آس اور امید کے چراغ بجھنے نہ دیں

اس دھرتی جس کا نام پاکستان ہے ،اسی دھرتی کااناج کھا کر جوان ہونے والے دہشت گردوں نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ طاقتور ہیں……وہ ناقابل شکست ہیں……اوروہ جب چاہیں حکومت کو بھیگی بلی بنا دیں اور جب چاہیں پاکستانیوں کو بارود کا ایندھن بنا ڈالیں…… ان کا دعوی ہے کہ وہ جب چاہیں جہاں چاہیں سکیورٹی فورسز کا بینڈ بجا سکتے ہیں یہ دہشت گردو ں کا چیلنج ہے ……انہی دہشتگردوں کا چیلنج……!! جنہیں ہم اور ہمارے حکمران چند مٹھی بھر گمرا ہ لوگ کہتے ہیں اوریہ ان کے محض دعوے نہیں ہیں بلکہ ان چند مٹھی بھر شیطانوں نے ایسا کر کے دکھایا بھی ہے…… آرمی پبلک سکول پشاور کے دل دہلادینے والے سانحہ کے بعد ہمارے حکمرانوں ……وزیر اعظم ، وزرائے اعلی بشمول وزیر داخلہ چودہری نثار علی خاں نے زخموں سے چور چور اس قوم کو اپنے دعوؤں میں تسلیاں دیں کہ دہشت گردوں کے دن گنے جا چکے ہیں اور اب وہ رہیں گے یا ہم وغیرہ وغیرہ

بیانات کی اس گن گرج کے ماحول میں اے پی سی کا انعقاد ہوا……دہشت گردوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے پوری قوت سے نبٹنے کے اعلانات جاری ہوئے، قومی ایکشن پلان مرتب ہوا…… آرمی پبلک سکول کے شہدا کا خون ابھی خشک نہیں ہوا تھا کہ انسانیت کے دشمنوں نے ’’نیدر کے مارے‘‘ وزیر اعلی سندھ کی نیدر میں ڈوبے رہنے سے نظریں بچا تے اور نائن زیرو پلس زرداری یا بلاول ہاؤس کی خواہشات کے بوجھ تلے دبی سندھ پولیس کی غفلت اور نالائقی سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور شکار پور کی جامع مسجد و امام بارگاہ’’کربلائے معلی‘‘ پر یلغار کردی ۔ شکار پور کے شہدا کے ورثاء اور زخمیوں کی چیخ و پکار کے شور میں دہشت گردوں کی بیخ کنی کے پھر سے دعوے بلند ہوئے…… امدادی رقوم کے اعلانات کیے گئے…… یہ الگ بات ہے کہ وزیر اعلی ’’ نیدر شاہ‘‘ کی جانب سے پیش کیے گئے چیک کیش ہونے کی بجائے باؤنس ہوئے …… بینک والوں نے شہدا ء اور زخمیوں کے لواحقین کو امدادی رقوم دینے کی بجائے خالی ہاتھ لوٹا دیا…… جس سے وزیر اعلی’’ نیدر شا‘‘ہ اور اسکے سرپرستوں کو تو کوئی فرق نہیں پڑا ہوگا مگر ریزہ ریزہ ،زخموں سے چور چور خاندانوں کے حوصلے ضرور ٹوٹ گئے -

