کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں؟
(Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui, Karachi)
سب ہی مانتے ہیں کہ اسلام اَمن و
سلامتی کا دین ہے ، اسلام صرف اپنے ماننے والوں کے لئے نہیں بلکہ دنیا بھر
کے لوگوں کے لئے امن اور سلامتی کا علمبردار ہے بلکہ یوں کہنا بے جا نہ
ہوگا کہ اسلام پوری انسانیت کی فلاح و بہبود کا طلبگار ہے۔اسلام کی رحمت تو
اس کائنات کے ہر چرند، پرند، اور ہر چیز کے لئے عام ہے۔ انسان تو انسان
رہے، جانوروں کے حقوق کا درس بھی ہمیں اسلام میں ہی ملتا ہے۔آج بھی اور جب
بھی آپ کا دل چاہے تاریخ کے دریچوں کو جھانک کر دیکھ لیں کہ سیدنا محمد
رسولِ کریم ﷺ کے اسوۂ حسنہ کو پیش نظر رکھ کر سلطنتوں کو استحکام بخشنے
والے ایسے ایسے رول ماڈل گزرے ہیں جن پر تاریخ کو آج بھی ناز ہے اور اُمت
کو فخر۔
سیدنا حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے پاس جب کبھی عامل کے ظلم کی شکایت
ملتی یا بیت المال میں خیانت کی تو اس کو بر طرف کر دیتے اور وہاں دوسرا
عادل حاکم بھیج دیتے، آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کر عرض کرتے: ’’ آپ خوب جانتے
ہیں اے اﷲ! یقینا میں نے ان کو رعایا پر ظلم کرنے اور بیت المال میں غصب یا
نقصان کرنے کا حکم نہیں دیا تھا۔ اس لئے مجھے معاف فرما دینا۔‘‘
مگر آج کل کی روایات بہت مختلف نظر آتے ہیں۔ غصے سے پھٹ پڑنا، جذبات میں
بہہ جانا اور پھر اِدھر اُدھر منھ مارنا، یہ تمام عوامل اسلام اور مسلمانوں
کے نہ صرف خلافِ فطرت ہیں بلکہ اس کی روح کو بھی سلب کر لینے والے ہیں۔ فہم
و فراست، بصارت و بصیرت جو کبھی قومِ مسلم کی شان و پہچان اور اُمتِ وسط
ہونے کی دلیل تھی، اور جس کی شاہراہ ہدایت زمین و آسمان تک وسیع تھی، جس کی
ایک نگاہی سے بدل جاتی تھیں قوموں کی تقدیریں، یہ میراث یہ متاع کہاں کھو
گئی۔ جس کی قوتِ ایمانی سے لرز جاتے تھے حریفوں کے دام و دَر، جس کی ہئیت
سے کانپ اٹھتے تھے دشمنوں کے کلیجے، یہ حقیقتیں یہ سچائیاں کس کھوہ میں کھو
گئی ہیں۔ یہ اب بتانے کی ضرورت نہیں بلکہ ہم اور آپ سبھی واقف ہیں کہ ہم نے
دینار و درہم اور مال و دولت کے عوض وہ بیش قیمت تاج اپنے سروں سے اُتار
پھینکا ہے جس کی بدولت ہم دوسروں سے ممتاز و سرفراز تھے۔ ظاہر ہے جب کسی
قوم کا سب کچھ لُٹ جائے تو اسے غصہ بھی آئے گا، جذبات کے سمندر میں بہنے
بھی لگے گی، اندھوں کی طرح اِدھر اُدھر ہاتھ پاؤں مارنے پر مجبور ہوگی۔ جب
اس طرح کی صورتحال کسی قوم کی ہو جاتی ہے تو دوسری قومیں اسے محکوم بنا
لیتی ہیں اور محکوم قوموں کا مزاج اسی طرح بدل جاتا ہے جس طرح آج قوم مسلم
کا بدل گیاہے۔نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاک کا شغر اُمت مسلمہ کا مزاج
گواہ بھی ہے اور اپنی حالت پرماتم کناں بھی ہے۔ برصغیر کے حالات سے توآپ
واقف ہی ہیں، گو کہ دنیا کا کوئی بھی خطہ ایسا نہیں ہے جہاں مسلمانوں کے
حالات اپنے ماضی کے حالات کا منھ نہ چڑا رہے ہوں۔جبکہ ہمیں سیرتِ نبوی ﷺ کی
مبارک روشنی میں یہ پیغام ملتا ہے کہ:
بچھڑے ہوئے دلوں کو ملاؤ تو بات ہے
اُجڑے ہوئے گھروں کو بساؤ تو بات ہے
ہنستے ہوؤں سے ہنسنا ہنسانا کمال ہے
لیکن جو رو رہے ہیں انہیں ہنساؤ تو بات ہے
ہے زندگی وہی جو ہو اوروں کے واسطے
دُکھ درد دوسروں کا بٹاؤ تو بات ہے
آج جگہ جگہ مصنوعی تنازعے کھڑے کر دیئے گئے ہیں، پولیس اور انتظامیہ میں
تعصب کا زہر گھولا گیا، وقتی اور جذباتی مسائل میں مسلمانوں کو الجھایا
