کراچی:نائن زیرو پر رینجرز کا چھاپہ.... ایم کیو ایم کا احتجاج
(عابد محمود عزام, Karachi)
ایک ایسے وقت میں جب گزشتہ روز
وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف نے کراچی سے لاہور موٹر وے منصوبے کا سنگ
بنیاد رکھنے کے لیے کراچی کا دورہ کیا اور اسی روز عدالت نے صولت مرزا کے
ڈیتھ وارنٹ جاری کیے، جس کے تحت 19 مارچ کو سزائے موت پر عمل درآمد کیا
جائے گا۔ صولت مرزا کو 1999 میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔ جبکہ دوسری جانب
سینیٹ الیکشن کے بعد متحدہ قومی موومنٹ سندھ اسمبلی میں حکومت کا حصہ بننے
جارہی تھی، لیکن ان حالات میں اچانک رینجرز کی جانب سے متحدہ قومی موومنٹ
کے مرکز نائن زیرو پر چھاپے کے بعد نہ صرف اب متحدہ قومی موومنٹ کا حکومت
میں شامل ہونا مشکل ہے، بلکہ ہر لحاظ سے حالات پیچیدہ صورتحال اختیار کر
گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے
مرکز نائن زیرو میں بدھ کو صبح 5 بجے رینجرز کی بھاری نفری نے سرچ آپریشن
کرتے ہوئے ایم کیوایم کے مرکزنائن زیرو اور اطراف کے مکانوں پر چھاپہ مارکر
بھاری تعداد میں اسلحہ برآمد کرنے کے ساتھ متحدہ کے رہنماؤں سمیت کئی افراد
کوحراست میں لیا، جن میں سے بعض کو بعد ازاں چھوڑ دیا گیا۔ ترجمان سندھ
رینجرز کرنل طاہر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جرائم پیشہ افراد کی
موجودگی کی مصدقہ اطلاع کے بعد نائن زیرو اور اطراف کے علاقوں میں کارروائی
کی گئی۔ اسے سیاسی رنگ نہ دیا جائے، کارروائی کے دوران بھاری تعداد میں غیر
ملکی اور نیٹو کنٹینرز سے چوری شدہ اسلحہ برآمد ہوا، اس قسم کا اسلحہ بھی
برآمد ہوا جس کا پاکستان میں لانا ہی ممنوع ہے۔ آپریشن کے دوران ٹارگٹ کلر
اور جرائم پیشہ افراد سمیت متعدد افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ نائن زیرو سے
فیصل موٹا، عبید، نادرشاہ اور فرحان شبیر کو گرفتار کیا گیا ہے۔ فیصل موٹا
نجی ٹی وی کے صحافی ولی خان بابر کے قتل کیس کا مرکزی ملزم ہے اور اسے
عدالت نے سزائے موت سنائی ہے۔ ترجمان رینجرز کا کہنا تھا کہ کسی رکن قومی
یا صوبائی اسمبلی کو حراست میں نہیں لیا گیا، البتہ عامر خان کو پوچھ گچھ
کے لیے ساتھ رکھا۔ سندھ رینجرز کے ترجمان کرنل طاہر کا کہنا تھا کہ نائن
زیرو میں کارروائی خفیہ اطلاع کی بنیاد پر کی گئی۔ نائن زیرو کی طرف 21
راستے آتے ہیں، ان تمام کو بیرئیر لگا کر بند کیا گیا، جو ”نو گو ایریا“ کے
زمرے میں آتا ہے۔ رینجرز کو اختیار حاصل ہے کہ وہ نوگو ایریاز کا خاتمہ
کرے۔ واضح رہے کہ اسی دوران ایم کیو ایم کا ایک کارکن بھی گولی لگنے سے
زخمی ہوا، جو بعد ازاں دم توڑ گیا۔ ایم کیو ایم نے الزام عاید کیا کہ مرکزی
میڈیا سیل کا کارکن وقاص شاہ رینجرز کی فائرنگ سے ہلاک ہوا۔ جبکہ دوسری
جانب رینجرز کے ترجمان نے سختی سے تردید کی کہ کوئی بھی شخص وہاں ہلاک نہیں
ہوا، البتہ نامعلوم افراد کی فائرنگ سے نجی ٹی وی چینل کا کیمرہ مین زخمی
