آئینی ترمیم کا حکومتی فیصلہ....ہارس ٹریڈنگ کا خاتمہ ہوسکے گا؟
(عابد محمود عزام, karachi)
5 مارچ کو ملک میں ایوان بالا یعنی
سینیٹ کے انتخابات ہونے جا ر ہے ہیں۔ قومی اسمبلی میں امیدوار عوام سے ووٹ
لے کر پہنچتے ہیں، اس کے برعکس سینیٹ کے امیدواروں کا انتخاب قومی اسمبلی
اور صوبائی اسمبلیوں میں موجود عوام کے منتخب نمائندے ووٹر کی حیثیت سے
کرتے ہیں۔ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں جو سیاسی جماعتیں نما ئندگی
رکھتی ہیں، وہ سینیٹ کے لیے اپنے نمائندے نامزد کرتی ہیں۔ تمام جماعتوں کی
جانب سے زیادہ سے زیادہ نمائندگی حاصل کرنے کے لیے ہر بار ووٹوں کو بھاری
قیمت پر حاصل کیا جاتا ہے۔ حسب سابق اس مرتبہ بھی سینیٹ کے انتخابات میں
جوڑ توڑ اور ووٹوں کی خرید و فروخت کی باز گشت سنائی دے رہی ہے۔ خاص طور پر
بلوچستان، خیبرپختونخوا اور فاٹا کے سینیٹر ز کے لیے بڑے پیمانے پر خرید و
فروخت کا عمل بھی اندرون خانہ جاری ہے۔ ذرائع کے مطابق سینیٹر منتخب ہونے
کے خواہشمند امیدوار بریف کیسوں میں کروڑوں روپے لیے پھر رہے ہیں، جس کی
وجہ سے بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں حیران کن نتائج آنے کی توقعات ہیں۔
ذرائع کے مطابق خیبرپختونخوا کے رکن صوبائی اسمبلی کے ووٹ کے لیے 3 سے 6
کروڑ، جبکہ فاٹا سے سینیٹ کے ووٹ کے لیے بولی 40 کروڑ تک جا پہنچی ہے۔ بعض
ارکان کا دعویٰ ہے کہ فاٹا سے سینیٹر بننے کے لیے ایک رکن قومی اسمبلی کو
ووٹ کے لیے 40 کروڑ تک کی آفر کی جا رہی ہے۔ 5 مارچ کو سینیٹ کے انتخابات
کے بعد سینیٹ کے ایوان میں پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ بڑی اکثریتی جماعتیں
ہوں گی، یہی وجہ ہے کہ دونوں جماعتیں اپنے زیادہ سے زیادہ امیدواروں کی
کامیابی کے لیے بھرپور کوشش کر رہی ہیں۔ (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی میں
چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے عہدوں کے حصول کے لیے کشمکش انتہائی تیز
ہو چکی ہے۔ 5 مارچ کے بعد تحریک انصاف اور قومی وطن پارٹی پہلی بار سینیٹ
کی پارلیمانی سیاست میں داخل ہو ں گی۔ سینیٹ الیکشن سے پہلے کھلے عام ووٹوں
کی خرید و فروخت پر مختلف جماعتوں کی جانب سے نہ صرف اعتراضات کیے گئے ہیں،
بلکہ ہارس ٹریڈنگ کے خاتمے کو ضروری قرار دیا گیا۔ سب سے پہلے اس معاملے پر
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے سوال اٹھایا اور سینیٹ الیکشن میں ہارس
ٹریڈنگ کے خاتمہ کے لیے صاف و شفاف الیکشن کے لیے اقدامات کی آواز اٹھائی۔
اس کے بعد جماعت اسلامی اور دوسری جماعتوں کی طرف سے بھی یہی آوازیں اٹھنا
شروع ہوئیں۔ پی ٹی آئی چیئر مین عمران خان کا کہنا تھا کہ سینٹ انتخابات کے
لیے ہارس ٹریڈنگ شروع کر دی گئی ہے، جس کا خاتمہ ضروری ہے، جبکہ امیر جماعت
اسلامی سراج الحق کا کہنا تھا کہ ارکان اسمبلی کی بھیڑ بکریوں کی طرح قیمت
لگائی جا رہی ہے۔ سینیٹ الیکشن کو مویشی منڈی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
سینیٹ الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ نہیں ہونی چاہیے۔ جے یو آئی کے رہنما مولانا
عبدالغفور حیدری نے بھی کہا کہ اگر ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے کرپٹ لوگ آگئے تو
اس کا ملک کو بڑانقصان ہوگا، سینیٹ کا ممبر بننے کے لیے 30 کروڑ روپے کی
بولیاں لگ رہی ہیں، جو لوگ پیسے دے کر سینیٹر بنیں گے، وہ کرپشن کے سوائے
کچھ نہیں کر سکتے۔ سینیٹ میں ہارس ٹریڈنگ کو روکنے کے لیے سخت قانون سازی
کی ضرورت ہے، تاکہ ضمیر فروشی کا سلسلہ بند ہو سکے۔
سینیٹ کے انتخابات کے لیے ملک میں سیاسی جوڑ توڑ اور ہارس ٹریڈنگ کی بازگشت
