جس سے دن سے بیگم نے مجھے پیسٹری کھلانی شروع کی تھی اس
دن سے ہم دونوں میں محبت کچھ زیادہ ہی بڑھ رہی تھی شاید یہ پیسٹری کا اثر
تھا یا اس خلوص کا جو بیگم اپنی پرس سے پیسے نکال کر خرچ کررہی تھی ۔ویسے
بھی میرا شمار ایسے لوگوں میں ہوتاہے جو خود پر احسان کرنے والوں کو کبھی
نہیں بھولتے بلکہ میں اس سے ڈبل کرکے لوٹانا یاد رکھتا ہوں۔ اسی جذبے کے
تحت میں ایک شام کسی کو بتائے بغیر بیگم کو ساتھ لے جا کر والٹن روڈ پر
واقع" سردار مچھلی " کے ہاں پہنچ گیا ۔ میں اس لیے بھی بہت خوش تھا کہ
ساڑھے چھ سال نوائے وقت میں لکھنے کے بعد پہلی مرتبہ ساڑھے چار ہزار روپے
وہاں سے بطور معاوضہ ملے تھے ۔ نوائے وقت کا اخبار یوں تو پاکستان کا سب سے
بڑااخبارکہلاتا ہے لیکن پیسے دینے کے معاملے میں سب سے پیچھے نظر آتاہے ۔
ویسے میں نے پہلے کبھی ان سے تقاضا بھی نہیں کیا تھاکیونکہ بنک میں ملازمت
کی وجہ سے مجھے کبھی اس کی ضرورت بھی نہیں پڑی تھی لیکن ریٹائرمنٹ کے بعد
اور نئے گھر کی خرید کے حوالے سے مجھے ایک ایک پیسے کی اس لیے ضرورت تھی کہ
گیارہ لاکھ روپے قرض کا بوجھ میرے کندھوں پر آن پڑا تھا ۔9 لاکھ روپے تو
میں نے بنک سے ریٹائرمنٹ کے حوالے سے ملنے والی رقم دے کر اتار دیئے لیکن
اب بھی قرضے کی کافی رقم باقی ہے جس کو بہرحال مجھے ادا بھی کرنا ہے ۔
ایک جانب قرض کا بوجھ تو دوسری جانب گھر کے اخراجات پورے کرنے ٗ بلوں کی
ادائیگی ٗ یوپی ایس میں بیٹری کی تبدیلی اور ڈونگی پمپ کی مسلسل خرابی ٗ
اور رجسٹری انتقال کا معاملہ حالات کو دن بدن دشوار بنا تا جارہاتھا ۔اﷲ
کاکرم ہے کہ میرے دو بیٹے برسرروزگارہیں لیکن ان کی تنخواہیں اتنی زیادہ
نہیں ہیں کہ وہ گھر کے اخراجات پورے کرسکیں اس لیے ہر مہینے مجھے دس سے
پندرہ ہزار روپے گھرمیں شامل کرنے پڑتے ہیں ۔ جبکہ بنک سے لیا جانے والا
ساڑھے آٹھ لاکھ روپے کا قرض ابھی باقی ہے سوا پانچ لاکھ روپے جمع کروانے کے
باوجود اصل رقم کی مد میں پونے تین لاکھ اور اس پر بنک والے چھ لاکھ روپے
سے زیادہ مجھ سے بطور مارک اپ مانگ رہے ہیں ۔ان حالات میں چند روپے کی شاہ
خرچی کے بھی ہم متحمل نہیں ہوسکتے ۔ قدم بہت پھونک پھونک کر رکھنے کی ضرورت
ہے ۔ اس لیے ہم کوشش کرتے ہیں کہ ضرورت سے زیادہ کوئی ایک چیز بھی خرید نہ
کی جائے تاکہ مزید کسی مالی پریشانی سے بچا جاسکے ۔
نواز شریف کی مہربانی سے گزشتہ دوماہ سے بجلی کے بل تو کچھ کم ہی آرہے ہیں
جس سے بیگم کی پریشانی میں خاطر خواہ کمی آچکی ہے ۔ بل کی زیادہ رقم دیکھ
