امن معاہدہ (2005ئ) آخر کب عمل درآمد کروایا جائے گا ؟

سماجی بہتری اور رواداری کے لیے معاہدے تشکیل دیے جاتے ہیں۔سماجی مفکرین نے عمرانی معاہدوں کی بڑی تفصیلی وضاحتیں اور فوائد گنوائے ہیں۔انسانی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ سماجی معاہدوں پر عمل ہونے سے مفید نتائج سامنے آئے ہیں۔معاہدے اس لیے تشکیل پاتے ہیں کہ انسان آئے روز کے باہمی چپقلشوں سے چھٹکارا پائے، امن و امان جب مفقود ہوتا ہے تو انسان ا پنے بہت سے آئینی، سماجی اور قانونی حقوق سے کسی مجلس، کمیٹی یا جرگہ کے حق میں دستبردار ہوتا ہے۔ اور وہ لوگ ان کے حقوق کے محافظ قرار پاتے ہیں، یہ معاہدے افراد اور معاشروں کے درمیان بھی ہوتے ہیں اور کبھی حکومت بھی ان میں باقاعدہ فریق کی حیثیت سے شریک عمل ہوتی ہے۔ ذیل میں گلگت بلتستان میں امن و امامن کے قیام کے حوالے سے ترتیب دیا جانے والا ''امن معاہدہ2005ئ'' اور اس کی روشنی میں تشکیل پانے والی ''سفارشات جرگہ برائے کاروائی انتظامیہ و قانون ساز کونسل''بلا کم وکاست پیش کیا جاتاہے اور امن معاہد ہ اور سفارشات جرگہ کے بعد پیش آنے والے واقعات اور صورت حال کا مختصر جائزہ لیا جاتا ہے۔''امن معاہدہ اورسفارشات جرگہ'' کا مکمل متن یہ ہے۔

بسم اللہ الرحمان
''امن معاہدہ''
مورخہ8جنوری کے ناخوشگوار اور دلخراش واقعات سے گلگت کی یہ دھرتی افسردہ اور خون چکاں ہوچکی تھی۔ہر دردمند انسان اس دکھ سے نالاں تھا۔شمالی علاقہ جات قانون ساز کونسل تسلسل سے لوگوں کو اس الجھاؤ اور رنج و الم سے نکالنے کے لیے مصروف عمل تھی۔ قانون ساز اسمبلی کی کئی کوششیں کامیابی سے ہم کنار ہوتے ہوتے رہ گئیں۔
''ہوتا ہے جادپیما پھر کارواں ہمارا''
کے مصداق یہ کارواں قافلہ سالار جناب اسپیکر قانون ساز اکونسل ملک مسکین کی سرکردگی میں بڑھتا ہی چلا گیا۔ قانون ساز کونسل کی پارلیمانی کمیٹی مشتمل بر حافظ حفیظ الرحمان ومیرزہ حسین ممبران ناردرن ایریا قانون ساز کونسل شمالی علاقہ جات گلگت کی دعوت پر سب ڈویژن گلگت کے لگ بھگ 500اکابرین جناب سپیکر ملک مسکین کی صدارت میں یکجا ہوئے اور قبائلی روایات کے مطابق 130 شیعہ سنی افراد پر مشتمل ایک گرینڈ جرگہ کو تخلیق کیا گیا۔ اس جرگے کے کئی اجلاس جناب اسپیکر کی صدارت میں ہوئے۔کام میں آسانی اور سہولت پیدا کرنے کے لیے 30 اکابرین پر مشتمل جرگے نے اٹھارہ اٹھارہ شیعہ اورسنی جرگہ داران کو مختار عام بنا کر آگے پیش رفت کی روشنی دکھائی۔ اس جرگے کوانجمن امامیہ گلگت اور تنظیم اہل سنت والجماعت کی تائید حاصل ہوئی۔ اس جرگے کے کئی اجلاس ہوئے اور پھر امن سفارشات مرتب کرنے کے لیے چھ افراد کا چناؤ ہوا، جن میں سید جعفر شاہ،محمد عیسیٰ ایڈوکیٹ، سید یحیٰ شاہ، پروفیسر عثمان، شیر ولی ایڈوکیٹ اور میر افضل سابق ڈی آئی جی شامل ہیں۔ اس کمیٹی نے سولہ نکات پر مشتمل امن معاہد ہ اور دس نکات پر مشتمل سفارشات مرتب کرکے مورخہ 7نومبر 2005ء کو جرگہ کے سامنے پیش کیا۔جس سے معمولی تغیر کے بعد بالاتفاق منظور کرلیا گیا جس کا مکمل و حتمی متن ذیل میں دیا جاتا ہے۔
1َََََََََ.....خلفائے راشدین، صحابہ کرام،ازواج مطہرات، اہل بیت عظام اور آئمہ دین کی شان میں کسی بھی قسم کی گستاخی تقریری یا تحریری مطابق دفعہ 298 الف تعزیرات پاکستان مستوجب سزا ہوگا۔ایسے جرائم کی سماعت انسداد دہشت گردی کورٹس کرے گی۔
2.....کوئی شخص کسی دوسرے فرقے سے وابستہ مسلمان کو کافر ،مشرک یا ملحد نہیں کہے گا۔خلاف ورزی کی شکل میں جرم زیر دفعہ 298 تعزیرات پاکستان قابل مواخذہ ہوگا۔جرائم کا اختیار سماعت بھی دہشت گردی کورٹس کرے گی۔
