غیر ریاستی عناصر کے بڑھتے ہوئے
اثر نے پوری انسانیت کا سکون برباد کر کے رکھ دیا ہے ۔آج عالمی امن کو سب
سے زیادہ خطرہ ان غیر ریاستی تنظیموں سے ہی لاحق ہے۔ریاست کے مقابلے میں
ایسی تنظیمیں تیزی کے ساتھ پروان چڑھ رہی ہیں اور ان کی عوامی مقبولیت میں
بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔آخر اس بنیادی وجہ کو تلاش کرنا بھی ضروری ہے کہ
جس کی بدولت دنیا میں حکومت اور ریاست کمزور ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے جبکہ
دوسری طرف سیاست کے مقابلے میں اداہ جاتی سوچ اور غیر ریاستی عناصر مضبوط
ہوتے ہوئے دیکھائی دے رہے ہیں۔گزشتہ صدی کی اختتامی دہائیوں کے دوران مختلف
ممالک کے خفیہ اداروں نے معاملات پر اپنی گرفت مضبوط کرنا شروع کر دی
تھی۔انہوں نے اپنے اپنے ملکوں میں سیاسی اور عوامی قیادتوں کو بے اثر اور
کمزور کرنا شروع کر دیا تھا ۔ان اداروں نے اپنی مرضی سے کھیل ترتیب دینے
شروع کر دیے اور برتری قائم کرنے کے لیے قانونی اور اخلاقی حدوں کو پار
کرنے سے بھی گریز نہ کیا ۔شاہ فیصل،ذولفقار علی بھٹو،ناصر جمال،کرنل
قذافی،صدر صدام اور پھر حسنی مبارک گزشتہ صدی کے مقبول رہنماء تھے یہ افراد
جتنا عرصہ منظر پر رہے ایجنسیوں کا عالمی سیاست میں کردار محدود تھا مگر
ایک منظم طریقے کے ساتھ ان شخصیات کو عالمی منظر نامے سے الگ کر دیا گیا
اور مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں اداہ جاتی تسلط مضبوطی کے ساتھ قائم
ہوتا چلا گیا جبکہ دوسری جانب امریکہ اور یورپ میں ان اداروں نے بڑے منظم
اور غیر محسوس انداز میں وہاں کے حکمرانوں کو نظام کے اندر رہتے ہوے اپنے
زیر اثر کر لیا ۔جب ریاست اور عوام کے درمیان تعلق کمزور ہونا شروع ہو جائے
تو وہاں ایجنسیاں مضبوط اور پر اثر ہونا شروع ہو جاتی ہیں ۔خصوصاًایشیا میں
ریاست اور حکومت عوام کی توقعات پر پورا نہیں اتریں جس کی بدولت یہاں کے
عوام نے اپنی اپنی حکومتوں کے خلاف تحریکوں کا آغاز کیا اور وہ کمزور ہونا
شروع ہو گئیں ۔دوسری طرف یورپ اور امریکہ میں انہی چیزوں کو اپنے مقصد کے
لیے استعمال کیا اور وہاں اپنا تسلط قائم کیا ۔ادھر کے حکمران سوک ایشوز
اور ویلفیر سوسائٹی کے قیام میں الجھے رہے اور عالمی سیاست سے دور ہوتے چلے
گئے وہ مقامی اور عالمی معاملات کو چلانے میں توازن برقرار رکھنے میں ناکام
رہے اور یوں وہاں بھی ادارہ جاتی تسلط قائم ہو گیا۔یہاں ایک بات اہم ہے کہ
گزشتہ صدی میں افغان وار کے ساتھ ساتھ ایک طویل پراکسی وار بھی لڑی گئی مگر
اس کا اختتام ایک مضبوط خفیہ ایجنسی KGBکے کمزور اور بے اثر ہونے پر ہی
ہوا۔گویا یہ بات بڑے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ عالمی اور علاقائی امن
کو سب سے زیادہ نقصان ان ایجنسیوں نے ہی پہنچایا ہے۔ادارے اپنے مقاصد اور
عزائم کی تکمیل کے لیے غیر ریاستی گروہ قائم کرتے ہیں کیونکہ ان کے مقاصد
حکومت اور ریاست سے بالا بالا ہوتے ہیں لہذا وہ قوت اور طاقت کا حصول انہیں
غیر ریاستی گروپس سے حاصل کرتے ہیں ان گروہوں کو بنانے اور مضبوط کرنے میں
انہیں اداروں کا کسی نہ کسی شکل میں ہاتھ ہوتا ہے۔طالبان ،القائدہ،بوکوحرام
اورداعش جیسی تنظیمیں کسی نہ کسی طرح انہیں اداروں کی مرضی سے ہی معرض
ِوجود میں آسکتی ہیں ۔ شام میں بشار الاسد کو حکومت سے الگ کرنے کے لیے
امریکہ نے غیر ریاستی عناصر کو سہارا لیا اور شامی حکومت کو ختم کرنے کے
لیے وہاں موجود باغیوں کی بھر پور مدد کی۔ 2012کے اپنے صدارتی انتخابات کے
دوران ایک مباحثے میں اوباما نے کہا تھا کہ وہ بشارالاسد کو کسی صور ت شام
کا صدر نہیں رہنے دیں گے ان کے دن گنے جا چکے ہیں اور وہ جلد ہی اقتدار سے
محروم ہو جائیں گے۔بقول ان کے شام ایران کے ساتھ مل کر حزب اﷲ کی مدد کرتا
ہے اور حزب اﷲ امریکی دوست اسرائیل کے وجود کے لیے خطرہ بنا ہوا ہے۔کوئی
بھی ملک کسی دوسرے ملک کی حکومت کو کسی بھی عالمی قانون کے تحت ختم نہیں کر
سکتا ہے مگر وہ ان غیر ریاستی گروہوں کی مدد لیتا ہے یہی گروپس اب عرب،مشرق
وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں امن کے دشمن بنے ہوئے ہیں ۔اس ضمن میں سعودی
بادشاہ سلیمان نے ایک معقول تجویز دی ہے کہ تمام اسلامی ممالک دہشت گردی پر
قابو پانے کے لیے ایک کمیٹی قائم کریں جو حکومتوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں
ہو اور قیادتیں خود براہ راست تسلسل کے ساتھ ان مسائل سے نبرد آزما ہونے کی
کوشش شروع کریں ۔اس سے حکومتوں کے درمیان تعاون مضبوط ہو گا اور ایجنسیوں
اور ان گروہوں کے درمیان رابطوں پر کاری ضرب بھی لگ سکے گی۔جب تک حکومتیں
ان اداروں کے اثر سے نہیں نکلیں گی اس وقت تک یہ دنیا غیر ریاستی اور ادارہ
جاتی تسلط کے زیر اثر بد امنی کا شکار رہے گی۔ |