ابھی پاکستانی قوم سانحہ شکارپور کے رونے دھونے سے فارغ نہیں ہوئی تھی کہ دہشت گردوں نے ایکبار پھر ’’ جرآت و بہادری کی علامت ‘‘ پشاور شہر کا رخ کیا اور حیات آباد میں واقع امامیہ مسجد کو عین اس وقت خون میں نہلا دیا جب مسجد کے اندر اہل تشیع کے لوگ نماز جمعہ کی ادائیگی میں مصروف تھے ، یہان سرکاری سکیورٹی کے انتظامات تو دھرے کے دھرے رہ گئے تھے ۔ لیکن ہنگو کے اعتزاز حسن کی تقلید کرتے ہوئے ایک اور اعتزاز حسن ’’ عباس علی‘‘ نے کمال جرآت اور دلیری کا مظاہرہ کیا اور حملہ آوروں کو واصل جہنم کیا اور خود بھی شہادت کے مقام پر فائز ہوگیا۔……!!!! لاشوں کے انبار پر کھڑے ہوکر عوام کی جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنانے اور قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچائے بغیر چین سے نہ سونے کی باتیں کرنے والے بے حس حکمرانوں نے پھر پہلے سے تیار کردہ بیانات میڈیا کے سامنے دہرانے کی مشق کی اور پہلے کی طرح سکیورٹی ہائی الرٹ اور ریڈ الرٹ کرنے کے احکامات جاری کیے اور میڈیا پر بھرپور کوریج بھی حاصل کی ……اس موقعہ پر بھی قوم نے سرکاری سطح پر کیے گئے سکیورٹی کے ’’مثالی اقدامات‘‘ کے مناظر اپنی آنکھوں سے ملاحظہ فرمائے۔

قوم نے ایکبار پھر حکمرانوں کی بے سرو پاباتوں کا یقین کیا اور اپنے دل و دماغ میں ’’آس اور امید کے چراغ روشن ‘‘کرلیے کہ شائد ہمارے حکمرانوں کی غیرت جوش میں آگئی ہے، ہو سکتا ہے کہ ان کے ضمیر نے انگڑائی لے لی ہو…… مگر قوم کی امیدوں کے چراغ اس وقت گل ہو گئے جب دہشت گردوں نے راول پنڈی اور اسلام آباد شکریال روڈ کی امام بارگاہ اور جامع مسجد قصر سکینہ کو عین اس وقت نشانہ بنایا جب نماز مغرب کی ادائیگی میں مصروف ’’ کافروں ‘‘کو مسلمانوں کے ایک خود کش بمبار نے اڑانے کی کوشش کی لیکن ناکامی پر خود کو موت کے گھاٹ اتار لیا لیکن واصل جہنم ہونے سے قبل اس نے خود پر قابو پانے کے لیے جھپٹنے والے ’کربلا کی درس گاہ کے تعلیم یافتہ’جانبازوں‘‘ کو فائرنگ کرکے شہید کردیا۔کیونکہ ان جانبازوں نے اسے عزائم اور ارادے خاک میں ملا دیئے تھے اور اسے زندہ گرفتار ہونے بالکل پسند نہیں تھا۔

اب تو صورت حال کچھ ایسی بن گئی ہے جیسے ہسپتالوں میں مریض مرتے اور چیختے چگا ڑتے رہتے ہیں مریضوں کی اس چیخ و پکار سے پریشان حال لواحقین کی حالت بھی دیدنی ہوتی ہے…… لیکن ڈاکٹروں سمیت ہسپتال کے عملے کے کانوں تک جوں نہیں رینگتی ،ایسے ہی ہمارا حکمران طبقہ ہے ہر دہشت گردی کی واردات کے بعد ’’ مولا جٹ ‘‘ اور نوری نت‘‘ فیم بڑھکیں لگائی جاتی ہیں کہ سکیورٹی الرٹ اور ریڈ الرٹ کر دی گئی ہے۔یہ بڑھکیں میڈیا پر نشر ہوتی ہیں اور اخبارات میں بڑی بڑی سرخیوں کے ساتھ شائع ہوتی ہیں مگر عملا دیکھا جائے تو کچھ بھی نہیں ہوتا۔ دیہاتوں سے لیکر شہروں کی ایسی بے شمار مساجد اور امام بارگہیں مثال کے طور پیش کی جا سکتی ہیں جہاں سکیورٹی نام کی کوئی ’’بلا‘‘خوردبین لگانے سے بھی دکھائی نہیں دیتی اور یہاں عبادت کے لیے آنے والے اﷲ کے آسرے یا دہشت گردوں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔

