خواب اور حقیقت میں بڑا فرق ہوتا
ہے ،انسان بہت سارے خواب بنتا ہے مگر زمینی حقائق اس کے برعکس ہوتے ہیں ،میں
کون ہوتی ہوں تحریک ِ انصاف کے قائدین پر شک کرنے والی مگر یہ بھی حقیقت ہے
کہ آج تحریک انصاف کا لیبل ہٹا کر دیکھا جائے تو وہی زمانہ ساز چہرے نظر
آتے ہیں جو کئی صدیوں سے عوام ہی نہیں اپنے قائدین کا بھی استحصال کرتے چلے
آرہے ہیں ۔ان کی کلابازیوں اور مفاد پرستیوں کی داستانوں سے سبھی واقف ہیں
اوران کی بے نیازیوں کی کہانیوں کے پورے کے پورے دفتر بھرے پڑے ہیں ۔قابل
حیرت تو یہ ہے کہ تحریک انصاف کا آوازہ انہی ابن الوقت افراد پر مشتمل نظام
کے خلاف تھا ۔مگر وہی لوگ اب اہم عہدے داران بنتے چلے جا رہے ہیں اور دل بے
ساختہ پکار اٹھا ہے کہ
واعظ بھی اسی بت کو خدا مان رہا ہے
اس شہر میں اب کون مسلمان رہا ہے
جناب عمران خان کو یہی بات سمجھ نہیں آئی کہ تبدیلی وہ افراد کیسے لا سکتے
ہیں جو اسی نظام کی پیداوارہیں اور جن کی وجہ سے حالات اس نہج پر پہنچ چکے
ہیں ویسے بھی انقلاب کسی ایک نظام کی اجتماعی موت کا نام ہے ۔حقائق کچھ بھی
ہوں مگر تحریک انصاف اس دعوی اور منشور سے مسلسل پیچھے ہٹتی جا رہی ہے جس
کا علم اٹھا کر اس نے تمام پاکستانی عوام کو اپنا ہم رکاب اور ہم خیال
بنایا تھا ۔جس کی بنیاد ہی یہ تھی کہ تحریک انصاف نوجوانوں کی جماعت ہے جو
کہ ملی و قومی جذبۂ حب الوطنی سے سرشار ہیں اور موجودہ گھسے پٹے مفادپرست
نظام سے اکتا چکے ہیں۔مگر۔۔وائے افسوس یہ دعویٰ بھی صلیب حرص پر قربان ہو
چکا ہے ۔
سوال یہ ہے کہ اس صورت حال سے نکلنے کا طریقہ کیا ہے ؟ کیا اس گھن چکر کو
توڑا جا سکتا ہے ؟کیا ان خود ساختہ خداؤں کی خدائی کو چیلنج کیا جاسکتا ہے
؟ توعرض یہ ہے کہ زیاں کاری اور فراموشی کی داستان طویل ہے مگر ۔۔ اگر
سرسری انداز سے جائزہ لیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ بد عنوانیوں کا یہ
سلسلہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے آج ہر کوئی ‘اپنے
ساتھ بد عنوانیوں اور مکاریوں کے لیے نئے امکانات اور نت نئے طریقے اپنے
جلو میں لیکر آتا ہے اور اب تو یونہی لگتا ہے کہ یہ سب کچھ ٹھیک ہے اور
سیاست ایسے ہی ہونی چاہیئے ۔ اس کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس کا سد باب
بھی تاوقتیکہ ممکن نہیں کیونکہ یوں لگتا ہے کہ شائد قائداعظم کا عزم ،فلسفہ
سیاست اور جمہوری بنیادوں پر پاکستان کو کھڑا کرنے کا خواب ان کے ساتھ ہی
رخصت ہو گیا ،اس کے بعد جو کچھ ہوا اسے اکثریتی طور پر نام نہاد سیاسی
بازیگروں کا کھیل ہی کہا جاسکتا ہے جو مفادات اور ہوس کی آڑ میں کھیلتے جا
رہے ہیں ،المیہ تو یہ ہے کہ ہم نو برس تک اپنا آئین ہی نہ بنا پائے اورا گر
بنایا تو اس پر عمل درآمد کرنے اور کروانے والے اس دھرتی کو میسر نہیں آسکے
،آمریت اور وڈیرہ شاہی کے تسلسل نے باقی ماندہ کسر نکال دی ۔جمہوریت اگر
کبھی آئی بھی تو آمریت کی مداخلت اور اپنی ہی ناکام حکمت عملیوں اور بروقت
فیصلے نہ کرنے کی وجہ سے اپنا تسلسل برقرار نہیں رکھ سکی ۔یعنی اپنی اپنی
ڈفلی اپنا اپنا راگ کے مصداق ہر آنے والے نے اپنے آئین اور قوانین اس پر
لاگو کئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کا ڈھانچہ تک بگڑ گیا ۔اور یہ طے ہے کہ
با ڑھ ہی جب کھیت کھائے تو رکھوالی کون کرے ۔مگرہماری ناکامیوں اور تباہیوں
کے اسباب اور بھی بہت سے ہیں جن میں لا قانونیت ،مفاد پرستی ،موقع پرستی ،دین
سے دوری ،فرقہ واریت ،اقدار سے نا پسندیدگی ،اسلامی طرز زندگی سے انحراف ،مغربی