کے بعد اسلام آباد میںوزیر اعظم نواز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے
اجلاس میں کابینہ کو سینیٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ روکنے کے لیے آئینی
ترمیم لانے کے حوالے سے اعتماد میں لیا گیا۔ وزیر اعظم نواز شریف نے کہا کہ
وہ 1985ءسے سینیٹ ہارس ٹریڈنگ روکنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ پہلی مرتبہ
ہارس ٹریڈنگ روکنے کے لیے آئینی ترمیم لانے والا ماحول بنا ہے۔ وزیر اعظم
نواز شریف نے نئی آئینی ترمیم کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی ہے، کمیٹی نے سیاسی
جماعتوں سے رابطے بھی شروع کر دیے ہیں۔ حکومت کی جانب سے ہارس ٹریڈنگ کے
خاتمے کے لیے کمیٹی کی تشکیل کو بعض جماعتوں نے کافی سراہا ہے۔ عمران خان
نے حکومت کے سینیٹ الیکشن کے لےے شو آف ہینڈکے فیصلے کو خوش آیند قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس فیصلے پر مسلم لیگ (ن ) کی تعریف کرتا ہوں، آئینی
ترمیم پر حکومت کی مکمل سپورٹ کریں گے۔ سینیٹ میں ہارس ٹریڈنگ کے حوالے سے
آئینی ترمیم کا حکومت کا اچھا فیصلہ ہے ۔ جو شخص پیسے لگا کر سینیٹ میں آئے
گا، اسے عدالتوں میں گھسیٹیں گے، ان کے گھروں کا گھیراﺅ کریں گے اور انہیں
مستعفی ہونے پر مجبور کریں گے۔ جبکہ سابق صدر زرداری کا کہنا تھا کہ
”دھاندلی اور ہارس ٹریڈنگ کی بیماریوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی ضرورت ہے۔
حکومت کا ہارس ٹریڈنگ کے مسئلے کو سنجیدگی سے لینا خوش آیند ہے۔ دھاندلی کا
مسئلہ تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر حل کرنا چاہیے۔ اے پی سی بلا کر ہارس
ٹریڈنگ اور دھاندلی کا پائیدار حل نکالا جائے۔“ اس بات میں کوئی شک نہیں
صاف و شفاف سینیٹ انتخابات کے حوالے سے عمران خان کا موقف اصولی تھا، لیکن
سینیٹ الیکشن میں خفیہ رائے شماری سے اپنی پارٹی کو درپیش خطرہ انہوں نے
قبل ازوقت محسوس کرلیا تھا اور اسی خطرہ کو محسوس کرتے ہوئے عمران خان نے
دو ٹوک الفاظ میں واضح کیا کہ اگر ان کی پارٹی کے ممبران ہارس ٹریڈنگ میں
ملوث پائے گئے تو انہیں پارٹی میں نہیں رہنے دیا جائے گا اور نہ ہی انہیں
آئندہ کبھی پارٹی ٹکٹ دیا جائے گا۔ اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) کا موقف بھی
یہی رہا ہے کہ سینیٹ الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ نہ ہونے دی جائے۔ اگرچہ بعض
لوگوں کا خیال ہے کہ سینیٹ الیکشن کے ٹکٹوں کی تقسیم پر مسلم لیگ (ن)کو بھی
یہ خطرہ تھا کہ کہیں ان کے ناراض ارکان بھی ہارس ٹریڈنگ میں ملوث نہ ہو
جائیں، کیونکہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں مسلم
لیگ(ن) کو ارکان کے ہارس ٹریڈنگ میں ملوث ہونے کا خطرہ ہے، مگر یہ بات بھی
درست ہے کہ وزیراعظم میاں نوازشریف سینیٹ الیکشن کے لیے پارٹی ٹکٹوں کے
اجرا سے پہلے بھی اس بات کے خواہاں تھے کہ الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ کی حوصلہ
شکنی ہو۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں سینیٹ
الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ روکنے کے لیے آئینی ترمیم لانے کا فیصلہ انقلابی
اقدام ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ سینیٹ الیکشن میں پیسے کا کھیل ختم کرنے
اور ہارس ٹریڈنگ کی لعنت کے خاتمے کے لیے چار مارچ سے پہلے ہی آئینی ترمیم
پارلیمنٹ سے منظور ہو جائے گی، کیونکہ تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور مسلم
لیگ(ن) بظاہر اس کے حق میں ہیں اور دیگر جماعتوں نے بھی وفاقی کابینہ کے اس
فیصلے سے اصولی طور پر اتفاق کیا ہے۔