3.....ٹاؤن ایر یا کی تمام مساجد اور امام بارگاہوں میں لوڈ اسپیکر خارجی استعمال صرف اذان کے لیے مختص ہوگا۔ان مقامات میں خطبہ،مذہبی مجالس اور تقاریب کے لیے اندورنی لوڈ اسپیکر کی آواز موجود سامعین کی سماعت تک ہوگی۔خلاف ورزی قابل تعزیر جرم ہوگا۔ 4.....جرگہ کے متعلقہ ارکان اپنے اپنے مرکزی مساجد کے لیے پندرہ پندرہ امن پسند باشعور اور پر خلوص ممبران پر مشتمل مسجد بورڈ قائم کریں گے اور جرگہ کے چھ ارکان کوآرڈینیٹر کے طور پر کام کریں۔ان مرکزی مساجد کی سرگرمیاں ان بورڈوں کی تائید سے ہونگی۔
5.....شیعوں اور سنیوں کے مرکزی مساجد کے خطباء اور آئمہ کا سیاست میں حصہ لینے پر پابند ی ہوگی۔مذہب کے نام پر کسی بھی انتخابی عمل میں مداخلت نہیں کریں۔خلاف ورزی قابل مواخذہ ہوگی۔
6.....مذہبی یا رسمی عبادات کی انجام دہی کے دوران کوئی بھی فریق دل آزار اور شر انگیز نعرے نہیں لگائے گی جس سے کسی دوسرے فریق کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہو۔
7.....ہر جگہ ہر قسم کی چاکنگ سے اجتناب کیا جائے گا۔نیز چٹانو ں ، پتھروں،دیواروں اور سڑکوں وغیرہ پر تحریریں یا نعرے لکھنا یا پوسٹر چسپاں کرنا جس سے کسی فریق کے جذبات برآنگیخت ہوں پر پابندی ہوگی۔ خلاف ورزی مستوجب سزا ہوگی۔
8.....پبلک مقامات، سڑکوں اور شاہروں پر ہر قسم کے مذہبی علم،جھنڈے، پھریرے یا بینرز آویزاں کرنے پر پابندی ہوگی۔خلاف ورزی کرنے پر قانون کے تحت سرزنش ہوگی۔
9.....جلوس نکالنے کے منظور شدہ راستوں پر نہ کوئی معترض ہوگا نہ مخل ہوگا۔بلا اجازت یا منظوری نئے روٹس نکالنے پر پابندی ہوگی۔خلاف ورزی قابل تعزیر جرم ہوگا۔
10..... چراغاں کے موجودہ منظور شدہ روایتی مقامات کے علاوہ نئے مقامات نیز پبلک شاہروں، راستوں،سڑکوں وغیرہ پر چراغاں نہیں کیا جائے گا۔انحراف قابل تعزیر جرم ہوگا۔
11.....فریقین شیعہ اور سنی اقلیتی علاقوں میں بسنے والے افراد کے تحفظ کے ذمہ دار ہوں گے۔اکثریتی علاقے کے دس اکابرین سرکاری طور پر ضمانت فراہم کرکے بے گھر ہوئے افراد کو دوبارہ ان کے گھروں میں لابسائیں گے اور آئندہ کے لیے ان کے مکمل تحفظ اور ذمہ داری مستوجب سزا ہوگی۔
12..... ایک دوسرے کے مسلکی عقائد اور فروعی اختلاف پر تنقید، قیل و قال پر پابندی ہوگی۔نیز فرقہ وارانہ مواد پر مبنی تقاریر اور اخبارات و رسائل، جرائد و پمفلٹ، کتابوں اور دیگر ایسے لٹریچر کی تقسیم، خرید و فروخت و ترسیل پر پابندی ہوگی اور خلاف ورزی مستوجب سزا ہوگی۔
13.....شیعوں اور سنیوںکے مرکزی مساجد اور اس کے احاطوں کو کسی مذہبی یا سیاسی تنظیم یا انجمن کے دفتر کے طور پر استعمال نہیں کیا جائے گا۔
14.....قانون شکنی یا معاہدے کے خلاف ورزی کرنے کے مرتکب فرد یا افراد کو ہم مذہب یا ہم مسلک ہونے کے ناطے کسی قسم کی حمایت یا پشت پناہی نہیں کی جائے گی اور نہ ہی ایسے کسی امر کو مذہبی رنگ دیا جائے گا بلکہ اسے اس شخص کا ذاتی فعل قرار دے کر قانون کے پرسان پر چھوڑ دیا جائے گا۔
15..... فریقین کے درمیان 1988 ء سے اب تک جتنے بھی معاہدات ہوئے ہیں۔ نیز نادرن ایریا کے قانون ساز کونسل کی مصالحتی کمیٹی کے سفارشات مورخہ 26 اگست2001 ء کو بحال اور موثر سمجھا یا جائے گا۔
16..... فریقین کے درمیان کوئی بھی تنازعہ پید ا ہو، وہ ازخودکوئی اقدام کرنے سے باز رہیں گے۔ان کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ انتظامیہ یا جرگہ سے رجوع کریں اور انصاف طلب کریں۔
تحریر: مورخہ 7نومبر2005 ئ
................................................................................................
