پاکستان بھارت خارجہ سیکرٹری اجلاس سے توقعات!

دفترخارجہ نے بھارت کے سیکرٹری خارجہ کے دورہ اسلام آباد کی تاریخ کا اعلان کر دیا گیا ہے،اس سے پہلے بھارتی خارجہ سیکرٹری کے اس دورے کو مارچ کے پہلے ہفتے متوقع بتایا گیا تھا۔قبل ازیں غیرمناسب انداز میں پاکستان سے مزاکرات منسوخ کر کے بھارت کی ’بی جے پی‘ حکومت نے پاکستان کے خلاف جارحانہ روئیہ اپنا لیا تھا۔گزشتہ دنوں پاکستان اور بھارت کی کرکٹ ٹیموں کے مقابلے سے پہلے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے وزیر اعظم نواز شریف سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے اپنے سیکرٹری خارجہ کو اسلام آباد بھیجنے کا اعلان کیا۔سفارتی حلقوں کے مطابق دونوں ملکوں کی اس خارجہ سیکرٹری سطح کے اجلاس کا ایجنڈا دونوں طرف سے مشاورت سے تیار کر لیاگیا ہے۔دفتر خارجہ نے بتایا کہ بھارتی سیکریٹری خارجہ 3 اور 4 مارچ کو پاکستان کا دورہ کرینگے۔ بھارتی سیکریٹری خارجہ جے شنکر اپنے پاکستانی دورے کے دوران پاکستانی ہم منصب اعزازچودھری سے ملاقات کرینگے۔ گزشتہ دنوں ہی حکومت کی طرف سے بتایا گیا کہ پاکستان میں دہشت گردی کرنے والے طالبان اور بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کو بھارت کی مکمل مدد اور حمایت حاصل ہے۔ساتھ ہی حکومت کی طرف سے کئی بار یہ بتایا گیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو نظر انداز کرتے ہوئے بھارت سے مزاکرات نہیں کئے جائیں گے۔دونوں ملکوں کے حکام کے اس اہم اجلاس سے ہی یہ بات واضح ہو جائے گی کہ بھارت حقیقی طور پر پاکستان کے ساتھ مزاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر سمیت تمام تنازعات ختم کرنا چاہتا ہے یا صرف دنیاپر یہ ظاہر کرنے کے لئے مزاکرات کو بے مقصد انداز میں جاری رکھے گاکہ’’ بھارت پاکستان کے ساتھ تنازعات کے خاتمے کے لئے مزاکرات کر رہا ہے‘‘۔اگر سیکرٹری سطح کے مزاکرات پھر وہیں سے شروع کئے گئے کہ تاجروں وغیرہ کو کچھ آنے جانے کی سہولت ،ساٹھ سال سے زیادہ عمر کے افراد کو آنے جانے کی سہولت وغیرہ،تو یہ ثابت ہو جائے گا کہ بھارت محض وقت گزارنے کے لئے اور عالمی سطح پر خود کو ذمہ دار ملک ثابت کرنے کے لئے پاکستان کے ساتھ بے مقصد اور بے نتیجہ مزاکرات کر رہا ہے۔سیکرٹری خارجہ سطح کے ان مزاکرات میں کشمیر کا موضوع شامل ہونا ضروری ہے کیونکہ کشمیریوں پر جبر پر مبنی پابندیوں میں کمی بہت ضروری ہے،کشمیریوں کو جبر ،دباؤ اور پابندیوں کا شکار رکھتے ہوئے دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں بہتری کی توقع نہیں کی جا سکتی۔بھارتی حکومت کا اصل ارادہ تو خارجہ سیکرٹری کے اسی اجلاس سے واضح ہو جائے گا تا ہم دیکھنا یہ بھی ہے کہ ہماری حکومت کشمیر کے اہم معاملے کو کس طرح پیش کرتی ہے،یا یہ معاملہ’’آئندہ‘‘ پر چھوڑ دیا جائے گا؟

