افضل گرو پر پھرسیاست ؛ مفتی سعید کے بیان پرہنگامہ

طویل انتظار کے بعد جموں و کشمیر میں ایک نمائندہ سرکار کی تشکیل ہوئی توایک مرتبہ پھر افضل گرو کی پھانسی پر سیاست ہونے لگی ۔حالانکہ یہ معاملہ سیاست سے زیادہ قانون کی عملداری اور انسانی حقوق کی پامالی کا ہے ۔منی شنکر ائراور ششی تھرور سمیت کئی دانشورسیاستدانوں، صحافیوں اور انسانی حقوق کے علمبرداروں نے اس پھانسی پر اسی نقطہ نظر سے گرفت کی ہے اور بجا طور پر یہ نشاندہی کی ہے کہ افضل کے خلاف شہادتیں کمزور تھیں، وہ براہ راست کسی کے خون میں ملوث نہیں تھا اور محض ’سازش‘ کی کمزورتھیوری پر کسی کو پھانسی نہیں دی جاسکتی۔

افضل گرو کے ساتھ اس طرح کا معاملہ کیوں پیش آیا؟ کیا اس لئے اس کا تعلق اقلیتی فرقہ سے تھا،جس کی جان ومال اوراملاک کی تباہی کو ہماری ’سیکولرسرکاروں‘ نے اپنے اوپرروا کرلیا ہے؟ اگر اس کا تعلق کسی دیگرفرقہ سے ہوتا تو یہی این ڈی اے جو ہرجا اور بیجا بات پر یوپی اے کو لعنت ملامت کرتی رہتی ہے، اس پر بھی یوپی اے کو کٹہرے میں کھڑا کرتی۔لیکن اس کے بجائے وہ اس کا دفاع کررہی ہے۔

اب جو یہ نئی سیاسی شعبدہ بازی شروع ہوئی ہے، اس سے نہ تو ریاست کا کچھ بھلا ہوگااور نہ افضل گروکے لواحقین کا، بلکہ ان کے زخم ایک مرتبہ پھر تازہ ہوجائیں گے۔تاہم ملک کے باشعور افراد کو یہ غورکرنے کا موقع ضرورمل گیا کہ جس طرح افضل گرو کو پھانسی دی گئی، اس کا کیا کوئی سیاسی، اخلاقی یا قانونی جواز تھا؟ یہ کہنا عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنا ہے کہ پھانسی قانونی عمل کا لازمی نتیجہ تھی۔بیشک عدالت نے سزائے موت کا فیصلہ صادر کیا مگرسزائے موت کے نفاذ کا فیصلہ ہمیشہ سیاسی ہوتا ہے۔اسی لئے اس کو ٹالنے یا کم کرنے کا فیصلہ وزارت داخلہ کرتی ہے جس پر صدرجمہوریہ سے مہرلگوائی جاتی ہے۔ پارلیمانی چناؤ سے عین قبل افضل گرو کو پھانسی دیا جانا یقینا قانونی عمل کا نقطہ اختتام نہ تھا بلکہ یوپی اے سرکار کا یہ غلط اندازہ تھا کہ اس سے اس کی مقبولیت بڑھ جائیگی اوربھاجپا کے ہاتھ سے ایک انتخابی موضوع نکل جائیگا۔ لیکن وقت نے بتادیا کہ یہ چال الٹی پڑی ، نہ ملک کے رائے دہندگان نے اس کا’ انعام‘اس کو دیا اورنہ کشمیر کے عوام نے اس کومعاف کیا۔

سوال یہ بھی ہے کہ این ڈی اے انسانی حقوق اور قانونی ضابطوں کی کھلی پامالی کے باوجود اس کا دفاع کیوں کررہی ہے؟کیااس لئے کہ افضل گرو کشمیری تھا او ر ہماری سرکاریں ہمارے کشمیری بھائیوں کے انسانی اورشہری حقوق کی پامالی میں سکون پاتی ہیں جس کے نتیجہ میں وادی کو ’نامعلوم قبروں‘ سے پاٹ دیا گیا ہے؟ کشمیریوں کے خلاف سارے ملک کا ماحول ایسا بنادیا گیا جس سے لگتا ہے کہ ہماری انسانیت کہیں سو گئی ہے اور نفرت و عناد کا بول بالاہوگیا ہے۔مگر ہماری کلچر کے ٹھیکیداروں ، سادھوؤں اور سنتوں کو یہ سب کچھ نہیں ، کچھ دوسری چیزیں نظرآتی ہیں۔

