ایک عشرے کے تعطل کے بعد پاک ترک
تعلقات میں بہتری آرہی ہے اور یہ صحیح سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔دونوں ممالک
مضبوط روایتی اسلامی رشتوں تہذیبی و ثقافتی بندھنوں میں بندھے ہوئے ہیں۔پاک
ترک قیادتوں کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ تمام شعبوں میں تعاون کو فروغ
دیا جائے اس لیے دونوں ملک گہرے قریبی دوست رہے ہیں اور ایک دوسرے کے دکھ
درد میں شریک ہوتے رہے ہیں۔ان کی کثیر الطرفی دوستی بھائی چارے کے اسی جذبے
کی عکاسی ہے جو صدیوں پرانے جنوبی ایشیا کے مسلمانوں اور سلطنت عثمانیہ کے
مابین پائی جاتی تھی۔اس لیے دونوں ملکوں کی دوستی کی جڑ یں بہت گہری ہیں
بعد ازاں جب ترک جمہوریہ بنا تو اس دوستی میں مزید استحکام آیا ہر چند کہ
دونوں ملک نظریاتی طور پر الگ الگ پول میں چلے گئے تھے۔ترکی نے سیکولرازم
کو اپنایا جب کہ پاکستان اسلامی نظریے سے وابستہ رہا لیکن نظریات کا یہ
اختلاف ان کے باہمی دوستانہ رشتوں کو کمزور نہ کرسکا اس لیے برادرانہ
تعلقات کی سطحیں بلند سے بلند تر ہوتی گئیں گزشتہ چند سالوں میں پاکستان
اور ترکی کے احساسات میں کئی اہم مسائل پر یکسانیت پائی جاتی ہے۔ماضی میں
دوطرفہ تعلقات میں اکتوبر1999میں اس وقت تیزی آئی جب دونوں ملکوں کے
سربراہوں نے ایک دوسرے کے ملکوں کے دورے کرنا شروع کیے ۔پاکستانی صدر نے
نومبر1999میں ترکی کا دورہ کیا جس کا مقصد ترک قیادت کو پاکستان میں رونما
ہونے والی سیاسی تبدیلیوں سے آگاہ کرنا اور دوطرفہ تعلقات کو بڑھانا تھا۔اس
وقت سے اب تک کئی ایک اعلیٰ سطحی دورے ہوچکے ہیں ۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان
دوروں میں مختلف علاقائی و بین الاقوامی مسائل پر دونوں ملکوں کے نقطہ نظر
میں یکسانیت پائی گئی دونوں ملکوں نے روڈ ٹرانسپورٹ،منشیات کی سمگلنگ کی
روک تھام کے بارے میں مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کیے۔علاوہ ازیں انسداد
دہشت گردی و عالمی جرائم صحت و بنکاری کے شعبوں میں بہتری لیے کئی کئی ایم
او یوزپر دستخط ہوئے۔بالخصوص انسداد دہشت گردی کے سمجھوتے کے تحت ترکی اور
پاکستان نے دہشت گردی سے متعلق ماہرین اور انٹیلی جنس کا تبادلہ کیا اور
مشترکہ حکمت عملی اپنانے کو مطمع نظر بنایا،جن سے تعلقات میں گرمجوشی آئی
یہ تعلقات اس وقت سرد مہری کا شکار ہوگئے تھے جب پاکستان نے افغان طالبان
کی حکومت کی حمایت کی تھی اس کے بعد پاکستان کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور
اس نے ترک کے وہ تمام خدشات دور کر دیے جو اس کے ذہن میں پیدا ہو چکے تھے
اور جوں تعلقات کو ایک نئی جہت ملی۔
ترک وزیراعظم کا حالیہ دورہ دونوں ملکوں کے مابین دوطرفہ تعلقات کو مزید
بڑھانے کی جانب ایک واضح اشارہ ہے پاکستانی وزیراعظم اور آرمی چیف ترک
وزیراعظم سے ملے ہیں اور ان سے دوطرفہ اہمیت کے حامل مسائل پر بات چیت کی
ہے۔ یہ دورہ اس لحاظ سے منفرد اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں دونوں ملکوں نے
باہمی مفاہمت کی 11یادداشتوں پر دستخط کیے ہیں جن کی تعداد اب تک 51ہوچکی
ہے۔اس ضمن میں علاقائی اہمیت کے معاملات کو اہمیت دی گئی ہے کیونکہ یہ
معاملات پاکستان اور ترکی پر بہت زیادہ اثرانداز ہوتے ہیں۔اس مقصد کے لیے
