ایسے جینا اس جہاں میں
(Shah Faisal Naeem, Lahore)
ہاں میرے آس پاس رہنے والوں میری
باتیں تمہیں سننا ہوں گی ، تمہیں مجھے برداشت کرنا ہوگا، تمہیں اپنی ذات کے
نہاں خانوں میں چھپے سوچنے والے انسان کو بیدار کرنے میں میری مدد کرنا ہو
گی اور تمہیں کل کی کائنات کو کھوجنے کا راز پانا ہی ہوگا۔ تم روز کیوں
نہیں سوچتے کہ تمہارے ہر طرف انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے پھر تم
ہی کیوں ؟ اتنے انسانوں کے ہوتے ہوئے تمہارا آنا کیوں ضروری تھا؟اس سوال کا
جواب پانے والوں کے لیے دنیا سمٹ کر سامنے آجاتی ہے۔ اس سوال کو کریدنے سے
انسان کی زندگی کو مقصد ملتا ہے اورسوچنے کا عمل شروع ہوتا ہے۔خالق کی
تخلیق میں کچھ بیکار نہیں ، پھر تم کیوں نہیں سوچتے کہ اتنے انسانوں کے
ہوتے ہوئے تمہیں پیدا کرنے کا مقصد کیا ہے ؟جو صرف اور صرف یہ ہے کہ تم اس
کائنات کو وہ چیز دو جو پہلے سے موجود انسان دینے سے قاصر ہیں۔
چاند کی چاندنی سے محروم یہ ایک بے نور رات تھی ، تاحدِ نظر تاریکی ہی
تاریکی ، ایسی سیاہ رات میں آسمانِ عالم پہ ایک ستارہ اپنی پوری آب و تاب
سے چمک رہا تھا۔ کوئی دیکھنے والا یہ منظر دیکھ رہا تھا اُس نے ستارے کو
مخاطب کرتے ہوئےکہا:
"اتنی تاریک رات اور تمہارا چھوٹا ساچمکتا وجود۔۔۔۔۔کیا فرق پڑتا ہے سیاہ
رات کو"؟
ستارے کو زباں ملتی ہے:
"دیکھنے والے تیری پریشانی بجا۔۔۔۔۔۔۔جب بھی کوئی نارمل انسان مجھے دیکھے
گا تو وہ یہی کہے گا۔۔۔۔۔اور میری نادانی پہ ہنسے گا کہ میں ایک چھوٹی سے
لالٹین سے تاریک رات میں روشنی بھرنے چلا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔مگر میرا ہر دیکھنے
والے کے لیے ایک ہی پیغام ہے ۔۔۔۔۔مجھے خبر ہے کہ میں اس تاریک رات کو روشن
نہیں کرسکتا مگر میں اپنے ہونے کا احساس ضرور دلا سکتا ہوں"۔
تو میں بھی تمہیں کہتا ہوں کہ کہیں خود کو پہنچانے بغیر نا چلے جانا۔ اپنے
حصے کی شمع جلا کر جانا۔اشرف المخلوقات کا جو تاج خدا تعالیٰ کی ذات نے
تمہارے سر پہ سجایا ہے اُس کی لاج ضرور رکھنا،کہیں اُسے داغدار نا ہونے
دینا، کہیں ایسا نا ہوکہ انسانوں اور جانوروں کا فرق ہی مٹ جائے، کہیں زمیں
پہ رینگتے کیڑے مکوڑوں کی طرح ہی اس جہاں سے نا چلے جانا ۔۔۔۔نا جن کے آنے
سے اس جہاں کو کوئی فرق پڑتا ہے اور نا جن کے جانے سے کچھ رُکتا ہے۔۔۔۔۔جن
راہوں گزرگاہوں سے تم کبھی گزرو اُن کی گردِ راہ تمہارے نقوشِ پا کا پتا
دیں۔۔۔۔۔۔ایسے جینا اس جہاں میں۔ |
|