دوسرا پہلو
قرآن پاک کی اس آیت مبارکہ کو یاد کیجئے جوکسی سانحہ کی اطلاع پر ہماری زبان پر آجاتی ہے مگراس کا مفہوم ذہن میں نہیں رہتا:’ انا ﷲ وانا الیہ راجعون‘۔ بیشک ہم اﷲ ہی کے لئے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف لوٹ کرجانا ہے۔(البقرہ: 156) اس سے متصل پہلی آیت میں یہ خبردی گئی ہے جولوگ حق پر مرتے ہیں وہ دراصل زندہ رہتے ہیں ، مگرتم کواس کا شعور نہیں ہوتا۔‘

ہم اﷲ کی اس حکمت کوتو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ 43 سالہ افضل گرو کو اس امتحان میں کیوں ڈالاگیا، لیکن یہ حقیقت واضح ہے کہ اس پھانسی کا مقصد سیاسی تھااورنتیجہ ان سب کے سامنے آگیا جواس فیصلے میں شریک تھے۔

کیس کیا تھا؟
افضل گرو کو پارلیمنٹ ہاؤس پر 13 دسمبر 2001 کے دہشت گرد حملے کا ملزم بنایا گیا تھا۔ اس وقت مرکز میں این ڈی اے کی سرکار تھی، آڈوانی جی وزیرداخلہ تھے۔ اصولاً ان کو استعفا دینا چاہئے تھا، لیکن اس سے پہلے کہ پارلیمنٹ جیسی قلعہ بند عمارت پر اس حملہ کے لئے ان کو اور ان کی سرکار کوکٹہرے میں کھڑا کیا جاتا، ایک شور اٹھا،ایک پڑوسی ملک اوراس کی کچھ فسادی تنظیموں کواس ناپاک حملے کے لئے خطاکار ٹھہرایا گیا، سرحد پر فوجیں لام بندکردی گئیں، جنگ و جدل کا ماحول بنایاگیا اور برصغیر کے ماحول کو مکدر کردیا گیا۔

میڈیا نے معاملہ عدالت میں پہنچے سے پہلے ہی عوام کے ذہنوں میں یہ تاثرپیدا کردیا کہ ملزمان ہی مجرم ہیں۔ اس ماحول میں جو سیاست دانوں اورمیڈیا نے پیدا کردیا تھا، جس طرح مقدمہ کی کاروائی چلائی گئی ،اس میں انسانی حقوق کے متعدد جانکاروں کا کہنا ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوئے ۔ہرچند کہ مختلف مراحل پر دیگر ملزمان اپنی بے گناہی ثابت کرنے میں کامیاب ہوگئے ، مگرافضل گرو کو گلو خلاصی نہیں ملی۔ ہرچند کی ثبوت کمزور تھے ،اس کوسزائے موت سنائی گئی جس کی ایک وجہ سپریم کورٹ نے یہ بیان کی:
"The collective conscience of the society will be satisfied only if the death penalty is awarded to Afzal Guru."

