جدید علوم اور ہم

ایک وقت تھا جب انسان پتھر کے زمانے میں رھنے کا عادی تھا آہستہ آہستہ انسان ترقی کی منازل کو طے کرنے لگا- وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ انسانی ضروریات بھی بدلنے لگیں . طرز زندگی میں جوں جوں تبدیلی آتی گئی انسان کی جستجو اور تحقیق میں اضافہ ھوتا گیا. مدرسے بننے لگے سڑکوں کے ذریعے قافلوں کی آمد و رفت کو آسان بنا دیا گیا . مختلف اشیاء کی تجارت کے لیے لوگ تگ و دو کرنے لگے . رھن سہن لین دین اور ریاستوں کے لیے قوانین وضع کیے جانے لگے انسانی سوچ میں وسعت پیدا ھونے کے ساتھ انسان کا لالچ بھی بڑھتا گیا انسان قبیلوں سے گاؤں پھر گاؤں سے شہروں اور آخر کار ملکوں اور قوموں میں تقسیم ھوتے گئے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے اور دوسروں پر اپنی برتری قائم رکھنے کے لیے انسان نے زندگی کی ھر سطح پر محاز کھول لیے- اور ضرورت ایجاد کی ماں ھے اس لیے اس ماں نے اپنی اولاد کے لیے دن رات ایک کر کے انسان کے لیے نئے جہانوں کے دروازے کھول دیئے- عرفان صدیقی صاحب لکھتے ھیں کہ یہ جو اک وہم مجھے دشت کی تسخیر کا ہے سب تماشا مری وسعت زنجیر کا ہے لاؤ ، یہ راکھ ہی خرمن کا اٹھا لوں کہ سوال میرے حاصل کا نہیں ہے ، مری تدبیر کا ہے- اسلام کے ظہور کے بعد انسانی زندگی میں ایک بہت بڑا مثبت موڑ آیا – اللہ تعالی نے بنی نوع انسان کےلیے علم و حکمت کے در وا کر دیئے- محسن انسانیت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اللہ کا کلام جو دونوں جہانوں کے لیے نسخہ کیمیاء ھے ھمارے سینوں میں محفوظ کر دیا- جس کی بنیاد پر ابو نصر الفرابی ، ابن سینا ، ابن بطوطہ ، الخورزمی ، عمر خیام ، ابو بکر الرازی ، جابر بن حیان ، ابن الھیثم اور ابن خلدون جیسی شخصیات نے وہ کار ھائے نمایاں سر انجام دیئے کہ انسانی عقل آج بھی محو تماشہ ھے- مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم علم سے دور ھوتے گئے اور زوال ھمارا مقدر بنتا گیا- جو علوم بم مسلمانوں کی میراث تھے وہ اغیار کے ھاتھوں میں جا پہنچے – جس کے زریعے مسلم ممالک کے علاوہ ساری دنیا نے بھر پور فائدہ اٹھایا اور آج ھم ان کے سامنے دس بستہ کھڑے ھیں ّّشاعر مشرق نے کیا خوب فرمایا ھے کہ حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شئے تھی نہیں دنیا کے آئین مسلم سے کوئی چارہ مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آباء کی جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ھوتا ھے سیپارہ اگر ھم دوسری دنیا سے پیچھے رہ گئے تو وقت کا دھارا ھم کو کچل کر آگے گزر جائے گا – اس مشکل کا ایک ہی حل ھے اور وہ ھے تعلیم – پاکستان کے نا مساعد حالات اور دوسرے ممالک سے شرح خواندگی کے کم (بھارت ٧١ اور پاکستان ٦٠) ھونے کے باوجود بھی پاکستان دنیا کے زہین ترین ممالک میں سے چوتھے نمبر پر ہے – نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں پر ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ھے ساقی جس قوم میں عرفہ کریم رندھاوا ، عیان قریشی ، بابر اقبال ، فرخ بھا بھا اور رائے حارث جیسے لوگ پیدا ھوتے ھیں وہ قوم کبھی پیچھے نہیں رہ سکتی – ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ارباب اختیار اپنی عیاشیاں چھوڑ کر عوام کو دیگر بنیادی ضروریات اور جدید تعلیم تک رسائی فراہم کریں آج تجارت سمٹ کر ای کامرس بن چکی ھے – تلوار کی جگہ اٹماک انرجی نے لے لی ہے- سواری کے لیے سپر سانک ، لڑنے کے لیے ایف ١٦ ، کمپیوٹر کو جیب میں منتقل کر دیا گیا ھے ، مشینری اور ربوٹ دنوں کا کام گھنٹوں میں ختم کر رھے ھیں – انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے سیٹلایئٹ ، جی پی ایس ، اور انٹرنیٹ کی سہولت سے بھر پور فائدہ اٹھایا جا رھا ھے- ایسے وقت میں ہم کو اشد ضرورت ہے کہ اپنے آپ کو علم جدید سے آراستہ و پیراستہ کر کے ملک و ملت کا نام روشن کریں- عصر حاضر میں اس گم شدہ میراث کو ڈھونڈنے کے لیے چین جانے کی بھی ضرورت نہی ہے دنیا ایک گلوبل ویلج بن کر آپ کی انگلی کے ایک ٹچ میں سمٹ چکی ہے – اگر ہم جدید علوم سے لیس ہو کر اس مقابلے میں شامل نہ ھوئے تو ایک ناقابل بیاں نقصان ہمارا مقدر بن جائے گا – آج ہیکرز کسی بھی جگہ پر بیٹھ کر کسی بھی ملک کے سارے ادارے اپنے کنٹرول میں لے سکتے ھیں کسی ملک کو تنہا کرنے کے لیے پرنٹ میڈیا الیکڑانک میڈیا اور شوشل میڈیا ایک ہتھیار کے طور پر استعمال ھو رھے ھیں– سائبر کرائم کو سامنے رکھتے ھوئے آج ترقی یافتہ ممالک نے ان مشکلات سے نمٹنے کے لیے خصوصی ادارے قائم کر دیئے ھیں آج کسی بھی انسان کے بارے میں والدین رشتہ دار اور دوست حتی کہ انسان خود اپنی عادات اور نفسیات کے بارے میں اتنا نہیں جانتا جتنا کمپیوٹر جانتا ھے ًمگر ہم ان تمام چیزوں کو دیکھتے ھوئے بھی وہ اقدام نہی کر رہے جن کی ضرورت ھے – اورجو کاؤش ھم کرتے ھیں اس میں اتنی زیادہ خامیاں رہ جاتی ھیں کہ ملک پر ایک بد نما داغ بن کر رہ جاتا ھے – کمپیوٹرازڈ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ جیسے ادارے بھی ناکامی کی راہ پر گامزن ھیں – ان اداروں کی کم علمی کی وجہ سے سارا ریکارڈ دوسرے ممالک میں دستیاب ھے – اور ان کے عاقبت نا اندیش ملازمین چند روپوں کی خاطر بنگلہ ،دیش نیپال ، تاجکستان اور افغانستان کے باشندوں کو شہریت اور سفری دستاویزات جاری کر کے بیرون ملک پاکستان اور گرین پاسپورٹ کی عزت کو نست و نابود کرنے میں اپنا اھم کردار ادا کر رھے ھیں ھمارا تعلق تو اس سلسلے سے ھے جس کو پہلا حکم اقراء کا دیا گیا تھا – مگر ھم نے اس حکم کو پس پشت ڈال دیا – مگر معاملات زندگی اس اھم فریضے پر عمل کیے بغیر احسن طریقے سے سر انجام دینا نا ممکن ھو چکا ھے آیئے اپنے آپ سے عہد کیجیئے کہ آنے والے وقت میں دوسرے علوم کے ساتھ ساتھ جدید علوم سے بہرہ ور ھو کر ٹیکنالوجی کے میدان میں ملک و ملت کو اقوام عالم کے سامنے مضبوط بنانے میں اپنا کردار ادا کریں گے-

Shauket Hayat Gondal
About the Author: Shauket Hayat Gondal Read More Articles by Shauket Hayat Gondal: 6 Articles with 19083 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.