لومڑ ٹریڈنگ

سینیٹ ایک ایساادارہ ہے جس میں وفاقی اکائیوں کو برابر کی سطح پر نمائندگی دی کر وفاق کو مضبوط کیا گیاہے‘جبکہ اسکے برعکس قومی اسمبلی کی نشستیں آبادی کے تناسب سے صوبوں میں تقسیم کی گئی ہیں۔
1973سکے آئین کے آرٹیکل 59کے تحت سینیٹ کے الیکشن آج وقوع پذیر ہونگے۔سینیٹ کے ارکان کی مدت چھ سال ہے ‘جبکہ آدھے ممبران ہر 3سال بعد ریٹائرڈ ہوجاتے ہیں۔آئین کے مطابق جس صوبے سے سینیٹ کی ممبر شپ کیلئے درخواست دی جارہی ہے‘امیدوارکو وہاں کا رہائشی ہوناضروری ہے۔اسوقت سینیٹ کی 52نشستوں کیلئے 144امیدواران میدانِ عمل میں ہیں جبکہ 40کہ کاغذات مسترد ہوگئے ہیں۔سندھ اور پنجاب سے گیارہ ‘گیارہ ‘بلوچستان اورخبرپختونخواہ سے بارہ ‘بارہ ‘فاٹا سے چار اوراسلام آباد سے دوارکان کاانتخاب ہوناہے۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم بیماری کوجڑ سے ختم کرنے کے بجائے فقط اپنی راہ کے کانٹے شاخوں سے کاٹتے ہوئے نکل جاتے ہیں اور آنے والی نسلوں کو پھر خاردارراہوں کاسامناکرناپڑتاہے۔اسوقت سینیٹ کی نشست کیلئے صوبائی اسمبلی کے ممبروں کی قیمت لگنے کی بازگشت پورے ملک میں سنائی دے رہی ہے۔ اس کا آغاز 1989میں ہوا تھا جب پی پی پی اورن لیگ نے زورآزمائی کی تھی ۔کپتان نے کہا کہ بولی دوکروڑ ہے ۔بلوچستان میں ایک ممبر کی بولی سترہ کروڑ کے قریب اورفاٹا میں اسکی قیمت بیس کروڑ سے تجاوز کرگئی ہے۔ہوناتویہ چاہیئے کہ پہلے نیب ان ممبران اسمبلی کو بلا کر قیمت کی آفرکرنے والے پر کیس چلائیں اوربعدمیں الیکشن ہومگریہاں گنگاالٹی بہتی ہے۔فاٹاکے ممبران کی بولی اسلیئے زیادہ لگتی ہے کیونکہ وہاں سے سینیٹربننے کیلئے محض تین ایم پی ایز کے ووٹ درکارہوتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ فاٹا میں کل 43امیدواران نے کاغذات جمع کروائے ‘جس میں سے بیس منظورہوئے۔

سینیٹر بننے کیلئے ووٹ کی خریدوفروخت کے ذمہ داران سیاسی جماعتوں کے سرپرست ہیں۔ان کیلئے ہارس ٹریڈنگ اورکھوتاٹریڈنگ کی اصطلاح ہماری دانست میں غلط ہے۔یہ کام لومڑی کامذکرلومڑ ہی کرسکتاہے ‘اور اسکو یہ ٹیرننگ لومڑی یعنی اسکی سیاسی جماعت ہی دیتی ہے۔یہ کوئی پریشان کن صورتحال نہیں بلکہ ہمارے معاشرے کی عکاسی ہے۔جنرل الیکشن میں ہمارے سیاستدان وننگ امیدوار‘پیسہ والا‘سرمایہ داراورچالاک وچتر قسم کا شخص تلاش کرکے اُسے ٹکٹ سے نوازتے ہیں۔امیدوار کوٹکٹ الاٹ کرتے ہوئے انکی نظر صرف الیکشن جیتنے پر ہوتی ہے اوراسطرح کئی اخلاقی برائیوں والے اشخاص بھی اسمبلیوں کی زینت بنتے ہیں اورپھر مختلف ذرائع سے اپنے الیکشن کا خرچ نکالتے ہیں ‘جس کا ایک انداز سینیٹ الیکشن بھی ہے۔اگر جنرل الیکشن میں سیاسی جماعتیں اہل وایماندارافرادکوپارٹی ٹکٹ جاری کریں تونہ صرف ملک کوفائدہ پہنچے گابلکہ انہیں اس لومٹرٹریڈنگ جیس آفت سے بھی واسطہ نہیں پڑے گا۔تصویرکادوسرارُخ ہم خود ہیں ۔جس سوراخ سے ہمیں ڈساجاتاہے ‘وہیں ہم فلسفہ کربلاء بھول کر سجدہ ریز ہوجاتے ہیں اوراپنی عملی زندگی میں ہر یزید کاساتھ دیتے ہیں۔

