مسلم قیامت پر ظفر سریش والا کی نازیبا تنقید
(Syed Mansoor Agha, India)
نتیش کمار کی واپسی اور راہل
گاندھی کی چھٹی
وزیراعظم نریندرمودی کے قریبی گجراتی تاجر ظفر سریش والا نے گزشتہ جمعرات
لکھنؤ میں مولانا رابع حسنی ندوی سے ملاقات کے بعدکہہ دیاـ :’ مسلم پرسنل
لاء بورڈ میں صدر مولانا رابع ندوی کے سوا سب احمق(fool) ہیں۔ مسلم پرسنل
لا بورڈ کی افادیت ختم ہوچکی ہے۔ بشمول بورڈ،مسلم مجلس مشاورت اور ملی
کونسل وغیرہ تمام ملی تنطیمیں بصیرت سے محروم ہیں، اور درست ترجیحات قائم
کرنے میں ناکام ہیں۔‘‘( انڈین ایکسپریس۔ 21 فروری)
ان کا یہ تبصرہ خلاف حقیقت، نازیبا اورغیرشائستہ ہے اور ان کے انداز فکر
میں جارحیت اورکبر وغرور کو ظاہرکرتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی غور نہیں کیا کہ
جن افراد کو وہ نشانہ بنارہے ہیں ،وہ علم ، عمر اورملی معاملات میں تجربہ
میں ان سے بہت بڑے ہیں۔بیشک کوئی جماعت یا فرد تنقید سے بالاتر نہیں۔ ان پر
تنقید کی جاسکتی ہے، مگر شائستہ اور مہذب انداز میں۔
ان کا یہ کہنا انتہائی غیرمنطقی ہے کہ بورڈ میں ایک فرد واحد کے سوا سب
گھامڑ ہیں۔ اگروہ سب بے عقل ہوتے اوران سب میں سمجھ اور بصیرت نہ ہوتی تو
ایک داناکو اپنا سربراہ کیسے چن لیتے؟ بیشک مولانا رابع حسنی ندوی دیدہ ور
شخصیت ہیں، مگر سریش والا کو معلوم ہونا چاہئے کہ بورڈ کے صدرمحترم تمام
ارکان اورذمہ داران کے مشورے پرہی رائے قائم کرتے ہیں۔ہماری تنظیموں میں
منصب اور عہدے انتظامی سہولت کے لئے ہوتے ہیں ، ورنہ صاحب صدرتمام ممبران
کی رائے کا برابر سے احترام کرتے ہیں۔ اختلاف رائے فطری امر ہے لیکن کسی کی
سمجھ یانیت پر شک نہیں کیا جاتا اورخوب غوروفکر کے بعدعموماً اتفاق رائے سے
فیصلہ ہوتا ہے ۔
جہاں تک مسلم تنظیموں کی ترجیحات اور مطالبات کا تعلق ہے، تو وہ اس کے سوا
کچھ نہیں کہ بشمول مسلم اقلیت ملک کے تمام باشندوں کوان کے آئینی اورقانونی
حقوق حاصل ہوں اور محفوظ رہیں۔ہمارے معاشرتی اور دینی معاملات میں بدنیتی
سے مداخلت نہ کی جائے۔ عائلی قوانین کو مسخ نہ کیاجائے۔ ہماری مادری زبان
اور تعلیمی اداروں کو آئین کے رو سے جو تحفظات حاصل ہیں ، ان کوختم کرنے کی
جو کوششیں مسلسل ہو رہی ہیں ،وہ بند ہوں۔اس میں دورائیں نہیں ہیں کہ ہماری
حکومتوں نے خصوصاً مسلم اقلیت کے معاملات میں بددیانتی سے کام لیا ہے، ان
کو دوسرے درجہ کا شہری بنا کررکھ دیا ہے اورآئین کی روح کو پامال کیا ہے۔جو
ہرگز قابل قبول نہیں۔
یہ امر بھی طے شدہ ہے ان تنظیموں میں شامل افرادکسی ذاتی، تجارتی یا سیاسی
مفادات کے تحت کام نہیں کرتے۔ وہ حصول زر، حصول اختیار اور قرب اقتدار کے
بھوکے نہیں۔ روکھا سوکھا کھاکر جی لیتے ہیں ۔ مگرحق پر قائم رہنے کی اورحق
کا بول بالا کرنے کی جد وجہد میں لگے ہیں۔
یہ بات دیگر ہے آپ کسی تنظیم یا فرد کی رائے سے اختلاف کریں، مگراس کا مطلب
یہ نہیں کہ آپ خود کو عقل کل اورباقی سارے جہان کو بے عقل تصورکرنے لگیں ۔
سریشوالا چاہتے غالباً یہ ہیں کہ ان کی طرح ساری مسلم اقلیت ان کے ممدوح
نریندر مودی کو اپنا نجات دہندہ تسلیم کرلے، حالانکہ نہ مودی کا ماضی بے