ہوا تھا۔ نائن زیرو کے قریب فائرنگ سے ہلاک ہونے والے ایم کیو ایم کے کارکن
کے حوالے سے پولیس کے ایڈیشنل آئی جی غلام قادر تھیبو کا کہنا تھا کہ وقاص
علی کورینجرز کی گولی نہیں لگی، بلکہ وقاص نامعلوم ملزمان کی فائرنگ سے
ہلاک ہوا ہے۔ ڈی جی رینجرز نے بھی کہا ہے کہ رینجرز نے گولی نہیں ماری۔
وقاص کو لگنے والی گولی ٹی ٹی پستول کی ہے۔چھاپے کے وقت رینجرز کے پاس
بھاری اسلحہ تھا۔ ایم کیو ایم کے کارکن کی ہلاکت کی ابتدائی رپورٹ میں
بتایا گیا ہے کہ وقاص کو چھوٹے ہتھیار کی ایک گولی سر میں لگی، جس سے اس کی
ہلاکت ہوئی۔
نائن زیرو پر رینجرز چھاپے کے بعد کراچی کے حالات کشیدہ ہونے پر رینجرز نے
ٹرانسپورٹرز سے کہا کہ وہ سڑکوں پر اپنی گاڑیاں لے کر آ سکتے ہیں، کیونکہ
کسی کو بھی نقص امن کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ شہریوں کی حفاظت ہماری ذمہ
داری ہے۔ واضح رہے کہ ایم کیو ایم کے مرکزی دفتر نائن زیرو پر چھاپے کے بعد
رابطہ کمیٹی نے احتجاج کی اپیل کی اور کاروبار بند رکھنے کا کہا، جس پر ایم
کیوایم کے کارکنان کی بڑی تعداد نائن زیرو چوک پر پہنچ گئی۔ اس سے پہلے
کارکنوں نے مکا چوک پر رینجرز کی سیکورٹی کا حصار توڑ کر نائن زیرو پہنچنے
کی کوشش کی۔ بعد ازاں ایم کیو ایم کے کارکنان کی شدید ہنگامہ آرائی کے باعث
رینجرز کی نفری نائن زیرو سے نکل کر عائشہ منزل کی جانب چلی گئی۔ ایم کیو
ایم کے مرکز نائن زیرو پر رینجرز کے چھاپے کے خلاف گزشتہ روز کراچی میں
جزوی طور پر ہڑتال رہی۔ کاروباری مراکز اور پیٹرول پمپس بند، جبکہ کئی
علاقوں میں ٹرانسپورٹ غائب رہی۔ ہڑتال کے باعث ٹرانسپورٹرز نے بھی پبلک
ٹرانسپورٹ سڑکوں پر نہ لانے کا اعلان کیا، جس کے بعد سڑکوں پر ٹرانسپورٹ
غائب ہوگئی اور لوگوں کو دفاتر اور اپنے کاموں کے لیے جانے میں شدید مشکلات
کا سامنا کرنا پڑا۔ ہڑتال کے باعث رکشے و ٹیکسی والے من مانا کرایہ وصول
کرتے رہے۔ جبکہ پرائیویٹ اسکولز ایسویسی ایشن کے اعلان کے بعد شہر کے
تعلیمی ادارے اور پرائیویٹ اسکولز بند کر دیے گئے، جبکہ نجی اسکولوں میں
ہونے والے امتحانات بھی ملتوی کر دیے گئے ہیں۔ ہڑتال کا اعلان سنتے ہی
والدین بچوں کو لینے اسکولوں کے باہر پہنچ گئے اور انہیں اپنے بچوں کو لانے
میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ ہڑتال کے باعث جامعہ کراچی اور اردو
یونیورسٹی میں تدریسی عمل معطل کر دیا گیا اور گزشتہ روز ہونے والے پرچے
بھی ملتوی کر دیے۔ چھاپے کے بعد ایم کیو ایم کے رہنما واسع جلیل کا کہنا
تھا کہ رینجرز نے نائن زیرو پر چھاپہ مارا اور درجنوں کارکنوں کی آنکھوں پر
پٹی باندھ کر انہیں زمین پر بٹھایا گیا۔ ایم کیو ایم کی قیادت اب تک یہ
سمجھنے سے قاصر ہے کہ رینجرز کی جانب سے یہ چھاپہ کیوں مارا گیا ہے کیونکہ
ایسی کوئی صورت حال نہیں تھی اور متحدہ قومی موومنٹ کی تمام سرگرمیاں معمول
کے مطابق جاری تھیں۔
ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر رینجرز کے چھاپے کے بعد ایم کیو ایم کے
