کڈنی کا عالمی دن اور مخیر ادارے
(Roshan Khattak, Peshawar)
شاید ہی دنیا میں کو ئی ایسا
انسان ہو جو اچھی صحت کا خواہش مند نہ ہو، بے شک تند رستی ہزاروں نعمتوں پر
بھاری ہے یہ اور بات ہے کہ انسان کو جو چیز مفت ملتی ہے، وہ اس کی قدر نہیں
کرتا اس کے سلب ہو جانے کے بعد افسوس کرتا ہے بیماری لگ جانے کے بعد صحت کی
اہمیت سمجھتا ہے جب دنیا کی ساری چیزیں اسے بے لذت ہو نے لگتی ہیں اور وہ
جلد از جلد دوبارہ صحت مند ہو نے کی تمنا کرتا ہے۔ بد قسمتی سے اگر وہ غریب
ہے تو تو اس کے لئے وطنِ عزیز میں علاج کروانا ایک نہایت مشکل اور کٹھن
مرحلہ ہو تا ہے اگر خدا نخواستہ بیماری بھی پیچیدہ قسم کی ہو تو پھر تو اس
کے لئے علاج کرنا ہی نا ممکن ہو جاتا ہے جیسے گردوں کا فیل ہو جانا،اس
کاعلاج یقینا ایک مہنگا علاج ہے پاکستان میں گردوں کی بیماری میں روز بروز
اضافہ ہوتا جا رہا ہے، عالمی سطح پر بھی یہ بیماری پھیلتی جا رہی ہے یہی
وجہ ہے کہ ہر سال دوسرے جمعرات کو عالمی سطح پر یومِ گردہ منایاجاتا ہے اور
لوگوں کو گردوں سے متعلق آگاہی دلانے کی کو شش کی جاتی ہے۔وطنِ عزیز میں اس
سال گزشتہ روز 12مارچ کو یومِ گردہ منا یا گیا۔اس دن کے حوالے سے اور عوام
تک اس مو ذی مرض سے بچنے اور علاج کرنے سے متعلق آگاہی دلانے کی غرض سے ’
اتفاق کِڈنی اینڈ جنرل ہسپتال پشاور نے‘‘ اباسین کالم رائیٹرز اسوسی ایشن
‘‘ کو دعوتِ مشاہدہ دی تاکہ اہلِ قلم حضرات عوام کی راہنمائی کرکے گردوں کے
مرض میں مبتلا مریضوں کی اذّیت میں کمی لانے کی کو شش کریں ۔ محکمہ صحت کے
اعداد و شمار کے مطابق ہمارے ملک میں تقریبا دو کروڑ لوگ گردوں کے مختلف
قسم کے مرض میں مبتلا ہیں جبکہ ایسے مریضوں کی تعداد میں سالانہ 15سے20فی
صد اضافہ ہو رہا ہے۔کیونکہ پاکستان میں 20لاکھ آبادی کے لئے گردوں کا صرف
ایک ڈاکٹر ہے جس کے باعث اکثر افراد اس مرض کی تشخیص سے محروم رہتے ہیں،اور
علاج معالجہ نہ ہو نے کی وجہ سے اس مرض میں اضافہ ہو رہا ہے ان میں سے
زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو مہنگا علاج کرنے کی سکت ہی نہیں رکھتے اور وہ یوں
ایڑیاں رگڑ رگڑ کر لقمہء اجل بن جاتے ہیں ۔اتفاق کڈ نی سنٹر کا اولیں مقصد
ایسے غریب اور نادار لوگوں کو مفت علاج کی فراہمی ہے۔ہم نے بہ چشمِ خود
دیکھا کہ جن مریضو ں کا ڈائیلا سس ہو رہا تھا، وہ سب کے سب مفلس و نادار
لوگ تھے اور ان کا بالکل مفت علاج ہو رہا تھا۔جودکھی انسانیت کی خدمت اور
مخیر حضرات کی فراخ دلی کا منہ بولتا ثبوت تھا ۔ہمیں بتایا گیا کہ ہر سال
اس ہسپتال میں اوسطا دو ہزار مریضوں کا مفت ڈئیلاسس کیا جاتا ہے۔
لیکن جس بات نے ہمیں حیران و پریشان کیا وہ یہ تھی کہ صوبہ خیبر پختونخوا
کی موجودہ تحریکِ انصاف کی حکومت نے اس کارِ خیر میں تعاون کرنے سے ہاتھ
کھینچ لئے ہیں اگر چہ اسی روز صوبائی اسمبلی خیبر پختونخوا کے ڈپٹی اسپیکر
امتیاز قریشی صاحب نے بھی اسی ہسپتال کا دورہ کیا اور ہسپتال کی کارکردگی
کی تعریف کی اور صوبائی حکومت کی اس بے رخی کا شکوہ وزیرِ اعلیٰ پرویز خٹک
تک پہنچانے کا وعدہ بھی کیا مگر ہمیں حیرانی اس لئے ہو ئی کہ تحریکِ انصاف
کے چئیر مین عمران خان کو کینسر ہسپتال چلانے کا بذاتِ خود تجربہ ہے اور وہ
یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ اس طرح کے فلاحی ہسپتال کا چلانا بغیر فنڈ کے
چلانا ممکن نہیں ہوتا، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پی ٹی آئی کی حکومت طب کے
میدان میں اس طرح کے بہترین خدمات سر انجام دینے والوں کی حوصلہ افزائی
کرتی اور پچھلے ادوار کے حکومتوں سے نسبتا بڑھ چڑھ کر ان کی مدد کرتی۔مگر
افسوس کہ یہاں تو الٹا گنگا بہنے لگی ہے ۔یہاں یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ
ایسے فلاحی ہسپتالوں کی مدد ہسپتال کی مدد نہیں بلکہ ان نادار اور غریبوں
کی مدد ہے جو گردوں کے مرض میں مبتلا ہیں مگر علاج کی سکت نہیں رکھتے۔سردارِ
دو جہاں حضرت محمدﷺ کا فرمان ہے ’’ خیر من الناس من ینفع الناس ‘‘ لوگوں
میں بہترین وہ ہے جو لوگوں کو فائدہ پہنچائے ‘‘ پس حکومت ہو یا اہلِ ثروّت
حضرات ،ان کو چا ہئے کہ وہ لوگوں کو فائدہ پہنچا نے والے کاموں میں دل کھول
کر فلا حی اداروں کی مدد کریں اور مریضوں خصوصا گردوں کے مرض میں مبتلا
افراد کو ایک نارمل زندگی گزارنے کاموقعہ عطا فر مائیں اور یہ ثابت کریں کہ
ہم صرف ’’عا لمی یومِ گردہ ‘‘ کے دن تقریریں ہی نہیں کرتے بلکہ اس مرض سے آ
گاہی مہم کے ساتھ ساتھ بیکسوں کی مدد کر کے علاج بھی کرتے ہیں۔۔۔۔ |
|
Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.