گزشتہ کالم میں موجودہ نظام کے ایک پہلو پر مناسب گفتگو
ہو چکی ہے تا ہم دوسرے اہم پہلو کا سر سری جائزہ بھی ضروری ہے ۔ یہ کہنا بے
جا نہیں کہ یہ نظام آج تک تو زندگی کے کسی بھی شعبے کے ساتھ انصاف نہیں کر
سکا ۔ برصغیر میں موجودہ نظام اُس وقت کے انگریز حکمران کی ضروریات اور
تقاضوں کو پورا کرتا رہا اورجہاں کہیں کچھ Deliver کرنا مقصود تھا وہ بھی
کیا جاتارہا لیکن اگر یہ معلوم کیا جائے کہ قیام پاکستان سے اب تک بالعموم
اور جب سے ملک میں پارلیمانی نظام مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کے دور سے
متعارف ہوا ، اُس سے لے کر آج تک زندگی کے کس شعبے میں قابل ذکر کامیابی
حاصل کی گئی تو یقینا جواب سے مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ ہمارے ہاں
موجودہ نظام حکومت کی کوئی قابل ذکر کامیابی تلاش کرنی مشکل کام ہے جبکہ
ناکامیوں کی ایک طویل فہرست ہر طرف تیار موجود ہے۔
قیام پاکستان کے مقاصد ، نظریاتی تشخص ،داخلی وخارجی اور دفاعی پالیسیاں ،
با مقصد اور ہنرمندتعلیم، صحت ، امن و امان ، عدل وانصاف ، معیشت ، انتظام
و انصرام ،قدرتی وسائل کے حصول اوراُن کی منصفانہ تقسیم ، صلاحیت اور اہلیت
کی بنیا پرروزگار کے مواقع ، ترقیاتی منصوبہ بندی ، دستیاب وسائل کا بہتر
استعمال ، سیاسی اور مذہبی رواداری اور ہم آہنگی،جماعتی، گروہی، قبیلائی،
لسانی، علاقائی اور صوبائی تال میل اورگڈ گورننس(Good governance) اور ہمچو
قسم کے دیگر شعبہ جات اور محاذوں پر کوئی قابل ذکر کارنامہ دکھائی نہیں
دیتابلکہ دور دور تک کوئی امید بھی نظر نہیں آتی ۔ ہمارے ساستدان اور سیاسی
جماعتیں مل کر اگرپاکستان کا تشخص ہی تہنا قائم رکھ سکتی تو آج قوم تقسیم
در تقسیم اور تفریق در تفریق کے عمل سے دوچار نہ ہوتی۔ اجتماعی تشخص سب کے
سر پر ایک چھت کا کام دیتا ہے جس کی عدم موجودگی میں ہر کسی کو اپنے سر کے
لیے ایک الگ چھتری درکار ہوتی ہے ۔
میرا پختہ یقین ہے کہ اگرسیاستدان اور سیاسی جماعتیں قومی فرائض کی درست
طور پر ادائیگی کرتیں تو پاکستان دو لخت نہ ہوتا۔سابقہ مشرقی پاکستان میں
پاکستان مسلم لیگ ہی اگر نظریہ پاکستان کے حوالے سے اپنا کردار ادا کر سکتی
تو آج نقشہ یکسر مختلف ہوتا۔دنیا بھر میں سیاستدان اداروں کے تال میل،باہمی
اعتماد میں اضافے اور محنت و مشقت ، جان فشانی اور اپنی انفرادی اور جماعتی
صلاحیتوں میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ کرتے چلے جاتے ہیں لیکن بدقسمتی سے
ہمارے ہاں سیاسی قد و کاٹھ میں اضافے کی بجائے ملک کو چھوٹا کر کے اپنی
صلاحیتوں کے مطابق ایڈجسٹ کرنے کی کوششیں کی جاتی رہیں۔ سانحہء مشرقی
پاکستان ایک واضح مثال ہے ۔ آج بھی اگر پاکستان کا اجتماعی تشخص بحال کیا
جا سکے جو کسی بھی صورت نا ممکن نہیں تو کئی گروہی، لسانی ، علاقائی اور
صوبائی فتنے اپنی موت آپ مر سکتے ہیں۔
مذکورہ اورغیر مذکورہ بہت سی خرابیاں اس نظام کے ایسے نمایاں پہلو ہیں جن
پر کسی مینڈیٹ یا جمہوریت پسندی کا پردہ نہیں ڈالا جا سکتا۔ جمہوریت بہت
قابل احترام ہے لیکن اُسے ملکی تقاضوں کے ماتحت کرناوقت کی اہم ضرورت ہے۔
ہو سکتا ہے کچھ لوگ ملک کو موجودہ جمہوریت کے ماتحت کرنا چاہتے ہوں لیکن
میرا پرزور مطالبہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت اور نظام کو ملکی ضروریات اور
تقاضوں کے مطابق ڈھالا جائے ۔ برطانیہ سمیت دنیا کے کئی ممالک میں بادشاہت
اور جمہوریت ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں تو ہمیں بھی اپنے حالات کے مطابق نظام
وضع کرنا ہو گا۔ مسلک اور فرقے بہت قابل تعظیم سہی لیکن کسی بھی صورت ملک