کارکنوں سے خطاب کے دوران الطاف حسین نے کہا کہ رینجرز نے کراچی میں ان کے
گھر نائن زیرو اور ان کی بڑی بہن کے گھر پر چھاپہ مارا۔ پاکستان میں
بدقسمتی سے کچھ لوگ قانون کی زد میں آتے ہیں اور کچھ لوگ قانون کی ضد بن
جاتے ہیں، یعنی قانون سے ماورا ہوجاتے ہیں۔ ان پر کسی معاشرتی اقدار کا
اطلاق نہیں ہوتا۔ صوبہ سندھ میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے رینجرز کی
خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ کراچی میں قتل و غارت رکوانے کے لیے ہم نے فوجی
آپریشن کا مطالبہ کیا، لیکن آپریشن کی ذمہ داری رینجرز کو دے دی گئی۔ الطاف
حسین نے کہا کہ ایم کیو ایم ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت ہے۔ ملک میں
سیاسی رہنماو ¿ں کی گرفتاریاں تو ہوتی ہیں، لیکن کسی جماعت کے سربراہ کے
گھر پر چھاپہ نہیں مارا جاتا، لیکن ان کے گھر پر 100 سے زاید چھاپے مارے
گئے، کیا وہ مسلمان اور پاکستانی نہیں، پھر گھروں میں گھس کر کارکنوں کو
اٹھانے کے بعد ان کے کارکنوں کی لاشیں کیوں پھینکی جاتی ہیں؟ سپریم کورٹ نے
رولنگ دی تھی کہ کراچی میں سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگ ہیں، لیکن جب آپریشن
شروع کیا گیا تو ایم کیو ایم کے علاوہ کسی جماعت کے خلاف کارروائی نہیں کی
گئی۔ ایم کیو ایم کے قائد کا مزید کہنا تھا کہ رینجرز نے قوم کو وہ اسلحہ
دکھایا جو انہوں نے زندگی میں کبھی نہیں دیکھا، خواتین کہتی ہیں کہ رینجرز
حکام خود کمبلوں میں اسلحہ بھر بھر کر لائے تھے۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف
حسین نے کہا کہ متحدہ میں دہشت گردوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ مطلوب افراد
نائن زیرو کو مصیبت میں نہ ڈالتے کہیں اور چلے جاتے، چند لوگوں نے پارٹی کو
بدنام کیا۔ ایم کیو ایم قائد نے کہا کہ کراچی کو جماعت اسلامی، پیپلزپارٹی،
تحریک انصاف کے حوالے کر دو۔ کوئی حق کی بات کرنے والا نہیں، ملک چوں چوں
کا مربہ بن گیا ہے۔ متحدہ کے قائد الطاف حسین نے پیپلزپارٹی کے سربراہ آصف
علی زرداری سے ٹیلی فونک رابطہ کر کے رینجرز چھاپے کی تمام تفصیلات بتائیں،
جس پر آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ متحدہ قومی موومنٹ ایک بڑی سیاسی
جماعت ہے۔ نائن زیرو پر چھاپا مارنا قابل مذمت ہے۔
وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے ڈی جی رینجرز سندھ میجر جنرل بلال
اکبر اور ڈائریکٹر جنرل پولیس غلام حیدر جمالی سے رابطہ کر کے ایم کیو ایم
کے مرکز نائن زیرو پر چھاپے اور گرفتاریوں کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ طلب
کی۔ انہوں نے شہر میں ہونے والے احتجاج پرکہا کہ شہریوں کی جان ومال کے
تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ انہوں امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کی
ہدایت کی۔ دوسری جانب کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ کے مرکز نائن زیرو پر
