بچپن میں سنا کرتے تھے کہ
صحبت کا اثر انسان اور جانور دونوں برابر ہوتا ہے ۔گھوڑے کو اگر گدھوں میں
باند ھ دیا جائے تو گھوڑا بھی دولتیاں مارنے لگتا ہے ٗ اسی طرح اگر کسی
درخت پر دوسرے درخت کی چھال چڑھا دی جائے تو اس کے پھل کا ذائقہ تبدیل
ہوجاتا ہے۔ انسانی بچے جس گھر میں پیدا ہوتے ہیں اسی گھرکی زبان اور ماحول
کا حصہ بن جاتے ہیں اگر انسان کو کسی دوسرے معاشرے میں چند سال کے لیے بھیج
دیاجائے تو وہ انسان وہاں کے رہن سہن ٗ زبان اورکلچر کا حصہ بن جاتا ہے
۔میرے ساتھ بھی کچھ ایسے ہی ہواہے ۔ میں لکھنے پڑھنے والوں کے دنیا سے بے
نیاز تھا میرے گھر میں درسی کتابیں توموجود تھیں لیکن انہیں صرف امتحان کی
تیاری کے نقطہ نظر سے ہی میں کچھ اس طرح پڑھتا تھاکہ ضرورت سے زیادہ کوئی
ایک لفظ ذہن میں محفوظ نہ ہوجائے ۔محلے کی ایک دوکان پر اخبار تو آتا تھا
لیکن وہ اخبار صرف محلے کے دو بزرگ افراد( چاچا عرفان اور بابا عبدالحق )ہی
پڑھتے تھے ۔ ہم قریب سے اس طرح گزر جاتے جیسے ہمیں اخبارات میں شائع ہونے
والی خبروں سے کوئی غرض نہ ہو ۔ پھر یہ خیال بھی دل میں جاگزیں تھا کہ
حکومت کے معاملات حکمران جانیں ہم بیچ میں ٹانگ اڑانے والے کون ہوتے ہیں۔جب
ہمیں کوئی پوچھتاہی نہیں تو ہم کیوں حکومت کے ہر معاملے میں ٹانگ اڑاتے
پھریں۔
حالات نے کروٹ لی اور میرے دل میں نیا گھر بنانے کی آرزو اس لیے پیدا ہوئی
کہ میرے والدین نے ساری عمر ریلوے کوارٹروں میں ہی گزاری تھی مجھے اس بات
کاعلم تھا کہ جب والد صاحب ریٹائر ہوجائیں گے تو ہمیں کوارٹر خالی کرنا پڑے
گا پھر ہم کہا ں جائیں گے ۔ دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میں نے چار
مرلے کاایک پلاٹ مکہ کالونی گلبرگ تھرڈ لاہور میں خریدلیا ۔ اس پلاٹ میں
ایک جھونپڑا نما بوسیدہ کمرہ موجود تھا۔ باقی ساری جگہ خالی تھی یااس میں
بیڑی کے دو درخت لگے ہوئے تھے ۔اس کھنڈر نما پلاٹ کو گھربنانے کے لیے مجھے
پیسوں کی ضرورت تھی ۔چنانچہ میں نے لاہور چیمبرز آف کامرس میں کام کرنے
والے اردو ٹائپسٹ مولانا خلیل الرحمن صاحب سے بات کی تو انہوں نے مجھے اردو
بازار میں ایوان ادب جانے کا مشورہ دیا جہاں اس وقت جزو وقتی ملازم کی
حیثیت سے اردو سٹینو گرافر درکار تھا۔
1984 کے آخری مہینوں میں ٗ میں ایوان ادب پہنچ گیا جہاں ایک پروقار شخص
پروفیسر حفیظ الرحمن احسن صاحب سے ملاقات ہوئی ۔دھیمے لہجے میں بات کرنے
والے یہ عظیم شخص اپنی ذات میں سمندر کی گہرائی اور وسعت رکھتے تھے ۔ ان کا
شمار اپنے وقت کے بہترین ادیبوں ٗ شاعروں اور لکھنے والوں میں ہوتا ۔وہ جو
بھی مضمون لکھتے یا جو بھی نظم یا غزل کہتے تو ان کی لکھی ہوئی ہر تحریر
دلوں کو معطر کردیتی ۔ وہ اس قدر ہر دلعزیز شخصیت کے مالک تھے کہ ان کے ارد
گرد ادیبوں اور شاعروں کا ہر وقت ہجوم لگا رہتا۔جس طرح شہد کی مکھیوں کو اﷲ
تعالی نے یہ شعور اور پہچان دے رکھی ہے کہ میلوں دور گلستان میں کھلنے والے
پھولوں کی خوشبو انہیں بہت دور سے محسوس ہوجاتی ہے پھر وہ اسی خوشبوکا
تعاقب کرتے ہوئے ان پھولوں تک پہنچ جاتی ہیں اور پھولوں کا رس دامن میں
سمیٹ کر اپنی ملکہ کے پاس لے آتی ہیں ۔یاد رہے کہ مکھیاں اپنی اپنی ملکہ کی
اس قدر وفا دار ہوتی ہیں کہ دوسری ملکہ کی مکھی کو اپنے گرو ہ میں شامل
نہیں ہونے دیتیں ۔اسی طرح پروفیسر حفیظ الرحمن احسن صاحب کی شخصیت گلستان
میں کھلنے والے ان خوشنما پھول کی مانند تھی وہ ادیبوں اور شاعروں کے ایک
بہت بڑے گروپ کے سربراہ تصور کیے جاتے۔جن کا طرز تحریر خالصتا اسلامی فکر