اتنی تفصیل بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ حکمران اور انتظامیہ کب تک عوام کو بے وقوف بناتے رہیں گے؟ اور دہشت گرد ہمارے ایٹمی طاقتور ہونے کی قلعی کھولتے رہیں گے؟ سکیورٹی اقدامات کے حوالے سے ’’ہائی الرٹ اور ریڈ الرٹ‘‘ کے بیانات سن اور پڑھ کر قہقے لگاتے ہوں گے اور پھر ملک کے کسی بھی حصے میں ’’ تباہی مچا کر حکومت پاکستان کو کمزور اور خود کو طاقتور ثابت کر دیتے ہیں۔ لوگ سوال اٹھاتے ہیں کہ جب وزارت داخلہ کو اطلاعات مل جاتی ہیں کہ دہشت گرد فلاں صوبے ،فلاں شہر میں داخل ہو گئے ہیں تو پھر ہمارے ادارے انہیں پکڑتے کیوں نہیں؟ انہیں قانون کی گرفت میں لینے سے کس بات کی ہچکچاہٹ آڑے آتی ہے۔ کیوں اپنے لوگوں کی ہلاکتوں کا انتظار کیا جاتا ہے؟ کیا ہمارے ذمہ داروں کو بہنوں کے بھائی ،ماؤں کے لخت جگروں اور سہاگنوں کے سہاگ لٹنے اور ہنستے بستے گھروں سے ماؤ ں بہنوں اور بیٹیوں کے بین سن کر مزے لینے کی عادت ہوگئی ہے؟ یا پھر یہ واقعی ناہل لوگ ہیں -

یہ سوالات اتنے سادہ اور غیر اہم نہیں ہیں جتنے حکمران سمجھ رہے ہیں انہیں برحال ان سوالات کا جواب دینا ہوگا۔ میں نے چند پولیس اہلکاروں سے اس حوالے سے معلوم کیا تو انہوں نے بتایا کہ جناب تھانوں میں اس قدر نفری نہیں ہے کہ ہر مسجد اور امام بارگاہ پر سکیورٹی اہلکار تعینات کیے جا سکیں…… حکمران احکامات دیتے ہیں تو ہم بھی کاغذات میں خانہ پری کرکے انہیں اطمینان دلادیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر تھانے میں سینکڑوں دیہات،شہروں میں ہزاروں گلیاں محلے ہوتے ہیں، اور ہر دیہات اور شہر کی گلی محلے میں میں کم از کم دو مسجدیں ضرور موجود ہیں اور ایک مسجد کے لیے دو دو اہلکار بھی تعینات کیے جائیں تو تعداد کہاں پہنچ جاتی ہے۔اسی طرح ان اہلکاروں کو چیک کرنے کے لیے ڈیٹیکٹر کتنے درکار ہوں گے؟ پولیس یہاں کیا کر سکتی ہے؟پولیس اپنی جگہ صحیح ہے کہ لوگوں نے بھی طے کررکھا ہے کہ جو کرنا ہے حکومت نے ہی کرنا ہے ، یہ سوچ غلط ہے ہم عوام کو بھی حکومت کے لیے نہ سہی اپنی اور اپنے بال بچوں کی زندگیاں بچانے ،انہیں محفوظ پاکستان دینے کے لیے ’[اپنی مدد آپ کے تحت‘‘ سکیورٹی کے حوالے سے مقامی پولیس اور دیگر اداروں سے تعاون کرنا چاہیے۔دنیا کی کوئی بھی حکومت عوامی تعاون اور مدد کے بغیر جنگیں نہیں جیت سکتی خواہ یہ جنگ کسی ملک کے ساتھ ہو یا بیرونی ممالک کے تعاون سے مسلط دہشت گردی کی جنگ ہو…… اس لیے پاکستان کے عوام کو ٹھکری پہرے کی طرح اپنے گرد گرد نگاہ رکھنی ہوگی پولیس اور انتظامیہ سے تعاون کرنا ہوگا۔یہ ہماری اور پاکستان کی بقاء کے لیے نہایت ضروری ہے۔
Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 161169 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.