مختصر وضاحتی تبصرہ و توجہ:
یہاں امن معاہدہ کی تمام شقوں پر شق وار مختصر وضا حتی تبصرہ کیا جارہا ہے اگرچہ ان تمام شقوں کا علمی،تحقیقی و آئینی جائزہ لینے کی بھر پور گنجائش ہے مگر طوالت سے بچتے ہوئے ان تمام باتوں کی طرف اشارةً توجہ دلائی جارہی ہے جن کی مخالفت بار بار کی گئی ہے۔ اور امن معاہدہ بے سود و عمل رہا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اب بھی ایک نئے عزم کے ساتھ امن معاہدہ کو روبہ عمل لایا جاسکتا ہے۔امن معاہدہ کی سولہ (١٦)شقوں پرشق وار تبصرہ ملاحظہ کیجئے۔
1َََََََََ....کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ امن معاہدے کی اس شق پر عمل کیا گیا ہے۔ یہ ایک مقدس شق تھی اس معاہدے کی ،مگر بدقسمتی سے بار بار اس کی خلاف ورزی کی گئی۔صرف محرم الحرم میں ہونے والی تقاریب بالخصوص چہلم کے موقع پر کی جانی والی تقریر کا بھی جائزہ لیا جائے تو حیرت سے آنکھیں کھل جائیں گے۔ ہم عرض کریں تو شکایت ہوگی تمہیں اپنی اداؤں پر غو ر کرنا ہوگا۔ کیا ، انتظامیہ، مساجد بورڈ اور پارلیمانی کمیٹی اور جرگے کے اراکین نے اس شق کی خلاف ورزی پر کسی کا محاسبہ کیا ہے یا کسی کورٹس نے سوموٹو ایکشن لیا ہے؟۔
2.....یہ شق بھی غیر آئینی، غیر جمہوری،غیر اسلامی و غیر انسانی و غیر علمی ہے۔ اس شق کے ذریعے دلیل کو قوت ماننے سے انکار کیا جارہا ہے بلکہ قوت کو دلیل تسلیم کیا جارہا ہے۔ اس شق کا صاف مطلب یہ ہوا ہے کہ اگر کوئی خلاف اسلام کچھ بھی کہہ لے مگر پورا معاشرہ اپنا منہ و زبان بند کرلیں یعنی سِی لے، مگر معاشرتی رواداری، اخوت اور امن کی خاطر ہم نے اس شق کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ اس پر مکمل عمل بھی کیا اور انتظامیہ سے اس کے نفاذ کا مطالبہ بھی کیا مگر اے وائے افسوس! ! ایسا نہ ہوسکا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کام تو خالص علمی و دینی درسگاہوں اور معروف دارالافتاؤں کا ہے کہ کون دائرہ اسلام میں ہے اور کون خارج ہے۔ مگر ہمارے آن پڑھ جرگے نے جب اس شق کو معاہدے میں شامل کیا تھا تو ہمیں مجبوراً معاشرتی امن کے لیے قبول کرنا پڑا۔ مگر پھر بھی قیام امن ممکن نہ ہوسکا۔ تلطفاً ہم عرض کرتے ہیں کہ کیا اس شق سے دشمنان اسلام کو کھلی چھوٹ نہیں ملے گی کہ وہ جو چاہیے کہہ لیں اور کوئی ان کے خلاف'' آوازِ حق'' بھی بلند نہ کرسکے۔ کیونکہ معاہدے کی رو سے قانونی جرم قرار پایا ہے۔ یا للعجب
3.....اس شق کی بھی خوب خلاف ورزی ہوئی۔ وہ اس طرح کہ اتنے وزنی اور اعلی سونڈ والے اسپیکر استعمال کیے جانے لگے کہ جن کے آواز سے قرب وجوار گونجتے رہے بلکہ دریا پار بھی یہ آواز صاف سنائی دی جانے لگی اور بدقسمتی سے ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔ اگر چہ ان اسپیکروں کی بیرونی آواز بند تھی مگر آواز کسی بھی طرح اندر کی حد تک محدود نہ تھی۔خصوصی ایام میں تو اسپیکر کا بے دردی سے استعمال کیا گیا۔ جو اس شق کے صریحا خلاف ورزی ہے۔مگر قانون حرکت میں نہیں آیا، سنا ہے کہ قانون اندھا ہوتا ہے۔ اگر قانون اندھا ہوتا ہے تو اس کو کچھ دکھائی ہی نہ دیا ہوگا تو وہ کیسے حرکت میں آئے گا۔اور اگر قانون حرکت میں آتا بھی تو اس کو روک دیاجاتا، کیونکہ باطل بہر صورت قانون سے زیادہ طاقتور ہے۔ اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔
4.....کیا ایسا ہوا ہے؟ یقینا نہیں ایک دفعہ تو فریق ثانی کا مسجد کمیٹی کا پورا وفد میرے پاس آیا تھا کہ ہماری نہیں سنی جارہی ہے۔ بلکہ ہمیں تو عملی طور پر امورِ امام بارگاہ سے بے دخل کیا گیاہے۔ہم نے احتجاج بھی کیا تھا مگر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا، کسی کے کانوں جوں تک نہیں رینگی۔ مسجد اللہ کا گھر ہے۔ وہاں تمام سرگرمیاں مخلوق کو خدا سے جوڑنے کی اور مادیت سے بچا کر روحانیت کے راستے پر گامزن کرنے کی ہوتی ہیں۔اس شق کے مطابق تو مسجد کی تمام عملی و علمی سرگرمیاں مسجدبورڈ کے اراکین کی منشاء و مرضی کے مطابق انجام دیے جانے ہونگے۔ ا گر مسجد بورڈ کے اراکین کی منشاء ومرضی شامل نہ ہوتو مساجد میں تعلق مع اللہ کا کام ہی رک جائے ۔تو حکم خداوندی '' فلاتدعوا مع اللہ احدا'' کا عملی وجود ہی ختم ہوگا۔ مقام افسوس یہ ہے کہ جن لو گوں کومسجد کے مقام اور کام سے کوئی خاطر ہی نہیں ان کی ذاتی خواہش کو امور مسجد سے معلق کردیا گیا ہے۔ ایسی شقیں ہمارے جیسے معاشروں میں ہی تشکیل پائی جاتی ہیں مگر الحمدللہ ہم نے اس کی بھرپور تائید کی اور تندہی سے اس پر عمل بھی کیا ، کیونکہ ہمارے نزدیک معاہدوں کی پاسداری دین کا ایک اہم حصہ ہے۔'' لاایمان لمن لاعہد لہ'' ہمارے سامنے معروف میثاق مدینہ ہے۔جو اگرچہ ظاہراً مسلمانوں کے خلاف تھا چونکہ مسلمان معاہد ہ کرچکے تھے لہذا اس کی تعمیل بھی کی۔ ہم بھی اس کو اپنے لیے اسوہ سمجھتے ہیں۔