اور پاکیزہ قدروں کا ترجمان ہوتا وہ خوشبو کا تعاقب کرتے ہوئے شہر کے دور
دراز علاقوں سے بھی جوق در جوق ملاقات کے لیے ایوان ادب پہنچتے ۔ابھی ایک
ادیب جاتا نہیں تھا کہ دوسرا شاعر چلا آتا۔ یہ سلسلہ سارا دن جاری و ساری
رہتا۔
بہرحال مختصر انٹرویو لینے کے بعد پروفیسر حفیظ الرحمن احسن صاحب نے مجھے
300 روپے ماہوار پر جزوقتی ملازم رکھ لیا۔ایک چھوٹے سے کمرے میں بیٹھ کر
اپنے پبلشنگ ادارے کا کام کرنے والے حفیظ صاحب حقیقت میں بہت اعلی پائے کے
ادیب ٗ پاکیزہ قدروں کے حامل شاعر اورانسانی ہمدردی سے لبریز عظیم انسان
ہیں ۔ اس کے باوجود کہ میں وہاں تین سو روپے کے عوض تین گھنٹے ملازمت کرنے
گیا تھا لیکن انہوں نے اپنی پاکیزہ اور ادبی صحبت سے مجھے رائٹر بنا دیا ۔
مجھے خود بھی پتہ نہیں چلا کہ یہ سب کچھ ہوا کیسے اور کس نے کیا کیا حصہ
ڈالا ۔ مجھے تو بس اتنا یاد ہے کہ جناح کیپ اور تین تین شیروانیاں پہنے جب
حفیظ صاحب ایوان ادب میں تشریف لاتے تو لاہور کے دور دراز علاقوں میں رہنے
والے ادیب شاعر اور استاد وہاں ایسے کھینچے چلے آتے جیسے کوئی غیبی طاقت
انہیں وہاں آنے پر مجبور کرتی ہے ۔ بات کو آگے بڑھانے سے پہلے یہ بتانا
ضروری سمجھتا ہوں کہ ایک چھ ضرب چھ فٹ کا چھوٹا سا کمرہ پروفیسر حفیظ
الرحمن احسن صاحب کے زیر استعمال تھا جہاں ان کی اپنی کرسی کے علاوہ دو اور
کرسیاں بچھی ہوتیں ۔ ایک کرسی پر تو مستقل حفیظ صاحب کا چمڑے کا بیگ تشریف
فرما ہوتا تو ایک کرسی پر دوپہر دو بجے کے بعد میں بیٹھ جاتا ۔ جبکہ
درمیانی خالی جگہ پر گرمیوں میں ایک پرانا اور بوسیدہ سا پنکھا قابل رحم
حالت میں کھڑا دکھائی دیتا جس کی ہوا صرف حفیظ صاحب کو ہی لگتی ۔ سردیوں
میں پنکھے کی جگہ پر ایک کرسی رکھ دی جاتی ۔ اس کے باوجود کہ ایوان ادب میں
بیٹھنے کے لیے جگہ بہت کم تھی لیکن میں نے اپنی جاگتی آنکھوں سے دیکھا کہ
وہاں کبھی قاضی صاحب تشریف لارہے ہیں تو کبھی ماہر اقبالیات ڈاکٹر تحسین
فراقی۔ اورنیٹل کالج چونکہ بہت نزدیک تھا اس لیے وہاں کے سنیئر اساتذہ اور
اردو ادب کے طلبہ کی آمد کا سلسلہ جاری و ساری رہتا ۔وہاں آنے والوں میں
قابل ذکر نام پروفیسر ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ٗ میرزا ادیب ٗ آغا شیدا ٗ
محمد اشرف ٗ(جن کے بارے میں اکثر حفیظ صاحب بتایاکرتے تھے کہ انہوں نے 100
کتابیں لکھی ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ حفیظ صاحب ان کا بے حداحترام بھی کرتے۔)
پروفیسر طاہر شادانی ٗ پروفیسرآسی ضیائی ٗ پروفیسر جعفربلوچ ٗ آفتاب نقوی
اور پروفیسر یونس حسرت( جو ننکانہ صاحب سے بطور خاص ملنے آتے ۔یہ بچوں کے
بہترین ادیب تھے ان کی کہانیاں اور نظمیں آج بھی بہت مقبول ہیں۔) عبدالحمید
ڈار ( جو پروفیسر تو اکنامکس کے تھے لیکن جب بھی آتے بہت شوق سے میٹھے
کھاتے اس لیے انہیں میٹھے ڈار صاحب کہاجاتاتھا) شامل تھے ۔
مزے کی بات تو یہ ہے کہ اﷲ تعالی نے پروفیسر حفیظ الرحمن احسن صاحب کو نہ
صرف بہت کشادہ دل عطا فرمایا بلکہ وہ اپنے کام کے ساتھ ساتھ ایوان ادب میں
آنے والے ادیبوں شاعروں سے بھی گفتگو جاری رکھتے اور ملائی وائی چائے اور
خطائی نما بسکٹوں کا دور بھی چلتا رہتا۔جس سے میں بھی فیض یاب ہوتا- شاید
ان بسکٹوں میں حفیظ صاحب نے ادبی چاشنی کو ملا کر میرے حلق میں اتار دیا ہو
یا اس ملائی والی چائے میں کوئی پھونک ماری ۔ جس سے لکھنے اور پڑھنے کی
جانب میری توجہ ہوتی چلی گئی ۔ یہی پر میری کراچی سے شائع ہونے والے ایک
جرات مند رسالے "تکبیر" سے آشنائی ہوئی ۔ محمد صلاح الدین (شہید) واقعی ایک