’’عوام کے اجتماعی جذبہ کی تشفی صرف اسی صورت ہوگی کہ افضل گرو کو پھانسی دی جائے‘‘۔
تفصیلات اوربھی ہیں جو اس شک کو تقویت پہنچاتی ہیں کہ استغاثہ کے پیش نظر انصاف کے تقاضوں کوپورا کرنا نہیں بلکہ یہ تھا کہ ایک جرم ہوا ہے، اس کے لئے کسی کو سزابھی ملنی چاہئے۔ افضل کی پھانسی پراس کالم میں ہم نے خود اس کے رویہ کے حوالہ سے لکھا تھا:
’’دہلی کی تہاڑ جیل میں افضل کو8؍ فروری کی شام جب یہ اطلاع دی گئی کہ کل صبح تم کو پھانسی دیدی جائیگی تو اس نے حواس نہیں کھوئے، پوری طرح یکسو اور پرسکون رہا۔ 9؍ فروری ، ہفتہ کی صبح اس نے حسب معمول اول وقت نماز فجر ادا کی۔ چائے پی، اپنی اہلیہ کو آخری خط لکھا اور جب ساڑھے سات بجے پھانسی کے لئے لیجایا گیا، تب بھی اس کے قدم لڑ کھڑائے نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پھانسی کا پروانہ اس کے اعصاب کو توڑ نہیں سکاتھا ۔ کال کوٹھری میں اس نے 12 سال گزارے اوررونے دھونے،مایوسی، ناشکری اور اپنی تقدیر پر شکوہ کے بجائے وقت لکھنے پڑھنے میں گزارا اور صبرو استقامت کے ساتھ راضی بہ رضائے الٰہی رہنا سیکھا۔ہر شخص جانتا ہے کہ موت ایک ابدی حقیقت ہے ۔لیکن یہ کوئی نہیں جانتا کہ کون کب کس راستے سے اس حقیقت سے دوچار ہوجائیگا۔ موت کبھی کسی شیر خوار بچے کو اس کی ماں کی گود سے اچک لیجاتی ہے، کبھی جوان عمری میں کوئی حادثہ پیش آجاتا ہے اور کبھی بڑھاپے کے وہ دن بھی دیکھنے پڑتے ہیں جب ہر گھڑی موت کی تمنا ہوتی ہے اور نہیں آتی۔مومن کی شان یہ ہے کہ وہ اس ابدی حقیقت کے لئے ہمہ وقت آمادہ و تیار رہے۔ 43سالہ افضل گرو کی موت پر ماتم کناں لواحقین کو صابر و شاکر رہنا چاہئے کہ وہ ایک مطمئن نفس لیکر اپنے مالک حقیقی کے حضور حاضر ہوا ہے۔یہی صاحب ایمان کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔‘‘

افضل گرو جب جیل میں تھا تو یہی بھاجپا جو اس وقت اقتدار میں ہے ، رات دن اس کو پھانسی دئے جانے کا مطالبہ کرتی رہتی تھی۔ کانگریس کو یہ اندیشہ ہوا کہ اس کا اثر 2014کے پارلیمانی چناؤ پر پڑسکتا ہے چنانچہ وزارت داخلہ نے 23 جنوری کو اس کی رحم کی درخواست مسترد کرنے کی سفارش صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی سے کردی اور انہوں نے 3فروری کو اس سفارش کو منظوری دیدی۔اصولا اس کی فوری اطلاع سزایافتہ قیدی کو دی جانی چاہئے تھی اوراس کواتنا موقع ملنا چاہئے تھا کہ وہ اپنے وکیل کومطلع کرتا اور وہ ایک مرتبہ پھر عدالت عالیہ سے رجوع کرتا، جیسا کی عموماً ہوا ہے اورکئی قیدیوں کے جان بچ گئی ہے۔ مگر جان بوجھ کر بدنیتی سے اس کویہ موقع نہیں دیا گیا۔ وزارت داخلہ نے پھانسی دینے کے منصوبہ کو خفیہ رکھنے کے لئے اس کی تیاری ’آپریشن تھری اسٹار‘ نام سے کی ۔ضابطہ کے مطابق اس کی اطلاع اس کے لواحقین کو بھی دی جانی ضروری تھی۔ اس کے قریبی اہل خانہ کو دہلی لایا جاسکتا تھا تاکہ وہ اس سے آخری ملاقات کرلیں۔ مگرایسا نہیں کیا گیا ۔ پھانسی کی اطلاع پھانسی کے بعد خودوزیرداخلہ سشیل کمار شندے نے میڈیا کو دیکر گویا عوا م کا دل جیتنے کی کوشش کی ۔