اسوقت ’’لومڑٹریڈنگ‘‘کا سب سے زیادہ خطرہ فاٹا‘خیبرپختونخواہ اوربلوچستان اسمبلی میں ہے۔خیبرپختونخواہ کے ممبرانِ اسمبلی نے ہم خیال گروپ اس لیئے تشکیل دیاہے کہ ان کے مطابق پی ٹی آئی نے اپنے ورکرز کو پس پشت ڈال کرباہرکے افرادکونوازاہے۔بلوچستان اسمبلی کے ممبران میاں صاحب کی دریادلی اورپاکستان کے مفاد میں کیئے گئے اس فیصلے سے نالاں ہیں کہ انھوں نے اکثریت ہوتے ہوئے بھی قوم پرستوں کی جماعت کوکیوں وزیراعلی کی نشست عنایت کی۔سب اپنے اپنے غصے کااظہارکررہے ہیں۔’’لومڑی ٹریڈنگ‘‘کاسدِ باب کرنے کے مختلف ذرائع ہیں۔حکمران جماعت اورپی ٹی آئی نے اسکاحل شوآف ہینڈ اوربیلٹ پیپر پر ووٹ دینے والے کا نام درج کرنے کوقراردیا۔حکومت چاہتی ہے کہ آئین کے آرٹیکل 226میں 22ترمیم کی جائے ۔اس مقصد کیلئے اے پی سی بلائی گئی جسے پی پی پی اورجے یوآئی ایف نے مستردکردیا۔خورشید شاہ کہتے ہیں کہ جنرل الیکشن کی طرح سینیٹ کے الیکشن بھی براہِ راست ہوں ‘موزوں بھی یہی ہے۔کم ازکم نئے انتخابی وعدے تو عوام کو ملیں گے ناں۔اس کا ایک اور طریقہ ء کار یہ بھی ہو سکتاہے کہ پارٹی جب ٹکٹ جاری کرتے تو اس میں اسکے متعلقہ صوبے سے تمام صوبائی ممبروں کی رضامندی لازمی قراردی جائے۔ویسے تو پارٹی الیکشن میں بھی انکی رضامندی کا ڈھونگ رچایاجاتاہے جوکہ حقیقت سے کوسوں دورہے۔اس عمل کو شفاف بنانے کیلئے یہ طریقہ ء کاراپنایاجاسکتاہے کہ پہلے سیاسی جماعت ٹکٹ جاری کرنے کیلئے اپنے تمام ممبروں سے ان کی رضامندی حاصل کرے اورپھر ان کی رضامندی جانچنے کیلئے ایک غیرجانبدارکمیٹی یا پھر الیکشن کمیشن آف پاکستان متعلقہ جماعت کے ممبروں کی سینیٹ الیکشن ٹکٹس کے بارے خفیہ رائے شماری کرائے کہ آیاوہ اپنی جماعت کی جانب سے دیئے گئے سینیٹ کے ٹکٹس پر رضامندہیں کہ نہیں اسطرح دودھ کا دودھ اورپانی کاپانی ہوجائے گا۔اس رائے شماری کا تناسب نوے فیصد سے اوپررکھاجائے۔اس طرح صوبائی اسمبلی کے ممبرز پر سیاسی جماعتوں کی دھونس بھی ختم ہوجائے گی اورغیرسیاسی افرادکاسینیٹ میں داخلہ بھی تقریبامسدودہوجائیگا۔