عظیم اور جرات مند انسان تھے انہوں نے کراچی جیسے ( ایم کیو ایم کے زیر
حراست شہر) میں رہتے ہوئے کلمہ حق کہنے میں کوئی کسر اٹھانہیں رکھی
۔"تکبیر" میں انسانوں پر بدترین تشدد کی ایسی ایسی ہولناک تصویر شائع ہوتیں
جنہیں دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ۔ کہ جو لوگ یہ درندگی کا مظاہرہ کررہے
ہیں شایدان کو اپنی موت یاد نہیں ۔افسوس تو اس بات کا ہے کہ پھر انہی
درندوں کے ہاتھوں محمد صلاح الدین جیسے دلیر اور بہادر انسان کو جام شہادت
کا گھونٹ پینا پڑا ۔پھر ایوان ادب میں ہی مجھے ہمدرد کے رسالے "صحت" سے
تعارف حاصل ہوا ۔ جس کے روح رواں ایک فرشتہ صفت انسان اور مجدد طب حکیم
محمدسعید تھے۔پاکستانی تاریخ کے یہ ایسے عظیم انسان ہیں جن کی زندگی نہ صرف
موجود ہ بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی مشعل راہ ثابت ہوگی وہ صبح نماز
تہجد کے بعد روزہ رکھتے اور تمام دن بغیر کچھ کھائے شام ڈھلے روزہ افطار
کرتے ۔ ان کی قابل رشک صحت کا شاید یہی راز تھا وہ ہمیشہ باوضو ہوتے ۔ لیکن
جن ظالم درندوں نے محمدصلاح الدین کو شہید کیا تھا انہی کے ہاتھ حکیم
محمدسعید کی شہادت بھی ہوئی ۔اسی طر ح ہر ہفتے "آئین" کا تازہ شمارے ہاتھ
میں لیے مرزا صاحب تشریف لے آتے ۔ حفیظ صاحب ان آٹھ دس رسالوں میں سے ایک
اپنے پاس رکھ لیتے اور باقی دوستوں میں بانٹ دیتے ۔ ان میں سے ایک رسالہ
مجھے بھی دے دیا جاتا۔اس کے باوجود کہ مجھے اس رسالے کی تحریروں کی زیادہ
سمجھ نہیں تھی لیکن اسے دیکھ کر یہ احساس ضرور ہوتاکہ اس میں مولانا مودودی
ؒ کی قرآن اور اسلام کے بارے میں جامع تحریریں شامل ہیں ۔رسالہ "آئین"
جماعت اسلامی کا ترجمان تھا اور حفیظ صاحب جماعت اسلامی کے سنیئر ترین
ممبران میں شامل تھے ۔بلکہ انہوں نے مولانا مودود ی کے تقریروں اور درس
قرآن پاک کو ٹیپ ریکارڈ ر کے ذریعے آڈیو کیسٹوں میں تبدیل کرکے جستجو رکھنے
والوں کے لیے بہت آسانی پیداکردی تھی ۔ اس مقصد کی تکمیل کے لیے گنپت روڈ
پر واقع ایک بلڈنگ نور چیمبر میں البلاغ لمیٹڈ کا ادارہ قائم کیا یہاں سے
پورے پاکستان میں مولاناکے درس بذریعہ آڈیو کیسٹس بھجوائے جاتے تھے ۔
مجھے یاد ہے انہی دنوں حفیظ صاحب کی بچوں کے حوالے سے نظموں کی کتاب "
نرسری رائمز " شائع ہوکر مارکیٹ میں آئی تھی جسے ادبی حلقوں میں بے حد
پذیرائی ملی ۔میں جب حفیظ صاحب کی لکھوائی ہوئی ڈکٹیشن ٹائپ کررہا ہوتا تو
وہاں آنے والے ادیبوں اور شاعروں کے قہقہے فضا میں گونج رہے ہوتے ۔سب سے
بلند قہقہ پروفیسر جعفربلوچ صاحب کاہوتا ہے کیونکہ ان کی آواز سب سے بلند
تھی ۔ یہ درویش صفت شاعر ٗ استاد اپنی ذات میں بہت پروقار اور سادگی کا
سرچشمہ تھا ۔ میں نے سخت گرمیوں میں پسینے میں نہائے ہوئے انہیں اپنی بغل
میں چمڑے کا بیگ دبائے ایوان ادب آتے ہوئے دیکھاانہیں نہ بھوک کی فکر تھی
نہ پیاس کی ۔ وہ تو تشنہ طلب ہوکر ایوان ادب کی دہلیز پر کھڑے نظر آتے ۔ نہ
جانے یہاں پہنچ کر انہیں کتنا سکون اور قرار ملتا ہوگا یہ ان کے چہرے اور
قہقہوں سے عیاں تھا۔
ادیب اور شاعر جب اکٹھے ہوتے ہیں تو پھر باتیں بھی ادب کی ہوتی ہیں کوئی
اپنی نئی غزل سنانے کی جستجو کرتا ہے تو کوئی نئی لکھی جانے والی نظم
دوسروں کے حلق سے اتارنے میں مصروف ہوتا ہے ۔ اس کے باوجود پروفیسر حفیظ
صاحب بہت کم داد دیتے تھے لیکن جس کو ان کی داد اور تحسین مل جاتی وہ اسے
سند تصور کرکے خوشی خوشی گھرلوٹ جاتا۔ جلا ل دین ٹرسٹ بلڈنگ کی پہلی منزل
پر طارق سنز کے نام سے ایک ادارہ موجود تھا جس کے مالک پروفیسر شفیق صاحب
