مجھے سے عارف میاں نے پوچھا کہ
قادر بھائی، یہ’ سینیٹ ‘ کیا ہوتا ہے ، میں نے انھیں جواب دیا ، اس میں سے
ایک ’ ی ‘ نکال دی جائے تو یہی سینٹ (پر فیوم) بن جاتا ہے جس کی ہردو قسم
کی قسم ہر اطراف پھیلتی ہے۔دل جلانے والے عارف کا مختصر تعارف کرادیتا ہوں
کیونکہ گذشتہ کالم میں ان کی سیاسی بصیرت اور عقلمندی سے متعلق تذکرہ
انتہائی اختصار سے لکھا تھا ،عارف بھائی علاقے کی انتہائی عقلمندانہ گفتگو
کے ماہر تسلیم کئے جاتے ہیں لیکن یہ الگ بات ہے کہ ان کی تمام باتوں کو ہنس
کر ٹال دیا جاتا ہے ، تعلیم کا انتہائی شوق ہے اپنی غریبی کی وجہ سے ایک
ایسے ظالم انسان کے ساتھ نوکری پر مجبور ہے ، جو انھیں دن بھر گالیاں دیتا
رہتا ہے ، اس ظالم انسان نے ایک کمپویٹر ہارڈ وئیر کی دکان کھول رکھی ہے ،
گیس سیلنڈر کی بہت بڑی ایجنسی کا مالک ہے ، اور بڑے موٹے کاروبار بھی کیا
کرتا ہے ۔ لیکن نوکریاں صرف اُن مخصوص شخصیات کو دیتا ہے جو اس کی نزدیک
ضیاء الدین ہسپتال کے میرٹ پر پورا اترے ۔
محنت کش جفا کش ،محنتی طالب علم عارف صبح اسکول جاتا ہے ، پولیس چوکی کے
سامنے قائم دکان میں اسکول’ یونیفارم کے نیچے‘ دکان کے استعمال کیلئے کپڑے
پہنے ہوتے ہیں ، کیونکہ اُس کا مالک دکان میں تاخیر سے آنے کو برداشت نہیں
کرتا۔ طالب علم بچارا اپنی غربت اور تعلیمی اخراجات پوری کرنیکے اس کا ہر
ظلم برداشت کرتا ہے کیونکہ ایسے تعلیم کا بہت شوق ہے ، دن رات پڑھنا ، اور
میڈیا سے دور رہ کر صرف اپنے کام پر توجہ دیکر بڑا آدمی بننے کے خواب
دیکھتا ہے ،جس پر اس کا مالک غصے میں ایسے افیمی جیسے القابات سے بھی دیتا
ہے۔ عارف میاں اپنی یونیفارم اتار کر دکان کی چابی جو اپنے ہی ساتھ اسکول
لے جاتا ہے ، اسکول سے آتے ہیں ، دکان بھوکا پیا سا کھول دیتا ہے ، اس کا
مالک خود کو عالم کا شیر سمجھ کر دھاڑتا رہتا ہے ، پیار بھی بہت کرتا ہے
لیکن اس کے پیار میں گالیوں کی امیزش کھوٹ کھوٹ کر بھری ہوتی ہے ، مجھ ے
گلہ کیا کہ اپنے کالم میں میرا ذکر کیوں نہیں کیا تو میں نے کہا عارف میاں
جس کی عمر صرف گیارہ سال ہے اور ملک کے صدر کا نام بھی اس کو معلوم نہیں
اور ایک تم تو ہو کہ لوگوں پر احسان لیکر ، دنیا بھر کے لوگوں پر اُیسے
جتاتے ہو ، پھر یہ ایکسپریس کا کالم ہے تمھارا فرمائشی پروگرام نہیں ہے
عارف سے میں کہا کہ ، بیٹا عارف میاں ان کو ذرا بتا نا تو کہ اس نام نہاد
شیر جو خود عالمی شیر کہتا ہے اس کا ذکر میں نے کالم میں کیوں نہیں کیا تو
کہنے لگا کہ ـ’ انھیں ضیاالدین ہسپتال ‘ سے اپنے دل و دماغ کا علاج کرانا
بہتر ہے کہ اپنے دماغ کا علاج جاری رکھیں اور کچھ علقمند بنیں ۔ اس نام
نہاد عالمی شیر نے پھر دھاڑ لگائی اور چنگاڑ کا کہا دفع ہوجا، دو ہاف چائے
لے آ۔