کر جب وہ پریشان ہوتی ہے تو میں اس سے پہلے پریشان ہوجاتا ہوں اس لیے کہ
شادی کے بعد ہم دو جسم ایک جان ہوچکے ہیں ۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک جان
پریشان ہو تو جان کا دوسرا حصہ محفوظ رہے ۔ اس مروت کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ
وہ بجلی کے بل کی ساری رقم مجھ پر ڈال کر خود گھرکے کسی گوشے میں جا چھپتی
ہے ۔ بجلی کا کنکشن نہ کٹ جائے اس خوف سے مجھے کسی نہ کسی سے پھر ادھار لے
کر بل جمع کروانا پڑتا ہے بلکہ مسلسل دو مہینے تو مجھے غازی روڈ پر واقع
لیسکو کے دفتر جانا پڑتا رہا ۔ پھر یہاں سے ناکامی ہوئی تو لیسکو اتھارٹی
کے ہیڈکوارٹر شارع فاطمہ جناح پہنچ گیا اس کے باوجود کہ انہیں دنوں میں
میری ایک آنکھ کاآپریشن ہوا تھا بیٹے دونوں اپنے اپنے دفتر پہنچ جاتے تھے ۔
دس ہزار روپے کا بل میں کہاں سے جمع کراؤں چنانچہ قاری محمداقبال صاحب سے
یہ تصور کرکے بات کی کہ صاحب کرامت ہونے کی بنا پر یا تو میرا بل کم
کروادیں گے یا کوئی ایسا وظیفہ بتادیں گے جس سے بل کم آنے لگے گا لیکن
انہوں نے یہ کہہ کر میری پریشانی میں مزید اضافہ کردیاکہ میں نے بھی 12
ہزار روپے کا بل جمع کروا یاہے ۔
آنکھ کے آپریشن کی وجہ سے موٹرسائیکل چلانا میرے لیے ممکن نہیں تھا۔ دونوں
بیٹوں ٗ بیگم اور میرے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ فاقے کرنے کے باوجود ہم
بجلی کا بل جمع کرواسکتے ۔ پھر بجلی وہ اب بہت زیادہ اہمیت اختیار کر چکی
ہے جس کے بغیر زندگی کا تصوربھی نہیں کیاجاسکتا ۔ چنانچہ میں ایک آنکھ سے
دیکھتے ہوئے موٹرسائیکل چلاتا ہوالیسکو ہیڈ کوارٹر جا پہنچا جہاں میرا ایک
پرانا دوست طاہر بٹ جنرل مینجر آپریشنز کا پرسنل سٹاف آفیسر ہے۔اس سے یہ
کہتے ہوئے مدد کی درخواست کی اگر تم بل کی رقم کم نہیں کروا سکتے تو
مہربانی کرکے بل کی آدھی رقم مجھے دے دو تاکہ بل تو جمع کرواں ۔ میری اس
بات پر وہ اس لیے مسکرایا کیونکہ واپڈا اورلیسکو اتھارٹی کے تمام آفیسراور
ملازمین کو بجلی کی سہولت مفت میسر ہے انہیں عوام کی مجبوریوں کاکیسے احساس
ہوسکتا ہے ہاں اگر انہیں بھی عوام الناس کی طرح دس دس ہزار روپے مہینے کا
بل اپنی تنخواہ سے جمع کروانا پڑتا تو ان کو بھی نانی یاد آجاتی۔ لیکن وہ
تو خدائی خدمت گار بن کر رات دن ائیر کنڈیشنڈ بھی چلاتے ہیں اور بل بھی جمع
نہیں کرواتے ۔بلکہ کئی ملازمین نے تو ماہانہ رقم کے عوض ارد گرد کے پڑوسیوں
کو بجلی سپلائی کررکھی ہے اور بھاری تنخواہوں کے علاوہ مزید آمدنی کا ذریعہ