5....کس قانون، آئین کی کس شق اور انسانی بنیادی حق کے عالمی چارٹر کی کس دفعہ کے تحت آئمہ مساجد پر سیاست اور انتخابی عمل میں حصہ لینے کو قابل مواخذہ جرم تسلیم کیا گیا ہے۔ ہم نے قیام امن کی خاطر، جرگے کے احترام میں اور حکومت اور فریق ثانی پر دلیل اور حجت قائم کرنے کے لیے اس غیر انسانی دفعہ کی تائید کی اور عمل بھی کیا مگر کیا فریق ثانی نے بھی اس پر عمل کیا؟۔ اور پھر کیا انتظامیہ کے ذمہ داروں نے بھی اس شق کو قابل عمل بنانے کے لیے کوئی کردار ادا کیا اور کیا خلاف ورزی کرنے والوں کو کٹہرے پر لا کھڑا کیا؟یقینا جواب نفی میں ہے۔
6....کیا بار بار اس دفعہ کی خلاف ورزی نہیں کی گئی، ایک فریق کے خلاف نعرے تو معمول کی بات ہے۔ ائمہ کبار، بزرگانِ دین اور اصحاب رسول کے خلاف زبانیں دراز کی گئیں۔ بھری مجلسوں اور مسلکی اجتماعات میں مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچایا گیا۔ اپنے رسوم کی ادائیگی میں دوسروں کی زندگی اجیرن کردی گئی۔نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ بعض مساجد میں نمازی کئی اوقات نمازیں ادا کرنے سے محروم رہے۔ جگہ جگہ ناکہ بندیاں، پولیس گردی اور وحشت انگیزی سے عوام دینی عبادات تو کجا گھروں سے باہر نہ نکل سکے۔ اور مساجد میں آذانیں دینے سے قاصر رہے۔ کیا دوسروں کے عبادات میں مخل ہونے کی تشریح اس کے علاوہ اور بھی ہے۔ دکھ تو اس بات پر ہے کہ یہ سب کچھ سرکار اور انتظامیہ نے خود انجام دیا بجائے خلاف ورزی کرنے والوں کو کٹہرے میں لاکھڑے کیا جاتا اور مواخذہ کیا جاتا۔
٧.... افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس دفعہ کی اتنی خلاف ورزی ہوئی کہ اس پر صرف افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔چٹانیں ، پتھر ، دیواریں ، اور دیگر پبلک مقامات تو رہے اپنی جگہ شہر گلگت کے اطراف میں واقع تمام پہاڑوں پر بھی بھاری قسم کی چاکنگ کی گئی جو ہنوز جاری وساری ہے۔آگ کی چاکنگ حکومتی و انتظامی سرپرستی اور معاونت سے ہو رہی ہے۔ہم ہر عوامی و انتظامی فورم پر اس خلاف ورزی پر چیختے رہے مگر ہماری بات سننے ، امن معاہدہ کی اس شق پر عمل درآمد کروانے کے بجائے ہمیں مورد الزام ٹھرایا جاتا رہا۔
٨.....ان مقامات پر جھنڈے ، علم اور پھریرے لگائے بغیر تو ہمارے مسلکی ا مور مکمل ہی نہیں ہو پاتے چہ جائیکہ ان سے پر ہیز کیا جائے۔المیہ تو اس حد تک ہے کہ انتظامیہ کی اعلیٰ عمارتوں اور پولیس کی گاڑیوں پر بھی جھنڈے ، علم اور پھریرے لٹکتے نظر آئینگے۔جگہ جگہ یہ جھنڈے ، علم اور پھریرے اتنی کثرت سے نظر آتے ہیںکہ الا مان و الحفیظ۔اور تو اور گلگت سے جٹیال جانے والی مرکزی شاہراہ جہاں سے تمام وزراء ، ارکان اسمبلی ، سول و فوجی قیادت بار بار گزرتی ہے وہاں کئی قسم کے علم ، جھنڈے اور پھریرے نظر آئیں گے۔ اس سے بھی بڑی قابل افسوس بات یہ ہے کہ پاک فوج کے نوجوان ایسے پھریروں ، جھنڈوں اور علموںکے سائے میںقانون کی عمل داری کے فرائض انجام دینے کے لیے چوکس کھڑے ہوتے ہیں۔کیا اس تمام تر کھلے عام خلاف ورزی پر آج تک کسی کی سرزنش قانون اور امن معاہدہ کے مطابق ہوئی ہے۔یہ تو بڑی بات ہے کیا آج تک ان پھریروں ، جھنڈوں اور علموں کو اتراوایا بھی جا سکا ہے؟۔
٩....گزشتہ آٹھ سال سے مسلسل اس شق کی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔کیا امن معاہدہ اس بات کی اجازت دیتاہے کہ فریق ثانی کی مرکزی مسجد کے سامنے جلوس کی شکل میں جم غفیر جمع ہو اور مشتعل انگیر نعرہ بازی کی جائے اور مضحکہ اڑاتے ہوئے جلوس کو روک کر نازیبا کلمات کہے جائے۔منظور شدہ روٹس کی خلاف ورزی ہورہی ہو۔مختلف اضلاع سے جلوس کی شکل اختیار کر کے عدالت عالیہ کے سامنے جلوس کو روک کر مشتعل نعرے لگائے جائے۔کیا اس شق کا یہی نتیجہ نکلنا تھا؟کیا اس خلاف ورزی پر کسی انتظامیہ اور کسی عدالت نے ایکشن لیا؟کیوں نہیں لیا کوئی بتاسکے گا؟پھر بھی اس کو حکومتی نام نہ دیا جائے تو پھر کس کا نام دیا جائے؟۔