میں نے ہاف چائے کا سن کر اُسے روک دیا کہ کراچی کے حساس ترین علاقے کا
ہونہارقابل اور تم جیسے کنجوس کیساتھ کام کرنے والا نہم کلاس کا طالب علم
ہے ، اسکول جیسا بھی ہو ، لیکن فائن ہے ، مجھے اس کا جواب دینے د وکہ سینیٹ
ہوتاکیا ہے ،عالمی شیر سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ اور مجھ سے کہا بکو !!۔۔
میں نے کہا کہ میرا بچہ ، دراصل یہ 1970ء کی عبوری قانون ساز اسمبلی کو
1973ء کے آئین کی تشکیل کے بعد 12اپریل کو منظور کیا گیا تھا ۔ عارف میاں
سوال بہت پوچھتے ہیں کہنے لگے کہ کیا آپ اس وقت تھے جس وقت یہ منظور ہوئی ؟
میں نے کہا بخدا اس وقت میں چار سال کا تھا ، اس ایوان کے بنانے میں میرے
کسی خاندان کا کوئی ہاتھ پیر نہیں۔مجبوری یہ ہے کہ پاکستان کے پارلیمانی
نظام کے تحت یہ دو رویہ قانون سازی کہلاتی ہے یعنی ایوان بالا اور ایون
زیریں ، عارف میاں نے کسی برجستہ صحافی کا سوال کرڈالا ، کہ جیسے یہ سیٹھ
کی دکان اور اس پر میرا مکان ، ۔۔ میں بڑے تحمل کا مظاہرہ کرنے پر مجبور
تھا اس لئے سنی کو ان سنی کردی ، جیسے ہمارے سیاست دان کرتے ہیں۔کسی بھی
قانون کی منظوری ایوان بالا سے کرانا ضروری ہے ، اب چاہیے وہ روتے پیٹتے
رہیں کہ وزیر اعظم صاحب نہیں آتے وزرا مملکت نہیں آتے ، اور انکی قانون
سازی کو قومی اسمبلی منظور بھی کرتی ہے یا نہیں ۔ لیگل فریم آرڈر 2002کے
تحت تعداد43سے بڑھا کر پرویز مشرف نے 100کردی ۔ عارف میاں پھر پوچھ بیٹھے ،
قانون سازی میں دشواری ہوتی ہوگی نا ، پورے پاکستان کی آئین سازی کیلئے
تعداد کم اور محنت زیادہ تھی اس لئے ایسا کیا ہوگا ۔ اس بار میں نے ان
مقدماتوں کی سماعتوں کے مدعیان کی درخواستوں کی برسہا برس سے پڑی اپیلوں کی
طرح نظر انداز کر گیا ۔
عارف میاں میری بھی سنی ان سنی کرگئے کہ ملک میں کب سے یہ نظام چل رہا ہے
تو میں نے کہا کہ پاکستان میں کوئی نظام لادین سقہ ہی نہیں جو ایک دن کیلئے
اپنا سکہ چلا سکے ، مختلف دور میں ہر اُس کا سکہ چلا ، جس نے ایسے رائج
الوقت کیا۔بہرحال تم ابھی پاکستان کی قوم کی طرح اتنا شعور نہیں رکھتے،
لیکن اتنا سمجھ لو کہ جس کے ہاتھ میں لاٹھی اس بھینس والا حساب ہے۔ابھی
تو1970ء کی پہلی منتخب ہونے والی قانون سا زاسمبلی نے 1973ء کے متفقہ آئین
کے تحت تشکیل دینے کی دو پارلیمانی نظام حکومت رائج ہے اور اس مجلس شوری ،
جیسے ہم قومی اسمبلی اور سینیٹ کہتے ہیں ، دو ایوان بھی تشکیل دئیے ہیں یہی
دونوں ایوان ، ایوان بالااور ایوان زریں کہلاتے ہیں۔
عارف میاں جیسے ہونہار طالب علم کہاں خاموش رہنے والے تھے ، بول اٹھے کہ
بھائی ! ۔مجلس شوری کے بارے میں تو سُنا تھا کہ طالبان کی ہوتی ہے ، کوئٹہ
میں طالبان کی مجلس شوری کی موجودگی کی اطلاع پر امریکہ نے پاکستان سے ڈرون