مفت بجلی کو بنا رکھاہے ۔ جب طاہر بٹ نے کسٹمرسروس والوں کے پاس میرا بل کم
کروانے کے لیے بھجوایاتو انہوں نے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا کہ پچھلے مہینے
بل چونکہ ٹھیک کروایاگیا تھااس لیے دوبارہ یہ سہولت نہیں مل سکتی۔طاہر بٹ
نے جب یہ خبر مجھے سنائی تو سخت پریشانی لاحق ہوئی کہ اگر لیسکو کے ہیڈ
کوارٹر میں بھی بل کم نہیں ہوسکتا تو پھر دس ہزار روپے کی رقم کہاں سے لاؤں
گا۔ جن دوستوں سے مجھے بطور قرض پیسے مل سکتے تھے ان سب سے تو میں پہلے ہی
قرض لے چکا تھا۔اگر کوئی پیسے دے گا بھی تو اگلے مہینے اسے واپس بھی کرنے
پڑیں گے جبکہ بجلی کا بل تو ہر مہینے آفت بن کر ہم پر ٹوٹتا ہے اس کے علاوہ
سوئی گیس کا25 ہزار روپے کے بل کی ہر مہینے پانچ ہزار روپے قسط الگ جمع
کروانی پڑتی ہے اس لیے صرف بجلی اور گیس کے بل ایک عذاب کی صورت دھار چکے
تھے ۔بہرکیف طاہر بٹ کے خود چل کر کسٹمرسروس جانے کی بنا پر 150 یونٹ کم
ہوگئے جس سے بل کی کم چھ ہزار روپے تک محدود ہوگئی ۔
یہ تمام معاملات اس بات کے شاہدہیں کہ گھرکے حالات مالی اعتبار سے زیادہ
اچھے نہیں ہیں بلکہ ہمیں ایک ایک پیسہ خرچ کرنے کے لیے کئی کئی بار سوچنا
پڑتاہے ۔ ان حالات میں میں نے بیگم کو چپکے سے سردار مچھلی ہاؤس جاکر جو
مچھلی کھلائی تھی اس کا صلہ بیگم نے مجھے پیسٹری کھلا کر دے دیا تھا ۔پھر
ایک دن ایسا ہوا کہ جونہی المدینہ جنرل سٹور کے قریب ہم پہنچے تو بیگم نے
بتایاکہ آج وہ پیسے گھر بھول آئی ہے ۔ بیگم نے کہا آپ کی جیب میں پیسے ہیں۔
میں نے کہا ضرور ہیں لیکن ادھار دے سکتاہوں ویسے نہیں دے سکتا ۔ اس نے کہا
چلو پچاس روپے کانوٹ تونکالو میں نے ادھار تصور کرکے اسے دے دیا اس نے دو
انڈے ٗ میرے لیے پیسٹری اوراپنے لیے بسکٹ خریدے اور چہل قدمی کرتے کرتے ہم
گھر واپس پہنچ گئے ۔پیسٹر ی تو واقعی بہت مزے کی تھی اور انڈے بھی کھالیے
لیکن گھر پہنچ کر جب میں نے پچاس روپے واپس کرنے کے لیے کہا تو بیگم نے
پیسے واپس کرنے سے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا کہ ہر روز آپ میرے پیسوں سے
پیسٹری اور انڈے کھاتے ہیں آج اگر آپ نے انڈے کھلادیئے تو پھر کیا ہوا ۔ جب
میں اپنی پوتی شرمین فاطمہ لودھی کو سکول سے لینے جارہا تھا تو اس نے پچاس
روپے کا نوٹ مجھے دیتے ہوئے کہا کہ واپسی پر ایک پاؤ مونگی کی دال لیتے آنا
۔ میں نے پچاس روپے کانوٹ جیب میں ڈالتے ہوئے کہا یہ تو وہ پچاس روپے ہیں
جو میں نے آپ کو صبح ادھار دیئے تھے اب دال خریدنے کے لیے مزید پیسے دو ۔