داغ ہے اورنہ ان کی حکومت کا یہ نیا دور کوئی راحت کا پیغام لے کر آیا ہے۔
ان کے برسراقتدارآتے ہی، ان کے پریواراور ان کی پارٹی کے لیڈران نے لغویات
کا جو سلسلہ شروع کیا ہے ، وہ جگ ظاہر ہے۔ اس کے باجود ان لیڈروں کو انہوں
نے اعزازات اور وزارتوں سے سرفراز کیا ہے۔ سریشوالا اگرمودی کو نجات دہندہ
سمجھتے ہیں تو یہ ان کی انفرادی سمجھ ہے۔ اس کو ملت کے ارباب دانش کی
اجتماعی فہم پر ترجیح نہیں دی جاسکتی۔ ہم بیشک اپنے جائز حقوق کے حصول کے
ارادوں سے دستبردار نہیں ہوسکتے۔ ہمارے لئے صرف مادی خوشحالی کافی نہیں ،
جس کی نوید مودی سنارہے ہیں، اپنے وجود اورانفرادیت کی بقا اور ایمان کی
حفاظت بھی ہمیں عزیز ہے۔البتہ وقت اورموقع کی نزاکت سے تدبیریں بدلتی رہا
کرتی ہیں۔ان پر بیشک غور کیا جاسکتا ہے اوراس میں سریشوالا بھی شریک ہوسکتے
ہیں۔ لیکن اگر وہ اپنے بارے میں کسی غلط فہمی میں مبتلا ہیں توان کوسمجھ
لیناچاہئے کہ اس طرح کی جارحانہ بیانات سے ان کی قبولیت اور معقولیت عوام
کی نظروں میں بڑھ نہیں جائیگی ۔ ایسی باتیں کہنا سیاسی دانائی کے تقاضوں کے
بھی خلاف ہیں۔
نتیش کمار کی واپسی گزشتہ ہفتہ ’’ مانجھی کی غیراصولی بغاوت ‘‘ عنوان سے اس
کالم میں یہ پیش قیاسی کی گئی تھی کہ ’’20فروری کو مانجھی طاقت آزمائی سے
پہلے ہی مستعفی ہوجائیں گے اورنتیش کمارکے لئے راستہ کھل جائیگا ۔‘‘ چنانچہ
ایسا ہی ہوا۔ بھاجپا کی تائید اوروزارت کے لئے کھلے عام لالچ دئے جانے کے
باوجود مانجھی پارٹی کے باغیوں میں اضافہ میں ناکام رہے اور آخر مایوس ہوکر
طاقت آزمائی سے چند گھنٹہ قبل مستعفی ہو گئے۔
بھاجپا کی شہ پر انہوں نے جو کھیل کھیلا اس وہ نہ گھر کے رہے نہ گھاٹ
کے۔وزارت بھی گئی اور پارٹی بھی جس نے ان کو بلااستحقاق وزیراعلا بنادیا
تھا۔مانجھی کے کردار کا نہایت افسوسناک پہلو یہ ہے کہ انہوں نے شدید
غیراخلاقی اور غیراصولی بیانات دئے۔ بھاجپا نے بیشک ان کو ٹشو پیپر کے طرح
استعمال کیا جس کو بعد میں کوڑادان میں پھینک دیا جاتا ہے۔ اگر مانجھی
حکمرانی میں پارٹی لائن پرچلتے ، پارٹی کے نظم وضبط سے بغاوت نہ کرتے تو وہ
ریاست کے عوام کی بہتر خدمت کرسکتے تھے۔لیکن ان کو جو موقع ملا تھا اس کو
انہوں نے ضائع کردیا۔
مانجھی کی ذہنیت کا اندازہ ان کے بعض بیہودہ بیانات سے ہوتا ہے۔ان کا ایک
نہایت غلیظ اور معیوب بیان یہ ہے کہ بہار میں 90فیصد مرد دوسروں کی بیویوں
جنسی تعلق رکھتے ہیں اوراس میں کوئی برائی نہیں ۔ (90 per cent men date
other people's wives, says Bihar CM Manjhi)
ان کے نو ماہ کی حکومت کے دوران (20 مئی 14 تا 20 فروری 15) ریاست میں ایک
مرتبہ پھر ذات برادری کی سیاست عود کرآئی ہے، جس پر گزشتہ اسمبلی چناؤ میں
اوس پڑگئی تھی۔بھاجپا نے ’مہادلت‘ کا راگ الاپ کر ذات برادری کی سیاست کو
ہوادی اور مودی کے’ ترقی اورسب کا ساتھ‘ ایجنڈہ پر خاک ڈال دی۔ دیکھنا یہ
ہوگا کہ اگلے چند ماہ میں نتیش کمار کیا پھر تعمیر اور ترقی کے ایجنڈے کو
ابھارسکیں گے ؟
عام آدمی پارٹی
ان کی حلف برداری میں اگرچہ آسام، مغربی بنگال اور یوپی کے وزرائے اعلا نے
شرکت کی، مگردعوت دئے جانے کے باوجود عام آدمی پارٹی کا کوئی نمائندہ شریک
