پاکستان کا ’بالا و اعلی ‘بکاؤ مال

پاکستان میں ایوان بالایعنی سینٹ کا وجود 1973 کے آئین میں پہلی دفعہ عمل میں لایا گیا۔سینٹ کے قیام کا مقصد چاروں صوبوں کو ایوان بالا میں برابری کی بنیاد پر نمائندگی دینا مقصود تھا۔ ایوان بالا کا سب سے اہم کام قومی اسمبلی کے پاس کردہ قوانین کی توثیق کرنا ہے۔ 1973 میں سینٹ کے ممبران کی تعداد صرف45 تھی۔جو وقت کے ساتھ ساتھ حسب ضرورت بڑہتی گئی۔1977 میں یہ تعداد63اور1985 میں 87 جبکہ2002 میں ممبران کی تعداد بڑھ کر100 تک کر دی گئی ۔اس وقت سینٹ کے کل ممبران کی تعداد104 ہے ۔ہر صوبے کے لئے جنرل نشستوں کی تعداد14 ہے۔ چاروں صوبوں کو ملا کر یہ تعداد56 بنتی ہے ۔ جبکہ قبائلی علاقوں سے 8اراکین اور اسلام آباد سے 4اراکین کو ملا کر کل68 اراکین بنتے ہیں۔ ہر صوبے سے ٹیکنو کریٹ ، علما کی4,4 نشستیں ہیں۔اسی طرح ہر صوبے سے خواتین کے لئے بھی 4,4 نشستیں مختص ہوتی ہیں۔غیر مسلموں کے لئے 4 نشستیں رکھی گئی ہیں۔ ان سب کو ملا کر ایوان بالا کے ممبران کی کل تعداد104 بنتی ہے۔جن میں سے 52نشستوں پر ہر3 سال بعد الیکشن ہوتے ہیں۔ یوں منتخب ہونے والے سینٹر کی معیاد6 سال بنتی ہے۔اس وقت سینٹ کی52 نشستوں کے الیکشن میں پی پی اور ایم کیو ایم2,2امیدوارپر پہلے ہی کامیاب ہوچکے ہیں۔ باقی48 نشستوں پر 127 امیدوار مد مقابل ہیں۔سینٹ کے حالیہ الیکشن میں سیاسی پارٹیوں کی پوزیشن اس حوالے سے تبدیل ہوتے نظر آ رہی ہے ، کیونکہ2013 کے عام انتخابات میں تحریک انصاف نے صوبہ خیبر پختون خواہ میں اکثریت حاصل کر کے اس صوبے میں حکومت بنائی اور ایوان بالا میں نمائندگی کے حقدار ٹھہرے۔اس کے علاوہ دور دور تک کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔ سینٹ کی نشستوں میں کامیابی کے لئے وہی حسب سابق معتبر اراکین اسمبلی کی خرید و فروخت کا سلسلہ عروج پرایسے دکھائی دیتا ہے جیسے دیکھ کے عید قرباں کی مویشی منڈی بھی شرما جائے ۔بلوچستان اور کے پی کے میں سینٹ کی ایک سیٹ کی بولی35 کروڑ تک پہنچنے کی بازگشت سنائی دیتی ہے قبائلی علاقوں سے 4 سینٹر ز کے انتخاب کے لئے فاٹا کے12 اراکین قومی اسمبلی کے ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی ہارس ٹریڈنگ فاٹا کی ان ہی سیٹوں پر ہوتی ہے۔

سینٹ الیکشن میں رائے شماری کیونکہ خفیہ طریقے سے ہوتی ہے۔اس لئے الیکشن کی ناقص پالیسی کے باعث ہر مرتبہ ڈنکے کی چوٹ پر ووٹوں کی خرید و فروخت کے عمل میں صاحب ثروت افراد کو کھلی آزادی ملتی ہے ۔الیکشن کمیشن کی اس غلط پالیسی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کے اس کے لئے بڑے بڑے قوانین بنانے کے لئے ملک کے دانا افراد کو ہونا چاہئے لیکن وہاں کروڑوں روپے سے حاصل کرنے والے تاجر بیٹھا دئے جاتے ہیں ۔

