گٹھ جوڑ
(Tariq Hussain Butt, UAE)
نام نہاد ترقی پسند دانشور اگر
دھشت گر دی کی آڑ میں اسلام کو پاکستان سے بے دخل کرنا چاہتے ہیں تو یہ ان
کی خام خیالی ہے کہ وہ ایسا کر سکتے ہیں کیونکہ عوام کے دلوں میں اسلام کی
محبت جس انداز میں پیوست ہے اسے نہ تو ترقی پسند دانشوروں کی دانش نقصان
پہنچا سکتی ہے اور نہ ہی ااس کا اثر کم کر سکتی ہے۔پاکستانی عوام اسلام کو
جس پیمانے سے ماپتے ہیں اس کا اظہار مخصوص ترقی پسند دانشوروں اور میڈیا کے
چند مخصوص اینکرز کی فکر میں نظر نہیں آتا۔در اصل اس طرح کے د انشور امریکہ
اور یورپ کی زبان بولتے ہیں جس کا واحد مقصد اسلا م کی حقانیت کو عوام کی
نگاہوں میں بے توقیر کرنا ہے۔وہ دنیا کو یہ بتا نا چاہتے ہیں کہ اسلام دھشت
گرد مذہب ہے جو روحِ عصر کے ساتھ چلنے سے قاصر ہے۔سچ تو یہ ہے کہ ا مریکہ
یورپ ،بھارت اور اسرا ئیل اسلام کو زک پہنچانے میں باہم یکجا ہیں جن کاساتھ
مخصوص ترقی پسند دانشور دینے کے کام میں جٹے ہوئے ہیں ۔ اسلام چونکہ ا سطرح
کے دانشوروں کی کبھی پہلی ترجیح نہیں رہی لہذان دانشوروں کو کسی ایسی طاقت
کا آلہ کار بننے کی ضرورت پیش آتی ہے جو اسلام کے خلاف مورچہ زن ہوں۔اس
مورچہ بندی کی وجہ سے ان دونوں میں گاڑھی چھنتی ہے ۔دونوں انسانی حقوق
،جمہوری نظام اور آزادی ِ اظہار کے نام پر اسلام کی تعلیمات کو مسخ کرنے کی
کوشش کرتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ یہ قوتیں رازداری سے متشدد گروہوں کو سپورٹ
بھی کرتی ہیں اور انھیں تحفظ بھی دیتی ہیں تا کہ دنیا کو یہ باور کروایا جا
سکے کہ جو کچھ ہم کہتے ہیں وہ سچ ہے۔ اسلام کے خلاف امریکی دشمنی کیلئے یہ
دلیل کیا کم ہے کہ امریکہ ہزاروں میل کی دوری سے عراق اور افغانستان پر
حملہ آور ہو ا تا کہ مسلمانوں کو نیست و نابود کیا جا سکے ۔بھارت اور
اسرائیل اس کارِ خیر میں امریکہ کے دست و بازو بنے جبکہ یورپ نے اس پورے
منظر نامے میں انھیں اپنی مکمل حمائت و تائید سے نوازا ۔ مقصد ان سب کا ایک
ہی تھا کہ کسی نہ کسی طرح سے اسلام کو کمزور کر کے زیرِ پا رکھا جائے ۔کاش
کوئی امریکہ سے یہ پوچھنے کی جسارت کرے کہ افغانستان اور عراق میں مریکہ کے
کن مفادات کو زک پہنچنے والی تھی جو اس نے اتنی بڑئی جارحیت کا ارتکاب کیا
اور لاکھوں انسانوں کو موت کی نیند سلا دیا۔امریکی عوام تو بلی کے ایک بچے
کے مرجانے پر شورو غوغہ بلند کر کے آسمان سر پر اٹھ الیتے ہیں لیکن یہاں
لاکھوں انسانوں کی موت پر انھیں کسی قسم کا کوئی دکھ نہیں ہوتا کیونکہ مرنے
والے مسلمان تھے اور ان کی نظر میں مسلمانوں کے خون کی کوئی قدرو قیمت نہیں
ہے ۔اسلامی ممالک میں اب بھی روزانہ سینکڑوں لوگ دھشت گردی کے نام پر موت
کی آغوش میں پہنچا دئے جاتے ہیں اور کوئی ان کا والی وارث ن نہیں ہوتا ۔
مسلمان دھشت گرد ہیں یا کہ نہیں یہ ایک علیحدہ سوال ہے لیکن انھیں دھشت
