اب کے بارمار تو
(عابد محمود عزام, karachi)
پاکستان کو ایک طویل عرصے سے
دہشت گردی کے انتہائی دہشت ناک عفریت کا سامنا ہے، جو گزرتے وقت کے ساتھ
مزید خوف ناک اور بھیانک ہوتا جارہا ہے۔ دہشت گردی ریاست کو درپیش خطرات
میں سب سے بڑا اور مہیب خطرہ ہے، جس نے پاکستان کی بقا اور سلامتی کو چیلنج
کیا ہوا ہے اور معاشرے کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو شدید خطرات لاحق
ہیں، جس سے مساجد محفوظ ہیں نہ درسگاہیں، چرچ محفوظ ہیں نہ امام بارگاہیں،
بازار محفوظ ہیں نہ شاہرائیں، ہسپتال محفوظ ہیں نہ دفاتر، مشایخ محفوظ ہیں
نہ علمائ، اسکول محفوظ ہیں نہ کالج، مدارس محفوظ ہیں نہ یونیورسٹیاں۔ ملک
میں دہشت گردی کا یہ عالم ہے کہ ”گلوبل ٹیرارزم انڈیکس“ کی ایک رپورٹ کے
مطابق پاکستان دہشت گردی سے متاثرہ ملکوں میں تیسرے نمبر پر ہے۔ ملک پر خوف
و وحشت کے منڈلاتے بادل اب مزید گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ دہشت گردی کے باعث
ملک کی معیشت، تعلیم اور دیگر شعبے تو زوال پذیر ہو ہی رہے ہیں، جبکہ صحت
کا شعبہ بھی اب دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ ملک کے تین ہزار سے زاید ڈاکٹرز
جانی تحفظ کی ضمانت کے فقدان کی بنا پر دیگر ملکوں میں نقل مکانی کر چکے
ہیں۔
دہشت گرد پوری آزادی کے ساتھ آئے روز اپنے مقاصد حاصل کر رہے ہیں، جن کو
دیکھ کر یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ شاید اسلامی ممالک کی پہلی اور دنیا کی
ساتویں ایٹمی طاقت میں سیکورٹی نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ مستحکم جمہوری
حکومت میں ایسی ایسی کارروائیاں باآسانی پایہ تکمیل تک پہنچ رہی ہیں، جو
کسی مکمل جنگ زدہ ملک میں ہی ممکن ہو سکتی ہیں۔ ایک کے بعد دوسرا اور پھر
تیسرا ٹارگٹ انتہائی آسانی سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ تمام تر دعوؤں کے
باوجود حکمران دہشت گردی کے ناسور کو ملک سے ختم کرنے میں ناکام ہیں۔ ہر
حملے کے بعد وزیر اعظم نواز شریف کا یہ بیان اخبارات کی زینت بنتا ہے:
”پاکستانی معاشرے کو دہشت گردی سے پاک کردیں گے۔“ ان بیانات کے بعد بھی
دہشت گردی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی، بلکہ دہشت گرد پہلے سے زیادہ منظم
انداز میں حملہ آور ہوتے ہیں۔ حکمران پھر یہ بیان دیتے ہیں کہ معاشرے کو
دہشت گردی سے پاک کر دیں گے، لیکن اس کے باوجود دہشت گرد کبھی شکار پور میں
سفاکیت کی انتہا کرتے ہیں،کبھی پشاور میں خون کی ہولی کھیلتے ہیں،کبھی
لاہور میں درندگی کی تاریخ رقم کرتے ہیں اور کبھی راولپنڈی میں حملہ آور
ہوتے ہیں، لیکن حکومت صرف یہی بیانات دینے پر اکتفا کرتی ہے: ”معاشرے کو
دہشت گردی سے پاک کر دیں گے۔“ ان بیانات کے بعد بھی دہشت گرد آزادی کے ساتھ
حملہ کرتے ہیں، لیکن حکومت کا ”اب کے بار“ نہیں آتا۔ اسی مناسبت سے ایک
لطیفہ مشہور ہے: لکھنو کے کسی بانکے کو مار پڑ رہی تھی، وہ مار کھاتا تھا،
اٹھتا تھا اور مارنے والے سے کہتا تھا: ”اب کے بار مار تو“ مارنے والا ایک
اور جڑ دیتا، یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا، جب تک مارنے والا تھک نہ گیا۔“
حالات کے تناظر میں ہمارے حکمران بھی اسی بانکے کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔
ہمارے حکمرانوں کی ناہلی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ 2002 کے بعد سے اب
تک پاکستان میں چار سو سے زاید خودکش حملے ہوچکے ہیں اور یہ سلسلہ تاحال
جاری ہے، لیکن ہماری حکومتیں ابھی تک ان کا کوئی توڑ نہیں نکال سکیں۔ 40
ہزار سے زاید جوانوں اور شہریوں کی قیمتی جانیں گنوانے اور معیشت کے بھاری
نقصان کے باوجود وفاقی و صوبائی حکومتیں دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے 13
