نثر نگاران دربھنگہ :ڈاکٹر منصور خوشتر کے جدید ذہن کا امتیاز
(Mansoor Khushter, India)
زیر نظر کتاب ’’نثر نگاران
دربھنگہ‘‘ عزیز دوست ڈاکٹر منصور خوشتر نے ترتیب دے کر شائع کی ہے۔ یہ ان
کی دوسری ترتیب ہے اس سے قبل ’’لمعات طرزی ‘‘ کے نام سے ایک اور کمپائلڈ
ورک شائع ہوچکی ہے۔ اس کتاب کے فورا بعدبھی ایک اور ترتیب ’’ماجرا دی
اسٹوری‘‘ کے نام سے منظر عام پر آکر داد وتحسین حاصل کر رہی ہے۔ان کے علاوہ
۴۔۳ کتابیں مزید زیر ترتیب ہیں جو جلد ہی طباعت سے آراستہ ہوکر لوگوں کے
باصرہ نواز ہوں گی۔ اس مشینی عہد میں ڈاکٹر منصور خوشتر کا ذہن بھی اسی
تیزی سے چلتا ہے جو مشینی عہد کا خاصہ ہوتا ہے ۔وہ بیک وقت کئی امور کو
انجام دے رہے ہیں۔ المنصور ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ کے زیر اہتمام ادبی
و ثقافتی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تو اپنے زیر ادارت شائع ہونے والے مجلہ
دربھنگہ ٹائمس کی نگرانی بھی کر رہے ہیں۔ قومی تنظیم کے دربھنگہ زون کی
خبروں کو جمع کرنا اور اسے قارئین تک پہنچانا تو ان کا اوڑھنا بچھونا ہے تو
تجارت کی سنت بھی ادا کر رہے ہیں۔ شاعری میں بھی اپنی جگہ محفوظ کرانے کے
سفر پر گامزن ہیں تو کتابوں کی ترتیب وتالیف بھی ناقابل فراموش خدمات ہیں۔
ڈاکٹر منصور خوشتر کی اچھی اچھی کتابیں اس تواتر اور تیزی سے شائع ہورہی
ہیں کہ اس مدت میں کسی کے اچھے مقالے اورمضامین بھی شائع نہیں ہوتے ہیں۔ یہ
ان کے جدید ذہن کا امتیاز ہے کہ وہ اس تیزی سے علمی وادبی معرکے سر کر رہے
ہیں اگر یہی رفتار باقی رہی تو ادبی دنیا کے سکندروں میں یقینا ان کا شمار
ہوگا۔
جیسا کہ نام سے ظاہر ہے اس کتاب میں دربھنگہ کے نثر نگاروں کا جائزہ لیا
گیا ہے۔ دربھنگہ شمالی ہندوستان کا آخری حصہ ہے اور خود ریاست بہار میں
بالکل الگ تھلک رہا ہے اس کے باوجود ہر عہد میں دربھنگہ نے ثقافتی اور علمی
امتیاز پیدا کیا ہے۔ عہد اسلامی سے ہی دربھنگہ میں اردو زبان کے ماہرین کی
ایک جماعت ہمیشہ دربھنگہ، بہار اور بہار سے نکل ملک کے دوسرے خطوں میں علم
وادب کا چراغ جلاتی رہی ہے۔ اس احساس کو کتاب کے مصنف ڈاکٹر عبد المنان
طرزی نے ایک طویل نظم کا پیکردیتے ہوئے دربھنگہ کے نثر نگاروں کا جائزہ لیا
ہے۔ یہ پوری ایک ہی طویل نظم ہے جس میں دربھنگہ سے سے تعلق رکھنے والے نثر
نگاروں کو جگہ دی گئی ہے۔ بعض پر ایک دو اشعار ہیں تو بعض کو ۳۔۲ اشعار میں
بیان کیا ہے اور بعض کے لیے ۵۔۴ اشعار بھی کہے گئے ہیں۔ حالانکہ شعروں کی
کثرت وقلت مشمولہ فرد کے بڑے یا چھوٹے ہونے کی بنیاد پر نہیں بلاکہ نظم کے
تسلسل کے لحاظ سے ہے بعض بڑے فنکاروں پر ایک ہی شعر ہے تو بعض نئے فنکاروں
پر کئی کئی اشعار ہیں۔حالانکہ جن فنکاروں کو ایک یا دو اشعار میں بیان کیا
گیا ہے وہ شعر بھی اپنی مثال آپ ہیں۔مثال کے لیے عبد القیوم ساقی کے لیے
کہا گیا یہ شعر دیکھا جاسکتا ہے۔
خوب ہے ساقی گری بھی ڈاکٹر قیوم کی
رند کو دیں لب بہ لب، اپنے لئے ساغر تہی
اگر اس میں میں ڈاکٹر قیوم کی صراحت کو مبہم کردیا جائے یہ غزل کا اچھا شعر
ہوجائے گا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پوری نظم مربوط تھی اور ایک تسلسل کے
ساتھ نثر نگاروں کو بیان کیا گیا تھا لیکن مرتب ڈاکٹر منصور خوشتر نے کتاب
ترتیب دیتے وقت ہر نثر نگار کے بیان سے قبل اس کا نام بھی واضح کردیا ہے ۔