تھے۔ وہ بھی بہت ہنس مکھ اور ملنسار انسان تھے وہ نماز پڑھنے کے لیے ایوان
ادب آجاتے اور اپنی گفتگو سے ہم سب کو محظوظ کرتے ان کی شگفتہ گفتگو سن کر
یوں محسوس ہوتا کہ انہیں زندگی میں کبھی غم نے چھوا نہیں وہ ہر وقت خوش و
خرم دکھائی دیتے۔وہ انگریزی کے پروفیسر ریٹائر ہوئے ۔ اس وجہ سے انہوں نے
فرسٹ ائیر اور سیکنڈائیر کے لیے انگریزی کی کتابیں ہی شائع کی تھیں جو طارق
سنز کے مینجر عرفان کے توسط سے پورے ملک میں سپلائی کی جاتیں ۔پھر تہذیب
سنز جو ابتدائی جماعتوں کی کتابیں شائع کرنے کا ادارہ تھا اور اس ادارے کے
پروپرائٹر زیدی صاحب تھے جو واپڈا کے اکاؤنٹس آفس میں کام کرتے ٗ و ہ خود
تو نہیں لیکن ان کے کئی ملازمین حفیظ صاحب کی امامت میں چھوٹی سی جگہ پر
نماز پڑھتے ۔
پروفیسر حفیظ الرحمن احسن صاحب کی ادارت میں ادبی مجلہ" سیارہ " بھی شائع
ہوا کرتا تھا ۔ جس کے پہلے چیف ایڈیٹر ممتاز دینی اور قلمی راہنما جناب
نعیم صدیقی تھے جو جماعت اسلامی کے ابتدائی اراکین میں شامل تھے ۔بعد میں
تمام ادارتی ذمہ داریاں حفیظ صاحب کے سر پر آن پڑیں اور آپ نے اپنے
کاروبارکو پس پشت ڈال کے اپنے سرمایے سے سیارہ جیسے ضخیم پرچے کو جیسے تیسے
جاری رکھا اور مشکل ترین حالات میں بھی اسے بند نہیں ہونے دیا ۔ایوان ادب
میں ادیبوں اور شاعروں کے آنے کی ایک وجہ ادبی مجلہ "سیارہ " بھی تھا ۔ جب
اس کا نیا شمارہ مارکیٹ میں آتا تو ادیبوں اور شاعروں کے غول کے غول ایوان
ادب آمڈ آتے ۔ کیونکہ مدیر کے فرائض انجام دینے والے حفیظ صاحب دن کے ایک
بجے سے شام چار پانچ بجے تک ایوان ادب میں ہی موجود ہوتے ۔اس کے بعد وہ نور
چیمبرزگنپت روڈ کی پہلی منزل پر واقع سیارہ اور البلاغ کے دفتر پہنچتے ۔
جہاں نماز مغرب کے بعد تک ادبی اور تخلیقی کام کا سلسلہ جاری رہتا ۔ادبی
مجلہ "سیارہ" بہت ضخیم اشاعتوں میں شائع ہوتا ۔ ہر شمارے میں چار سے پانچ
سو صفحات ہوتے جن میں نہ صرف پاکستان کے دور دراز علاقوں سے تعلق رکھنے
والے پاکیزہ ادب کے لکھاری اپنی نگارشات اشاعت کے لیے بھیجتے بلکہ بھارت
اور بنگلہ دیش سے بھی اردو لکھنے والے کئی ممتاز ادیبوں اور شاعروں کی
تخلیقات سیارہ کی زینت بنتیں۔پروفیسر حفیظ الرحمن احسن کی ادارت میں شائع
ہونے والی ادبی مجلہ سیارہ میں تحریروں کی اشاعت کاایک خاص معیار مقرر
تھااس پر جو بھی ادیب اور شاعر پورا اترتا اس کی نگارشات شائع ہوجاتیں
۔کمزور اور بے ربط تحریریں سیارہ میں کبھی شائع نہیں ہوئیں یہی وجہ ہے کہ
کسی تشہیر کے بغیر ادبی مجلہ سیارہ پاکستان کی ہر اچھے لائبریری اور تعلیمی
اداروں کی لائبریریوں میں کسی سفارش کے بغیر دیکھا جاسکتا ہے ۔جس میں شائع
ہونے والی خوبصورت تحریریں اور شاعری کبھی ماضی کی دھول میں فراموش نہیں
ہوسکتیں ان کی خوشبو اور تازگی ہمیشہ برقرار رہے گی ۔ یہ حسن انتخاب
پروفیسر حفیظ الرحمن احسن صاحب کی محنتوں کا نتیجہ ہے ۔یہی وجہ ہے کہ آج
بھی ان کا نام معیاری ادب کے تخلیق کاروں میں بہت بلند جگہ پر لکھاہوا
دکھائی دیتا ہے ۔انہوں نے دین اور دنیا دونوں کو ساتھ ساتھ رکھا ۔ کام اپنی
جگہ لیکن جب بھی نماز کا وقت ہوتا تو سب کچھ چھوڑ کر حفیظ صاحب اور ان کے
رفقائے کار مصلے پر قبلہ رخ کھڑے ہوکر نماز پڑھنے لگتے ۔ مجھے پابندی سے
نماز پڑھنے کی عادت بھی حفیظ صاحب کی صحبت سے پڑی ۔ بے شک میں رات کے بارہ
بجے شادی کی کسی تقریب سے گھر واپس پہنچا ہوں لیکن نماز پڑھے بغیر اس لیے
نیند نہیں آتی ۔ ایسا نہ ہو کہ یہ رات ہی میری زندگی کی آخری رات ہو ۔
بہرکیف جب شاعروں اور ادیبوں کی آمد ہوتی تو خوب باتیں ہوتیں ٗ نظمیں ٗ