١٠.....ہم چراعاں کی علمی و مذہبی حیثیت پر بات نہیں کریں گے مگر امن معاہدے کی رو سے انتظامی حیثیت سے ضرور یہ عرض کریںگے کہ جن جن مقامات میںانتظامیہ کی طرف سے تحریری چراغاں کرنے کی اجازت تھی مگر کیا، گلگت بلتستان کے سب سے بڑے متنظم یعنی بیوروکریسی کے آفیسر اعلیٰ جناب چیف سکریٹری کا گھر و دفتر اس اجازت میں شامل ہیں کہ وہاںچراغاں کا باقاعدہ انتظام ہو؟۔تقدیر کی بات تھی کی چیف سیکرٹری کی رہائش گاہ پر بھی چراغاں کیا گیا تھا جس دن شام کو ہم اپنی ٹیم کے ساتھ ان کے پاس ملاقات کے لیے گئے تھے۔
کیاپولیس کی اعلی دفاتر پر بھی چراغاں کی تحریری اجازت ہے؟جب ہم نے ٢٠١٢ء میں چیف سکریٹری سے دوران ملاقات کہا کہ امن معاہدے کی رو سے ان جگہوں کے علاوہ کسی جگہ پر چراغاں کی قانونی و انتظامی اجازت نہیں مگر آپ کے گھر ، دفتر اور فلاں فلاں سرکاری عمارت کو بطور چراغاں سجایا گیا ہے۔کیا آپ انتظامیہ کے اعلیٰ آفیسران اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے پوچھ سکیں گے کہ آخر ایسا کیوں کیا جارہا ہے؟آخر علاقہ کو بدامنی کی طرف کیوں دھکیلا جارہا ہے؟آخر امن معاہدہ اور آپ کے واضح احکامات کی خلاف ورزی کیوں کی جارہی ہے؟تو وہ بیچارہ بھی دھنگ رہ گیااور کچھ ذمہ دار لوگوں کو فون پر سخت ہدایات بھی دیںمگر ہوا کچھ بھی نہیں۔
١١....اس شق کو بھی بری طرح مجروح کیا گیا۔بہت سے اکثریتی علاقوں سے اقلیتی لوگوں کو جائیداد اور گھر سستے داموں فرخت کرنے پر مجبور کر دیا گیا۔انہیں ڈرا دھمکا کر قدیم زمانے سے آباد زمینیں اور جائیدادیںہتھیالی گئی۔کئی خاندان نکل مکانی پر مجبور ہوگئے۔کئی ساروں کو ان کے گھروں میں گھس کر جان سے مار دیا گیا۔ان کی راہ میں مزاحمت کرنے والے تیسرے فرد (اسماعیلی مکتبہ سے تعلق تھا)کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیاگیا۔فورسز کے نوجوانوں کو شہید کر دیا گیا۔فورسز کے کماندار اعلیٰ کو چوبیس گھنٹے قید میں رکھا گیا اور آخر میں انتظامیہ اپنی عزت بچانے پر مجبور ہوئی اور وہاں کے لوگوں نے انتظامیہ کے عہدیداروں کو ٹوپیاں پہناکر واپس بھیج دیا۔یعنی مک مکاؤ کیا گیا۔کیا قانون کی عمل داری اسی کو کہا جاتا ہے۔اور مزے کی بات ہمارے منتظم اعلیٰ اور چیف ایگزیٹو اس کو" مہمان نوازی"سے تعبیر کرتے ہیں۔کاش کہ انتظامیہ اس امن معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والوں کو قانون کے کٹہرے پر کھڑا کر دیتی۔عدالتیں سوموٹو ایکشن لیتی ۔اور حساس ادارے ایسے لوگوں کی نشاندہی کر کے ان کے لیے کڑی سزائیں تیار کروانے اور دلوانے میںممد و معاون ہوتی تو آج علاقے کے حالات مختلف ہوتے۔
١٢....اس شق پر بھی سوائے کف افسوس کے علاوہ کچھ نہیں کیا جا سکتا ۔کاش ایسی تمام کتابیں مارکیٹ سے غائب کر دی جاتی جن میں صحابہ کرام ، بزرگان دین اور دینی مسلمات پر طعن و تشنیع اور نازیبا الفاظ کے تیر بر سائے گئے ہیں۔ جن کتابوں میں اصحاب رسول جیسی عظیم شخصیات مطعون ٹھہرے اور وہ معتبر دینی کتب کی شکل میں سر عام تقسیم اور ان کے حوالے دیے جائے پھر امن کے لیے کمیٹیاں بھی تشکیل پائے۔کیا ایسا ہونا ممکن ہے؟ہمارا تو سیدھا سادا فارمولا ہے کہ"دوسروں کو چھیڑو نہیں اور اپنی مسلک و مذہب چھوڑو نہیں"۔
١٣۔۔۔یہ شق بھی آئین پاکستان اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر مبنی ہے مگر ہم نے پھر بھی سر بہ خم تسلیم کیا۔ہم نے کبھی بھی اپنی مسجد میں وزیر اعلی گلگت بلتستان ، وزراء اسمبلی اور دیگر ممبران اور وفاقی وزراء بلا کر پریس کانفرنسیں نہیں کی۔اور نہ ہی خفیہ و اعلانیہ مٹینگیں کی۔اور نہ ہی ہماری مرکزی مسجد میںوفاقی وزراء اور وزیر داخلہ نے بے شمار مذہبی و سیاسی تنظیموں اور انجمنوں کی موجودگی میں لمبی لمبی تقاریریں کیاور پریس بریفنگز کیاور نہ ہی ہمارے شہداء کی لیے تعزیت کا اہتمام کیا گیا اور نہ ہی وزیر داخلہ نے کرڑوں کے معاوضے ہماری مرکزی مسجد سے دینے کا اعلان کیا۔اور بینک چیکیں تقسیم ہوئی۔آخر یہ سب کیا ہے۔کوئی بتلائیں کہ ہم بتلائیں۔
