ڈاکٹرز ملک چھوڑنے کا بھی سنجیدگی سے سوچ رہے ہیں۔ میڈیا اور
وکلاء پاکستانی معاشرے کے دو ستونوں کی حیثیت حاصل کرچکے ہیں۔ یہ دونوں مل
کر ایک ایسی طاقت کا روپ اختیار کرسکتے ہیں جو اس ملک کے عوام کو ان کے اصل
اور جائز حقوق دلوا سکتی ہے، اب جبکہ وکلاء این آر او کیس کے فیصلے کے بعد
سپریم کورٹ کے احکامات پر عملدرآمد کے لئے نئی تحریک کی داغ بیل ڈال رہے
ہیں کہیں ایسا تو نہیں کہ دونوں مکاتب فکر میں موجود کچھ ”کالی بھیڑیں“
دونوں کو دوبارہ لڑوا کر ان کی طاقت ختم کرنا چاہتی ہوں؟ لاہور کو بھی اس
لئے تو ٹارگٹ نہیں کیا گیا کہ وکلاء تحریک کا زیادہ زور یہیں پر تھا! وہ
”کالی بھیڑیں“ شائد پہلے سے ہی کسی ایسے واقعہ کی آڑ حاصل کرنا چاہتی تھیں
اور انہیں شازیہ قتل کیس مل گیا ہو! بہرحال جو بھی معاملات ہیں، معصوم
شازیہ کے ساتھ ہونے والے ظلم کا احتساب بھی ہونا چاہئے، اس کے لواحقین کو
مکمل انصاف بھی ملنا چاہئے اور مجرم کو بھرپور اور مثالی سزا ملنی چاہئے
تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کا تدارک ہوسکے! مجرم کوئی بھی ہو، وکیل ہو،
ڈاکٹر ہو، انجینئر ہو، میڈیا کا آدمی ہو، وردی پوش ہو یا شیروانی پوش، افسر
شاہی سے تعلق رکھتا ہو یا سیاستدان، جج ہویا پولیس کااہلکار احتساب سے کوئی
بھی مبرا نہیں، احتساب سب کا ہونا چاہئے لیکن مناسب فورم پر، میڈیا پر نہیں!
کیونکہ میڈیا کا کام رپورٹنگ کرنا ہے، عدالت بن کر فیصلے کرنا نہیں! |