جمہوریت کی نرسری ویران کیوں؟

بلدیاتی اداروں کے ذریعے عوام کے بنیادی مسائل فوری حل ہوتے ہیں، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے باسیوں کو عوام سمجھا ہی کب گیا ہے۔ آج ایک عام شہری جن مسائل کا شکار ہے اس میں حرف شکایت زبان پہ لانا بھی اب شاید بھول گیا ہے۔ فکر روزگار میں پھنسا عام شہری بس جینا چاہتا ہے، اس بات سے بے خبر کے آخر اس کے حقوق کیا ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پاکستانی عوام بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم ہیں۔ پورے ملک میں پانچ سال گزر جانے کے باوجود بلدیاتی انتخابات نہیں کروائے جا سکے اور وجہ سیاست دانوں کے ذاتی مفادات سے بڑھ کر کچھ اور نہیں۔ بلدیاتی اداروں کو جمہوریت کی نرسری کہا جاتا ہے، کیوں کہ کونسلرز، چیئرمین، میئر یا ناظم کی صورت میں یہ ادارے نئی قیادت کو جنم دیتے ہیں۔ پاکستان میں بلدیاتی انتخابات ہمیشہ آمرانہ حکومتوں میں کرائے گئے، جس کی وجہ یہ ہے کہ اس دور میں فوجی حکم رانوں کی خواہش تھی کہ سیاسی جماعتوں کا عوام میں اثرورسوخ کم ہو اور نئی قیادت سامنے آئے۔ فوجی حکومتوں میں قومی اسمبلی نہ ہونے کی وجہ سے ایسے اداروں کی ضرورت ہوتی ہے جو عوام کے بنیادی مسائل حل کریں اور حکم راں کے لیے خطرہ بھی نہ بنیں۔ اسمبلیوں کا کام قانون سازی اور قوانین میں ترمیم ہے، بنیادی شہری مسائل کا حل ان کا کام نہیں، یہ کام بلدیاتی اداروں کا ہے، بلدیاتی اداروں کے نمائندوں تک عوام کی رسائی آسان ہوتی ہے، لیکن حکم راں اور اسمبلیوں میں منتخب ہونے والے چاہتے ہیں کہ انھیں ترقیاتی فنڈ کے نام پر رقوم ملتی رہیں۔ اس لیے وہ بلدیاتی اداروں کے قیام کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ ساتھ ہی انھیں خطرہ ہوتا ہے کہ بلدیاتی اداروں سے نئی قیادت ابھرے گی جو عام انتخابات میں انھیں چیلینج کر سکتی ہے، اس لیے وہ بلدیاتی اداروں کو اپنے لیے خطرناک تصور کرتے ہیں۔

بلدیاتی اداروں سے نئی قیادت جنم لینے کی مثال عالمی سطح پر ایران کے سابق صدر احمدی نژاد اور ترکی کی برسراقتدار جماعت کی ہے۔ اسی طرح فلسطین میں حماس نے بلدیاتی انتخابات میں کام یابی حاصل کرکے کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور خود کو منوایا اور عام انتخابات میں فتح یاب ہوئی۔ پاکستان میں بلدیاتی اداروں کے ذریعے قیادت سامنے آنے کی مثال ڈاکٹر فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال ہیں۔

کراچی جیسے دو کروڑ کی آبادی والے شہر میں منتخب بلدیاتی قیادت نہ ہونے سے بہت سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ اس صورت حال میں سپریم کورٹ کا حکم امید کی کرن بن کر ہمارے آسمان پر دمکا ہے۔

جسٹس جواد خواجہ کی زیرصدارت قائم سپریم کورٹ کی تین رکنی بینچ نے بلدیاتی انتخابات کے لیے حکومت کا دیا گیا شیڈول مسترد کرتے ہوئے سندھ اور پنجاب کی حکومتوں کو اسی سال ستمبر میں بلدیاتی اداروں کے الیکشن کرانے کا حکم دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ صوبائی حکومتیں بلدیاتی انتخابات کرانے سے کیوں گریزاں ہیں اور کیا سپریم کورٹ کے اس حکم پر عمل درآمد ہوپائے گا یا کوئی نیا بہانہ اور نیا جواز سامنے آجائے گا۔