غزلیں سنی اور سنائی جاتیں ٗ بے ساختہ داد دی اور لی جاتی ۔ ابھی اپنی
تخلیقات سنانے والے واپس نہیں جاتے کہ حلقہ ادب لاہور کے منتظمین کی آمد کا
سلسلہ شروع ہوجاتا ۔ اشفاق ورک ٗ امجد طفیل ٗ ڈاکٹر یونس بٹ جیسے نوجوان
اپنی اپنی نگارشات لے کر ایوان ادب پہنچ جاتے۔ اس ہفتے کس نے غزل سنانی ہے
کس نے نظم پڑھنی ہے کس کا مضمون زیر بحث آئے گا ۔ یہ سب فیصلے ایوان ادب
میں بیٹھ کر حفیظ صاحب کی مشاورت سے ہوتے ۔اس کے باوجود کہ میں ایوان ادب
میں آنے والے خطوط ( جو پاکستان بھر کے اساتذہ کرام تحسین اردو اور ادارے
کی دیگر کتابوں کے حصول کے لیے ہوتے )کے جوابات ٹائپ رائٹر پر ٹائپ کررہا
ہوتا لیکن میرے کان ادبی سرگوشیوں کی جانب سے لگے رہتے ۔ کبھی کبھی تو مجھے
ہنسی بھی آتی کہ سخت ترین گرمیوں میں پروفیسر جعفر بلوچ اور پروفیسر یونس
حسرت جیسے شریف النفس انسان پسینے میں نہائے ہوئے ہانپتے کانپتے کتنی مشکل
سے ایوان ادب پہنچتے ہیں حالانکہ گرمی کے شدید موسم میں گھر یا کالج سے
نکلنے کی کوئی شریف آدمی ہمت نہیں کرتا ۔ لیکن یہاں آنے والے سب شریف بھی
ہوتے اور ادیب بھی ٗ صبرمند اور حوصلہ مند بھی ۔اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ
ہوگا کہ حفیظ صاحب وہ سرچشمہ فیض تھے جن سے دور و نزدیک کے بے شمار لوگ فیض
یاب ہونے جوق در جوق چلے آتے اور اپنی پیاس کو بجھا کر چلتے بنتے ۔
ادبی سرگرمیاں صرف ایوان ادب یا سیارہ کے دفتر میں ہی عروج پر نہ ہوتیں
بلکہ سردیوں کی شاموں میں جب پرندے بھی موسم کی شدت سے محفوظ ہونے کے لیے
اپنے اپنے گھونسلوں میں دبک کر بیٹھ جاتے لیکن ادیبوں اور شاعروں کوسردی
بھی نہ روک سکتی ۔ وہ حلقہ ادب لاہور کے ہفتہ وار اجلاس میں تو دور و نزدیک
سے نہ جانے کتنی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے پہنچ جاتے جس کے اکثر اجلاس پاک
ٹی ہاؤس یا پرانی انارکلی کے کسی ہوٹل میں ہوتے ۔باغ جناح بھی ان موسمی
صعوبتوں سے بے نیاز ادیبوں اور شاعروں کی سرگرمیوں سے محفوظ نہ ہوتا۔نماز
مغرب کے بعد جب سردی اپنے جوبن پر ہوتی اور دانت سے دانت ٹکرانے سے جو آواز
پیدا ہوتی وہ کانوں تک پہنچ کر پورے جسم میں تھرتھلی مچا رہی ہوتی لیکن
موسم کی اس بے رحمی سے بے نیاز انور میر صاحب سر پر گرم ٹوپی اور اوور کوٹ
پہنے ایوان ادب میں آ وارد ہوتے ۔جن کا حفیظ صاحب والہانہ انداز میں
استقبال کرتے ۔ جتنے خوش حفیظ صاحب ٗ انورمیر صاحب( پنجابی کے ممتاز شاعر
اور عالم دا سرکردہ کتاب کے مصنف آج اس دنیا میں نہیں رہے) کی آمد پر ہوتے
شاید ہی کسی اور کے حصے میں اتنی خوشی آئی ہو ۔کئی مرتبہ تو مجھے بھی حفیظ
صاحب کے ساتھ باغ جناح جانا پڑا جس کے ارد گرد گزرنے والے بھی سرد ہوا کے
جھونکوں سے پریشان ہوجایا کرتے تھے لیکن حفیظ صاحب اور انور میر صاحب دونوں
باغ جناح کے وسط میں واقع ہوٹل کے کسی گوشے میں بیٹھ کر اپنے اپنے کلام سے
ایک دوسرے کو فیض یاب کرنے کے بعد چائے پیتے پھر نہ جانے کب اپنے اپنے
گھروں کو واپس لوٹتے ۔اس وقت جبکہ میرا شمار لکھنے پڑھنے والوں میں نہیں
ہوتا تھا ٗ میں یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ یہ لوگ اتنے جذباتی کیوں ہیں ۔ نہ
انہیں بیوی بچوں کی فکر ہے اور نہ ہی اپنے جسم اور جان کی حفاظت کا خیال ۔
بس ایک غزل لکھ لی اور جب تک پورے شہر کو نہ سنا لی جائے اس وقت تک انہیں
سکون میسر نہیں آتا ۔
حفیظ صاحب کو جہاں اﷲ تعالی نے بادشاہوں جیسا دل دیا ہے وہاں صبر اور شکر
کی دولت بھی خوب عطا کی ہے ۔ بڑے بیٹے کی موت اورلاکھوں روپے کے نقصان کو