پر امن افغانستان دونوں ملکوں کی ترجیح رہی ہے۔ترک وزیراعظم نے بھارت کے
ساتھ اچھے ہمسایوں جیسے تعلقات کی پاکستان کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے اس
ضمن میں ہر ممکن تعاون فراہم کرنے کی پیش کش کی ہے۔علاقائی سلامتی او
ردونوں ملکوں کے مابین دفاعی تعاون سے متعلق امور پر تبادلہ خیالات کرتے
ہوئے ترک وزیراعظم نے انسداد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی
کامیابیوں کو سراہا ہے۔اس ضمن میں پاکستان نے جو مثبت کردار ادا کیا ہے وہ
کوئی راز نہیں ہے بلکہ کئی ملکوں نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے جس سے پاکستان
کی بہت حوصلہ افزائی ہوئی ہے ۔دونوں ملکوں نے بات چیت کے دوران سلامتی
،دفاع اور انسداد دہشت گردی میں تعاون کو بھی موضوع بحث بنایا اور ایک
دوسرے کی مدد کا اعادہ کیا جہاں تک انسداد دہشت گردی کا معاملہ ہے تو اس پر
دونوں ممالک کی افواج ایک پیج پر ہیں اور ان کے نقطہ نظر میں مکمل یکسانیت
پائی جاتی ہے ،دونوں ملک طویل عرصے سے ماہرین کے تبادلے بھی کرتے ہیں جس سے
ان کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوا ہے۔اس سے قبل پاک ترک فوجی مشاورتی گروپ
دونوں ملکوں کے مابین فوجی ٹرنینگ اور دفاعی پیداوار کے شعبوں میں تعاون
بڑھانے اور تجربات کے تبادلوں پر کام کرچکا ہے اور علاقے کے جغرافیائی
سیاسی ماحول کا جائزہ لے چکا ہے۔تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو دونوں
ملکوں میں دفاعی تعاون دونوں کے لیے مفید اور علاقے میں امن کا ضامن ہے ۔اس
لیے انہوں نے دفاعی تعاون میں فنی تجربات اور اس سلسلے میں ہونے والی پیش
رفت،ہتھیاروں و گولہ بارود کی پیداوار پر معلومات کے تبادلوں کو بہت زیادہ
اہمیت دی ہے۔
اسلام فوبیا تیزی سے ابھرنے والا تصور ہے جس پر پیرس حملے کے تناظر میں بات
چیت کی گئی ہے اس دہشت گردی کی ایک مختلف قسم قرار دیا گیا ہے جو مگرب کے
رویے کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے جس نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو اپنی لپیٹ میں
لے لیا ہے اور اسے امن کے لیے مہلک قرار دیا جارہا ہے۔مسلمان ملکوں میں یہ
احساس پیدا ہورہا ہے کہ اس خطرے کے تدارک کے لیے مشترکہ حکمت عملی اپنانے
کی ضرورت ہے ورنہ یہ مسلمانوں کے مفادات لے لیے مہلک ثابت ہوسکتی ہے۔ترک
وزیر اعظم ڈیووتوغلے نے آپریشن ضرب عضب کے باعث بے گھر ہونے والے شمالی
وزیرستان کے آئی ڈی پیز کے لیے 20 ملین ڈالر امداد کا اعلان کیا ہے۔ترکی کے
عوام نے ترکی کے ساتھ تعاون کی پاکستان کی کوششوں کا ہمیشہ احترام کیا اور
اسے سراہا ہے۔اس حقیقت کے باوجود کہ دونوں ملک جغرافیائی طور پر بٹے ہوئے
ہیں لیکن دونوں ملکوں کے عوام کے دلوں کے مابین فاصلے کم ہورہے ہیں اور ان
کو مزید کم کرنے کی ضرورت ہے جو صرف باہم مل جل کر کام کرنے سے کم ہوں
گے۔اس مقصد کے لیے پی آئی اے اور ترک ائرلائنز ایک دوسرے کے ملکوں میں
پروازیں چلائیں گی اور بہتر مواصلاتی رابطوں کے لیے ریلوے نیٹ ورک کو بھی
بڑھایا جائے گا۔جس سے نہ صرف دوستانہ تعلقات کو فروغ ملے گا بلکہ یہ دونوں
ملکوں کے عوام اور سیر و سیاحت کی صنعت کے لیے بھی مفید ہوں گے۔ |