رزق کریم

سفید بادلوں کے اٹھتے ہوئے دھویں کے درمیان ایک بڑا سا تخت اور اس تخت پر بیٹھے ہوئے باریش بزرگ، نورانی چہرے اور مخمور آنکھیں۔ بادلوں کے دوش پر ناچتے اور تڑپتے جسم، اللہ ھو اللہ ھو کی صدائیں، بجلیوں کی کڑک اور چمک غرض سارا ماحول اسرار و رموز میں ڈوبا ہوا تھا۔ تخت کے سامنے آزردہ و پشیمان، حیران و گریہ کناں سائل اس حال میں کھڑا تھا کہ اسکی آدھی ٹانگیں بادلوں میں ڈوبی ہوئی تھیں اسکے ہونٹ کانپ رہے تھے اور ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ کچھ کہنے کی کوشش میں خود کو بے بس محسوس کر رہا تھا۔ اچانک ایک باریش بزرگ نے رعب دار لہجے میں کہا بولو سائل کیا چاہتے ہو مگر سائل تو جیسے پتھر کا ہو چکا تھا پھر دوسرے باریش بزرگ نے کہا بولو اور دل کھول کر بولو شرماتا وہ ہے جو عا لم آب و گل میں ہو جو دنیا کے حصار میں ہو مگر تم تو یہاں ہو ہمارے سامنے کہو کہ حجت تمام ہو۔ سائل کا پورا جسم کانپنے لگا اور آخر کانپتے لہجے میں یوں گویا ہوا۔

مرشد۔۔۔۔۔۔دنیا کے پیچھے بھاگتا بھاگتا تھک گیا ہوں ایک خواہش سے ہزاروں خواہشیں جنم لے لیتی ہیں، ایک مسئلہ سلجھاتا ہوں کئی بگڑ جاتے ہیں دنیا ترک کرنا چاہتا ہوں مگر حرص آڑے آتی ہے۔ نماز پڑھتا ہوں خیال کہیں اور ہوتا ہے اللہ کو قادر مانتا ہوں رزاق مانتا ہوں مگر یقین نہیں ٹھہرتا اور ہر وقت کھٹکا سا لگا رہتا ہے کہ اگر جیب سے پیسے ختم ہوگئے تو روٹی کون دے گا خرچے کہاں سے پورے کروں گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔میرا کچھ کرو مرشد میں بہت کم مائہ ہوچکا ہوں، گنہگار ہوں خستہ حال ہوں، سائل ڈھاریں مار کر رونے لگا۔ تھوڑی دیر تک فضا سائل کے رونے سے گونجتی رہی پھر ایک باریش بزرگ نے کہا ہاں تم بیمار ہو اور تمہارا علاج رب جلال کے پاس ہے جو انسان کو اندھیرے سے نور کی طرف لے جاتا ہے قیاس سے یقین کی طرف لے جاتا ہے گناہ سے نیکی کی طرف لے جاتا ہے بد دعا سے دعا کی طرف لے جاتا ہے بیماری سے شفا کی طرف لے جاتا ہے بے حضور سے حضوری کی طرف لے جاتا ہے تم زمین پہ کھڑے ہو تم نے پہلی سیڑھی پر چڑھنا ہے صراط مستقیم کی پہلی سیڑھی کام مشکل ہے تربیت کی ضرورت ہے بس پہلی سیڑھی مشکل ہے اسکے بعد پھر ہر سیڑھی تم خود چڑھتے چلے جاؤ گے کیا تم تیار ہو ایک مشکل کام کے لئے؟