حالانکہ اس سے دوران قرأت متن کی ترسیل کی میں رکاوٹ کااحساس پیدا ہوتا ہے
لیکن اس وضاحت سے مشمولہ فن کاروں کی تلاش آسان ہوجاتی ہے۔
نثر نگاران دربھنگہ میں دربھنگہ سے تعلق رکھنے والے مختلف علوم وفون سے
وابستہ ۱۰۲؍ شخصیتوں اور فنکاروں کی جگہ دی گئی ہے۔ فن کاروں کی ترتیب حروف
تہجی کے اعتبار سے رکھی گئی ہے۔اس کتاب میں شامل فنکاروں کی فہرست پر اہل
نظر کو کچھ اعتراض ہوسکتا ہے لیکن مصنف یا مرتب نے اس کے مکمل ہونے کا دعوی
نہیں کیا ہے۔ گہری نظر سے دیکھنے پر یقینی طور پر چند نام چھوٹ جانے کا
احساس ضرور ہوتا ہے لیکن اسے بشری سہو پر محمول کیا جانا چاہئے کہ کیونکہ
مصنف نے اپنی دوسری کتابوں میں ایسے چھوٹے ہوئے لوگوں کو بھی بلا تفریق
وامتیاز جگہ دی ہے۔ تو چند ناموں کو ان کی موجودہ سرگرمیوں کے دیکھتے ہوئے
سنہرے مستقبل کی امید کے ساتھ جگہ دی گئی ہے جن میں مبصر بھی شامل ہے۔
مرتب نے کتاب کے شروع میں ’’کچھ اس کتاب کے بارے میں‘‘ کے عنوان سے پیش لفظ
تحریر کرتے ہوئے اس کتاب کی اشاعت کے اغراض ومقاصد کو بیان کیا ہے اور
اختصار کے ساتھ دربھنگہ میں نثر نگاری کی روایت پر روشنی ڈالی ہے۔ انہوں نے
اجودھیا پرساد بہار کی ’’ریاض ترہت‘‘ کو دربھنگہ کی سب سے پہلی باضابطہ
مطبوعہ نثر قرار دیا ہے جو پہلے بھی تحقیق سے ثابت شدہ تاریخ ہے۔ اس کا سال
طباعت ۱۸۶۸ ء بتایا گیا ہے ۔ اس اعتبار سے دربھنگہ میں نثر نگاری کی شروعات
کو ۱۴۷؍ سال ہوتے ہیں۔ اس کے بعد بہاری لال فطرت کے ’’آئینہ ترہت‘‘، فتاوی
عالم گیری کے مدونوں میں ملا ابو الحسن، عہد عالمگیری کے شیخ احمد بن شیخ
ابو سعید معروف بہ ملا جیون کی تفسیر احمدی اور نور الانوار، مولانا ہدایت
اﷲ کی تصنیف شرح مسلم اور حاشیہ رسالہ میر زاہد، منیر الدین حسین برق کی
منیر الفرائض، منیر الفتاوی اور فوائد رضویہ، مولوی عبد الاحد کی المعراج،
حافظ ظہور احمد کی التضحیہ، فرمان علی طبیب کی تفسیر قرآن پاک، دینیات،
کتاب الصرف، کتاب النحو اور الولی، مولانا عبد العزیز محدث رحیم آبادی کی
سواء الطریق اور حسن البیان، شاہ سمرقندی کی صبغۃ الواسلین، مصباح العارفین،
بحر التوحید اور تبصرۃ الاعمی فی التفرقۃ بین الضاد و الظاء، مولانا بہرام
شاہ آہ کے حاشیہ حمد اﷲ، عبد الرحمن وصال کی سیرت رسول، مرشد حسن کامل کی
مخزن التفہیم، اصول کامل، معالجات کامل اور رحمت کامل وغیرہ قدما اور ان کی
کتابوں کا ذکر برائے ذکر موجود ہے۔ پیش لفظ میں مرتب نے متاخرین میں تقریبا
۹۵؍ شخصیتوں کا نام اور ان کی کتابوں کی تعداد نام کی صراحت کے بغیر ذکر
کیا ہے۔ قدما اور متاخرین کے اس ذکر سے نثر نگاری کے میدان میں دربھنگہ کی
ثروت سامنے آتی ہے۔
یہ کتاب دبستان بہار کی تاریخ میں ایک اضافہ سمجھی جائے گی جب کبھی کسی کو
دربھنگہ کی علمی وادبی تاریخ کا جائزہ لینا ہوگا تو یہ کتاب حوالہ کے طور
پر کام آتی رہے گی اور مصنف ڈاکٹر عبد المنان طرزی کے ساتھ مرتب ڈاکٹر
منصور خوشتر بھی حوالہ میں شمار کئے جاتے رہیں گے۔ لیکن یہاں اس کا اظہار
بھی ضروری ہے کہ یہ کتاب اپنے اندر بڑی وقیع ہونے کی صلاحیت رکھتی تھی ۔
اگر مرتب اس میں شامل تمام فنکاروں کا مختصر تعارف بھی شامل کردیتے تو مزہ
دوبالا ہوجاتا اور کتاب امٹ ہوجاتی۔ اس کے باوجود یہ کتاب اہل علم حضرات کے
لیے کار آمد ثابت ہوتی رہے گی۔ کتاب کا گیٹ اپ ، ٹائٹل خوبصورت، کاغذ عمدہ
اور طباعت بڑی حسین ہے اور کتاب کی قیمت بھی مناسب ہے۔ |
|