اس نے غصے میں آتے ہوئے کہا اچھا تو ایسے ہی سہی ۔ اب میں بھی کل سے آپ کو
پیسٹری اور انڈے نہیں کھلایا کروں گا ۔ ایسے تو ایسے ہی سہی ۔
بیگم کی تنبیہ سن کر میری زبان پر انڈیا کا وہ گانا آگیا جس کے بول تھے :۔
اے جانِ وفا یہ ظلم نہ کر
ہم پہ ستم اور غیرو ں پر کرم
یہ تحریر لکھنے تک بیگم کا غصہ کم نہیں ہوا اور وہ مسلسل گرج چمک کے ساتھ
ساتھ بارش کی طرح چھینٹے برسا رہی ہے ۔ جب وہ زیادہ غصے میں ہوتی ہے تو میں
مسکرا کے کہہ دیتا ہوں تم نے جتنا غصہ کرنا ہے کر لو ٗ تم اگر مجھ سے زیادہ
ناراض ہوگی تو میرے پاس بھی قاری محمد اقبال صاحب ہیں جن سے میرے دوستانہ
تعلقات ہیں۔ ان کی دعامیں اتنا اثر ہے کہ محبوب خود چل کے قدموں میں آگرتا
ہے ۔ اگر تم نے زیادہ ناراضگی کااظہار کیا تو میں قاری صاحب کے پاس چلا
جاؤں گا پھر نہ صرف تمہارا غصہ ہرن ہوجائے گا بلکہ تم اپنے سے زیادہ خوش
اخلاق ہوکر مجھے پیسٹری والی دوکان پر خودلے کر جاؤ گی اور کہوگی پہلے آپ
ایک پیسٹری کھاتے تھے اب میں آپ کو ہر روز دو دو پیسٹریاں کھلایا کروں گی ۔
اس طرح تمہاراہی نقصان ہوگا میرا تو کچھ بھی نہیں جائے گا۔
وہ بابا جس نے اپنی بیوی کی ناراضگی دور کرنے کے لیے قاری صاحب سے پانی پر
دم کروایا تھا جب سے اس کی بیگم کی ناراضگی ختم ہوئی ہے وہ مسجد سے ایسا
غائب ہواہے کہ دوبارہ دکھائی نہیں دیتا ۔ میں نے کہا اس سے تو اچھا تھا کہ
بیگم ناراض ہی رہتی کیونکہ وہ اس طرح نماز پڑھنے اور قاری صاحب کی خدمت کے
لیے تو باقاعدگی سے آجاتا تھا لیکن جب سے ان کامحبوب قدموں میں گرا ہے اسے
نہ نماز یاد رہی ہے اور نہ ہی قاری صاحب ۔ پتہ نہیں وہ کہاں انجوائے کرتے
پھر رہے ہیں شاید انہوں نے ہنی مون کا دوبارہ کہیں پروگرام تو بنالیا ہے۔
بہرکیف میری بیگم ہے تو بہت اچھی......... لیکن کبھی کبھار اسے غصہ بھی بہت
آتا ہے ۔ پھر اس کے سامنے جو بھی ہوتا ہے اس کی خیر نہیں ہوتی ۔اﷲ کا شکر
ہے کہ قاری صاحب ہمارے پاس آخری حل کے طور پر موجود ہیں جن سے پانی دم کروا
کر مجھے ہر وقت اپنے پاس رکھنا پڑے گا تاکہ ادھر بیگم کا پارہ چڑھا تو ادھر
سے دم کیے ہوئے پانی کا چھڑکاؤ کرکے اس کا غصہ دورکردوں گا ۔ میں نے اس سے
التجا بھر ے لہجے میں کہا کہ پہلے ہی 52 سال کے بعد کسی عورت نے مجھے مفت
پیسٹری کھلائی ہے اب اگر یہ مہربانی کرہی دی ہے تو اس مہربانی کو کسی شرط
کے بغیر جاری و ساری رکھو ۔ کیونکہ جہاں مجھے پیسٹر ی بہت اچھی لگتی ہے
وہاں تمہارے بغیر رہنا بھی میرے لیے بہت مشکل ہے ۔ |