امریکی وزیر دفاع کا دورہ افغانستان

امریکہ کے نئے وزیر دفاع ایش کارٹر نے افغانستان کا دورہ کیا ہے ۔ان کا یہ دورہ اچانک اور غیر اعلانیہ تھا۔بقول ان کے وہ افغانستان کی صورت حال جاننے کے لیے یہاں آئے ہیں ۔امریکہ کا افغانستان میں فوجیں بھیجنے کا واحد مقصد یہاں قیام امن کو یقینی بنانا تھا اور یہاں پر موجود دہشت گردوں کو ختم کرناتھا اس سے قبل امریکہ یہ دنیا کو باور کروا چکا تھا کہ افغانستان میں اس کا امن مشن مکمل ہو چکا ہے اور اب وہ اپنی فوجیں واپس بلا رہا ہے دسمبر 2014تک اس نے اپنی فوجوں کو واپس بلایا بھی ہے مگر ساتھ ہی افغانستان میں دہشت گردی کے واقعات میں تیزی بھی آئی ہے ۔اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں 2014کے دوران ہلاکتوں میں 22فیصد تک اضافہ ہوا ہے ۔ایش کارٹر نے اب یہ عندیہ دیا ہے کہ امریکہ افغانستان میں اپنی فوجیں مزید کچھ عرصہ تک رکھنے کا اراداہ رکھتا ہے اور وہ امریکی فوج کے انخلاء پر نظر ثانی کے لیے تیار ہے۔امریکہ کے اب بھی دس ہزار فوجی افغانستان میں موجود ہیں اس کے ساتھ ساتھ افغان صدر اشرف غنی نے بھی امریکی وزیر دفاع کے اس خیال کی تائید کی ہے کہ امریکہ کو ابھی مزید کچھ عرصہ تک وہاں رہنا ہو گا ۔ انہوں نے اس خیال کا بھی اظہار کیا ہے کہ امریکہ فوجیوں کے انخلاء کی رفتار کو سست بنائے ۔امریکی وزیر دفاع کے افغانستان کے دورے کے بعد یہ بات سچ معلوم ہو رہی ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی ابھی تک دہشت گردی کے خلاف جنگ مکمل طور پر جیت نہیں پائے ہیں انہوں نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دہشت گردوں کا نیٹ ورک ابھی باقی ہے کارٹر کے اس بیان کو جنگ میں امریکی ناکامی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے اور یہ پہلو انتہائی افسوس ناک ہو گا ۔دہشت گردی کے خلاف جنگ جس قدر طویل ہو گی خطے کے لوگ اسی قدر زیادہ تکلیفوں اور پریشانیوں کا شکار رہیں گے ہلاکتیں اور تبای ان کے مقدر کا حصہ بنی رہے گی۔ آخر ان وجوہات کو تلاش کرنا ہو گا کہ جن کی بدولت امریکہ اور اس کے اتحادی اس جنگ میں ناکام ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔آخر کیا وجہ ہے کہ چند دہشت گردوں نے عالمی طاقتوں کو لوہے کے چنے چبانے پر مجبور کر دیا ہے ۔اس سلسلے میں اقوام متحدہ کو ایک موثر کردار ادا کرنا ہو گا سلامتی کونسل افغانستان کے مسلے پر ایک ٹاسک فورس قائم کرے جو ان وجوہات کا پتہ لگائے جن کی بدولت اس خطے میں جنگ طول پکڑتی جا رہی ہے۔کوئی بھی دہشت گرد گروپ بغیر کسی ریاستی تعاون کے اتنی طویل جنگ نہیں لڑ سکتا ہے یہی ٹاسک فورس افغانستان میں موجود لڑاکا گروپس کے بارے میں تحقیقات کرے کہ ان کے کن کن ممالک کے ساتھ روابط ہیں اور کون کون سی حکومتیں ان گروہوں کو مالی اور حربی تعاون پیش کر رہی ہیں ۔ایک غالب امکان یہ بھی موجود ہے کہ کچھ ممالک عالمی سیاست میں اپنا اثر رسوخ قائم رکھنے کے لیے اور اپنے مخصوص نظریات کے پرچار کے لیے ان دہشت گرد گرپوں کے ذریعے دباؤ بڑھاتے ہیں۔ دنیا میں بڑھتا ہوا ادارہ جاتی اثر رسوخ بھی اس جنگ کو طول دینے میں مدد گار ثابت ہو رہا ہے کیونکہ بعض ممالک میں معاملات سیاسی قیادت کے ہاتھ سے نکل چکے ہیں اور اب وہاں فیصلے ادروں کے سربراہ کرنے لگے ہیں اداروں کے فیصلے اور پالیسیاں عوامی امنگوں اور ان کی فلاح کے برعکس ہوا کرتے ہیں لہذا سیاسی عالمی رہنماؤں کو بھی معاملات پر اپنی گرفت مظبوط رکھنا ہو گی۔عالمی رہنماؤں میں جرمنی کی چانسلر Angela Markelہی وہ لیڈر ہیں جو سب سے زیادہ متحرک ہیں مگر ان کا فوکس یوکرائین اور روس کے معاملات تک محدود ہے انہیں افغان ایشو کی طرف بھی متوجہ ہونا پڑے گا ۔کیونکہ پچھلی صدی میں عالمی سیاست میں جرمنی کا کردار بڑا بنیادی نوعیت کا تھا لہذا اسے اب بھی وہی کردار ادا کرنا ہو گا اور دنیا کی واحد سپر پاور کے کھیل کو سب کے سامنے آشکار کرنا پڑے گا۔حال ہی میں پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کے قریب ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں ان دونوں ممالک کے اب تعلقات مثالی بن رہے ہیں دہشت گردی کے خلاف ان کی مشترکہ کوششوں کے ثمرات بھی سامنے آنا شروع ہو ا ہی چاہتے تھے کہ امریکہ نے خطے میں موجود رہنے کا اشارہ دے دیا ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس خطے میں امریکی موجودگی یہاں کے امن کے لیے تباہ کن تو ثابت نہیں ہو رہی ہے ؟عالمی رہنماؤں کا اس طرف متوجہ ہونا اب لازمی ہو گیا ہے کیونکہ پوری دنیا کا امن افغانستان کے امن کے ساتھ ہی مشروط ہے۔
hur saqlain
About the Author: hur saqlain Read More Articles by hur saqlain: 77 Articles with 61775 views i am columnist and write on national and international issues... View More