سال بعد بھی موثر اقدامات کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ یہ مانا کہ خودکش حملوں
کو روکنا انتہائی مشکل ہے، لیکن کیا سیکورٹی سخت کر کے ان پر کافی حد تک
قابو نہیں پایا جاسکتا؟ قابل غور بات ہے کہ دہشت گردی برطانیہ میں کیوں
نہیں ہوتی؟، امریکا میں کیوں نہیں ہوتی؟، چین میں کیوں نہیں ہوتی؟، ترکی
میں کیوں نہیں ہوتی؟، ایران میں کیوں نہیں ہوتی؟، سعودی عرب میں کیوں نہیں
ہوتی؟ایسے متعدد ممالک ہیں، جہاں دہشت گردی نہیں ہوتی۔ کیا ان ممالک کی
سیکورٹی کے افراد کسی اسٹیل مل کے بنے ہوتے ہیں یا گوشت پوست کے ہوتے ہیں؟
ساری دنیا میں سیکورٹی پر معمور لوگ گوشت پوست کے ہی ہوتے ہیں، لیکن ان کے
کام کرنے کا طریقہ ہم سے مختلف ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں تو باوا آدم ہی نرالا
ہے۔ یہاں تو سی سی ٹی وی کیمروں، واک تھرو گیٹ، اسلحے اور دیگر آلات میں
بھی کرپشن کر کے ناقص اور ناکارہ سامان فراہم کر دیا جاتا ہے، جو دہشت گردی
کی روک تھام میں معاون بننے سے قاصر ہوتا ہے، ایسے میں دہشت گردی پر قابو
پانا محض خام خیالی ہی ہوسکتی ہے اور ایک حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ تقریباً
ہر دھماکے اور خودکش حملے سے پہلے وزیرداخلہ کو یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ اتنے
اتنے حملہ آور فلاں شہر میں داخل ہوچکے ہیں، لیکن سمجھ سے بالاتر ہے کہ ان
دہشت گردوں کو گرفتار کیوں نہیں کیا جاتا؟
ملک میں دہشت گردی کے حوالے سے غیر ملکی ہاتھوں کو بھی مد نظر رکھنا ضروری
ہے۔ ملک میں کئی کارروائیوں میں غیرملکی قوتوں کے ملوث ہونے کے شواہد ملتے
رہے ہیں۔ دہشت گردی کے پیچھے انتہا پسند تنظیمیں ہی نہیں، بلکہ غیر ملکی
قوتیں بھی پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کیے ہوئے ہیں۔ اس بات کا اعتراف بارہا
اعلیٰ عہدیدار بھی کر چکے ہیں۔ گزشتہ دنوں اسی حوالے سے پاک فوج کی جانب سے
جاری ہونے والا بیان کافی اہمیت کا حامل ہے، جس میں بھارت کو متنبہ کرتے
ہوئے کہا گیا تھا کہ ”بھارت کو سمجھا دیا ہے کہ خطرناک کھیل نہ کھیلے۔ دہشت
گردوں کی اتنی بڑی فنڈنگ بیرونی امداد کے بغیر ممکن نہیں، دہشتگردوں کے
پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے، وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ سے ہماری توجہ ہٹانا
چاہتا ہے۔“ دشمن ممالک کے تعاون سے دہشتگرد شیر ہوتے جا رہے ہیں، جب تک
پاکستان میں غیر ملکی قوتوں کی مداخلت نہیں روکی جاتی، اس وقت تک پاکستان
میں دہشتگردی پر قابو پانا بہت مشکل ہے۔
پاکستان میں دہشت گردی کے مستقل طور پر سدباب کے لیے جامع، موثر اور نتیجہ
خیز حکمت عملی اور پوری قوم کی بیداری کی ضرورت ہے۔ عوامی اور حکومتی دونوں
سطح پر اقدامات کرنا ہوں گے۔ عوامی سطح پر قوم میں مایوسی، نفرت، تفرقہ
بازی، باہمی منافرت اور تعصب کا خاتمہ کرنا ہوگا، جس میں اہم کردار علمائے
کرام کا ہے، کیونکہ دہشت گردی کے واقعات میں مذہب کو غلط طور پر استعمال
کیا جا رہا ہے۔ اگر اجتماعی سطح پر علمائے کرام اور مختلف مسالک کے رہنما
اپنے سیاسی ،جماعتی اور مسلکی مفادات سے قطع نظر قومی وقار، سلامتی، عوام
کے جان و مال کے تحفظ کو ترجیح بناتے ہوئے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے متفقہ
لائحہ عمل طے کریں تو اس سے نہ صرف قومی یکجہتی کو فروغ ملے گا، بلکہ دہشت
گردی پر قابو پانے میں معاونت بھی حاصل ہو گی۔ اس کے ساتھ اگر حکومت اپنی
ترجیح دہشت گردی کے خاتمے کو قرار دے اورسیکورٹی کے ذمے دار اداروں کو ہر
طرح کی مصلحت سے بالا تر ہو کر دہشت گردی کے خاتمے کا ٹاسک دیا جائے تو
کوئی وجہ نہیں کہ دہشت گردی کا سدباب نہ ہوسکے۔ |
|