فرقہ بازی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔سیاست اور سیاست بازی اور فرقہ اور فرقہ
بازی کے درمیان فرق واضح کرنے کی ضرورت ہے ۔ کسی بھی مذہبی طبقے کو خود کو
اسلام کے اوپر مسلط کرنے کے بجائے اپنے فرقے اور مسلک کوا سلام کے ماتحت
اور مذہبی حدود و قیود کے اندر رکھ کر چلنا ہو گا۔ اسلامی تہذیب کا ایک
بنیادی مطالبہ دوسروں کو اپنی زبان اور ہاتھ کے شر سے محفوظ رکھنا ہے اور
ساتھ ہی سورہ الکافرون میں ’’تمہارے لیے تمہارا دین اور ہمارے لیے ہمارا
دین ‘‘ کہہ کر اتنی گنجائش پیدا کر دی گئی ہے کہ کسی بھی سطح پر آسانی سے
تصادم نہ ہو ۔ اس سے زیادہ سیکولر اور آزادانہ ماحول کی گنجائش کسی بھی
دوسرے نظام میں نہیں ہے ۔
پاکستان مادر پدر آزاد جمہوریت کا متحمل نہیں ہو سکتااور نہ ہی جمہوریت کو
مذہب کا درجہ دیا جا سکتا ہے کہ اُس میں کوئی اصلاح نہ کی جا سکے۔قرآن و
حدیث کے سوا یہ تقدس کسی دوسری چیر کو حاصل نہیں کہ اُس میں کسی قسم کا
اضافہ یا کمی نہ کی جا سکتی ہو ۔ سیاسی نظام میں اجتہاد کا دروازہ کھلا
رکھنا پڑے گا۔ آج ملک میں کوئی ایک بھی سیاسی جماعت ایسی نہیں جو ملک گیر
کہلانے کا حق رکھتی ہو ۔ سب لوگ اپنے اپنے صوبوں اور علاقوں تک محدود ہو
گئے ہیں۔اﷲ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ تمام تر اندرونی اور بیرونی
مشکلات کے باوجود ہمارا قومی دفاعی ادارہ بڑی حد تک اپنی اصل حالت میں
موجود ہے ۔ ایسے حالات میں مسلح افواج پاکستان ملکی یکجہتی اور سلامتی کی
واحدمضبوط ضمانت کی حیثیت رکھتی ہیں۔ویسے بھی پاکستان کے دشمن مسلح افواج
کو ہی پاکستان سمجھتے ہیں اور اپنے راستے کا واحد بھاری پتھر بھی ۔ وقت اور
حالات بھی دشمن کی اسی سوچ کا ثبوت دیتے ہیں۔
افراد ہوں یا ادارے ، ملک و ملت کے بنیادی مقاصداُن کے درمیان ایسی قدر
مشترک ہے کہ وہ سب اپنی اپنی حدود میں تو اپنا کام کرتے ہیں لیکن اجتماعی
مفاد میں سب یکجان ہو کر ایک ہی سمت میں سفر کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کی
کمزوریوں پر پردہ ڈالتے ہیں اور باہمی تجربات اور صلاحیت سے استفادہ کرتے
ہیں۔ باہمی تعاون اور عدم مداخلت قدرت کے وہ پسندیدہ اصول ہیں جن کا مظاہرہ
چھ ارب انسانوں میں ہر روز ہوتا ہے۔ ہر انسانی جسم قدرت کی ایک شاہکار
ریاست ہے جس میں موجود ہر عضو عمر بھر اپنا کام کرتا ہے ایک دوسرے کی مدد
کرتا ہے لیکن ایک دوسرے کے کام میں مداخلت نہیں کرتا۔ آنکھ عمر بھر دیکھتی
ہے ، کان سنتے ہیں، دماغ منصوبہ بندی کرتا ہے ، علیٰ ہذالقیاس تمام انسانی
اعضا ء ہر لمحہ ایک دوسرے کی مدد بھی کر رہے ہوتے ہیں اور اپنا کام بھی اور
کبھی دوسرے کا کام کرنے کی خواہش نہیں کرتے۔ آنکھ دیکھتی ہے سننے کی ـخواہش
نہیں کرتی، کان سنتا ہے دیکھنے کی خواہش نہیں کرتا۔ پاؤں اٹھتا ہے تو درست
جگہ پر قدم رکھنے کے لیے آنکھ اُس کے لیے صحیح جگہ تلاش کرتی ہے اور یہ
اعضاء لاشعوری طور پر بھی اپنے فرائض مسلسل درست طور پر ادا کرتے ہیں۔ گہری
نیند میں بھی انسانی ہاتھ کئی بار جسم سے مکھی اور مچھر اڑانے کی کوشش کرتا
ہے۔ عدم مداخلت کے اس اصول میں ذرا سی کمی واقع ہو جائے یا کہیں اس کے
برعکس ہونے لگے تو اُس کے اثرات بیماری کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔ انسانی
جسم اور اُس کی شب و روز کی نقل و حرکت ایک اچھی ریاست کارہنمائی کے لیے
بہترین نمونہ ہے۔پاکستان اسباب اور وسائل سے مالا مال ملک ہے۔ ہمارے نظام
میں کچھ بنیادی تبدیلیاں اور رویوں میں اصلاح ہمیں ترقی کی بڑی منازل طے
کروا سکتی ہے۔ کئی بار محسوس ہوتا ہے کہ ملک کا قد بڑا اور سیاستدانوں کا
قد چھوٹا ہوتا جا رہا ہے۔
جاری ہے |