بعد میں کشمیر میں یہ مطالبہ اٹھا کہ حسب ضابطہ اس کا سامان، کپڑے وغیرہ اوراس کی میت کو اس کے ورثاء کے حوالے کیا جائے، مگر حکومت نے اس مطالبہ کو منظور نہیں کیا۔ البتہ فاتحہ خوانی کے لئے اس کے اہل خانہ کوجیل کے اندر اس کی قبرتک جانے کی اجازت دینے کی پیش کش کی، جس کو انہوں نے مسترد کردیا۔

جب کسی کوپھانسی دی جاتی ہے تو ضابطہ میں اس کے ورثاء کوپیشگی اطلاع دی جاتی ہے اوران کو کال کوٹھری میں آخری ملاقات کا موقع دیا جاتا ہے۔ افضل گرو کے ورثا کو، جو ایک دوردراز گاؤں میں رہتے ہیں، پھانسی سے محض ڈیڑھ دن قبل ایک اسپیڈ پوسٹ ارسال کیا گیا ،جو پھانسی کے کئی دن بعد ڈلیور کیا گیا۔ بیشک یہ افضل گرو اوراس کے اہل خانہ کے جائز قانونی حقوق کی پامالی اورانسانی حقوق کے مسلمہ ضابطوں کے خلاف ورزی ہے۔ لیکن اگرغورکریں تو کشمیری عوام کی انسانی حقوق کی پامالیوں کی داستاں اتنی سنگین اوراتنی طویل ہے کہ اس کے مقابلہ یہ خلاف ورزی ہولی کے الاؤ میں سے ایک انگارہ بھر سے زیادہ نہیں ہے۔

میں نے مثال کے طور سے ہولی کا حوالہ اس لئے کیا کہ اس کی کہانی ہمارے حکمرانوں کے لئے ایک سبق رکھتی ہے۔ کہا جاتاہے قدیم زمانے ایک راجہ ہیرین کشیپ تھا جواقتدار کے نشہ میں خود ہی خدا بن بیٹھا اورعوام پر مظالم کی وجہ سے راکشس کہلایا۔ اس کی رعایا میں اس کا ایک خدا پرست نوجوان بیٹاپرہلاد بھی تھا جو راجہ کو خدا نہیں مانتا تھا۔ راجہ نے کبھی اس کو پہاڑ سے گروایا ، کبھی سانپوں کے ساتھ بندکرایا ، کبھی ہاتھیوں کے سامنے ڈلوایا تاکہ وہ مارا جائے، مگروہ ہربار بچ گیا۔ آخر راجہ نے اپنی بہن ہولیکا کو بلایا، جس کو یہ وردان ملا ہوا تھا کہ وہ آگ میں نہیں جلے گی۔ راجہ کے حکم پر ہولیکا کی گود میں پرہلاد کو بٹھاکر الاؤ جلادیا گیا۔ مگر اس آتش نمرود سے خداپرست پرہلاد بخیر زندہ نکل آیا، جبکہ راجہ کی بہن ہولیکا بھسم ہوگئی۔ اس کہانی پرغور کیجئے اوردیکھئے سابق سرکار نے کیا کیا اور کیا پایا، اور اب یہ سرکار اس کے نقش قدم پر چل کر کیاپائیگی۔

راج دھرم
ایک مرتبہ باجپئی جی نے نریندرمودی کو ’’راج دھرم‘‘ کی یاد دلائی تھی۔ جس کا ذکراکثر کانگریس رہنما کرتے رہتے ہیں۔ اچھا ہو تا کہ اپنے دورمیں کانگریس نے بھی اپنا راج دھرم یاد رکھا ہوتا۔ افسوس یہ ہے کہ حکمراں کرسی پر بیٹھتے ہی بھول جاتے ہیں کہ حکومت آنی جانی ہے اور اپنے کرم کا پھل بھوگنے سے کوئی بچ نہیں سکتا۔