سائل نے کہا دل و جان سے مرشد ہمہ تن تیار ہوں تو پھر روزہ رکھو سادے پانی سے یہ لو پانی کا کٹورہ اور شام کو روزہ بھی پانی سے کھولنا اور کوئی اور چیز نہ کھانا اور پھر اسی طرح اگلا روزہ پانی سے رکھنا اور کھولنا مگر مرشد سادے پانی سے روزہ رکھ کر تو میں مر جاؤں گا۔ کوئی نہیں مرتا اللہ کے امر کے بغیر اگر روزہ اسکے لئے رکھو گے تو زندہ بھی وہ رکھے گا اور تم جان لو گے کہ وہ کیسا رازق ہے۔ سائل نے سوچنا شروع کر دیا کہ روزہ پانی سے رکھوں یا نہ شیطان نے وسوسے ڈالنے شروع کر دئیے کہ ایسا ہرگز نہ کرنا پانی سے روزہ رکھنا اور پھر کھولنا تمہاری موت ہے اور وہ بھی مسلسل روزے بھاگ جاؤ یہاں سے۔ سائل سحری تک یہ جنگ لڑتا رہا اور پھر اس نے فیصلہ کیا کہ جو مرشد نے کہا ہے وہی کروں گا اس نے کٹورہ اٹھایا اور پانی پی لیا اور پھر پانی سے روزہ افطار بھی کیا اسے حیرت ہوئی کہ وہ زندہ ہے اور اسے کسی قسم کی کمزوری یا لاغری محسوس نہیں ہورہی پھر اگلا روزہ بھی اسی طرح گزر گیا اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ پچھلے اڑتالیس گھنٹوں سے صرف پانی پر زندہ ہے۔ پھر شیطان حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ دو دن تک تو پانی پر زندہ رہا جا سکتا ہے لیکن اس سے آگے موت ہے اب ہرگز روزہ نہ رکھنا یہ لو میں تمہارے لئے تمہاری پسندیدہ خوراک لایا ہوں کھاؤ اور اپنی صحت بحال کرو سائل کچھ شک میں مبتلا ہوا لیکن جلد سنبھل گیا کیونکہ پچھلے دو دن کی آپ بیتی کا وہ نظارہ کر چکا تھا اس نے تیسرا روزہ بھی پانی سے رکھ کر افطار کیا اور مغرب کی نماز میں بحالت سجدہ اظہار تشکر میں رونے لگا کہ یا الہی یہ پانی کیا چیز ہے اور میں ققط اس پر زندہ کیسے ہوں۔ اچانک بادلوں میں وہ تخت دوبارہ نمودار ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔

اے سائل تم مرے نہیں ایک باریش بزرگ نے کہا ۔۔۔۔۔۔مگر مرشد میں یہ راز جانتا چاہتا ہوں کہ پانی اور صرف پانی انسان کو زندہ کیسے رکھ سکتا ہے؟ ۔۔۔۔صرف پانی ہی نہیں تمہیں ہوا بھی زندہ رکھ سکتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔دیکھو سائل رزق دو طرح کا ہے ایک دنیاوی جس کو ہر بندہ کھاتا ہے اور زندہ رہتا ہے وہ کم بھی ہو سکتا ہے اور زیادہ بھی وہ تمہں مصیبت میں بھی مبتلا کر سکتا ہے اور بیماری میں بھی وہ تمہیں محتاج بھی کر سکتا ہے اور تونگر بھی وہ حرام بھی ہوسکتا ہے اور حلال بھی وہ نعمت بھی ہو سکتا ہے اور لعنت بھی۔ دوسرا رزق، رزق کریم ہے جس میں اللہ کا امر شامل ہوتا ہے وہ قرآن میں کہتا ہے کہ وہ اپنے بندوں کو رزق کریم عطا کرتا ہے وہ اپنے امر سے ہوا یا پانی کو حکم دیتا ہے کہ میرے بندے کی ساری غذائی ضروریات پوری کردے اب تمہیں معلوم ہوا کہ اللہ واقعی رازق کل ہے اور وہ تمہیں تمہاری موت سے پہلے کبھی نہیں مرنے دے گا۔ سائل کا سارا وجود شکر الہی میں جھوم اٹھا اور وہ بے ساختہ سجدے میں گر گیا۔

نمی دانم چہ منزل بود شب جائے کہ من بودم
بہر سو رقص بسمل بود شب جائے کہ من بودم

خدا خود میر مجلس بود اندر لامکاں خسرو
محمد شمع محفل بود شب جائے کہ من بودم

 

Sadeed Masood
About the Author: Sadeed Masood Read More Articles by Sadeed Masood: 18 Articles with 23241 views Im broken heart man searching the true sprit of Islam.. View More