اس سے پہلے بھارتی صدر پرنب مکھرجی نے بھارتی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں( راجیہ سبھا اور لوک سبھا) کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں کہا ہے کہ بھارت تمام پڑوسی ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات کا خواہاں ہے۔انہوں نے کسی ملک کا نام لئے بغیر کہااس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہ ملک کا مقدر پڑوسی ملکوں کے ساتھ جڑا ہوا ہے میری حکومت نے جنوب ایشیائی خطے میں آپسی اشتراک کو فروغ دینے اور پڑوسی ملکوں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے کی کوششیں تیز کی ہیں۔بھارتی صدر نے امریکی صدر، چینی صدر اور روسی صدر سمیت کئی بین الاقوامی شخصیات کے بھارتی دوروں کو خارجہ سطح پر ملک کی پیش رفت سے تعبیر کیا اور کہا کہ بھارت کو عالمی اداروں میں مستقل کردار ادا کرنے کا موقعہ دیا جانا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ بھارت نے بقول ان کے اپنے دور کے ہمسائیوں کے ساتھ آپسی تعلقات بہتر بنانے میں بہت حد تک کامیابی حاصل کی ہے۔بھارتی حکمرانوں کی بیانات سنیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا ملک ہونے کے ناطے وہ تمام خطے میں امن و خوشحالی لانے کے لئے اپنا کردار پہلے ادا کرنے کو تیار ہے اور ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات کو فروغ دے رہا ہے۔جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے،بھارت اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستی صرف اور صرف اپنی شرائط پر ہی چاہتا ہے ،بھارت کی مسلسل کوشش ہے کہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ تنا زعات کو بھارتی شرائط کو مطابق ہی قبول کر لیا جائے،خاص طور پر کشمیر کا دیرینہ تنازعہ جو بھارت کی ہت دھرمی کی وجہ سے آج بھی جنوبی ایشیا میں عام جنگ ہی نہیں بلکہ ایٹمی تباہی کے خطرات لئے ہوئے ہے۔بھارت کے صدر کے ذمہ دار عہدے پر فائز شخصیت کو حقائق کے منافی بات نہیں کرنی چاہئے کہ بھارت نے ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات کی کوششیں تیز کی ہیں۔بھارت نے تو وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے خیر سگالی کیااچھے جذبات اور اقدامات کے باوجود یکسر اپنی پرانی عادت کے مطابق ہٹ دھرمی کا روئیہ اپناتے ہوئے پاکستان سے مزاکرات منسوخ کر دیئے اور ورکنگ باؤنڈری پر فائرنگ اور گولہ باری کا ایک نیا سلسلہ شروع کر دیا۔بھارتی صدر نے کہا کہ دہشت گردی اور بائیں بازو کی انتہائی پسندی ملک کی داخلی سلامتی کیلئے ایک سنگین چیلنج ہے۔مقبوضہ جموں و کشمیر کے بارے میں بھارتی صدر نے کہا کہ مرکزی حکومت ریاست جموں و کشمیر کے مختلف طبقوں کی بہتری اور بازآباد کاری کیلئے متعدد اقدامات کررہی ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت ہند متاثرہ ریاستوں کی سرکاروں اور لوگوں کے ساتھ قریبی تال میل کے ذریعے کلی نظریہ کی بنیاد پر ایسے چیلنجوں سے نمٹنے کے عزم پرسختی کے ساتھ کاربند ہے۔ ان کا کہنا تھامیری حکومت کے ایجنڈا میں جموں کشمیرکو ایک انتہائی اہم مقام حاصل ہے ، حکومت ریاست میں خاص طور پر بے گھر ہوئے طبقوں کیلئے بااختیار اور خوشگوار ماحول قائم کرنے کیلئے جدوجہد کررہی ہے، اس میں 60ہزار سے زائد کشمیری مائیگرنٹ پنڈت کنبوں کی بازآباکاری کی راہ ہموار کرنا بھی شامل ہے اور اس ضمن میں سرکار کی طرف سے مو†ر اقدامات کئے گئے ہیں جن میں نوکریوں کی فراہمی، اقتصادی مواقع اور سلامتی شامل ہیں۔بھارتی صدر نے یہ بھی بتایا کہ بھارت جموں کشمیر اور شمال مشرقی ریاستوں سمیت کئی علاقوں میں نئے ایف ایم چینل شروع کر رہا ہے۔