گردی کے نام پر ہلاک ضرور کیا جاتاہے اور پھر شور ڈال دیا جاتا ہے کہ یہ
سارے افراد دھشت گردتھے اور عالمی امن کیلئے خطرہ تھے لہذا دنیا کے امن کو
کسی اور سے نہیں بلکہ مسلمان ممالک سے خطرہ لاحق ہے لہذا تمام اسلامی مما
لک کو اپنے ہاں ایسے قوانین بنانے چائیں جہاں پر مذہبی جماعتوں کے خلاف سخت
قوانین متعارف کروائے جائیں اور ان پر پاپندی لگائی جائے تا کہ دھشت گردی
کو لگام دی جا سکے۔ میڈیا پر بیٹھے ہوئے مخصوص دانشور پورے زورو شور سے
مسلمانوں کو دھشت گرد ثابت کرنے میں مصروف ہیں اور عوام کے اذہان میں اسلام
کی ایک ایسی تصویر ابھارتے ہیں جس کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں
ہوتا۔اسلام امن پسند اور ا نسان دوست مذہب ہے جس کا واحد مقصد انسانیت کی
نجات ہے لیکن یورپ اس تصور کو نہیں بلکہ اس تصور کو اجاگر کر تا ہے جو تشدد
کا پہلو لئے ہوئے ہے اور جس سے اسلام بدنام ہوتا ہے ۔،۔
ٓاسلام کے خلاف اسی نقطہ نظر کو تقویت دینے کی خاطر بھارت امر یکی اشیرواد
سے افغانستان میں چوہدری بننے کی کوشش کر رہا ہے حالانکہ بھارت کو
افغانستان سے کچھ لینا دینا نہیں کیونکہ اس کی کوئی سرحد افغا نستان سے
نہیں ملتی لیکن پھر بھی وہ افغانستان میں ڈیرے جمائے ہو اہے کیونکہ اس کی
پشت پر امریکہ کا ہاتھ ہے۔امریکہ ا س خطے میں بھارت کو اپنا نائب بنا نا
چاہتاہے۔ مسلما نوں سے دشمنی اور مخاصمت ان دونوں ممالک میں قدرِ مشترک
ہے۔ستم بالائے ستم یہ کہ ہمارے نام نہاد دا نشور بھارت امریکی گٹھ جوڑ کو
امن کیلئے ضمانت تصور کرتے ہیں اور ان کی دل کھول کر حمائت کرتے ہیں ۔ یہ
افراد بھارت سے تعلقات کی بحالی کے دعویدا ہیں ۔یہ کشمیر کے مسئلے پر
ثقافت،ادب اور تجارت کو اس مسئلے سے الگ ر کھنے کی وکالت کرتے ہیں کیونکہ
وہ نہتے کشمیریوں کے لہو کی سرخی کو دیکھنے سے عاری ہیں اور اس لہو میں رچے
بسے جذبوں کو د یکھنے سے قاصر ہیں تبھی تو انھیں لہو کی قدرو قیمت کا احساس
نہیں ہو رہا۔ابھی تو چند دن پہلے کی بات ہے کہ ہمیں مود ی اوبامہ گٹھ جوڑ
کے ایسے مناظر دیکھنے کو ملے جس میں پاکستان کو دھشت گردی کا گڑھ دکھانے کی
کوشش کی گئی۔سوال نیو کلئیر کا ہو، سلامتی کونسل میں مستقل نشست کا ہو یہ
ساری کاروائی پاکستان کو نیچا دکھانے کیلئے کی جا رہی ہے ۔ماضی میں بھارتی
جارحیت کا سب سے بڑا نشانہ پاکستان بنتا رہا ہے اور اب بھی بھارت امریکہ
دوستی پاکستان کو نیچا دکھانے کیلئے ہے۔امریکہ کا یہ اعلان کہ بھارت کا
افغانستان میں ایک توانا کردار ہے اور اس خطے میں اس کی موجودگی امن کی ضما
نت ہے پاکستانی موقف کی کھلی تضحیک ہے۔حافظ سعید کی واپسی ایک ایسا مطالبہ
ہے جسے ہمارے قوی تشخص اور خود مختاری پر کھلا حملہ قرار دیا جا نا چائیے
۔امریکہ اس خطے میں بھارتی اقدامات کا پشت پناہ ہے اور اس خوش گمانی میں ہے
کہ بھارت اپنا مثبت کردار بھر پور انداز میں نبھائیگا۔بھارتی راجدھانی دہلی