بھی اﷲ کی رضا سمجھ کر صبر کرلیتے ۔سخاوت پسند اتنے ہیں کہ کسی سے ادھار لے
کر بھی خیرات کرنے سے گریز نہیں کرتے ۔ ان کے ادارے کی آمدنی کا بڑا حصہ
غریبوں اورضرورت مندوں میں تقسیم ہوجاتا ۔ جس پر ایوان ادب کے مینجر محمد
یوسف سمیت تمام ملازمین پریشان ہوجاتے کہ عورتوں اور مردوں نے مانگنے کا
ڈھونگ رچا رکھا ہے لیکن میں نے کسی فقیر یا ضرورت مند کی آمد پر حفیظ کے
ماتھے پر کبھی شکن نہیں دیکھی۔ جو شخص بھی ان کے پاس کوئی حاجت لے کر آیا
وہ خالی ہاتھ واپس نہیں گیا ۔ یقینا اس کا اجر ان کو آخرت میں ضرور ملے گا
لیکن اپنے کردار اور گفتار سے وہ مجھے روشنی کے ایسے مینار ہیں جس کی روشنی
سے ہزاروں چراغ روشن بھی ہو چکے پھر بھی روشنی کم نہیں ہوئی ۔ اس کے باوجود
کہ بیماری اور بڑھاپے کی بنا پر اپنے گھر تک محدود ہو کر رہ چکے ہیں لیکن
ان کا نام اب بھی ادبی حلقوں میں نہایت ادب اور احترام سے لیاجاتا ہے۔ وہ
اپنی گفتگو اور مثبت رویے سے اب بھی لوگوں کے دلوں پر حکمرانی کرتے ہیں
۔انہوں نے اپنی زندگی کو پیسہ کمانے کا مقصد نہیں بنایا بلکہ پیسے کو لوگوں
کی زندگی سنوارنے کا باعث بنایا ۔ وہ جب کسی کی ضرورت پوری کرتے تو ان کے
چہرے پر تبسم کی ایک لہر سی دوڑ جاتی جو گہرے اطمینان قلب کا باعث بنتی ۔
مجھے یہ کہنے میں عار محسوس نہیں ہوتی کہ حفیظ صاحب کی شخصیت ایک ایسے
سمندر کی مانند ہے جس سے ہم سب حسب منشا سیراب ہوتے رہے ہیں ۔ آج ان کے
حلقہ اثر کے بے شمار نوجوان استاد بن کے کالجز میں تدریسی فرائض انجام دے
رہے ہیں ۔
1994 میں جب میری تنخواہ بڑھتے بڑھتے بارہ سالوں میں 1200 روپے ہوگئی تو
حفیظ صاحب نے ایک شام مجھے کہا ۔ لودھی صاحب اب ایوان ادب کا ادارہ آپ کی
تنخواہ کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتا اس لیے آپ آرام ہی کریں تو بہتر ہے۔اس
کے باوجود کہ اب میرا ایوان ادب میں جانا ختم ہوگیا لیکن حفیظ صاحب نے اپنی
تربیت اور صحبت سے میرے دل و دماغ میں لکھنے پڑھنے کی جو شمع جلائی تھی اس
کی روشنی نے قرطاس ابیض پر منتقل ہونا شروع ہوگیا ۔روزنامہ جرات ٗ روزنامہ
جہاں نما ٗ روزنامہ پہچان ٗ روزنامہ دن ٗ روزنامہ پاکستان ٗ روزنامہ آج
پشاور ٗ روزنامہ خبریں ٗ روزنامہ ایکسپریس میں لکھتا لکھتا میں ایک دن
ممتاز دانش ور اور جرات مند صحافی جناب مجید نظامی (مرحوم ) کی صدارت میں
شائع ہونے والے پاکستان کے سب سے بڑے اور پاکیزہ قدروں کے اخبار"نوائے وقت"
تک جا پہنچا۔ یہاں گزشتہ سات سال سے ہفتہ وار کالم لکھ رہا ہوں جو کسی
اعزاز سے کم نہیں ہے ۔مجھے یاد ہے کہ کبھی وہ وقت بھی تھا جب ہم اپنی کرکٹ
ٹیم کی کامیابی کی خبر نوائے وقت میں لگوانے کے لیے سفارشیں تلاش کیا کرتے
تھے پھر خبر چھپ جاتی تو ہماری خوشی کی کوئی انتہاء نہ ہوتی ۔ اس کے برعکس
آج ہر ہفتے جب نوائے وقت میں میرا کالم "قلم کی نوک پر" جب چھپتا ہے تو بے
پناہ خوشی ہوتی ہے ۔ اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ میری اس کامیابی کا
سہرا پروفیسر حفیظ الرحمن احسن صاحب کے سر بندھتا ہے جنہوں نے نہ صرف غیر
محسوس طریقے سے میری ذات میں چھپے ہوئے رائٹر کو جگایا بلکہ اسے لکھنے پر
مجبور بھی کردیا ۔
یہ بات حفیظ صاحب کی شخصیت میں شامل تھی کہ جو بھی کتاب ٗ رسالہ یا کوئی
اور مضمون وغیرہ ٗ ان سب کو سنبھال کر رکھ لیا جاتا پھر وقت ضرورت اس سے
استفادہ کیاجاتا۔حفیظ صاحب کے گھر میں بیس پچیس سال پرانے اردو ڈائجسٹ ٗ
سیارہ ڈائجسٹ ٗ قومی ڈائجسٹ ٗ ہفت روزہ تکبیر ٗ آئین ٗ چٹان اور جماعت
اسلامی کے حوالے سے اسلامی کتابوں ٗ قرآن و حدیث کی کتابوں اور تفاسیر