خیبرپختونخواہ میں سینیٹر بننے کیلئے 14ووٹ ‘بلوچستان میں دس ووٹ‘پنجاب میں بیالیس جبکہ سندھ میں 15ووٹ درکارہوں گے۔سندھ کی 124نشستوں میں سے پی پی پی کی 91‘ایم کیوایم کی 51‘پی اایم ایل ایف کی 11‘پی ایم ایل این کی 9نشستیں ہیں۔پنجاب کی کل 371نشستوں میں پی پی پی کی 8‘پی ٹی آئی کی 30‘پی ایم ایل کیو8‘اپی ایم ایل کی 312نشستیں ہیں۔خیبرپختونخواہ میں پی ٹی آئی کی 56‘پی پی پی کی 6‘پی ایم ایل این کی 14‘جے یوآئی ایف17‘جے آئی کی 8 اورقومی وطن پارٹی کی دس نشستیں ہیں۔بلوچستان میں پی ایم ایل این 22‘پختونخواہ ملی عوامی پارٹی 14‘این پی 10‘جے یو آئی 8‘پی ایم ایل کیو چار اوربلوچستان نیشنل پارٹی کی دونشستیں ہیں۔

اگر ووٹ کی طاقت کے تناسب سے دیکھاجائے تو ایک اندازے کے مطابق پی ایم ایل این سینیٹ میں 16‘پی ٹی آئی 5‘پی پی پی 9اورایم کیوایم اپنے تین سینیٹرز بھیجے گی۔ جبکہ زمینی حقائق کے برعکس سیاسی جماعتوں نے اپنی قوت سے زیادہ امیدوارکھڑے کرکے ’’لومڑٹریڈنگ‘‘کی زمینی حقیقت کا اعتراف کیاہے۔صرف خیبر پختونخواہ میں جہاں پی پی پی کی محض چھ نشستیں ہیں وہاں اسکے پانچ امیدوار کھڑے ہیں ۔ جمعیت علماء اسلام جہاں اپنے ووٹرز کی بنیادپر ایک سیٹ جیت سکتی ہے وہاں اسکے دوامیدوار ہیں ۔اسی طرح ق لیگ جس کے پنجاب میں صرف آٹھ ایم پے ہیں ‘شنیدہے وہ بھی ایک نشست پنجاب سے نکالنے کیلئے زورآزمائی کرسکتی ہے۔حالانکہ وہاں وہ ایک نشست جیتنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتی ۔جبکہ پی پی پی کاموء قف ہے کہ امیدواراسلیئے کھڑے کیئے ہیں تاکہ ہمارے ایم پی اے کا ووٹ ضائع نہ ہو اوردوسری جانب سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے چانس بھی باقی ہیں لیکن دوسری جماعتیں اس وجہ سے پریشان دکھائی دیتی ہیں اوراسے ’’لومڑٹریڈنگ ‘‘کے زمرے میں شامل کرتی ہیں۔پی پی پی کے شریک چیئرمین اورحالیہ سیاست کی چالوں کے بے تاج بادشاہ صدرآصف علی زرداری کے بارے اطلاعات ہیں کہ وہ سینیٹ کی چیئرمین شپ کے خواہش مند ہیں ۔اگریہ نہ ملی تو ڈپٹی چیئرمین کاعہدہ تووہ اپنے دامن میں سمیٹنے کی پرزورکوشش کریں گے۔شنید ہے کہ انھوں نے حکمران جماعت سے قومی اسمبلی میں مفاہمت کے بالمقابل سینیٹ میں اتحادکرکے متفقہ چیئرمین اورڈپٹی چیئرمین کا لائحہ عمل بھی پیش کیا ہے۔اب دیکھتے ہیں کہ وہ سیاست کی یہ بازی کس اندازمیں کھیلتے ہیں۔جسے جیتناانہیں خوب آتاہے وگرنہ رلائیں گے توضرور۔