گیا۔ ان میں قیادت کا بحران پیدا کیاگیابلکہ یوں کہیئے کہ مسلمانوں میں
مخلص قیادت کوپیدا ہی نہیں ہونے دیااور اس پر الزام یہ کہ مسلمان جذباتی
ہیں، سنجیدہ کوئی کام ہی نہیں کرتے۔بے شک مسلمانوں کے کچھ فیصلے جذباتی تھے
جس کے نتیجے میں وہ آج تک ایک باعزت قوم یا گروہ کے طورپر اُبھر نہ سکے اور
نتیجہ ابھی تک بھگت رہے ہیں ۔بہرحال مسلمانوں کے لئے آزمائش کوئی چیز نہیں
، ان کی ساری تاریخ ہی آزمائشوں سے بھری پڑھی ہے۔ اسلامی تاریخ نے تو وہ
منظر بھی دیکھاہے جب دجلہ و فرات خون سے سرخ ہو گئے تھے۔ صبر و تحمل، حکمت
و دانائی، فہم و فراست جس قوم کی میراث ہو اسے کوئی بھی کیسے فنا کر سکتا
ہے۔ وقت پڑا ہے، وقت کاکام گزرنا ہے گزر ہی جائے گا۔
اس وقت ملک کی سیاست نئی کروٹ لے رہی ہے جس کے نتیجے میں سیکولر کردار کی
نئی تصویر عام آدمی کے روپ میں اُبھر سکتی ہے، بشرطیہ کوئی ٹھوس حکمتِ عملی
اور مثبت لائحہ عمل سامنے ہو۔ ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہماری قیادت
کا عمل زیادہ تر جذباتی رہا۔ جذباتی مسائل میں خود بھی الجھتی رہی ہے اور
ملت کو بھی اب تک الجھائے رکھا۔اب جذباتی آندھیاں چلانے اور طوفانوں کے
جھکڑ چلانے کا نہیں رہا۔ اب تک بہت سے طوفان مسلمانوں کے سروں سے گزر چکے
ہیں۔ قیادت کا نام ہے تبدیلی کے حقیقت پسندانہ خواب کا۔ صحیح قیادت وہی ہے
جو موجود کو بدلنے کا خواب بھی دکھائے اور حوصلہ بھی پیدا کرے اور بدقسمتی
یہ ہے کہ ملت کی سرگرمیوں میں آج کل جذبات آگے آگے نظر آتے ہیں اور ہماری
قیادت پیچھے پیچھے کا کردار پیش کر تی رہتی ہے بلکہ اس وقت کی صحافت و
دانشوری کاکام بھی زیادہ تر صرف عوامی جذبات کی ترجمانی تک ہی محدود ہوکر
رہ گیا ہے۔شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ:
تمناؤں میں الجھایا گیا ہوں
کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں
میرا خیال ہے کہ ایک سچا مسلمان ہی اچھا انسان ہوتا ہے۔ ہم مسلمان تو ہیں
مگر اچھے انسان نہیں۔پوری دنیا میں ایک ارب سے زائد مسلمان ہونگے مگر وہ
ایک قوم نہیں بن سکے۔ مسلمان قوم تفرقوں ، نسلوں ، ذاتوں، مذہبی گروپوں میں
گھرے ہوئے ہیں۔ یورپ میں بھی بہت ملک ہیں مگر لگتا ہے کہ وہ ایک ملک ہے ہم
اتنے زیادہ مسلمان ہیں مگر اپنے لئے اپنے اﷲ کے لئے کچھ نہیں کر سکے۔پوری
دنیا میں کوئی ذلیل و خوار ہو رہا ہے تو وہ مسلمان ہی نظر آتا ہے۔پہلے
مسلمان ایک قوم تھے انہیں ایک ملک کی تلاش تھی، اب ان کے پاس ملک ہے مگر
قوم کی تلاش ہے ۔
بہر صورت اس وقت جو بھی ہے، جیسی بھی ہے قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ
مسلمانوں کے اندر سنجیدہ مزاج پیدا کرے، عوام کو جذبات کے سمندر میں بہنے
نہ دے بلکہ ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ سوچنے اور کام کرنے کی صلاحیت پیدار
کرے، اسی میں قوم کی بھی اور قیادت کی بھی بھلائی مضمر ہے۔اب یاد رکھیں کہ
جو لوگ نوشتۂ دیوار پڑھنے سے انکار کر دیتے ہیں تو انہیں وقت اسی طرح
ٹھوکریں مار مار کربے حس اور بے جان بنا دیتاہے جس طرح آج قوم مسلم ہے۔اب
بھی وقت ہے کہ مسلمانوں کے سوچنے سمجھنے والے لوگ نوشتۂ دیوار پڑھنے کی
کوشش کریں گے اور مسلمانوں کو مسلمان ہونے والی مسلسل سزاؤں سے نجات دلانے
کی کوئی دور رس حکمتِ عملی تیار کریں اور یہ بھی یاد رکھیں کہ آج جو کچھ کر
رہے ہیں کل اس کا گِن گِن کر حساب بھی دینا ہے اﷲ کے دربار میں۔ |
|