ہماری گزارش پی ڈی پی سے بھی ہے کہ وہ افضل گرو کے جسد خاکی پر سیاست کرنے کے بجائے عوام کی دکھ تکلیفوں پر توجہ دیں، جس کا مینڈیٹ ان کو ملا ہے۔ یہ علامتی سیاست اور جذباتی نعرے نہ کسی کے کام آئے ہیں اور نہ آئیں گے۔

ہنگامہ ہے کیوں برپا؟
مفتی سعید نے بھاجپا کے ساتھ ملی جلی سرکار کی حلف برداری کے بعد یہ اعتراف کیا کہ’’ اس مرتبہ اسمبلی انتخابات جس ساز گارماحول میں ہوئے اس میں کچھ کردار حریت کانفرنس، پڑوسی ملک اور عسکری تنظیموں کا بھی ہے۔‘‘ اور یہ کہ انہوں نے یہ بات وزیراعظم کے گوش گزار پہلے ہی کرادی تھی۔ ظاہر ہے مفتی صاحب نے یہ بات یونہی نہیں کہہ دی ہوگی۔ وہ باخبر اور تجربہ کار لیڈر ہیں۔ ان کی مختلف عناصر کے رویوں پر نظر ہے۔ لیکن ان کے اس اعتراف پر میڈیا اورسیاسی حلقوں میں ہنگامہ برپا گیا۔ حالانکہ ہونا یہ چاہئے تھا جمہوری عمل کے اشدمخالفین کے رویہ میں اس مثبت تبدیلی کا خیرمقدم کیا جاتا ہے۔ مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے مفتی صاحب کے اس اعتراف سے حکومت اوراپنی پارٹی کی لاتعلقی کا اظہارکرتے ہوئے پارلیمنٹ میں کہا ’’اس کا کریڈٹ تو رائے دہندگان، فوج، نیم فوجی دستوں اورالیکشن کمیشن کو جاتا ہے۔ ‘‘ بیشک ان کا بھی کردار ہے۔ لیکن وزیرداخلہ سے پوچھا جاسکتا ہے یہ سب تو سابق انتخابات کے دوران بھی موجود تھے اس کے باجود عوام پولنگ بوتھوں تک نہیں آئے۔ آخر کیوں؟ کیا راجناتھ سنگھ سمجھتے ہیں گزشتہ انتخابات میں ہماری فوج، نیم فوجی دستوں، چناؤ کمیشن اور دیگر سرکاری عملے کی کارکردگی ناقص تھی کہ کہیں پولنگ بالکل نہیں ہوئی اورکہیں چند فیصد تک محدود رہی؟ حالانکہ ان سب نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کراور اس بار سے کہیں زیادہ مخدوش حالات میں اپنی ڈیوٹی انجام دی ۔

بیشک اس بار پولنگ میں کچھ جوش و خروش اس وجہ سے بھی رہا کہ جموں کے رائے دہندگان مودی لہر میں لام بند تھے اوروادی کے رائے دہندگان اس طوفان کو روکنے کے لئے جوق در جوق ووٹ ڈالنے نکلے۔ وادی میں اس ماحول کو بنانے میں یقینا برگشتہ اور سخت گیرعناصر کے رویہ میں تبدیلی بھی تھی۔ اس اعتراف سے جو مفتی سعید نے کیا، امید کی جاسکتی ہے کہ ریاست میں ماحول بہتربنانے میں مدد ملے گی بشرطیکہ کہ بھاجپا نے اپنی کم نگاہی کا مظاہرہ نہ کیا۔ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اگرسابق حکومتوں نے جمہوری عمل کے ساتھ فراڈ نہ کیا ہوتا تو نہ سید صلاح الدین جیسے عناصر پیدا ہوتے اور نہ سیدعلی شاہ گیلانی جیسے لیڈروں کے رویہ میں یہ سختی پیدا ہوئی ہوتی۔ لیکن ہمارے سیاست دانوں کے ساتھ مشکل یہ ہے کہ وہ محض اپنے منفی جذبات کی پیروی کرتے ہیں،قانون کی حکمرانی اور حقیقی سیاست دانی ہم سے کہیں روٹھ گئی ہے۔(ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 180699 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.