بادی النظر میں اس مجوزہ آئینی ترمیم کے لیے اتفاق رائے کی فضا ہموار ہو
چکی ہے، مگر پاکستان الیکشن کمیشن کی اس وضاحت نے کہ سینیٹ انتخابات کا
شیڈول جاری ہو چکا ہے، اس لیے انتخابات کے ضوابط میں کسی تبدیلی کا موجودہ
انتخابات پر اطلاق نہیں ہو سکتا، موجودہ سینیٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کی
روک تھام کو بے اثر کر دیا ہے۔ جبکہ دوسری جانب سیاسی جماعتیں بھی خود ہی
ہارس ٹریڈنگ کے خاتمے کے لیے مخلص دکھائی نہیں دے ر ہیں۔ ایک طرف تو آصف
زرداری حکومت کی جانب سے ہارس ٹریڈنگ کا نوٹس لینے کو خوش آئند قرار دے رہے
ہیں، جبکہ دوسری جانب قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کا
کہنا ہے کہ سینیٹ انتخابات شو آف ہینڈ سے ہو ہی نہیں سکتے، نہ ہی الیکشن
شیڈول آنے کے بعد کوئی آئینی ترمیم کی جا سکتی ہے۔ حکومت نے ترمیم لانی تھی
تو پہلے مشاورت کرتی۔ خورشید شاہ کا مزید کہنا ہے کہ اگرچہ ہارس ٹریڈنگ
جمہوری نظام کے لیے کینسر ہے، لیکن ہارس ٹریڈنگ کے لیے آئین میں ترمیم کرنا
افسوس ناک ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو بیٹھ کر اس کا حل نکالنا چاہیے۔ اس کے
ساتھ ہارس ٹریڈنگ کا نوٹس لینے والی حکمران جماعت پر ہارس ٹریڈنگ کے
الزامات لگ رہے ہیں۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ سینیٹ کا انتخاب قریب آتے ہی
پنجاب میں حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے ارکان اسمبلی کو خوب پروٹوکول مل رہا
ہے۔ ایوان وزیر اعلی میں ظہرانے اورعشائیہ تقریبات میں ارکان اسمبلی کو
سینیٹ کا انتخابی عمل سمجھایا جائے گا، مسلم لیگ ن نے 7 گروپ بنا کر انچارج
وزراءکا تقرر کر دیا ہے۔ ہر گروپ میں 45 ارکان اسمبلی کو شامل کیا گیا ہے۔
ارکان اسمبلی کو کھانے کھلانا وزراءکی ذمہ داری ہو گی۔ دعوتوں اور کھانوں
کی نوازشات سے پہلے ارکان اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز ملنے کی بھی خوشخبری مل
چکی ہے۔
دوسری جانب سینیٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ روکنے کے لیے حکومت کی جانب سے
قانون سازی کرنے کے عمل کو آئینی و قانونی حلقوں نے تاخیر قرار دیا ہے۔
قانونی اور آئینی ماہرین کی رائے میں آئین میں تبدیلی کی اس خواہش میں بہت
تاخیر ہوچکی۔ قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ حکومت کے سینیٹ میں آئینی ترمیم
کے لیے دوتہائی اکثریت کا حصول ممکن نہیں ہوگا۔ جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ
حکومت نے ہارس ٹریڈنگ کے حوالے سے پہلے اسی لیے ایکشن نہیں لیا، کیونکہ وہ
اس حوالے سے مخلص نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا مروجہ انتخابی نظام خامیوں
کا مجموعہ نظر آتا ہے۔ ہارس ٹریڈنگ کی لعنت ماضی میں بھی تھی، جبکہ اب
سینیٹ کے حالیہ انتخابات کے مراحل میں تو امیدواروں اور و ووٹروں کی جانب
سے کروڑوں کے بھاﺅ تاﺅ کی زیر گردش خبروں نے اس سسٹم میں حکمران اشرافیہ
طبقات اور عام آدمی میں خلیج اور بھی گہری کر دی ہے۔ ہارس ٹریڈنگ پر
وزیراعظم کی تشویش اپنی جگہ درست ہے ،مگر جب سیاسی جماعتوں کی قیادتیں خود
ہی میرٹ کا جنازہ نکال کر کالے دھن والوں کو پارٹی ٹکٹ سے نواز رہی ہوں اور
ایسے لوگوں کو سینٹ میں لانے کے لیے مروجہ قانون کے ساتھ آنکھ مچولی کرکے
ان کے ووٹ دوسرے صوبوں میں شفٹ کیے جا رہے ہوں تو ایسے امیدواروں کی
موجودگی میں ہارس ٹریڈنگ کی لعنت سے کیسے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ جب تک
پارٹی قیادتیں خود منتخب ایوانوں میں عام آدمی کی نمائندگی کے لیے مخلص
نہیں ہوں گی، اس وقت تک ان ایوانوں میں عوام کی حقیقی نمائندگی کا تصور
نہیں کیا جا سکتا۔ |
|