رینجرز کے چھاپے کی بازگشت وفاقی دارلحکومت میں سینیٹ کے اجلاس میں بھی سنی
گئی اور پیپلزپارٹی سمیت اپوزیشن نے اس واقعے کے خلاف ایوان سے واک آو ¿ٹ
کیا۔ ایم کیو ایم کے سبکدوش ہونے والے سینیٹر بابر غوری نے پارلیمنٹ کے
باہر کہا کہ وزیراعظم نواز شریف پر ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس بات کو
کلیئر کریں کہ کیا سینیٹ چیئرمین شپ کے لیے رضا ربانی کی حمایت کرنے کی وجہ
سے نائن زیرو پر چھاپہ مارا گیا ہے۔ بابر غوری نے دعویٰ کیا کہ نائن زیرو
میں کوئی غیر قانونی اسلحہ نہیں تھا۔ ایم کیو ایم کے سینیٹر نے مطالبہ کیا
کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف رینجرز کے چھاپے کا نوٹس لیں اور فائرنگ میں
ملوث اہلکاروں کا کورٹ مارشل کریں۔ قبل ازیں پیپلز پارٹی کے رہنما اور
سینیٹ میں چیئرمین کے امیدوار رضا ربانی کا کہنا تھا کہ رینجرز کے پاس کوئی
اطلاع تھی، تب بھی لیڈر شپ کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا۔ رینجرز کے چھاپے
کو جمہوری قوتیں سپورٹ نہیں کر سکتیں۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کے مرکز
نائن زیرو پر کارروائی افسوسناک ہے۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر
نے کہا کہ رینجرز کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لیے انسانی حقوق کی ایک
کمیٹی بنائی جائے اور اس معاملے کو اس کے سپرد کیا جائے۔ رینجرز کی نائن
زیرو پر کارروائی کے بعد ایم کیو ایم کے رہنماو ¿ں کی جانب سے جاری بیان
میں کہا گیا کہ (ن) لیگ ایسی کارروئیاں کرکے سینیٹ چیرمین کے لیے رضا ربانی
کی حمایت کا بدلہ لے رہی ہے، جس پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے راجہ ظفرالحق
نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کا رینجرز کے اس چھاپے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کراچی
میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے ٹارگٹڈ آپریشن بلاتفریق جاری
ہے اور ایم کیو ایم کے رہنماو ¿ں کی جانب سے ایسی صورتحال میں سیاسی بالغ
نظری کا مظاہرہ کرنے کی بجائے چھاپے کا الزام مسلم لیگ (ن) پر لگانا قابل
افسوس ہے۔ دوسری جانب تحریک انصاف کی مرکزی رہنما شیری مزاری نے متحدہ قومی
موومنٹ کے مرکز نائن زیرو پر رینجرز کے چھاپے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے
جہاں ایک طرف متحدہ کے نہتے کارکن کی ہلاکت کی مذمت کی ہے، وہیں شیر ی
مزاری نے سوالات اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ ولی بابر کیس کے مطلوب ملزم سمیت
دیگر سزا یافتہ افراد نائن زیرو میں کیا کر رہے تھے؟ اور نیٹو کنٹینر سے
غائب ہونے والا اسلحہ ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو میں کیوں موجود تھا؟
اس کے ساتھ تحریک انصاف نے تمام سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز کو ختم کرنے
کا ایک بار پھر مطالبہ کیا ہے۔ |
|