حملے کی اجازت جو مانگی تھی ،۔۔ میں نے کہا کہ بھائی ہم اپنی اسمبلیوں کو
اسلامی نام سے نہیں پکار سکتے وہاں ہم پر طالبانائزیشن کا لیبل لگ سکتا ہے
، ویسے بھی داعش کا لیبل لگانے کیلئے کوششیں تو بہت ہو رہی ہیں ، جہاں
سیاسی تنظیم کا نام لکھا ہوتا ہے وہاں داعش کا نام بھی لکھا نظر آجاتا ہے ،
اب پتہ نہیں کہ یہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اس ہینڈ رائینٹگ کی فرازنزک
ٹیسٹ کیوں نہیں کراتے ، خیر۔۔عارف میاں چپ بیٹھنے والے کہاں تھے ، کرسی سے
اٹھ کر مجھے کرسی پر بیٹھا دیا ، میں نے پوچھا کہ بھائی اتنی دیر بعد خیال
کیوں آیا ؟۔ کہنے لگے کہ آپ سیٹ پر بیٹھے اچھے لگتے ہیں ، سینیٹر کیوں نہیں
بن جاتے ؟۔ میں فوراََ سیٹ سے اٹھا اور بولا ، بھائی میرے پاس کسی کرپٹ
اسمبلی رکن کو خریدنے کیلئے تیس کروڑ روپے نہیں ہیں۔عارف میاں بوکھلا کر
بولے یعنی صرف ایک فرد اگر تیس کروڑ دے گا تو کوئی بھی سینیٹر بن سکتا ہے ،
میں نے کہا کہ میڈیا میں یہی آرہا ہے، عارف میاں سوچ میں پڑ گئے اور بولے
کہ اس طرح تو کوئی بھی دولت مند کسی کو کیا پوری پارلیمنٹ کو خرید لے تو
سینیٹ اس کی ذیلی کمپنی بن جائے گی ۔ میں نے کہا چپ ہوجا ، ان کا استحقاق
متاثر ہوجاتا ہے۔ عارف میاں بولے ، بھائی ، یہ کون سے ہمارے ووٹوں سے منتخب
ہو رہے ہیں کہ عوام کی نمائندگی کریں ، عوام تو ان کو جانتی بھی نہیں۔ویسے
بھائی ، یہ اگر سینیٹ ہو ہی نا ، تو قوم کا سرمایہ بچ سکتا ہے ، کیونکہ یہ
آئین سازی کے اختیارات تو رکھتا نہیں ، قومی اسمبلی کی طرح ٹی اے ڈی لیتا
ہے ، اس دن ایک نجی چینل میں بتا رہے تھے کہ ایک سینیٹر کا کہنا تھا کہ اس
کو پنتیس کروڑ کی آفر اس لئے ہوئی کیونکہ اس شخص کو اپنا بلیک کا پیسہ
وائیٹ کرنا ، عوام کا نمائندہ بن کر عزت نام کمانا تھا ۔ وغیرہ وغیرہ۔پرمٹ
اور اربوں روپوں کے فنڈ ملتے ہیں کہاں لگتے ہیں پتہ ہی نہیں چلتا ۔سندھ کے
لوگ خیبر پختونخوا سے ، اور خیبر پختونخوا کے لوگ پنجاب سے سینیٹر بھی
منتخب کروا دیتے ہیں ، پھر میڈیا ان کو بلا کر اپنی ریٹنگ بھی بڑھاتا ہے۔اس
بار میں نے اس ظالم شخص کو کہا کہ یار یہ بعض اراکین اسمبلی اپنا رویہ کر
رہے ہیں آپ ہی کچھ رحم کریں ۔یہاں پر بھی عارف میاں خاموش نہیں رہے اور
بولے کہ بھائی یہ سینیٹ کام کراتا ہے، ۔ اب میں لاجواب ہوگیا تھا کیونکہ یہ
تو مجھے معلوم ہی نہیں تھا کہ سینیٹر کا م کیا کرتا ہے ، ویسے عارف میاں
بولے اگر سینیٹ کا ادارہ ختم ہوجائیں‘گھوڑوں کے کاروبار ہ‘ ہارس ٹر یٹنگ پر
کافی فرق پڑے گا ،،اس با ر گھورنے کی باری میری تھی کہ بچوں کو ارفع کریم
بننے کی کوشش ضرور کرنے چاہیے لیکن ملالہ یوسف زئی کیطرح تربیت وزارت عظمی
کی تیاری سے گریزکرنا چاہیے- |