( یہ مکالمہ ر اقم الحروف نے اپنی پی ایچ ڈی تحقیق کے
حوالے سے کیا جو موضوع کی تحقیقی ضرورت تھا۔ انٹر ویو مقالے میں شامل ہے۔
مقالے کا عنوان ہے ’’ پاکستان میں لائبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانوں کی
تر قی میں شہید حکیم محمد سعید کا کردار ‘‘ ۔ اس تحقیق پر راقم الحروف کو
۲۰۰۹ء میں جامعہ ہمدرد سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری تفویض ہوئی)
تعارف :
محمد خورشیدعالم ایک سینئر لائبریرین ہیں جنہوں نے ۱۹۵۷ء میں سرٹیفیکیٹ
کورس سے لائبریری سائنس کی تعلیم کا آغاز کیا ۱۹۵۹ء میں پوسٹ گریجویٹ
ڈپلومہ اور ۱۹۶۴ء میں جامعہ کراچی سے لائبریری سائنس میں ایم اے کیا۔ پیشہ
ورانہ زندگی کا آغاز لیاقت میموریل لائبریری سے کیا،چھ سال ( ۱۹۵۹ء ۔
۱۹۶۵)ء برٹش کونسل ، نو سال (۱۹۶۵ء۔۱۹۷۴ء) PCSIRکے چیف لائبریرین رہے، ۱۲
سال (۱۹۷۴ء۔۱۹۸۴ء) لیبیا میں ایگریکلچرل جامعہ التلہ فتح کی لائبریری میں
خدمات انجام دیں، ۱۹۸۴ء۔ ۱۹۸۵ء میں ہمدرد لائبریری کے چیف لائبریرین رہے ،
گیارہ سال (۱۹۸۵ء ۔ ۱۹۹۶ء) ڈاکٹر محمود حسین لائبریری جامعہ کراچی کے
لائبریرین رہے اور ریٹائرمنٹ حاصل کی، ۱۹۹۶ء سے ضیاء الدین میڈیکل
یونیورسٹی کے چیف لائبریرین کی حیثیت سے لائبریری خدمات انجام دے رہے
ہیں۔پیشہ ورانہ سر گرمیوں میں بھی فعال نظر آتے ہیں، قومی اور بین الا
قوامی لائبریری کانفرنسیز اور سیمینار ز میں شر کت کر چکے ہیں ، آپ کے کئی
مضامین بھی پیشہ ورانہ رسائل میں شائع ہو ئے۔خورشید عالم صاحب سے یہ گفتگو
ان کی رہائش گاہ پر بروز ہفتہ ۲۲ جنوری ۲۰۰۵ء کو ہوئی۔
۱ : آپ پاکستان میں لا ئبریری تحریک کے فروغ اور ترقی میں حکیم محمد سعید
شہیدکے کر دارکو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
ج : پاکستان میں لا ئبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانوں کی ترقی میں حکیم
صاحب کا اہم اور مثبت کردار رہا، خاص طور پر ۱۹۶۰ء سے ۱۹۸۰ء کے درمیان اسپل
جس کے حکیم صاحب صدر تھے لائبریری سر گرمیوں میں پیش پیش تھی۔ حکیم صاحب سو
سائٹی کے بارے میں بہت زیادہ پر جوش (Enthusiastic) تھے۔ میں جب ہمدرد
لائبریری میں تھا تو اکثر اسپل کا زکر کیا کر تے تھے۔ اسپل کے سر گرم
اراکین ملک سے با ہر چلے گئے تو انہیں وہ قوت محرکہmpetus) (I نہ مل سکی ۔
۲ : اسپل(SPIL) کے منعقد ہ سیمینار ‘ ورکشاپس اور کانفرنسوں کے پا کستان لا
ئبریرین شپ پر کیااثرات مرتب ہو ئے؟
ج : اسپل(SPIL) کے منعقد کر دہ سیمینار ‘ ورکشاپس اور کانفرنسوں کے
(Positive) اثرات پڑے۔ اس وقت یہ انجمن فعا ل نہیں ہے اس کا یہ جمود دور ہو
سکتا ہے بشرطیکہ سنجیدہ لوگ اس کا بیڑا اٹھائیں۔
۳ : کیا ’’اسپل گولڈ میڈل ‘‘ پا کستان میں لائبریری تعلیم کے فروغ میں معا
ون ہو سکا؟
ج : اسپل(SPIL) گولڈ میڈل سے طلبہ کو (Inspiration) ملا جو اس کے حق دار
قرار پاتے ہیں ان میں تحقیق کی لگن پیدا ہو تی ہے۔ اس اعتبار سے یہ ایک
مستحسن قدم تھاہے۔
۴ : اسپل(SPIL) کی مطبوعات لا ئبریری مواد میں کس حد تک مفید اور کارآمد ثا
بت ہوئیں؟
ج : یہ لائبریری لٹریچر مفید تھا اورمفید رہے گا۔ریسرچ کے لیے جب بھی کوئی
محقق قلم اٹھائے گا تو لازمی طور پر تاریخ کے لیے وہ ان مطبوعات کو نظر
انداز نہیں کر سکے گا۔ اگر کو ئی بھی ایسو سی ایشن اپنے منعقد کر دہ
سیمینار یا کانفرنس کی رودادیں شائع نہیں کر ے تو کچھ عرصہ کے بعد اس کا یہ