١٤....کاش ایسا ہوتا ۔اسلامی تعلیمات کے رو سے معاہدہ شکنی ایک بہت بڑا جرم ہے۔اور معاہدہ شکنوں کی حمایت اس سے بڑا جرم مگر یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور ہے۔معاہدہ ہر اس چیز کو کہا جائے گاکہ کوئی قوم ، حکومت یا انتظامیہ بطریق معروف یہ اطمینان کر لے ہمارے اور اس کے درمیان انتظامی امور میں تناز عہ نہیں ہے۔قرآن میں ''بینکم و بینہم میثاق'' کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ہم نے تحریری طور پر اس کی ضمانت دی۔ممبران اسمبلی نے ، گرینڈ امن جرگے نے۔انتظامیہ نے۔غرض ہر فورم میں اس امن معاہدہ ٢٠٠٥ء کی تشریح و تنشیر کا اہتمام کیا گیا۔ہم نے بھی انتظامی ضرورت کی خاطر اس پر سر جھکایا کہ اگر اس طرح بھی امن ہوجاتا ہے تو کوئی مضائقہ نہیںمگر اے کاش !جس درندگی کے ساتھ اس امن معاہدے کو ردی کی ٹوکری میں پھینکا گیا اور بے حرمت کیا گیا شاید تاریخ انسانی میں کوئی مثال ملے۔حکومتی ارباب نے طویل غور و خوص کے بعد ایک متفقہ معاہدہ تشکیل دیا اور خود ہی اس کے پائوں پر روز روز کلہاڑا چلایا۔ہم آج بھی امن معاہدے کی شق نمبر ١٤ کی رو سے اہم اداروں اور افراد سے گزارش کرتے ہیںکہ اس پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔مگر ہمارے ہاں تو اس امن معاہدے کے خلاف تقریریں ، تحریریں شائع ہوتی ہیں۔اسمبلی میں ببانگ دہل انکار کیا جاتا ہے۔پھر بھی وہ انتظامیہ کے مقرب ہوتے ہیں۔امن کے چمپئین قرار پاتے ہیں ۔اخبارات میں انہیں امن کے سفیر لکھا جاتا ہے او ر سرکاری کریڈٹ وصول کیا جاتا ہے اور ہم امن معاہدہ کی بات کریں ، اس کی نفاذ کی بات کریں اور مختلف اداروں ، شخصیات کی توجہ مبذول کرائیں تو قصوروار ٹھہر جائے۔ہر جمعہ اور ہر اخباری بیان ، پریس کانفرنس اور قرارداد میں ہم نے امن معاہدے کے نفاذکی بات کیاور خلاف ورزی کرنے والوں کو قانون کے کٹہرے پر لانے کی بات کی۔نہ انتظامیہ نے توجہ دی۔نہ حساس اداروں نے اپنے نوٹس میں لایااور نہ ہی عدلیہ نے فعالیت دکھائی اور نہ ہی امن جرگہ و ممبران اسمبلی و وزراء کرام نے۔
١٥۔۔۔۔اس شق پر بھی سنجیدگی سے عمل نہیں کیا گیا۔
١٦....اول تو ہم نے کوئی تنازعہ پیدا ہی نہیں کیا، مگر جانب آخر کی طرف سے باربار اس شق کی بھی مخالفت کی گئی۔
.....................................................
٭٭......امن معاہدہ سے متعلق سفارشات جرگہ برائے کاروائی انتظامیہ و قانون ساز کونسل
یہ سفارشات بھی امن معاہدہ تشکیل دینے والے جرگہ کے احباب اور پارلیمانی کمیٹی کے ممبران کے متفقہ طور پر منظور شدہ ہیں۔طوالت سے بچتے ہوئے ان سفارشات کو بلا تبصرہ پیش کرتے ہیں۔تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان تمام سفارشات پر بھی ایمانداری سے عمل نہیں کیا گیا۔
١.... ٨ جنوری ٢٠٠٥ ء سے لیکر اب تک جن لوگوں کی جائیدادیں تلف ہوئی ہیںان کی خساروں کی تلافی کے لیے انتظامیہ کاروائی کر کے فوری ادائیگیو ں کو یقینی بنائے۔
٢.....٨ جنوری ٢٠٠٥ء سے ١٣ اکتوبر ٢٠٠٥ء تک اور درمیانی مدت میں جن کے عزیز و اقارب شہید ہوئے ہیں، انتظامیہ ان کے تلافی مافات کے طور پر معقول معاوضاتی پیکج کا اعلان کریاور اس پر فوری عمل درآمد کرے تاکہ متاثرین کی دل جوئی ہو سکے۔متاثرین ملازمین کے لیے حکومت نے جس پیکج کا اعلان کیا ہے ا س پر عمل درآمد کو یقینی بناجائے۔
٣...ملازمین کی فرقہ ورانہ تنظیمیں فوراً کالعدم قرار دی جائیں اور ملازمین پر نگاہ رکھی جائیکہ وہ مذہبی تنظیموں کے عہدہدار نہ بنیں ۔جن لوگوں کو سیاسی و مذہبی امور میں ملوث پایاجائے ان کے خلاف سروسز رول کے تحت تادیبی کاروائی عمل میں لائی جائے۔
٤....تمام اضلاع میں شیعہ ، سنی ، اسماعیلی اور نور بخشی ملازمین کے بلا تفریق پوسٹنگ کی جائے اور موجودہ تقسیم بندی کو ختم کیا جائے۔
٥....سرکاری ملازمتوں میں تقرری صرف میرٹ کی بنیاد پر اور تبادلے سرکاری ضرورت کے تحت ہو۔اس حوالے سے قانون ساز کونسل کے قائمہ سفارشات کو پیش نظر رکھا جائے۔
٦....معقول وظائف کا تعین کر کے نمبرداری اور چوکیداری نظام کو از سر نو منظم کیا جائے۔