سندھ اسمبلی نے گذشتہ دنوں سندھ لوکل گورنمنٹ (ترمیمی) بل بیس سو پندرہ اتفاق رائے سے منظور کرکے بلدیاتی حلقہ بندیوں کا اختیار الیکشن کمیشن کو دے دیا ہے، جب کہ انتخابات کا طریقۂ کار بھی تبدیل کردیا گیا ہے۔ یہ ترمیمی بل اس لحاظ سے خوش آئند ہے کہ اس کی منظوری سے عوام کو یہ امید ملی ہے کہ آخرکار حکومت نے بلدیاتی انتخابات کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

بلدیاتی ادارے نہ ہونے سے پورے ملک ہی میں عوام کو مسائل کا سامنا ہے، لیکن دو کروڑ سے زیادہ آبادی والے صنعت وتجارت کے مرکز کراچی میں منتخب بلدیاتی قیادت نے ہونے سے صورت حال زیادہ سنگین ہوگئی ہے۔ ٹوٹی ہوئی سڑکیں، ہر طرف لگے کوڑے کے ڈھیر، بہتے گٹر، بڑھتی ہوئی تجاوزات․․․یہ سب مسائل عوام کو پریشان کیے ہوئے ہیں۔ یہی نہیں، بچے کی ولدیت کا فارم بنوانا ہو یا کسی کی وفات کا سرٹیفیکٹ، زندگی کے معمولات کے لیے ضروری ترین ان دستاویزات کا حاصل کرنا بھی بلدیاتی اداروں کے نہ ہونے کی وجہ سے مشکلات سے پُر مرحلہ بن چکا ہے۔ کراچی کے معاملات اس وقت ایک ایڈمنسٹریٹر کے ذریعے چلائے جارہے ہیں اور صورت حال یہ ہے کہ اس وقت خبروں کے مطابق شہر کے مختلف بلدیاتی اداروں کے سنگین مالی بحران کا سامنا ہے، جس کے باعث وہ اپنے ملازمین کو تنخواہ بھی ادا نہیں کرپا رہے۔ ایسے میں عوام کے مسائل کس طرح حل ہوسکتے ہیں۔

کراچی کا انتظام ایڈمنسٹریٹر کے حوالے کرنے کا مطلب گویا جمہوریت سے عشق کرنے والے حکم راں کراچی جیسے دو کروڑ کی آبادی والے شہر کو منتخب بلدیاتی اداروں کے بہ جائے ایک عدد ایڈمنسٹریٹر کے سپرد کرکے مطمئن ہوگئے ہیں۔ یہ غیرجمہوری رویے ہی ہمارے ملک میں جمہوریت کو نقصان پہنچانے کا سبب بنتے ہیں۔ آخر وہ کیا وجوہات ہیں جن کی بنا پرسندھ حکومت صوبے میں بلدیاتی انتخابات نہیں کرانا چاہتی۔

سندھ میں بلدیاتی انتخابات نہ کرانے کی وجوہات میں سے ایک پیپلزپارٹی کے اندرونی اختلافات بھی ہیں۔ پارٹی کے اہم راہ نما مخدوم امین فہیم ان دنوں پارٹی سے ناراض ہیں۔ ایک سنیئر اور مؤثر سیاست داں ہونے کے ساتھ ایک روحانی حلقے کے پیشوا اور حضرت مخدوم نوح کی درگاہ کے گدی نشین کی حیثیت سے بھی مخدوم امین فہیم اپنے آبائی شہر ہالا سمیت پورے سندھ میں سیاسی اثرورسوخ رکھتے ہیں۔ دوسری طرف ذوالفقار مرزا آصف زرداری کے باغی کے طو پر سامنے آئے ہیں اور انھوں نے پارٹی کی قیادت پر سخت الزامات عاید کیے ہیں۔ یہ اطلاعات بھی ہیں ذوالفقارمرزا قوم پرستوں کے ساتھ مل کر سندھ میں پیپلزپارٹی کے لیے مشکلات پیدا کرسکتے ہیں۔ یوں بھی پیپلزپارٹی کی صفوں میں انتشار نظر آتا ہے۔ اس حوالے سے ایک اہم عہدے پر فائز شخصیت کو ان کے منصب سے ہٹانے کی بات بھی کی گئی، جس پر اس شخصیت نے کہا کہ اگر اسے منصب سے ہٹایا گیا تو سندھ سے پیپلزپارٹی کا نام ونشان مٹ جائے گا۔

