شاغلی ہیبڈو ( چارلی ایبڈو) پر
فرانس میں حملے میں بارہ افراد کی ہلاکت سے مغرب کو زبردست دھچکا پہنچا ۔سلامتی
سے متعلق خدشات اور خطرات کو ہر جگہ محسوس کیا جانے لگا ، ایسا تاثر دیا
جارہا ہے کہ شاغلی ہیبڈو کے اسلام دشمن کارٹونسٹ ہی نہیں مغرب کے سیاست دان
اور امن و سلامتی کے تمام دعویدار ،ذمہ دار افسران وسوسوں کے امراض میں
مبتلا ہوگئے ہیں ، اب وہا ں مرد و خواتین کی زندگی بھی نجی نہیں رہی ہے ۔
مغرب میں تمام اکائیوں کو جیسے ایک جیسی آزادی نہیں اس کے باوجود شاغلی
ہیبڈو جیسے جرائد کو یہ آزادی دی گئی ہے کہ وہ پیغمبر اسلام ؐ کے نازیبا
خاکوں کیلئے تمام حدیں پار کرجائیں جبکہ مذہبی رہنماؤں نے بھی ان گستاخانہ
خاکوں سے مکمل اظہار یکجہتی کیلئے (je suis charlie) میں شاغلی ہوں کے نعرے
لگائے لیکن انہوں نے کسی کو je suis palitineکے نعرے نہیں لگانے دئے ۔
11جنوری کو پیرس مارچ میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن ہاہو کی شرکت پر غصہ کا
اظہار کرتے ہوئے مشرقی بریڈ فورڈ سے تعلق رکھنے والے برطانوی رکن پارلیمنٹ
ڈیوڈ واڈ نے (paletine suis je )میں فلسطین ہوں کا پیام بھیجا تو ہر طرف سے
مذمت کی گئی ۔ لندن میں اسرائیلی سفیر نے ہی نہیں بلکہ اسلام مخالف برطانوی
میڈیا اور سیاستدانوں نے بھی کھل کر اس کی مخالفت کی ۔ ڈیوڈ واڈ ن برطانوی
پالیان کے وہ واحد رکن ہیں جنہوں نے اعلان کیا کہ ً اگر میں غزہ میں ہوتا
تو اسرائیل پر راکٹ داغتا-
یہ ایک حقیقت ہے کہ جن لوگوں نے میں شاغلی ہوں کے نعرے لگائے دراصل انہوں
نے اس نعرے کی آڑ میں اپنے دل کی آواز میڈیا کے ذریعہ دنیا تک پہنچانے کی
کوشش کی ۔ انہوں نے واضح کیا کہ مرنے والے کارٹونسٹ کی طرح وہ بھی نعوذ
بااﷲ نبی آخرالزماں ؐ کا تمسخر اڑاکر خوشی محسوس کرتے ہیں ۔ ان زہر آلودہ
اور گستاخانہ خاکوں کو اسلام اور اس کی عظیم شخصیات کیخلاف نظریاتی جنگ
کیلئے استعمال کیا گیا ۔ ایک مسلمان کسی بھی طرح شاغلی ہیبڈو کی حمایت نہیں
کرسکتا مسلمان تو زندگی کی ہر ہر سانس میں نبی ؐ کا فرمان برداراور تابع
ہوتا ہے اور وہ اپنی جان سے زیادہ اپنے رب کے محبوب ؐ کو چاہتاہے کیونکہ یہ
اس کی ایزدی کا تقاضہ ہے ۔ نبی ؐ کا مذاق اڑانا دین اسلام کی تعلیمات کے
مذاق اڑانے کے مترادف ہے جو دنیا کے لوگوں کی فلاح کیلئے اتاری گئیں ۔
یہ حقیقت اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ذرائع ابلاغ رائے سازی ، ذہن سازی
اور رجحان سازی میں سب سے زیادہ اور موثر کررہا ہے ۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی
ہے کہ حکومتی پالیسی ساز بھی ذرائع ابلاغ کی رائے اور افکار کو کلیدی کردار
دینے کیلئے مجبور ہیں ۔ امریکا و مغربی ممالک کے شہریوں کی مجبوری ہے کہ وہ