میں دو ملکوں کے درمیان جب محبت کی دستا ویز لکھی جا رہی تھی عین اس وقت
پاکستان میں پٹرول کا بحران اپنے عروج پر تھا۔لمبی لمبی قطاریں ہماری قیادت
کے بانجھ پن پر نوحہ کناں تھیں لیکن المیہ یہ ہے کہ ہماری قیادت پھر بھی
کوئی بڑا قدم اٹھانے سے گریزاں نظر آتی ہے ۔عوام کے دلوں میں تو بھارتی
مکاری کے بارے میں کوئی دو رائے نہیں لیکن میاں نواز شریف نریندر مودی سے
ذا تی دوستی کو مضبوط کرنے میں بے چین نظر آتے ہیں۔ا ن کی کوشش تھی کہ ان
کی تقریبِ حلف برداری میں بھارتی وزیرِ اعظم شرکت کرتا لیکن فوج کی جانب سے
مزاحمت کا اثر تھا کہ میاں صاحب کو اپنی اس خوا ہش کا گلہ گھونٹنا پڑا ۔سچ
تو یہ ہے کہ میاں برادران کے اپنے کاروباری مفادات ہیں جن کی خاطر وہ بھارت
کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے ہیں ۔ان کی تو یہ بھی کوشش تھی کہ بھارت کو
پسندیدہ ملک کا درجہ بھی دیا جائے لیکن یہا ں بھی فوجی قیادت نے انھیں ایسا
کرنے سے باز رکھا۔جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوتا کشمیریوں کا لہو بھارت
سے تعلقات معمول پر لانے میں رکاوٹ بنا رہیگا ۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ
کشمیری اپنی آزادی کی جو جنگ لڑ رہے ہیں اس میں پاکستان ان کی
اخلاقی،سفارتی اور سیاسی حمائت جاری رکھے ہوئے ہے ۔ مسلمان در اصل ایک جسدِ
واحد کی طرح ہیں لہذا مسلمانوں کو جس جگہ بھی جو رو ستم کا نشانہ بنایا
جائیگا پاکستانی قوم اپنے دلی جذبات کا اظہار کرتی رہے گی ۔ فلسطین ،چیچنیا
، اور کشمیر پر پاکستان کی حمائت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے جو ان کے جذبہِ
حریت کا کھلا اظہار ہے ۔لا کھو ں کشمیریوں کے لہو سے ہاتھ رنگنے والے بھارت
سے مصالحت اور دوستی کا کوئی امکان نہیں کیونکہ مسلمانوں کے لہو کی پکار
ہمیں مظلوموں کی آزادی کیلئے اپنا کردار ادا کرنے پر آمادہ کرتی رہتی
ہے۔حکمران لاکھ چاہیں وہ پاکستانی قوم کو کشمیریوں کی محبت اور امداد سے
نہیں روک سکتے۔یہ عوام کی کی محبت کا کمال ہے جو کشمیریوں کو جدو جہد آزادی
کیلئے نئے جذبے اور ہمت عطاکرتی ہے ۔کوئی لاکھ کوشش کر لے پاکستانی عوام
بھارتی بالا دستی کو قبول کرنے کیلئے مطلق تیار نہیں ہیں وہ اپنی شہ رگ کو
بھارت سے آزاد کروانے کیلئے بے چین ہیں اور ان کی یہی بے چینی پاک بھارت
تعلقات کے کفن میں آخری کیل ٹھونک رہی ہے ۔حیران کن بات یہ ہے کہ بھارت
کشمیر کی جنگِ آزادی کو بھی دھشت گردی سے تعبیر کر کے کشمیریوں پر ظلم و
ستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے ۔ حریت و جانبازی تو اسلام کا ایسا افتخار ہے جو اس
کی مقبولیت اور ترویج میں بنیادی کردارا دا کر تا ہے لہذا اس جذبہِ حریت کو
بھارت امر یکی گٹھ جوڑ دھشت گردی کا نام دے کر کچل نہیں سکتا۔ اسلام تو خود
دھشت گردی کا مخالف ہے لہذا اس پر اسطرح کا الزام نہیں سجتا ۔،۔ |
|