پی پی پی کی قیادت جانتی ہے کہ بلدیاتی انتخابات کی صورت میں پارٹٰی کے اندر اختلافات اور معرکہ آرائی کا ایک سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ ہر علاقے کے بااثر پارٹی راہ نما، خاندان، ایم این اے اور ایم پی اے چاہیں گے کہ بلدیاتی انتخابات میں ان کے من پسند لوگوں اور خاندان کے افراد کو امیدوار نام زد کیا جائے۔ یوں پارٹی میں موجود گروہ بندی صف بندی میں تبدیل ہوجائے گی، ایسے میں پارٹی سے تعلق رکھنے والے امیدوار آمنے سامنے آکر الیکشن میں پیپلزپارٹی کو نقصان پہنچانے کا سبب بن سکتے ہیں۔

دوسری طرف شہری سندھ کی نمائندہ جماعت متحدہ قومی موومنٹ گراس روٹ لیول پر بہت مضبوط ہے۔ ایم کیو ایم دو بار کراچی اور حیدآباد میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں بھاری اکثریت سے کام یابی حاصل کرچکی ہے۔ تاہم دو ہزار ایک میں ہونے والے مقامی حکومتوں کے نئے نظام کے تحت ہونے والے بلدیاتی انتخابات کا ایم کیوایم نے بائیکاٹ کیا تھا۔ شہری سندھ میں متحرک اور فعال دیگر جماعتیں پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی بھی بلدیاتی انتخابات کی صورت میں اندیشوں سے زیادہ امکانات رکھتی ہیں۔

اس حوالے سے ایک اہم مسئلہ مردم شماری کا بھی ہے۔ کسی بھی ملک کی ترقی اور اس کے عوام کا معیارِزندگی بہتر بنانے کے لیے مردم شماری لازمی ہے، لیکن ہمارے ملک میں مختلف وجوہات کی بنا پر مردم شماری التوا کا شکار ہوجاتی ہے یا ہوتی بھی ہے تو اس کے اعدادوشمار پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔ جہاں تک سندھ کا تعلق ہے تو مردم شماری کے صحیح اعدادوشمار صوبے میں ہر سطح پر تبدیلی لاسکتے ہیں، جس میں اہم ترین حلقہ بندیوں کا ازسرنو عمل ہے۔ اگر مردم شماری کے نتائج کے تحت آبادی کے اعتبار سے حلقہ بندیاں کی جائیں تو اربن سندھ کی بڑھتی ہوئی آبادی کے حساب سے اس کی نشستوں میں اضافہ ہوجائے گا، جس سے دیہی سندھ میں مقبولیت رکھنے والی پیپلزپارٹی کو نقصان ہوگا۔ اس نقصان کو سامنے رکھتے ہوئے پیپلزپارٹی کی حکومت بلدیاتی اداروں کے لیے بھی ایسی حلقہ بندی چاہتی ہے جو عام انتخابات میں اس کے لیے نقصان کا سبب نہ بنے اور اس کی سیٹیں کسی طرح بھی کم نہ ہونے پائیں۔

عوام نہ جانے کب سے منتظر ہیں کہ اختیارات کو عوام کی نچلی سطح تک منتقل کیا جائے، تاکہ ان کے بنیادی مسائل حل ہوں، ایسے میں یہ حقیقت کتنی کرب ناک ہے کہ جمہوریت کے بنیادی اداروں کی راہ میں جمہوریت کے ذریعے حکم راں بننے والے ہی رکاوٹ ہیں۔
Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 311933 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.