یمن سول وار کی جانب گامزن

یمن مغربی ایشیا میں واقع مشرق وسطیٰ کا ایک اہم مسلم ملک ہے۔ اس کے شمال اور مشرق میں سعودی عرب اور عمان، جنوب میں بحیرہ عرب اور مغرب میں بحیرہ احمر واقع ہے۔ یمن ا سٹریٹجک لحاظ سے بے حد اہم ہے کیوں کہ ایران اور خلیجی عرب ممالک سے مغرب کی جانب جانے والے تیل کے تمام جہازبحیرہ عرب سے ہی گزرتے ہیں۔یمن کا دارالحکومت صنعا ہے۔یہاں کی قومی زبان عربی ہے۔آج کے یمن کی آبادی 20 ملین سے زائدنفوس پرمشتمل ہے ۔ جس میں سے 60 فی صد آبادی سنی مسلمانوں کی ہے ۔مشرق وسطیٰ میں یمن عربوں کی اصل سر زمین ہے۔آغازاسلام میں یمن نے اسلام قبول کر کے اولین اہل ایمان کوتقویت دی ۔قدیم دور میں، یمن تجارت کا ایک اہم مرکز مانا جاتا تھااور مصالحوں کی تجارت کے لیے مشہور تھا۔ قرآن کریم میں بھی یمن کا تذکرہ تجارتی مرکز کے طور پر کیا گیا ہے ۔ سورہ القریش میں’’ رحل الشتاوالصیف‘‘ کا ذکر ہے۔ یعنی موسم گرما اور سرما میں جانے والے تجارتی قافلے جو سردیوں میں جنوب یعنی یمن جاتے تھے اور گرمیوں میں شمال یعنی شام کی جانب روانہ ہوتے تھے۔ کوئی زیادہ عرصہ نہیں گزراکہ یمن عود بخود اور لوبان کی ایکسپورٹ کے لیے مشہور تھا۔ اسلام کی روشنی پھیل جانے کے بعد یمن کاشہرحضر موت کا شہر تجارت کا بڑا مرکز بنا اور اسی علاقہ کے تاجروں کی بدولت دین حنیف انڈونیشیا اور ملائشیا تک پہنچا ۔عام تصور یہ ہے کہ عربوں کا اصل وطن یمن ہی ہے۔ زمانہ قدیم میں جب مآرب کا ڈیم ٹوٹا تو ملک کے کئی حصے زیر آب آگئے۔ کئی قبائل نے شمال کی طرف ہجرت کی اور آج یہ سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک میں بستے ہیں۔ قرآن کریم میں سدمآرب کا ذکر ہے۔ بعض مورخین کے مطابق حضرت سلیمان کا تعلق بھی یمن سے تھا اور سبا کی ملکہ بلقیس بھی اسی ملک میں مقتدر رہیں۔ حالیہ دنوں میں یہ یمن خانہ جنگی کا شکار ہے ۔2011 میں تیونس سے شروع ہونے والی عرب بہاریہ کی جو لہر یمن میں پہچی تھی وہ تبدیلی اقتدار کے بعد بھی سرد نہیں پڑی ہے ۔ ملک میں بڑھتی ہوئی خانہ جنگی اس کی تباہی اور سول وار کا اشارہ دے رہی ہے۔

2011 میں مصراورتیونس کی طرح مصر میں بھی بڑے بڑے مظاہرے ہوئے اور صدر علی عبداﷲ صالح نے اقتدارچھوڑ کر سعودی عرب میں جاکر پناہ لی۔ یمن کے اس سیاسی بحران کا حل اقوام متحدہ اور خلیجی ممالک کی کوشش سے یہ نکالا گیا کہ صدر اقتدار سے علیحدگی کا اعلان کریں اور نائب صدر’’ عبد ربہ ہادی منصور‘‘ ملک کی باگ و ڈور سنبھال لیں۔ لیکن اب منصور ہادی کا اقتدار بھی خطرے میں آچکا ہے ۔ حوثی باغی 21 ستمبر 2014 سے ملک کے کئی حصوں پر قابض ہیں اور ان مقامات پر اپنی نام نہاد حکومت بھی قائم کررکھی ہے ۔ حوثیوں نے یمن پرحکومت کرنے کے لئے ایک نیشنل کونسل بنائی ہے جس کے ممبران کی تعداد 551 افراد پر مشتمل ہے۔نیشنل کونسل کے چیئرمین محمد علی الحوثی کو عبوری مرحلے کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔ حوثی باغیوں کا ایک اہم فرد ہونے کے ساتھ ساتھ محمد علی عبدالکریم الحوثی کو قبیلے کے سربراہ عبدالملک الحوثی کے مقربین میں شمار کیا جاتا ہے۔ حوثی باغیوں کی کونسل نے بہت سے اہم حکومتی عہدیداروں، وزیروں اور بیوروکریٹس کو برطرف کرنے کے ساتھ کئی حکومتی عہدیداروں، وزیروں اور بیوروکریٹس کے خلاف اپنی قائم کردہ نام نہاد عدالتوں میں بدعنوانی کا مقدمہ بھی دائر کردیا ہے۔ حوثی باغیوں کی انتقامی کارروائیوں کو دیکھتے ہوئے یمن کے بہت سے لوگ ترک وطن کررہے ہیں ۔