جب تک سینٹ کے الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ ہوتی رہے گی اس وقت تک اسلامی جمہوریہ پاکستان کی آئین سازی اور عامر خان کی فلم ’پی کے‘ میں کوئی فرق نہیں دکھے گا۔ فلم’پی کے ‘کے اختتام پر صاف پتا چلتا ہے کہ اسکا دوسرا حصہ ضرور آئے گا، ٹھیک اسی طرح21 ویں ترمیم کو پاس کراتے ہی مولانا فضل الرحمان کو خوش کرنے اور اپنے ذاتی مفاد کی خاطر22 ویں ترمیم کی بنیاد رکھ دی گئی تھی۔وہ تو مولانا صاحب نے اپنی ووٹوں کا وزن سابق صدر زرداری کے پلڑے میں ڈال کر 22 ویں ترمیم کا راستہ کچھ وقت کے لئے روک دیا۔لیکن دیوار پر لکھا جا چکا ہے کہ22ویں ترمیم ہو کے رہے گی۔

سینٹ کے الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ کا امر افسوس ناک ہے۔ ایک طرف جمہوریت کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے ۔ فوجی آمروں سے جان چھڑانے کے بعد حقیقی جمہوریت کا جشن منایا جاتا ہے اور اس ہی جمہوریت کے علمبردار مویشی منڈی میں قربانی کے جانور کی طرح ساری دنیا کے سامنے میڈیا کے ذریعے اپنی نکیل زیادہ قیمت لگانے والوں کے ہاتھ میں تھما دیتے ہے۔جس ملک میں صوبائی و قومی اسمبلی کے منتخب ممبران اور سینٹ کا الیکشن لڑنے والے ارکان کا پاکستان کے ساتھ مخلص ہونے کا ڈھونگ سب کے سامنے کھل چکا اورمعلوم ہو گیا کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں سب بکاؤ مال ہے اور اس بکاؤ مال کو اپنا یا ’’پرایا‘‘دوست یا دشمن کوئی بھی خرید سکتاہے ۔جب ہمارے اشرافیہ، باری باری حکومتیں بانٹنے والے طبقے اور تبدیلی کے نام پر دھرنے دینے والے اس طرح چوراہوں پر بک جائیں تو اس ملک میں نہ تو کالا باغ ڈیم بنتا ہے، نہ پاک چائینہ اقتصادی راہ داری تعمیر ہو پائے گی ،نہ گوادر بن جانے سے پاکستان میں ترقی آئے گی ۔سینڈک کے خزانے اپنوں میں بانٹ دئے جاتے ہیں۔تھر کول کا خزانہ ہونے کے باوجود ملک اندھیروں میں ڈوبا رہے گا اور چنیوٹ سے لوہے ،سونے اور چاندی کے خزانوں کے باوجود خوشحالی عوام سے روٹھی رہے گی۔کیونکہ ترقیاتی منصوبو ں کو پروان چڑھانے کے لئے نیک نیت کے ساتھ ساتھ اس پر عمل کی بھی ضرورت ہوتی ہے ۔اور چند لوگوں کی نیک نیتی پر پانی پھیرنے کے لئے ہمارے اوپر بیٹھے بکاؤ لوگوں کا ہوناے ہی کافی ہے جو ہمارے پیارے وطن کے دشمنوں کے لئے ہر وہ کام آسان کر دیتے ہیں جو کسی بھی دشمن کے لئے نہایت مشکل ہوتاہے۔سینٹ کے حالیہ الیکشن میں سارہ دنیا جان چکی ہے کہ ہم میں بکاؤ کون کون ہے،ان کو آج تک نہیں جانا تو ہم عوام نے نہیں جانا کہ جو بھی الیکشن میں ملک و قوم کی تقدیر بدلنے کے بلند و بانگ دعوئے کرتا ہے اسی نے اپنے ماتھے پر فار سیل کا لیبل لگا رکھا ہے۔جب تک پاکستان کی عوام بغیر سوچے سمجھے اپنا کروڑوں سے زیادہ قیمتی ووٹ ایک قیمے والے نان کے عوض خودغرض اراکین کے ڈبوں میں ڈالتے رہیں گے اس قیمے والے نان کی قیمت ہماری نسلیں ادا کرتی رہیں گی۔کیونکہ یہی لوگ ایوانوں میں جا کر پاکستان سے وفادار رہنے کا حلف اٹھا تے ہیں اور وقت آنے پر من پسند قیمت لے کر وفاداریاں بدلتے رہیں گے۔
Aamir Shahzad
About the Author: Aamir Shahzad Read More Articles by Aamir Shahzad: 3 Articles with 1967 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.