بھارتی صدر نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مطابق ایسی متنازعہ قرار دی گئی ریاست جموں و کشمیر ،جس کے مستقبل کا فیصلہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں آزادانہ رائے شماری سے کرنے کا عالمی عہد (بھارت اور پاکستان سمیت) موجود ہے،کے اصل اور پاکستان کے ساتھ تنازعہ کے بنیادی مسئلے سے آنکھیں چراتے ہوئے کشمیر سے متعلق محض بھارتی مفادات اور بھارتی غاصبانہ قبضے کو قائم رکھنے کی بات کی ہے ،یعنی ایک طرف بھارت پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات کی بات کرتا ہے اور دوسری طرف تنازعہ کشمیر پر مسلسل غیر منصفانہ،ہٹ دھرمی پر مبنی روئیہ اپنائے ہوئے ہے۔جلد یا بدیر بھارتی حکمرانوں کو اس حقیقت سے آنکھیں دوچار کرنی ہی پڑیں گی کہ کشمیر کا مسئلہ منصفانہ اور پرامن طور پر حل کرتے ہوئے جنوبی ایشیا میں مثبت پیش قدمی کے ایک نئے اور تابناک دور کا آغاز کرے،اگر بھارت کو اپنے عوام کی بہتری مقصود ہے۔بھارت کی تمام تر اقتصادی ،فوجی اور ’’جمہوری‘‘ طاقتوں کے باوجود بھارتی قیادت کشمیر کا مسئلہ حل نہ کر کے اپنی نااہلی اور غیر ذمہ داری کا کھلا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ایک ایسا ملک جو اقوام عالم کے سامنے عہد کر کے 67سال میں میں بھی کشمیر کا مسئلہ نہ تو حل ہونے دے نہ ہی اس جانب کوئی پیش رفت ہونے دے،اور گزشتہ43سال میں پاکستان کے ساتھ مسئلہ کشمیر باہمی طور پر حل کرنے میں بھی مکمل طور پر ناکام چلا آیا ہے۔ایسے ملک کی طرف سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت یعنی’’ ویٹو ‘‘ کا مستقل اختیار مانگنا کسی طور بھی مناسب نہیں ہے۔انڈیا کی محضاچھی باتوں سے بھارت کو اہم عالمی عہد ہ نہیں مل سکتا ،اس کے لئے بھارت کو مسئلہ کشمیر حل کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ حقیقی طور پر اچھے تعلقات کے قیام سے ہی بھارت اپنے عوام اور عالمی سطح پر بھی سرخرو ہو سکتا ہے۔بھارتی صدر نے اپنی تقریر میں ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات کے قیام کی’’ کوشش‘‘ کی بات کرتے ہوئے اہم عالمی عہدے کی ’’ فرمائش‘‘ کی ہے لیکن اس کے لئے بھارت کو اپنی نااہلیت کو اہلیت میں بدلنا ہو گا ،جس کا دروازہ مسئلہ کشمیر کا پرامن،منصفانہ حل ہی ہے۔تاہم بھارتی ذہنیت کو سمجھنے والے جانتے ہیں کہ خارجہ سیکرٹری اجلاس سے توقعات وابستہ کرنا یکطرفہ طور پر خوش فہمی میں مبتلا ہونے کی کوشش ہو گی۔بھارت اس اجلاس کے ذریعے یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ پاکستان کس حد تک دباؤ میں ہے اور موجودہ دباؤ سے نکلنے کے لئے کیا کیا قربان کرنے کو تیار ہے۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 700902 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More