پاکستان کو تنہا سیاستدانوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا (کالم کا چوتھا حصہ)
(Sardar Attique Ahmed Khan, Azad Kashmir)
گزشتہ صدی میں قیام پاکستان ایک
Visionaryدوربین اور دوراندیش سیاستدان اور States Manقائداعظم ؒ اور اُن
کے ساتھیوں کا ایسا بے مثال کارنامہ ہے جس کی موجودگی میں کوئی بھی شخص
سیاستدانوں کو بطور طبقہ مسترد (Condemn)نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے اس موضوع
پر راقم کی تحریروں کو شک و شبہ سے نہ دیکھا جائے بلکہ قیام پاکستان سے اب
تک کے تجربات اور کارکردگی کی بنیاد پر زیر بحث امور کا جائزہ لیا جائے ۔
چرچل نے جنگ عظیم کے دوران جب زور دے کر کہا تھا کہ ’’جنگ کو تنہا جرنیلوں
پر نہیں چھوڑا جا سکتا‘‘ تو اُس کا ایک مطلب یہ بھی تھاکہ ساری قوم کو اپنی
فوج کے ساتھ ہمقدم ہو کر چلنا ہے۔قوم تو بلا شبہ ہر دور میں کراچی سے کشمیر
تک اپنی قومی فوج کے ساتھ ہم قدم ہو کر چلتی آئی ہے البتہ ضرورت اس امر کی
ہے کہ قوم کے رہنما قائداعظم کے تینوں رہنما اصول سامنے رکھ کراس قوم کی
رہنمائی کا فریضہ ادا کریں۔پاکستان کو ترقی دینے کے لیے اس کے بنیادی نظریے
، اس کے فکر اور قائداعظم کی سوچ و طرز عمل کو بنیاد بنانا از حد ضروری ہے
۔ قائداعظم کا پہلا اصول اتحاد(Unitiy)صرف قوم کے لیے نہیں بلکہ بنیادی طور
پر سیاسی قائدین کے لیے ہے جس میں اُن سے اُن کی سوچ ، فکراور عمل کو یکجا
کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے ۔ ایسا ممکن نہیں کہ رہنمائی کرنے والوں کی سوچ
،فکر اور عمل حد درجہ منتشر ہو، وہ خود اپنی شخصیت میں متحد اور یکجا نہ
ہوں اور قوم کو تقریروں میں اتحاد کا درس دیتے پھریں۔ خود پاکستان کی
سلامتی اور بقا سے مایوس ہو کر اڑوس پڑوس کی طرف دیکھتے ہوں اور قوم سے
پاکستان پر پختہ یقین اور عقیدہ (Faith)رکھنے کا مطالبہ کریں۔اُن کی اپنی
اپنی جماعتیں، وزارتیں اور حکومتیں تو بدنظمی کا شکار ہوں لیکن عوام الناس
سے قائداعظم کا واسطہ دے کر نظم و نسق(Discipline) کامطالبہ کیا جائے ۔قائد
اعظم نے اپنی ذات کو ان رہنما اصولوں کا ایک بہترین ماڈل بنا کر دنیا کے
سامنے پیش کیا۔اگر کسی بھی لمحے پاکستان کے قیام پر قائد کا یقین کمزور اور
متذلزل ہو جاتا تو انگریز اور ہندووں جیسی دو بڑی قوتوں کے درمیان میں سے
پاکستان کو کھینچ نکال لانا ممکن نہ رہتا ۔ چاروں طرف سے مسائل میں گھرے
ہوئے پاکستان کو عملاًوزیر خارجہ ، وزیر دفاع ، وزیر قانون اور وزیر
اطلاعات و نشریات جیسے بہت اہم وزراء سے محرورم رکھ کر چلائے جانے کا تجربہ
کیا جا رہا ہے۔ دونوں مشیران خارجہ غالباً ایک دوسرے سے بات چیت میں بھی
دلچسپی نہیں رکھتے جس کے نتیجے میں ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل عاصم
باجوہ کو دنیا بھر میں پاکستان کی نمائندگی کرنا پڑ رہی ہے ۔ وزارت قانون
دہشت گردی کے مقدمات فوجی عدالتوں کو بروقت بھیجنے میں دلچسپی نہیں دکھائی
دیتی لیکن دہشت گردوں کے خاتمے کی پوری طرح خواہش مندہے ۔ وزارت دفاع ابھی
تجرباتی مراحل میں ہے ۔ ایسے اہل وزیردفاع سے اس کام کا آغاز ہوا جو اپنے
دفاعی ادارے کو کھلے عام برا بھلا کہنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔خدانخواستہ
جب بھی افواج پاکستان مخالف کوئی قوت کوئی بھی سازش کرنا چاہیے گی تو
موجودہ حکومت کے ایک وزیر کی بطور وزیر دفاع کی جانے والے تقاریر کو بنیاد
بنایا جائے گا۔ بقول شاعر:۔
چوں کفر از کعبہ می خیزد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کجا مانند مسلمانی
محترم وزیر اطلاعات دنیا اسلام کی واحد ایٹمی پاکستانی فوج کو ’’غلیل
