جون ایلیا کا ایک شعر ہے کہ
میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کرلیا اور ملال بھی نہیں
ہم پاکستانی شاید اسی شعر کی مصداق ہیں ہم خود کو ضائع کررہے ہیں اپنے
اثاثے ضائع کررہے ہیں اپنا وقار و افتخار اپنی صلاحیتیں مسلل ضائع کرتے چلے
جارہے ہیں اپنا قومی تشخص تباہ کررہے ہیں اپنے ادارے پے در پے تباہ و برباد
کرچکے ہیں آج ہم نے اپنی نادانیوں اور غلطیوں سے حکمرانوں کے غلط فیصلوں سے
سیاست دانوں کی ذاتی مفادات کی سیاست سے بیوروکریسی کی فرعونیت سے آمروں کے
جبر سے جاگیر داروں کے ظلم سے سرمایہ داروں کی ابن الوقتی سے اور عوام کی
بے حسی سے خود کو اپنے لئے اور دنیا کیلئے بہت بڑا خطرہ بنادیا ہے اور اب
بھی خود کو کسی غیبی طاقت کے منتظر سمجھ رہے ہیں ۔
تمام پیڑ جلا کر خود اپنے ہاتھوں سے عجیب لوگ ہیں سایہ تلاش کرتے ہیں ۔ آج
پاکستان کو باہر سے نہیں اندر سے خطرہ ہے ہم ایک قوم نہیں رہے نہ جانے
ہماری پالیسیاں بنانے والوں کی کیا سو چ ہے انہی پالیسیوں کی وجہ سے ہم ایک
قوم نہیں بن پارہے ہمارے پالیسی سازوں کو شاید آنے والے وقت کا ادراک نہیں
پالیسی بنا کر لاگو کردیتے ہیں فیصلے مسلط کردیتے ہیں بعد میں ان کے
نقصانات سامنے آنے کے بعد ترامیم شروع کردیتے ہیں پہلے فیصلے کرتے ہیں پھر
اسے واپس لے لیتے ہیں ہونا یہ چاہیے کہ کوئی بھی قومی اجتماعی قانون بنانے
سے پہلے قوم کو قومی نمائندوں کو اعتماد میں لینا چاہیے عوامی و قومی فورمز
پر ان کے مضمرات پر بحث ہونی چاہیے عوامی نمائندوں کے سامنے اسے لانا اور
اس پر رائے کے بعد اس پر ووٹنگ کرکے اسے باقاعدہ ایک قانون کی شکل دینے کے
بعد لاگو کرنا اہیے لیکن جمہوریت کے ہوتے ہوئے آرڈی نینس نافذ کرکے اسے
لاگو کردیاجاتا ہے عوام طوھاً و کرھاً اسے قبول کرلیتے ہیں لیکن دل سے اسے
قبول نہیں کرتے اس لئے اس قانون کو عوام میں پذیرائی حاصل نہیں ہوتی آج
پاکستان دہشت گردی کی زد میں ہے صورت حال اتنی زیادہ خطرناک ہوچکی ہے کہ
سرمایہ کار تو کیا پاکستان آئیں گے دنیا اپنے شہریوں کو پاکستان نہیں آنے
دے رہی جب تک بیرونی سرمایہ کاری نہیں ہوگی پاکستانی قوم خوشحال نہیں
ہوسکتی جب بھی پاکستان میں امن اور استحکام آنے لگتا ہے پاکستان دشمن قوتیں
سرگرم عمل ہوجاتی یہں خود کش دھماکے ہونے لگتے ہیں فرقہ وارانہ تعصب پر
مبنی فسادات ہونے لگتے ہیں لسانی تحریکیں زور پکڑتی ہیں اور امن وامان درہم
برہم ہوجاتا ہے ہونا تو یہ چہیے کہ اس سخت ترین حالات میں ہم حالات کے جبر
کا مقابلہ کرنا سیکھیں ہم اس آگ میں مزید پٹرول ڈالنے والوں کو اپنا مسیحا
سمجھ کر ان کی باتیں مان جاتے ہیں یہ حالات کوئی اور نہٰں خود ہم کو
سدھارنے ہیں امن کا ٹھیکہ صرف پاک فوج اور انتظامی اداروں کو نہیں دینا
عوام اور سیاسی سماجی لیڈروں کو آگے بڑھ کر امن قائم کرنا ہے آج بھارت اور
اسرائیل قدم قدم پر پاکستان کو ناکام بنانے کیلئے سازشیں کررہے ہیں ہمارے
اپنے ہی گمراہ لوگ ان کا آلہ کار بن کر اپنوں کو ہی تباہ کررہے ہیں ہمیں ان
لوگوں کو سمجھانا چاہیے دہشت گردی کو صرف مذہبی لوگوں کے ذمہ نہیں لگانا
چاہیے جو بھی مذہبی ، لسانی صوبائی فرقہ وارانہ مسلکی اور کسی قسم کا بھی
تعصب اور نفرت پھیلاتا ہے اس پر دہشت گردی کا قانون نافذ کرنا چاہیے صرف
لائوڈ سپیکروں پر پابندی لگا کر مولویوں پر پرچے دے کر امن قائم نہیں