دنیا کے رنگ میں رنگے جانا اور ہر منافق سے دوستی نے ہماری تباہی و بربادی
میں اہم کردار ادا کیا ہے۔احتساب کا نعرہ ہمیشہ سے ہم نے لگایا مگر خود
احتسابی کا تصور بھی ہمیں گراں گزرتا رہا ۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج ہمارا
تشخص داؤ پر لگ چکا ہے ۔
مگر ہمیں نا امید نہیں ہونا چاہیئے کیونکہ پاکستان کا درخشاں مستقبل ہمارے
سامنے ہے ،حالیہ حالات تو اسی روشن آفتاب کا پیش خیمہ ہیں ۔ہر طوفان کے بعد
ایک چمکیلی صبح ضرور آتی ہے ، جیسا کہ آغا حشر کاشمیری اپنی سوانح حیات میں
لکھتے ہیں کہ’’ پاکستان کے قیام کی خاطر جو خون خرابہ ہوا اور مسلمانوں کو
جو قیمت ادا کرنا پڑی وہ غیر موقع نہیں بلکہ متوقع تھی ۔قوموں کی زندگی
انہی حادثوں سے بنتی ہے ایک کا خون دوسرے کے چہرے کا غازہ ہوتا ہے اور ایک
کی ہڈیاں دوسرے کے سہرے کا پھول ہوتی ہیں ،شاخیں کاٹنے سے پھول کھلتے اور
ٹہنیوں کا حسن نکھرتا ہے ،پاکستان شاید ہندوستان کے مسلمانوں کی ہر نوعی
قربانی کا نام تھا ۔نعرے ہمیشہ عبرتناک ہوتے ہیں ،مظاہرے خطرناک اور مجاولے
اندوہناک ۔پاکستان کے سفر کو عوام اگر گلگشت چمن سمجھے تھے تو یہ ان کا حسن
ظن تھا ،جو قومی سیاست میں جذباتی نعروں کی وجہ سے پیدا ہو ہی جاتا ہے ،اگر
سات آٹھ لاکھ مسلمانوں کی بے دریغ قربانی سے پاکستان میں اسلام کی نشاتہ
ثانیہ ہو جا تی تو کوئی قمیت نہ تھی لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکمرانوں کے وعدے
روز بروز دوشیزہ کی کہہ مکرنی ہوتے گئے ‘‘ اور ایسا ہو نہ سکا!تو اب یہ
کہنا بے جا نہ ہوگا کہ یہ دلکش وعدوں اور نام نہاد نعروں کا تسلسل روز اول
کی طرح قائم ہے اور اس کی بیخ کنی اتنی آسان نہیں جتنی تحریک انصاف کو لگتی
ہے ،مگر پھر بھی تحریک انصاف ایک مضبوط حزب اختلاف بن کر سامنے آئی ہے اور
اگر وہ اپنیے منشور پر لوٹ آئے تو شایدبہتری کے امکانات پید اہو جائیں ۔
جیسا کہ ساؤتھ ایشین جرنلسٹ کونسل (ساک )کے عہدے داران کے وفد نے گذشتہ
ہفتہ صدر پنجاب تحریک انصاف چوہدری اعجاز سے ملاقات کی جس میں انھوں نے کہا
کہ عوام بیدار ہو چکی ہے اور ہمیں یقین ہے کہ حالات ایک بار پھرعوام کو
مجبور کر دیں گے کہ سب سڑکوں پر نکلیں ،مگر دھرنا سیاست اب شاید ممکن نہ ہو
اور یہ بھی کہ ہم ہر آنے والے کو خوش آمدید کہتے ہیں کہ اس کے تجربے سے
جماعت کو فائدہ ہوگا اگر وہ چلا جاتا ہے تو ہم کیا کر سکتے ہیں ،ویسے بھی
وفاداریاں تبدیل کرنے والے ملک و ملت کے مجرم ہیں !یعنی ’’لوٹا کریسی ‘‘ کا
علاج کوئی نہیں تو ایسے لا علاج امراض کو سینے سے لگانا سمجھ سے باہر ہے
،یقیناووٹ بینک انہی طاقتور ،پیشہ ور سیاستدانوں کا ہے اور عمران خان پہلے
دن سے یہ کہتے چلے آرہے ہیں کہ سیاست اور کرسی کسی کی اجارہ داری نہیں میں
کیوں نہ اس کو حاصل کروں ،تو قصۂ مختصر اس حمام میں سبھی ننگے ہیں اور اپنے
اپنے مفادات کی جنگ لڑ رہے ہیں ،اگر اس نظام کو بدلنا ہے تو عوام کو ووٹ کے
تقدس کو جاننا ہوگا ان سب کا احتساب خود کرنا ہوگا باقی رہی بات ان سیاسی
ماہرین کی تو وہ دن دور نہیں جب خواب حقیقت کا رو پ دھاریں گے اور خلق خدا
راج کرے گی !
ہم دیکھیں گے ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوح ازل میں لکھا ہے
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاؤں تلے
یہ دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
اور اہل حکم کے سر اوپر
جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
لازم ہے کہ ہم دیکھیں گے ! |