سینیٹ الیکشن کیلئے مختلف تجاویز ہیں ۔ براہِ راست ‘اوپن بیلیٹنگ‘شوآف ہینڈ جبکہ ہم اپنے تئیں براہِ راست انتخاب کوبہترجانتے ہیں یا پھر سیاسی جماعتیں طے کرلیں کے جس اُمیدوارنے جنرل الیکشن میں بیس یا پچیس فیصدووٹ حاصل کیئے ہوں ‘وہی سینیٹ کا الیکشن لڑ سکتاہے یعنی کوئی بھی مناسب‘ تناسب مقررکردیں۔اس طرح غیر سیاسی افرادکاسینیٹ میں داخلہ بھی روکاجاسکے گااورامیدواراپنے حلقے یاعلاقے میں جب جنرل الیکشن میں اپنی الیکشن مہم چلائیں گے توعوام کوان سے شناسائی ہوگی‘امیدوارکوعلاقے کے مسائل کاپتاچلے گااس طرح وہ سینیٹ میں اپنے علاقے کے مسائل اجاگرکرکے انکے حل کی خاطر آوازبھی بلندکرسکے گا۔جب جنرل الیکشن میں ہماری جماعتیں ہرطرح کے میرٹ کو اپنے پاؤں تلے روندتی ہیں ‘پارٹی فنڈ اورچندہ کی مدمیں رشوت لیتی ہیں توپھر سینیٹ کاالیکشن کیسے شفاف ہوسکتاہے۔آج ہونے والے الیکشن میں بھی ایسی سیاسی جماعتیں ہیں جنھوں نے ایسے اُمیدواربھی کھڑے کیئے ہیں جن کا متعلقہ صوبے سے تعلق نہیں ہے متلا اسلام آبادمیں مسلم لیگ ن کا امیدوار اوردوسری جانب پی ٹی آئی میں نئی شامل ہونے والی شخصیت ۔اس طرح وہ نوازنے کی پالیسی پرعمل کرکے خودہی جمہوریت نامی شہ کی تذلیل کرتے ہوئے پائی گئی ہیں۔مگر یہ بھی خوش آئندبات ہے کہ جس طرح بھی ہوا‘سینیٹ میں شفافیت کیلئے آوازتواُٹھی ۔کچھ حلقے اسی آوازہی کو متنازعہ قراردے رہے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی اورن لیگ اپنی جماعتوں میں اپنا اثرورسوخ قائم رکھنے کیلئے ایساکررہی ہیں ‘اگرانھیں شفافیت سے سروکارتھاتوپھر اکادکاغیرمعیاری لوگوں کو کیوں ٹکٹ فراہم کیئے۔ایسی رائے رکھنے والے حلقے استدلال پیش کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی ملک کے مفادمیں پاس ہونے والی اکیسویں ترمیم کو منظورکرنے کیلئے تو اسمبلیوں میں اس لیئے نہیں آئی کہ اس سے انکے اصولی مو ء قف کو زک پہنچتی تھی جبکہ اب بائیسویں آئینی ترمیم سے اسکے سیاسی حقوق کامفاد ممکن ہے تووہ اسمبلیوں میں آنے کیلئے تیارہے۔لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ کسی بھی طرح چلو انہوں نے اسمبلی کی حیثیت اوراہمیت تو تسلیم کرہی لی ناں۔

سائیڈ سٹوریز:
1973کے آئین میں سینیٹ کی کل نشستوں کی تعداد 45 تھی۔جسے 1977 میں بڑھاکر63پھر 1985میں 87اور2002کے پرویز مشرف دورمیں اسے 100کردیاگیا۔بعدمیں پی پی پی کے دورِ حکومت میں اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے اس میں چاراقلیتی نشستیں شامل کی گئیں جوکہ ایک خوش آئند قدم تھا۔یہ اقدام 2010ایکٹ کے کلاز xمیں درج ہے۔

ہارس ٹریڈنگ جمہوریت کیلئے کینسر ہے۔اپوزیشن لیڈر پی پی پی خورشیدشاہ۔
ہارس ٹریڈنگ سیاسی دہشت گردی ہے ۔امیرجماعت اسلامی سراج الحق۔
 

image
sami ullah khan
About the Author: sami ullah khan Read More Articles by sami ullah khan: 155 Articles with 188520 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.