کیاجاسکتا امن تمام دشمن اسلام و پاکستان قوتوں پر بلاتفریق کاروائی کرکے
ہی قائم کیاجاسکتا ہے ۔95 فیصد مدارس و مساجد اسلام و پاکستان کے خیر خواہ
ہیں وہ لوگ جو مسجد و محراب و منبر میلاد و مجالس جلسہ و جلوس میں اسلام و
پاکستان کی خیر مانگتے ہیں پاکستان سے محبت کی تعلیم دیتے ہیں امن و اتحاد
کی بات کرتے ہین اور اپنے عمل سے ثابت بھی کرچکے ہیں کیا انہیں ستانا نشانہ
بنانا تنگ کرنا انصاف کا تقاضا ہے ؟ ہمارے پالیسی سازوں کو تو ان محب وطن
لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے ان کی توفیقات کو مزید بڑھانا چاہیے جن
لوگوں کی مساجد و مدارس میں لکڑی کے ڈنڈے بھی نہیں ہیں کیا ان پر دہشت
گردوں جیسا اطلاق جائز ہے ؟ وہ لوگ جو پاکستان بنانے والے ہیں جن کی
خانقاہوں سے درود پاک کی صدائیں آتی ہیں محبتوں کی خوشبوئیں نکلتی ہیں کیا
وہ فیورٹ کا درجہ نہیں رکھتے ؟ کیا سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا درست ہے ؟
وہ لوگ جو شدت پسند ہیں کیا حکومت ان کو نہیں جانتی اگر نہیں جانتی تو پھر
نالائقی کس کی ہے ؟ خیر والی طاقتیں اور شروالی طاقتیں کبھی ایک پلڑے میں
اکٹھی نہیں ہوسکتیں آج حکمرانوں کو سوچنا چاہیے کہ ہم نے تمام لوگوں کو
کیسے تحفظ دینا ہے ۔ آج ہمیں پاکستان کو ملکر بچانا ہے حضرت واصف علی واصف
نے فرمایا تھا کہ پاکستان نور ہے اور نور کو زوال نہیں پاکستان قیامت تک
رہنے کیلئے بنا ہے پاکستان کو مٹانے والے خود مٹ جائیں گے آج ہم ایٹمی قوت
کے مالک ہیں طاقتور ترین فوج رکھتے ہیں جو کسی بھی ترقی یافتہ ملک کے ہم
پلہ ہے ہماری سیکورٹی ایجنسیاں دنیا کے قابل ترین دماغ رکھتی ہیں بیرون ملک
پاکستانی اربوں ڈالر بھیجتے اور دنیا میں چھائے ہوئے ہیں ہماری اصل بیماری
داخلی ہے ہم پارہ پارہ ہیں بٹ چکے ہیں ہم مقدسات کے نام پر بٹ چکے ہیں جبکہ
مقدسات تو متحد کرنے والے ہیں بقول اقبال
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
اور اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد فرمایا کہ
یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتائو تو مسلمان بھی ہو
میرے آج کے اس کالم کا مقصد صرف ور صرف پالیسی سازوں کو مخاطب کرنا ہے کہ
گر شدت پسند دہشت گرد متحد ہیں تو امن والوں کو متحد کرنا کونسا مشکل کام
ہے ؟ کام مشکل نہیں نیت میں فرق ہے ایک عالمی معیار کی دانشور ماریا
مانٹیسوری نے کہا تھا کہ شدت پسند کم ہوتے ہیں مگر وہ منظم ہوتے ہیں جبکہ
امن پسند بے انتہا ہوتے ہیں مگر وہ منتشر ہوتے ہیں منظور وٹو کے دور میں جب
فرقہ وارانہ تشدد میں اضافہ ہوا تو منظور وٹو نے بزرگوں کی خدمت میں دہائی
دی تو میرے مرشد قائد ملت اسلامیہ علامہ شاہ احمد نورانی نے اپنی نظر کرم
سے تمام مسالک کو یکجا کرکے پاکستان کو محفوظ کیا اور ملی یکجہتی کونسل کا
قیام عمل میں آیا پاکستان محفوظ ہوگیا اور فرقہ وارانہ فسادات ختم ہوگئے آج
پاک فوج دہشت گردوں کی بیخ کنی کررہی ہے اور ضرب عضب میں مصروف ہے لیکن
دہشت گرد کبھی سکولوں میں ہماری نسل کشی کررہے ہیں کبھی سانحہ شکار پور
رونما ہوتا ہے کبھی سانحہ حیات آباد نمودار ہوتا ہے کبھی امام بارگاہ سکینہ
بن حسین میں نمازیوں کو نشانہ بنایاجاتا ہے کیوں ؟ہمیں اجتماعی طور پر پاک
فوج کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا چاہیے ہمارے تمام مسالک کے بزرگوں کو یکجا