حوثیوں نے گذشتہ ماہ صدارتی محل پر بھی قبضہ کر لیا تھا اور صدر عبد ربہ منصور ہادی کو ان کی قیام گاہ پر محصور کردیا جس کے بعد انھوں نے 22جنوری کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا لیکن پارلیمان نے ان کا استعفیٰ منظور نہیں کیا ۔گذشتہ دنوں ایک ماہ تک نظربند رہنے کے بعد حوثی باغیوں سے بچ کر اچانک صنعا سے جنوبی شہر عدن میں پہنچ گئے ہیں ۔اب اطلاع یہ ہے کہ انھوں نے اپنا استعفیٰ واپس لینے کا اعلان کردیا ہے اور عدن میں دوبارہ صدارتی فرائض سنبھال لیے ہیں۔دوسر ی طرف حوثی تحریک نے صدر منصور ہادی کے صنعا سے فرار کے بعد اپنے پہلے ردعمل میں کہا ہے کہ ''اعلیٰ انقلابی کمیٹی ہادی کی جانب سے مشتبہ اقدامات کی نگرانی کررہی ہے،وہ جمہوریہ یمن کے صدر کے طور پر قانونی جواز کھو بیٹھے ہیں اور ان کے بزدلانہ اقدامات سے یمنی عوام کو نقصان پہنچا ہے''۔

یمن کے ان موجود ہ باغیوں کا تعلق شیعوں کے ایک فرقہ زیدی سے ہے ۔عرف عام میں انہیں حوثی بھی کہا جاتا ہے ۔ یہ نام ان کے روحانی لیڈر بدرالدین الحوثی سے ماخوذ ہے۔ آج کل ان کے بیٹے عبدالملک الحوثی اہم لیڈر ہیں۔

مشرق وسطی کے حالات پر نظررکھنے والے تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ یمن میں حوثیوں کی تعداد 33فیصد سے لے کر 40فیصد تک ہے جبکہ سنیوں کی یمن میں آبادی ساٹھ فیصدہے۔ یمن کے اکثر دیہی علاقوں میں عام طور پر اور جنوب میں خاص طور پر موجودہ صورت حال سے لوگ انتہائی پریشان ہیں۔ صنعا کے شہر اور گردونواح پر عبدالملک الحوثی کا کنٹرول ہے ۔سفارتی سظح پر حوثیوں کو سابق صدر، اس کے بیٹے اور ایران کی حمایت حاصل ہے۔ امریکی وزیر خارجہ نے بھی صاف لفظوں میں کہاہے کہ یمن میں جاری سیاسی بحران کے پیچھے ایران کا ہاتھ ہے جہاں ایران کے تعاون سے حوثیوں نے ایک منتخب کے خلاف بغاوت کی ہے ۔ یمن کی موجودہ صورتحال سے مسلم دنیا پریشان ہے۔ حوثی باغیوں کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ سنی فرقہ کے لوگ بھی بغاوت کریں گے۔ وہاں کی سب سے بڑی اسلامی پارٹی ’’الاصلاح ‘‘خاموش نہیں بیٹھے گی نتیجتا عراق جیسے حالات یہاں بھی پیدا ہوں گے اور سول وار کی صورت میں یہ مکمل طورپرتباہ ہوجائے گا۔ یمن کا پہاڑی علاقہ جہاں ہر شخص بندوق بردار ہے، خون سے رنگین ہوجائے گا۔
Shams Tabrez Qasmi
About the Author: Shams Tabrez Qasmi Read More Articles by Shams Tabrez Qasmi: 214 Articles with 180738 views Islamic Scholar, Journalist, Author, Columnist & Analyzer
Editor at INS Urdu News Agency.
President SEA.
Voice President Peace council of India
.. View More