اقدام لوگوں کے ذہنوں سے محو ہو جا تا ہے اگر رودادیں شائع کر دی جائے تو
اس ایسو سی ایشن کا وہ اقدام ہمیشہ باقی رہ جا تا ہے اسپل نے ایک اچھی
روایت یہ قائم کی کہ اس نے اپنے تمام تر سیمینار ، ورکشاپ اور کانفرنسوں کی
رودادیں شائع کیں جو آج ہماری تاریخ کا ایک اہم حصہ ہیں اور اس کا یہ اقدام
ان رودادوں کے ذریعہ ہمیشہ باقی رہے گا۔پی ایل اے نے بھی اپنی بیشتر
کانفرنسوں کی رودادیں شائع کیں ہیں۔
۵ : آپ نے ہمد رد لا ئبریری کب جوائن کی ، یہ فر مائیں کہ آپ نے حکیم محمد
سعید کو بہ حیثیت منتظم کیسا پا یا؟
ج : میں نے ۱۹۸۴ء میں ہمدرد لائبریری جو ائن کی تھی اس وقت یہ لائبریری
ہمدرد سینٹر ناظم آباد میں تھی لیکن بیت الحکمہ کے لیے ابتدائی کام کا آغاز
ہو چکا تھا، میرا تقرر جامعہ کراچی میں ہو گیا جس کے باعث مجھے ہمدرد سے
جانا پڑا ، میرے اس تقرر پر حکیم صاحب خو ش نہ تھے وہ چاہتے تھے کہ میں
ہمدرد ہی میں رہوں۔ حکیم صاحب اچھے منتظم تھے حافظہ کمال کا تھا ہر چیز کو
یاد رکھتے تھے اس کا پتہ ان کی تحریرسے ہو تا تھا۔ میرے پاس ان کی ہرے رنگ
کی پرچیاں جن پر لال روشنائی سے لکھا ہوتا اکثرآیا کر تی تھیں جن پر مختلف
قسم کی ہدایات ہوا کر تی تھیں۔ آپ کی یہ خوبی تھی کہ اگر کسی اسٹاف سے کوئی
چیز پوچھی ہے تو وہ اسے یاد رکھا کر تے تھے بسا اوقات اسٹاف کا ٹیسٹ بھی
لیا کر تے تھے، اگر کسی اسٹاف ممبر سے کوئی غلطی ہو جایا کر تی تو وہ اس کی
سرزنش بھی کیا کر تے تھے لیکن الفاظ کی حد تک ، وہ (Hire) کے قائل
تھے (Fire) کے نہیں، ہمدرد میں (Security of Job) بھی ہے، اچھے کام پر
تعریف بھی کیا کر تے تھے۔ ایک بار حکیم صاحب مجھ سے ناراض ہو گئے انتظامی
امور کی انجام دہی میں کبھی کبھارایسا ہو جا تا ہے۔ اسی دوران میرا لندن جا
نے کا اتفاق ہوا ، لندن میں بی بی سی کے آ صف جیلانی سے ملاقات ہو ئی انہوں
نے مجھ سے انٹر ویو کے لیے کہا جسے میں نے بہ خوشی قبول کر لیا ، میں واپس
کراچی آگیا ۔ کچھ عرصے کے بعد یہ انٹر ویو صبح کی نشریات میں نشر ہوا ، میں
جب ہمدرد پہنچا تو حکیم صاحب کی ایک پرچی میرے نام آئی جس پر لکھا تھا ’’
آج صبح بی بی سی کی صبح کی نشریات میں ہمدرد کے لیے چند کلمات ِ خیر نشر
ہوئے ، انٹر ویو خورشید عالم‘‘ گویا حکیم صاحب نے یہ انٹر ویو سنا اور
ناراض ہو نے کے باوجود میرے اس انٹر ویو کی تعریف کی جس میں ہمدرد کی لا
ئبریری کے لیے میں نے تعریفی باتیں کیں تھیں۔ حکیم صاحب یوں تو بے شمار
خوبیوں کے مالک تھے لیکن انہیں کتاب اور لائبریری سے بے انتہا عشق تھا۔
کبھی کبھار آپ لائبریری آتے خاص طور پر اس وقت جب ہم شیلف پر کتابیں رکھ
رہے ہو تے تو لائبریری اسٹاف کے ساتھ مل کر شیلف پر کتابیں رکھنے کے عمل
میں شامل ہو جاتے۔ آپ کا یہ عمل لائبریری کے اسٹاف کے لیے حوصلہ افزائی کا
باعث بھی ہو تا ساتھ ہی تمام لوگ زیادہ مستعدی کے ساتھ کام کر نے کی کوشش
کر تے۔
۶ : آخر میں یہ فر مائیں کہ آپ اس موضوع کو تحقیق کے نقطہ نظرسے کس طرح
دیکھتے ہیں؟
ج : یہ اچھا موضوع ہے اس پر تحقیقی کام ہو نا چاہیے۔اس سے (Philanthropy)کو
فروغ ملے گا۔جن لوگوں نے کتب خانو ں کے فروغ اور تر قی کے لیے کاوشیں کیں
وہ قابل ستائش ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ڈاکٹر عبدالمعید جو پاکستان میں
لائبریری سائنس کے بانی ہیں ، ان کی خدمات بھی قابل تعریف ہیں ان پربھی کام
ہو نا چاہیے۔(یہ انٹر ویو بروز ہفتہ ۲۲ جنوری ۲۰۰۵ء کو جناب خورشید عالم کی
رہائش گاہ پر لیا گیا) |