ہوکر فرقہ واریت کو ختم کرنا چاہیے ہمیں اس موقع پر اپنے تمام اختلاف پس
پشت ڈال کر اسلام وپاکستان دشمن عناصر کے ناپاک عزائم کو ناکام بنانا چاہیے
آج ہم نفاق کا شکار ہیں ایک دوسرے سے نفرت کرنے لگے ہیں ہمیں آج محبتیں عام
کرنے کی ضرورت ہے ہمیں آج اتحاد بین المسلمین کمیٹیاں بنانی چاہیں ہمیں
اپنے اندر سے پاکستان مخالف عناصر کو نکال کر انہیں انجام تک پہنچانے کیلئے
انتظامی اداروں کی مدد کرنا چاہیے آج ہمارے بچے اپنے ہی ملک میں سکولوں میں
نہیں جاسکتے اگر جاتے ہیں تو ان کی مائیں خوف کا شکار رہتی ہیں اور بچوں کے
واپس آنے تک لب پر دعائیں سجا کے رکھتی ہیں قوموں پر تکلیف درد جنگ کے
لمحات آتے رہتے ہیں لیکن مشکل وقت میں قومیں تمام اختلافات بھلا کر ایک
ہوجاتی ہیں لیکن ہم ایک تو ہوئے ہیں مکمل نہیں ہوسکے سانحہ پشاور سے بڑا
ظلم اور بڑا واقعہ تو کہیں نہیں ہوسکتا لیکن ابھی بھی ہم میں سے کچھ لوگ
صحیح پاکستانی نہیں بن سکے آخر کیوں ؟ ہم نے اپنے بھولے ہووں کو پاکستان
بننے وقت کی صحیح تاریخ نہیں بتائی اس میں قصور کس کا ہے ؟ یہ بات بھی
پالیسی سازوں کو سوچنی چاہیے انصاف کا نہ ہونا خود پرستی مفاد پرستی ہم پر
غالب آگئی ہے عمران خان کہتے ہیں ہمارے 4 ارب ڈالر ناجائز کرپشن والی دولت
باہر ہے جبکہ اصل میں شاید یہ چار سو ارب ڈالر ہو تو پھر پوری قوم کا کی
بنے گا وہ رقم جو ہمارے بچوں کا اثاثہ تھی وہ غیروں کے قبضے میں ہے کچھ
خاندان اس کا استعمال کررہے ہیں چھینا جھپٹی خود غرضی ہمارے کرتا دھرتوں کو
طرہ امتیاز بن گئی ہے جب حکمرانوں کو ملک کی فکر نہین تو عام طبقہ کیا کرے
گا ؟
برباد گلستان کرنے کو بس ایک ہی الو کافی ہے
ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہوگا
باریاں لگ رہی ہیں دھرنے دئیے جارہے ہیں ملک کا پرسان حال کوئی نہیں آج کسی
کو پاکستان کی فکر نہیں جو کام ہم نے سب سے پہلے کرنا تھا وہ صفحے کی آخری
لائن پر ہے آج مقام شرم ہے ہماری نالائقی ہے کہ ہم پاکستان کی حفاظت کرنے
کے قابل نہیں رہے اس ملک کی حفاظت ہر پاکستانی کو کرنا ہے جبھی یہ ملک قائم
رہ سکتا ہے آج مودی جیسے عیار و مکار لیڈر جس کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے
رنگے ہیں پاکستان کو آنکھیں دکھا رہے ہیں ہمیں ان کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر
بات کرنا ہے ہمیں اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ بنانا ہے ہمیں عظمت اسلام اور
استحکام پاکستان کے لئے کام کرنا ہے ہمیں آج صرف اور صرف مسلمان اور
پاکستانی بن کر سوچنا ہے جبھی ہمارا سب کچھ محفوظ رہ سکتا ہے اگر پاکستان
نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے اگر ہم کچھ کرنا چاہیں تو منزل کہیں دور نہیں
لیکن کوشش ہمیں خود کرنا ہوگی ۔
کچھ انتظام کریں گے تو روشنی ہوگی
چراغ خود نہیں جلتا جلایاجاتا ہے
ہماری جائے پناہ صرف اور صرف پاکستان ہے یہاں ہم محرم کی مجلسیں برپا
کرسکتے ہیں میلاد کی مقدس محفلیں مناسکتے ہیں صحابہ کرام کی سیرت کے جلسے
منعقد کرسکتے ہیں ولیوں کے عرس مناسکتے ہی اپنی مرضی سے مرجی سکتے ہیں
خدارا امن و محبت پر یقین رکھنے والے متحد ہوجائیں یہی ہماری بقاء اور
بچائو کا واحد راستہ ہے یاد رکھیں ۔
ایسا نہ ہو کہ درد بنے درد لادوا
ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کرسکو |