والے‘‘کی سند دے چکے ہیں ۔ایک اور مرکزی وزیر جنہیں ساری جوانی فوجی وردی
پہننے کا اعزاز حاصل ہے۔ وزیر اعظم کی کراچی میں امن کانفرنس کے بعد ٹیلی
ویژن پر اپنے دانشمندانہ خیالات کا اظہار کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں رائج
TADAاور POTAکے طرز پر قوانین بنائے جانے کا مطالبہ کر چکے ہیں۔ تاریخ کے
مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ جب قیادت بڑی عمر کے لوگوں کے پاس ہو توجواں
سال مشیروں سے مشاورت کو افضل سمجھا جاتا ہے اور جب اس کے برعکس جواں سال
لوگ اس منصب پر فائز ہوں تو اپنے سے بزرگ تجربہ کار مشیران کو ترجیح دی
جاتی ہے لیکن ہمارے ہاں تاریخ کا دلچسپ اور انوکھا تجربہ ہے کہ ہر محاذ پر
کھیلنے کے لیے انڈر 19 (Under Ninteen)ہونا لازمی شرط ہے ۔ اس وقت سرکاری
ٹیم کی بڑی تعدادعمریں زیادہ ہونے کے باوجود بھی علم ، تجربے اور رویے کے
لحاظ سے بالاتفاق انڈر (Under Ninteen) 19ہی شمار ہوں گے۔ ہر جماعت اور
سیاسی طبقے کے اندر اچھے لوگ یقینا موجود ہیں لیکن یوں لگتا ہے کہ اہلیت
اور قابلیت کے پیمانے بدل دیئے گئے ہیں ۔
بقول عدم
جنہیں زندگی کا شعور تھا انھیں بے زری نے بچھا دیا
وہ جو بوجھ تھے سینہ ء خا ک پر وہی بن کے بیٹھے ہیں معتبر
آزاد کشمیر میں غیر ریاستی دخل اندازی پر گفتگو آج کا موضوع نہیں اس لیے کہ
اُس حوالے سے ہماری سب سے زیادہ شکایت کے مستحق محترم راجہ محمد ظفرالحق
ہیں جسے الگ رکھتے ہوئے میں کئی بار سوچتا ہوں کہ اتنے علم وسیع تجربے اور
پختہ نظریاتی شخص کا حکمران جماعت میں مصرف کیا ہے ۔ راجہ ظفرالحق نے مصر
میں بطور پاکستان سفیر اور ملک کے اندر بطور وزیر اطلاعات و نشریات جس نیک
نامی کامیابی اور اہلیت و صلاحیت کا مظاہرہ کیا اُس کے اثرات آج تک موجود
ہیں ۔ میں آج بھی وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ راجہ محمد ظفرالحق موجودہ حکمران
طبقے کے لیے مسئلہ کشمیر ، مذہبی امور، اطلاعات و نشریات اور خارجی امور
میں سے کسی بھی محاذ پر بڑی نیک نامی کا باعث بن سکتے ہیں۔بہرحال
کار خسرواں راہ خویش می دانند
اس سارے موضوع زیر بحث پر گفتگو کا مقصد ملک کو درپیش مسائل کی نشاندہی ،
ماضی کے تجربات کی روشنی میں اصلاح احوال اور ایک مستحکم نظام کے قیام کی
خواہش ہے ۔ روز مرہ اور مستقل مسائل کافی حد تک عوام و خواص کے علم میں ہیں
البتہ اُن کے حل اور علاج کے مسئلے پر نقطہ نظر میں اختلاف موجود ہے ۔ میری
رائے میں بہتر نظام کی عدم موجودگی پالیسیوں میں عدم تسلسل اور اداروں کے
باہمی اعتماد اور تعاون کے فقدان کو دور کر کے ملک و ملت کو استحکام کے
راستے پر ڈالا جا سکتا ہے ۔
سول ملٹری بہتر تعلقات دنیا کے ہر مستحکم نظام حکومت کی بنیاد ہیں۔ ہمارے
ہاں بدقسمتی سے جس طرح ہم قائداعظم کے اولین درس ایمان، اتحاد اور تنظیم کے
اصولوں کو اپنی ذات سے بھی پوری طرح متعارف نہیں کروا سکے جس کے باعث
جماعتوں، گروہوں، طبقات اور ملک کی سطح پر اس فلسفے سے استفادہ نہیں کیا جا
سکا۔ اگرچہ عام آدمی بھی اس سے مستثنیٰ نہیں تا ہم قیادت کے منصب پر فائز
ہر شخص کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے بنیادی عقائد اور نظریات سے وابستہ ہو،
اُن پر ایمان کی حد تک یقین رکھتا ہو اور اُس کی سوچ، فکر ، قول و فعل اور
عمل اُس سے مطابقت رکھتے ہوں جو شخص اپنے پانچ فٹ چھ انچ کی ایک جسمانی
ریاست کو سر سے پاؤں تک متحد اور یکجا نہ کر سکے بلکہ منتشر ہو وہ اپنی
جماعت، قوم و ملک کو کس طرح متحد اور منظم رکھ سکتا ہے۔ تجربات سے ثابت ہے
کہ جمہوری اور دفاعی اداروں کا تال میل اور ملک و ملت کے اہم معاملات میں
سیاسی اور فوجی قیادت کی سوچ اور فکر کا یکجا ہونا بہت بنیادی اہمیت کا
حامل ہے۔ |
|