وغیرہ موجود تھی جنہیں الماریوں میں محفوظ کر رکھا تھا۔ان کے گھر کاایک
کمرہ تقریباان کتابوں اور رسائل سے بھرا ہوا تھا۔ ایک ملاقات میں حفیظ صاحب
یہ تمام رسالے مجھے یہ کہتے ہوئے دے دیئے تھے کہ ان سے استفادہ کرو اور
جتنی کتابیں بن سکتی ہیں بنا لو ۔یہ ادبی ورثہ حاصل کرنے کے لیے مجھے
برادرم توصیف کی گاڑی لے کر آنی پڑی جس میں اٹھا کر میں ان ڈائجسٹوں اور
رسالوں کو اپنے گھر لے آیا ۔ پھردو سال کی محنت اور مشقت کے بعد میں چار
بڑی ضخیم کتابیں مرتب کیں جن کے نام مشرقی پاکستان کے رستے زخم ٗ اسلام کا
عظیم سپہ سالار جنرل محمد ضیاء الحق شہید ٗ ذوالفقار علی بھٹو کا عہد ستم ٗ
پاک فوج کے عظیم جنگی کارنامے ہیں ۔اس کے علاوہ شخصیات پر بھی آٹھ دس مزید
کتابیں تیار ہوگئیں ۔جن میں عظیم لوگ ٗ سچے موتی ٗ ہیرے اورنگینے ٗ انمول
ہیرے ٗ سنہرے لوگ ٗ روشن چہرے ٗ نایاب ہیرے شامل ہیں۔ ان کتابوں میں ادب ٗ
صحافت ٗ قومی ہیرو ٗ دین ٗ تعلیم ٗ کھیل اور ثقافت کے شعبوں میں کارہائے
نمایاں انجام دینے والی اہم شخصیات کے حالات زندگی اور کارہائے نمایاں شامل
ہیں۔
اس طرح میں نے اپنی جیب سے چھ ہزار صفحات کمپوزر سے کمپوز کروا کے پاکستانی
تاریخ کا یہ اہم ترین کام سرانجام دے دیا۔جب میں یہ مشکل ترین کام کررہا
تھا بلکہ اپنے کئی دوستوں کو بھی اس میں شامل کررکھا تھا تو اس وقت بیگم
میری دیوانگی کو دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ جتنے پیسے آپ ان پر خرچ کررہے
ہیں اتنے پیسوں سے تو ہم عمرہ کرسکتے ہیں۔ لیکن جب تحقیق و تالیف کا یہ کام
میں کررہا تھا اس وقت مجھے سمجھ آئی کہ یہ ادیب اور شاعر سردیوں اور گرمیوں
کے موسم سے بے نیاز بغل میں چمڑے کے بیگ تھامے کیوں گھروں سے باہر در بدر
کی ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں نہ انہیں سردی لگتی ہے اور نہ ہی انہیں گرمی
پریشان کرتی ۔ ایک جذبہ جنون ہے جو ان کو سکون نہیں لینے دیتا۔ اگر ایک غزل
لکھ لی ہے تو دوسری کیوں نہیں لکھی اگر ایک کتاب مکمل ہوگئی ہے تو دوسری پر
کام کیوں نہ شروع کیاجائے ۔ غزلوں اور مضمونوں کے ڈھیر لگتے جاتے ہیں
کتابیں چھپ چھپ کر انبار لگتے جاتے ہیں لیکن اگے سے آگے بڑھنے کا جنون ان
لکھنے والوں کو سکون نہیں لینے دیتا ۔ یہ سکون تب انہیں حاصل ہوتا ہے جب یہ
لوگ قبروں میں اتر جاتے ہیں کیونکہ اﷲ تعالی قبروں میں لیٹ کر کتابیں لکھنے
ٗ غزلیں کہنے اور مضمون لکھنے کی اجازت نہیں دیتا اس لیے شہر خاموشاں میں
پہنچ کرہی تحریر و تخلیق کا یہ کام رک جاتا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں یہ بھی ایک
نشہ ہے جس کو لگ جاتا ہے پھر چھوٹنے کا نام نہیں لیتا ۔پروفیسر حفیظ الرحمن
احسن نے 12 سالوں کے دوران یہ نشہ مجھے اس طرح لگا دیا ہے اب میں چاہوں بھی
تو لکھے بغیر سکون نہیں ملتا۔ ہر روز میں کسی نہ کسی عنوان پر آرٹیکل ٗ
کہانی ٗ مضمون ضرور لکھتا ہوں ۔ابھی ایک کہانی مکمل نہیں ہوتی کہ دوسری ذہن
میں اتر آنے لگتی ہے ۔بے شک حفیظ صاحب کا حقیقی بیٹا تو محمد سلیمان ہی ہے
لیکن انہوں نے مجھے اپنا ادبی وارث بنا کر مجھ پر احسان عظیم کیا ہے جس کا
احسان میں کبھی نہیں اتار سکتا ۔اﷲ ان کا سایہ میرے سر پر سلامت رکھے۔
یوں تو لکھنے لکھانے کا سلسلہ بنک آف پنجاب میں بھی چلتا رہا لیکن 3 دسمبر
2014ء ریٹائرمنٹ کے بعد میں گھر تک محدود ہوکر رہ گیا تھا میرے ساتھ ریٹائر
ہونے والے لوگ گھر میں بیٹھ کے مکھیاں مارتے ہیں لیکن اﷲ تعالی کے فضل و
کرم سے میں سارا دن لکھنے اور پڑھنے میں کچھ اس طرح مصروف ہوجاتا کہ وقت