نہیں ہوا۔ یہ اہم اشارہ ہے جس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اول تو عام آدمی
پارٹی کسی دیگرسیاسی پارٹی کے ساتھ گھال میل کی سیاست سے دوررہنا چاہتی ہے۔
دہلی میں اس نے خود کوایک صاف ستھرے متبادل کے طور پر پیش کیا اور عوام نے
اس کو سرآنکھوں پربٹھالیا۔ یہ پارٹی اب مودی کے خلاف وسیع ترکسان تحریک کی
پرچم بردار بن گئی ہے۔دہلی کے نتائج اورکسان تحریک سے بہار میں بھی ہلچل
ہے۔
گزشتہ سال فروری میں نتیش کمار سرکار کی ایک فعال اور نیک نام وزیر محترمہ
پروین امان اﷲ وزارت چھوڑ کر عام آدمی پارٹی میں شامل ہوگئی تھیں، وہ حالیہ
دہلی اسمبلی انتخابات میں خاصی سرگرم رہیں۔ پروین حقیقت پسند، حوصلہ مند
اوربنیادی سطح پر کام کرنے والی خاتون لیڈر ہیں۔ان کی شخصیت کے گرد بہار
میں عام آدمی پارٹی کے ہم نواجمع ہوسکتے ہیں۔ لیکن ابھی تک یہ طے نہیں کہ
پارٹی اگلے اسمبلی چناؤ میں کیا کردار ادا کرنا چاہتی ہے؟ ابھی تک ریاست
میں تنظیم کھڑی کرنے پربھی پوری طرح توجہ نہیں دی ہے۔لیکن دہلی کی طرح اگر
بھروسہ مند اورمخلص کارکن مل گئے تو محنت تو کرنی پڑیگی مگر آٹھ ماہ میں
پارٹی اپنا جلوہ دکھا سکتی ہے۔ اگر اسمبلی چناؤ میں حصہ لیتی ہے توموجودہ
دونوں بڑے دھڑوں کے لئے وہی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے جو دہلی میں بھاجپا
اورکانگریس کے لئے ہوگئی ہے۔
راہل گاندھی کی چھٹی
دہلی اسمبلی نتائج پر اس کالم (ـ’دہلی کے عوام کیوں بہہ گئیـ‘، 8فروری) میں
لکھا تھا: ’’ان نتائج کے بعد بیشک راہل آرام سے سیرسپاٹے کو جاسکتے ہیں ۔‘‘
چنانچہ پارلیمنٹ کے بجٹ اجلاس کے پہلے دن یہ خبرآئی کہ راہل بے مدت چھٹی پر
چلے گئے ہیں حالانکہ ان کو پارلیمنٹ پہلے سے زیادہ متحرک ہونا چاہئے تھا ۔
سیاسی طور پریہ اجلاس اس لئے اہم ہے کئی معاملوں میں کانگریس پارٹی مودی
سرکار کوگھیرناچاہتی ہے۔ مسٹرراہل کبھی ممبئی کی لوکل ٹرین میں سفر
کرکے،کبھی کسی دلت کے گھر رات گزار کراورکھانا کھاکر، کبھی مزدوروں کے ساتھ
پلیا ڈھوکر علامتوں کی جو سیاست کرنا چاہتے ہیں وہ اب چلنے والی نہیں۔ یو
پی اے کے دور میں جب حصول آراضی ایکٹ زیرغور تھا،وہ بڑے دھرنے پردرشن میں
سرگرم نظرآئے تاکہ کریڈت ان کو مل جائے۔اب جب مودی سرکار اس ایکٹ کی جان
نکالنے پربضد ہے وہ میدان کار سے فرار ہوگئے ہیں ۔ یہ بات غیراہم ہے کہ وہ
کہاں گئے ہیں،ہندستان میں ہی ہیں یا بنکاک میں؟
اطلاع یہ ہے کہ انتخابات میں عدم مقبولیت ظاہر ہوجانے کے بعد پارٹی میں ان
کی نہیں چل رہی ہے۔ وہ کئی سینئر لیڈروں کو ہٹادینا چاہتے ہیں۔ مگر اس کی
سخت مخالفت ہورہی ہے۔ جینتی نٹراجن کا واقعہ اپنی جگہ ہے، جس سے بہت کرکری
ہوئی ہے۔ چنانچہ وہ بہت ہی دل برداشتہ ہیں اور آتم منتھن (خود احتسابی
)کرناچاہتے ہیں۔خوداحتسانی بہت اچھی چیز ہے، مگراس کے لئے انہوں نے جو وقت
اورموقع چنا ہے وہ سمجھداری سے پرے ہے۔ تجربہ کارلوگ کہتے ہیں کہ تجرد کی
زندگی سے بھی بہت ساری پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔ راہل کی عمر 44سال ہوگئی
ہے۔ اچھا ہو کہ وہ کسی سمجھدار خاتون کو مستقل اپنا شریک حیات بنالیں جو
افسردگی کے لمحوں میں ان کی دلجوئی کر سکے۔(ختم) |
|