میڈیا کی فراہم کردہ اطلاعات کو درست تسلیم اس لئے کرتے ہیں کیونکہ ان ک
پاس شاید کوئی اور متبادل ذریعہ ہی موجود نہیں ۔ عام تاثر ہے کہ مغربی
میڈیا آزاد ہے حالانکہ حقائق و حالات نے ثابت کردیا ہے کہ یہ مکمل طور پر
آزادانہ میڈیا کا کردار اداکرنے سے قاصر ہے اس کی بنیادی وجہ میڈیا کی
ڈوریاں بھی بعض نادیدہ قوتوں اور غیر مرئی ایجنسیوں کے ہاتھوں میں ہیں جو
جہاں چاہیں اور جب چاہیں متحرک اور غیر متحرک کردیتی ہیں یعنی یہ کہنا غلط
نہ ہوگا کہ مغرب کے معصوم شہری اپنے ہی میڈیا کے ہاتھوں یرغمال بن چکے ہیں
جبکہ عالم اسلام کے مقتدر اس زندہ حقیقت کو فراموش کرچکے ہیں کہ عالمی سطح
پر ان کی پسپائی اور ہزیمت کی بڑی وجہ ان کے پاس ایک آزاد ، خود مختار اور
موثر سیٹیلائٹ میڈیا کا نہ ہونا ہے ۔ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ موجودہ دور
انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی کا دور ہے لہٰذا دنیا بھر میں یہ طے کرلیا گیا ہے
کہ اب دنیا میں جنگیں صرف اسلحہ ہی کافی نہیں رہا جب تک کسی ملک میں ایک
موثر اور کارگر میڈیا کا ہتھیار نہ ہو۔ اس ضمن میں عالم اسلام کے متمول
ممالک کی بے حسی اور غفلت و لا پرواہی ایک لمحہ فکریہ سے کم نہیں جن کے پاس
قدرتی وسائل ،ذرائع کی فروانی اور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ طغیانی ہے لیکن
پھر بھی ایک بڑے میڈیا چینل کا قیام ان کیلئے ناممکن بن گیا ہے ۔ جس طرح
دنیا بھر میں اسلام کا تشخص مجروح کیا جارہا ہے اور مسلمانوں کو دنیا بھر
میں دہشت گرد اور انتہا پسند قرار دے کر انہیں رسوائے زمانہ کرتے ہوئے عرصہ
حیات تنگ کیا جارہا ہے اس کیلئے ضروری ہوگیا ہے کہ عالم اسلام کو ابلاغیاتی
سطح پر ناقابل تسخیر بنایا جائے اور ان متمول اور صاحب ثروت ممالک کو یہ
بات ہمیشہ مد نظر رکھنی چاہئے کہ مغربی میڈیا بالخصوص امریکا کے ذرایع
ابلاغ جو اپنے شہریوں کے ذہن و قلب کو مخصوص پروپیگنڈے کے حصار میں قید
کرسکتے ہیں تو بعید نہیں کہ وہ عالم اسلام کے اذہان اور قلوب پر شب خون نہ
مارسکیں ۔ وقت آگیا ہے کہ تمام متمول اور صاحب ثروت ممالک کے ارباب اقتدار
اور صاحب اختیار خوب غفلت سے بیدار ہوں اور امت مسلمہ کو اغیار پروپیگنڈے
کے تسلط سے رہائی دلوائیں ۔ جب تک میڈیا کے محاذ پر امریکا و مغرب کے تسلط
کا توڑ نہیں کیا جاتا عالمی رائے عامہ اجارہ داروں کے منفی پروپیگنڈے کے
جادو کے اثر میں رہے گی ۔ عالم اسلام کا بڑا مسئلہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ
اس کے پیروکار وں کے پاس مصدقہ حقائق تک رسائی کیلئے کوئی موثر ، بااعتماد
اور غیر جانبدار ذریعہ بھی نہیں ہے ۔ لہٰذا ایک موثر اور غیر جانبدار ادارے
کا قیام نہ ہونا مغرب کے گمراہ کن تصورات اوور نظریات کی دھند کا اسیر رہنا
ان کی مجبوری بن گئی ہے ۔ |