گزرنے کااحساس ہی نہ ہوتا۔ پھر حالات نے ایک اور کروٹ لی اور قدرت نے مجھے
اردو ڈائجسٹ جیسے معیاری اور ادبی ڈائجسٹ کی دہلیز پر لاکھڑا کیا۔بین
الاقوامی شہرت کا حامل یہ ڈائجسٹ برصغیر و پاک کے لاکھوں قارئین کا پسندیدہ
ہے بلکہ مشرق وسطی ٗ یورپ اورامریکہ تک اس کے پڑھنے والے موجود ہیں ۔الطاف
حسن قریشی ٗ ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی جیسے عظیم صحافیوں کا خون اور پسینہ اس
ڈائجسٹ کی بنیادوں میں سیمنٹ کا کام کرچکا ہے ۔ پھر ممتاز مجیب الرحمن شامی
ٗ اسداﷲ غالب ٗ ضیا شاہد ٗ شریف کیانی جیسے قد آور صحافی بھی اس ڈائجسٹ سے
منسلک رہے ہیں یہ میگزین ایوب خاں سے لے کر آج تک کسی نہ کسی طرح پاکستانی
حکمرانوں کے لیے لوہے کا چنا ثابت ہوا ہے ۔بے شمار سختیاں ٗ بدترین معاشی
حالات ٗ قدم قدم پر رکاوٹوں کے باوجود یہ ڈائجسٹ اشاعت کے 54 سال پورے
کرچکا ہے ۔شاید ہی برصغیر پاک و ہند کا کوئی ڈائجسٹ نے اتنا مشکل اور طویل
ترین سفر طے کیاہو ۔ اس ڈائجسٹ کادنیامیں بہت نام ہے ۔جس شخص نے اسے نہیں
پڑھا وہ بھی اس کا نام جانتا ہے۔ اس لیے کہاجاسکتا ہے کہ اردو ڈائجسٹ اردو
لکھنے ٗپڑھنے اور بولنے والوں میں ایک معیار بن چکا ہے اس معیار پر پورا
اترنا یقینا مجھ جیسے شخص کے لیے بہت مشکل ہے لیکن قدرت نے مجھے اردو
ڈائجسٹ کی دہلیز تک تو پہنچا دیا ہے آگے کے معاملات اﷲ کے سپرد ہیں۔
ابتدا ء میں300 روپے ماہوار پر ایوان ادب میں پروفیسر حفیظ الرحمن کی
سرپرستی میں جزوقتی کام کرنے والا سٹینوگرافر آج پورے ملک کے ادبی
اورصحافتی حلقوں میں ایک ادیب اور رائٹر کی حیثیت سے جانا پہچانا جاتا ہے
۔تین سو روپے میں ادیب اور رائٹر بننے والا سودا مہنگا تو نہیں ہے۔ یہ
کارنامہ حفیظ صاحب نے اپنی صحبت اور اچھا ماحول فراہم کرکے کچھ اس طرح سے
انجام دے دیا ہے کہ مجھے خود بھی پتہ نہیں چلتا کہ میرے اندر لکھنے کی
صلاحیت کب اور کیسے پیدا ہوئی اور چراغ میں پڑے ہوئے تیل کو دیا سلائی
دکھانے کا کارنامہ حفیظ صاحب نے کب انجام دیا۔اب یہ چراغ اﷲ کے فضل و کرم
سے اس قدر روشن اور رواں ہوچکا ہے کہ نہ صرف 60 کتابیں تحریر و تالیف کرچکا
ہے اور بہترین کالم نگار کا ٹیٹرا پیک گرین میڈیا ایوارڈ اول2007ء ٗ 50
ہزار روپے کے چیک سمیت جیت چکا ہے ۔جو کسی اعزاز سے کم نہیں ہے ۔
چار ہزار سے زائدآرٹیکل اور کالم بھی تحریر کرچکا ہے جبکہ ہفت روزہ فیملی ٗ
اخبار جہاں ٗ ماہنامہ زنجیر ٗ ماہنامہ تارکین وطن ٗ ماہنامہ اردو ڈائجسٹ ٗ
ماہنامہ قومی ڈائجسٹ ٗ ماہنامہ سیارہ ٗ ماہنامہ ضیائے حرم ٗ ماہنامہ حجاز
نیوز لیٹر میں تحریروں کی اشاعت کا سلسلہ جاری و ساری ہے ۔یہی وہ چراغ ہے
جس کی گیارہ کتابیں صوبہ پنجاب ٗ گیارہ خیبر پختوانخواہ اور گیارہ آزادجموں
و کشمیر کے تعلیمی اداروں اور پبلک لائبریریوں کے لیے منظور ہوچکی ہیں اور
تمغہ حسن کارکردگی کے لیے بھی 2005ء میں نام تجویزہوچکا ہے لیکن سفارش نہ
ہونے کی بنا پر یہ ایوارڈ حاصل نہیں کرسکا۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے نشان
حیدر حاصل کرنے والے پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کے کارناموں پر مشتمل
ڈراموں کی کہانیاں لکھنے کا فریضہ بھی انجام دے چکا ہے ۔اب یہ چراغ پوری آب
و تاب کے ساتھ روشن ہے جس کو روشن رکھنے کا فریضہ حفیظ صاحب نے اپنی بہترین
تربیت اور صحبت سے انجام دیا ہے ۔ اﷲ تعالی سے دعا ہے کہ وہ پروفیسر حفیظ
الرحمن احسن صاحب کو میرے سر پر سلامت رکھے ۔ دنیا اور آخرت میں ان کاشمار
اپنے صالحین بندوں میں کرے ۔آمین |