٧....نادرن ایریازقانون ساز کونسل اور بلدیاتی نظام کو منظم کرکے با اختیار اور مستحکم کیا جائے۔
٨..... انتظامیہ شمالی علاقہ جات میں فی الوقت موجودہ پتھروں ، چٹانوں ، دیواروں اور دیگر مقامات پر موجود تمام لکھواتوں اور نقوش کو مٹائے، بازاروں شاہروں اور پبلک مقامات پر آویزاں پوسٹرز ہٹائے تاکہ علاقے کا قدرتی حسن عود آئے۔
٩....خوشگوار ماحول کے قیام کے لیے ایم پی او کے تحت گرفتار لوگوں کو رہا کیا جائے، بے گناہ گرفتار لوگوں کے کیسز پر نظر ثانی کی جائے اور مساجد کو واگزار کیا جائے تاکہ نئے احساسات اور ذمہ داریوں کے ساتھ امن کو راہوں پر چلا جاسکے۔
١٠.....انتظامیہ اور قانون ساز کونسل جرگہ نظام کو ایک مستقل ادارے کی حیثیت دے کر اسے قانونی جواز فراہم کرے تاکہ امن آشتی کی راہیں کشادہ رکھی جاسکیں ۔
٭٭.... ممبران جرگہ کے نام اور دستخط:
امن معاہدہ اور اس کی روشی میں تشکیل پانے والی سفارشات پر جرگہ کے ان تمام اراکین اور پارلیمانی کمیٹی کے ممبران کے دستخط موجود ہے۔جس کی نقل ہمارے پاس محفوظ ہے۔اراکین کے نام مع عہدہ یہ ہیں۔
١...پروفیسر عثمان علی، سابق پرنسپل آف ایجوکیشن ١....سید یحییٰ شاہ، سابق ممبر این اے کونسل نگر
٢.....حاجی میر افضل ،سابق ڈی آئی جی پولیس شمالی علاقہ جات ٢...محمد عیسیٰ ایڈوکیٹ ،سابق صدر ہائی کورٹ
٣...حاجی شیر ولی ایڈوکیٹ صدر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن شمالی علاقہ جات ٣....سید جعفر شاہ سابق ممبر قانون ساز کونسل
٤...سعید احمد خان ،سابق ہوم سکریٹری جوٹیال گلگت ٤...میجر ریٹائرڈ حسین شاہ، امپھری گلگت
٥...حاجی حسن خان، سابق ایڈمنسٹریٹر زکواة و عشر گلگت ٥...غلام نبی وفا ،سابق ہیڈ ماسٹر جلال آباد گلگت
٦..راجہ نثار ولی، سابق ممبر تنظیم اہل سنت والجماعت خومر گلگت ٦...غلم مرتضیٰ پاکستان ، جلال آباد
٧..جاوید اختر ایڈوکیٹ ،سابق چیرمین بلدیہ ، کشروٹ گلگت ٧...امجد حسین ایڈوکیٹ، امپھری گلگت
٨...جاوید اقبال ایڈوکیٹ ،کشروٹ گلگت ٨...شاہ مرزا ،سابق ڈی ایف او جلال آباد
٩ ...سنبل شاہ، سابق ممبر این اے کونسل کشروٹ گلگت ٩...حاجی محمد انور ،سابق اے ڈی خومر گلگت
١٠...افسر جان، ٹھکیدار مجینی محلہ گلگت ١٠...اسداللہ ایڈوکیٹ، خومر گلگت
١١...منظور احمد ایڈوکیٹ، کورٹ محلہ گلگت ١١...جاوید احمد ایڈوکیٹ، مجینی محلہ گلگت
١٢...متولی خان ،سابق چیئرمین بلدیہ یادگار محلہ گلگت ١٢...حاجی علی گوہر ، بگروٹ گلگت
١٣...حاجی عبدالقادر ،سابق جیلر کشروٹ گلگت ١٣...منیر احمد ایڈوکیٹ ،گلگت
١٤...میر نواز خان، ایڈوکیٹ مجینی محلہ گلگت ١٤...قلب علی ،ممبر ڈسٹرکٹ کونسل ، نگر
١٥...محمد افضل، سابق چیئر مین بلدیہ ، امپھری گلگت ١٥...شیخ ناصر حسین نجفی ، دنیور گلگت
١٦...محمد اسلم ایڈوکیٹ، مناور گلگت ١٦...نمبردار محمد رفیق ، دنیور گلگت
١٧...حاجی ولایت خان، سابق ایکسئین شکیوٹ گلگت ١٧...وزیر سجاد علی ،سابق ایس پی ، خومر گلگت
١٨...رشید خان، سابق ایکسین ، جگلوٹ گلگت ١٨...راجہ ناصر، روپل ان گلگت
٭٭...پارلیمانی کمیٹی قانون ساز کونسل شمالی علاقہ جات گلگت
١ ...ملک محمد مسکین ، سپیکر NALC(چیئر مین) ٢...سید اسد زیدی، ڈپٹی سپیکر NALC
٣...حافظ حفیظ الرحمان، ممبر NALC ٤...میرزہ حسین، ممبر NALC
٥...حیدر خان ، ممبرNALC ٦...آفتاب حیدر ، ممبر NALC
نوٹ:سہ ماہی نصرةالاسلام کی اگلی کسی اشاعت میں ٢٠١٢ء کو تیار کردہ ''مساجد بورڈ کا ضابطہ خلاق '' بھی تفصیلی تبصرے کے ساتھ پیش کیا جائے گاتاکہ ارباب حکومت ، حساس ادارے ، انتظامیہ ، اصحاب علم وعمل ، صاحبان فکر و دانش ، قلم کار ،صحافی حضرات ،فریقین جرگہ اور فریق آخر کو دلیل و عمل سے بتلایا جائے گا کہ اس ضابطہ پر بھی کس نے کتنا عمل کیا اور کون بھاگتا رہا ۔کیا ہم یہ عرض میں حق بجانب نہیں ہیں کہ جب یہ معاہدہ ، سفارشات اور ضابطہ ا خلاق تیار کیا جارہا تھا تو ہم نے بار ہا عرض کیا تھاکہ اس طرح امن ممکن نہیں۔میڈیا کے ذریعے ہمیں بدنام بھی کیا گیا مگر وائے افسوس ان لوگوں پر جو اس وقت کہ رہے تھے کہ ہم ان ضوابطہ کی تشکیل میں رکاوٹ ہیں۔ہم نے علاقے میں امن کی خاطر ناجائز مطالبات بھی تسلیم کیے ور اس پر کار بند بھی رہے مگر جن لوگوں نے ان معاہدات ، سفارشات اور ضوابط کو ترتیب دیا تھا، میڈیا کے ذریعے پرچار کی تھی اور محترم ایوانوں سے منظوری لی گئی تھی ،کیا آج وہ بتا سکیں گے کہ وہ ان معاہدات ، سفارشات اور ضوابط پر عمل درآمد اور ان کے نفاذ سے کیوں کترا رہے ہیں؟اور ہمیں افسوس ان لوگوں پر بھی ہے کہ جو ملک کے دیگر شہروں میں جاکر بالخصوص دینی اجتماعات و علمی شخصیات سے کہتے ہیںکہ ہماری پارٹی نے گلگت اسمبلی میں توہین صحابہ پر بل منظور کر وایا ہے؟۔ حیرت ہوتی ہے کہ اتنی جرأت سے جھوٹ بولا جا رہا ہے کہ الامان و الحفیظ۔وہ لوگ کیا خاک توہین صحابہ پر بل پیش کریں گے جو اپنی جماعت کا سیاسی مؤقف واضح بیان نہیں کر سکتے۔اخبارات میں کچھ کہتے ہیں ، منشور میں کچھ لکھتے ہیںاور نجی میٹنگوں میں اور الاپتے ہیں۔ضابطہ اخلاق کے حوالے سے ان لوگوں کا ابتدائی تیار کردہ فارمیٹ پڑھ کر ہماری تو آنکھیں کھل گئی تھی کہ کیا علماء دین بھی ایسے الفاظ لکھ سکتے ہیں۔یقیناً ڈالر کی جھونک انسان کو اس سے بھی کہیں نیچے گرادیتی ہے۔کیا کوئی ہمیں بتلائے گا کہ یہ بل کس صاحب نے اسمبلی میں خواندگی کے لیے پیش کیا تھا؟اور اس کی کاروائی کیسے ہوئی تھی اور کتنے ووٹ پڑے تھے مگر ایسا ممکن نہیں۔مساجد ایکٹ پر مبنی یہ ایکٹ کو تو پورے گلگت بلتستان سے آئے ہوئے علماء کرام نے طویل علمی مباحثہ اور غور و فکر کے بعد ترتیب دیا تھا۔اور اسمبلی سے باہر ہی دونوں فریقین نے اس ایکٹ پر دستخط کیے تھے اور علماء کرام نے اطمینان کا اظہار کیا تھا۔کیا کوئی بتلا سکے گا کہ ''توہین صحابہ '' کے بل منظور کروانے کے دعویدار اس وقت ان علماء پر کتنا غصہ کھا رہے تھے۔اور اخباری بیانات جاری کروارہے تھے۔اور آج ڈھٹائی سے کہا جارہا ہے کہ ہم نے اسمبلی سے '' توہین صحابہ '' بل منظور کروایا۔ہم تو گزارش کر رہے ہیںکہ وہ علی الا علان گلگت میں یہ بات کیوں نہیں کرتے کہ ہم نے ایسا کارنامہ انجام دیا ۔سچ یہ ہے کہ ان سے قیامت تک ایسا ممکن نہیں۔ہاں یہ ضرور ہوگا کہ الفاظ وجملوں اور واقعات و حالات کو توڑ موڑ کر وہ اس پورے عمل میںخود کو شریک کار سمجھیں گے اور اخباری و سرکاری سطح پرچھپ چھپ کرکریڈیٹ لینے کی کوشش بھی کریںگے مگر عوام اتنی بے شعور نہیںاور نہ ہی مورخ اتنا ناانصاف ہے کہ وہ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ کہیے۔یہ بات سب پر عیاں ہے کہ جب یہ ایکٹ بن رہی تھی تو کون پس دیوار زنداں تھا،کون ہوم اریسٹ تھااور کون بڑے بڑے ہوٹلوں میںروسٹ اور چائینیز کھانے تناول فرمارہے تھے اور قیمتی گاڑیوں میں محو سفر تھے اور اپنوں کو لتاڑرہے۔مچھ ، اڈیالہ اور دوسرے خوفناک مناظر سے ڈرارہے تھے۔وہ کون لوگ تھے جو اپنے لوگوں کو منبر اور مسجد سے بے دخل کرنے کی کوشش میںمصروف تھے اور مختلف میڈیائی فورم میں آکر کس طرح اپنوں کے دل کاٹ رہے تھے اور غیروں کی آنکھوں کا تارا بن رہے تھے۔یہ مناظر پورے ملک میں دیکھے گئے۔جو لوگ اسمبلی کا حصہ ہی نہیںوہ اسمبلی میں بل پاس کرنے کی باتیں کریں گے تویقینا افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔چار سال میں ایک معمولی قرارداد پیش نہ کر سکے اور نہ ہی اپنے جماعت کے منشور کواسمبلی میں بیان کر سکے بلکہ جب تک حکومت میں ہیںاپنے مرکزی اور علاقائی منشور کے خلاف بیانات دیتے رہے اور اہل سنت عوام کے زخموں پر نمک ملتے رہے اور وہ لوگ اگر اسمبلی سے''توہین صحابہ ''بل کی منظوری کا کریڈیٹ لینے کے لیے جھوٹ کا سہارا لیں تو کیا عوام اور مورخ مانے گا۔یہ سچ ہے کہ اسمبلی میں ایک ایکٹ پر مباحثہ ہوامگر اس ایکٹ کے تیار کنندہ کون تھے،پورے گلگت بالخصوص ضلع دیامر اور تنظیم اہل سنت والجماعت ہی کی حمایت اور پشت پر مضبوطی سے کھڑے ہونے کی وجہ سے ایک ممبر اسمبلی میں بحث میں حصہ لے رہا تھا۔ وہ سب عیاں ہے۔اسی ایکٹ کی وجہ سے تو اہل سنت والجماعت کی پوری مرکزی قیادت پس دیوار زنداں تھی اور مصائب سہہ رہی تھی مگر افسوس جھوٹ کے ذریعے کریڈیٹ کوئی اور لینا چاہتا ہے۔یہ تمام تر لکھاوٹ کا مقصد صرف ریکارڈ درست کرنا ہے۔ تاکہ آنے والے دنوں میں سچ اور جھوٹ میں فرق واضح ہوسکے۔
 
Qazi Nisar Ahmad
About the Author: Qazi Nisar Ahmad Read More Articles by Qazi Nisar Ahmad: 16 Articles with 13490 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.