کرکٹ ورلڈ کپ شروع ہوتے ہی پورے
ملک میں ایک جوش و جذبہ نظر آتا ہے ۔ ملک کے طول وعرض میں ہر شخص کرکٹ کے
بارے میں بات کرتا اور رائے دیتا نظر آتا ہے۔ ورلڈ کپ سے پہلے ہی پوری قوم
کو اپنی کرکٹ ٹیم سے بہت سی امیدیں وابسطہ تھیں جن پر موجودہ ٹیم پورا نہیں
اتر پائی ۔ بہترین ٹیموں کے ساتھ کھیلتے ہوئے ہماری ٹیم نہ صرف بری طرح
ناکام ہوئی بلکہ جیت کے لیے کوشش کرتی بھی نظر نہیں آئی ۔ قومی کرکٹ ٹیم کے
چیف سلکڑ معین خان کسینو میں پائے گئے جبکہ قومی کرکٹ ٹیم چاہے وہ باؤلنگ
ہو ، بیٹنگ ہو یا پھر فیلڈنگ ہر شعبے میں مسلسل ناقص کارکردگی کا مظاہرہ
کرتی رہی ۔ سب سے اہم چیز جو ان میچوں میں دیکھنے کو ملی وہ یہ تھی کہ قومی
کرکٹ ٹیم واضع طور پر بٹی ہوئی نظر آئی ۔ ٹیم سپرٹ کہیں موجود نہ تھی ۔ ہر
میچ کے بعد ہار کا سبب ٹیم کے کپتان کو قرار دیا جاتا رہا ۔لیکن کپتان تو
کپتان کوئی کھلاڑی بھی ا نفرادی سطح پر کوئی بھی کھلاڑی وہ کارکردگی پیش نہ
کر سکا جس کی قوم کو امید تھی ۔ کسی بھی میچ کو جیتنے کے لیے ہر کھلاڑی کو
انفراد ی کارکردگی کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ ٹیم کو اجتماعی طور پر ایک
ددوسرے کا ساتھ دینا چاہیے ، ۔ ٹیم سپرٹ کوئی بھی میچ جیتنے کے لیے ایک
ضروری چیز ہے ۔کرکٹ ایک ایسا کھیل ہے جس میں اچھی انفرادی کارکردگی اور ٹیم
سپرٹ دونوں ہی برابراہم ہیں ۔ ہار جیت توکھیل کا حصہ ہے لیکن کم از کم جیت
کے لیے محنت اور کوشش لازم ہے۔ایک دوسرے پر الزام تراشی کی بجائے ہر ایک کو
اپنی غلطیوں ، اپنی خامیوں کو دور کرنے کی کو شش کرنی چاہیے ۔
دوسروں پر الزام لگانا ، اپنی کارکردگی پر توجہ نہ دیناجبکہ کوتاہیوں اور
ناکامیوں پر دوسروں کو الزام دینا ،یہ رویہ صرف کرکٹ میں نہیں پورے معاشرے
کا ایک عمومی رویہ بنتا جا رہا ہے ۔چاہے وہ سیاست ہو ، قومی یا صوبائی
اسمبلی ہو ، ٹاک شوز ہوں ، یا کوئی سرکاری دفتر کوئی شعبہ بھی اس رویے سے
مبرا نہیں ۔ دوسروں پر تنقید کرنا خود عمل کرنے سے کہیں زیادہ آسان ہے ۔
اوردوسروں پر تنقید کرتے ہوئے کوئی بھی یہ نہیں دیکھتا کہ ان کی اپنی
کارکردگی کا گراف کہاں پر ہے ۔
اگر سیاست کے میدان پر نظر دوڑائیں توکم و بیش ہر پارٹی سے تعلق رکھنے والے
سیا ست دان خود کام کرنے کی بجائے ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے اور
کوتاہیوں کے لیے دوسروں کو موردِالزام ٹھہراتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ ہر سیاست
دان دوسروں کی ذاتیات سے لے کر اخلاقیات تک پر تنقید کرتا ہوا پایا جاتا ہے
۔دوسروں پر کیچڑ اچھالنے سے گریز نہیں کرتے اور بعض اوقات اخلاقی حدود کی
پروا بھی نہیں کرتے ۔ ہر ایک طبقہ ایک دوسرے کے بارے میں نہ صرف اس طرح کی
باتوں کو برانہیں سمجھتے بلکہ اکثر وبیشتر ایک دوسرے کی ذاتیات کے بارے میں
بات کرتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں ۔کسی کی عزت کواچھالنا چاہے وہ عام آدمی
ہو یا کوئی لیڈر ، وہ کوئی بھی ہو ،آج کل ہمارے معاشرے کا خاصہ بنتا جا رہا
ہے اور اس تمام میں میڈیا پیش پیش ہے ۔ اس طرح کے پروگرام آج کل آپ کو ہر
چینل پر ملیں گے ۔
حکومت ہے تو وہ ہر مسئلے ، تمام اداروں میں نااہلی اور کرپشن کا ذمہ دار کا
موجب سابقہ حکومت کو قرار دیتی ہے ۔ سابقہ حکومت نے تو جو کیا سو کیا ؟
سوال تو یہ ہے کہ ابھی جو اہل ِ اقتدار ہیں وہ کیا کر سکتے ہیں اور کیا کر
رہے ہیں ؟حکومت نے کون سے بحران کا مستقل حل نکالا ہے ؟ اس بارے میں کوئی
بھی حکومتی نمائندہ بات کرنے کو تیار نہیں ہوتا ۔یہی حال اپوزیشن کا ہے ۔
اپوزیشن ، حکومت کو الزام دیتی نظر آتی ہے ۔سوال یہ ہے کہ آپ نے کیا کام
کیا ؟ ۔لیکن نہ تو حکومت اور نہ ہی اپوزیشن عوام کی فلاح و بہبود کے لیے
عملی اقدام کرنے کو تیارہے ۔
ملکی سلامتی کے بڑے بڑے مسائل کو لے لیجیئے مثلا پینے کا صاف پانی ، بجلی
وغیرہ ، ان مسائل کا حل روزِ روشن کی طرح عیاں ہے لیکن یہ مسائل اس وقت تک
حل ہو ہی نہیں سکتے جب تک کہ انھیں حل کرنے کے لیے عملی اور ٹھوس اقدامات
نہ کیے جائیں ۔ ہمارے ہاں کوئی مسئلہ ایسا نہیں ہے جو الزام تراشی اور
لفاظی کی نظر نہ ہو گیا ہو ۔ ہر مسئلے کے آغاز پر تو اس پر بے انتہا بحث کی
جاتی ہے ۔ہر اخبار میں وہ مسئلہ شہ سرخی کی صورت میں نظر آتا ہے ہر ٹی وی
چینل پر اس مسئلہ پر گھنٹوں پر محیط ٹاک شوز بنائے جاتے ہیں ۔ بحث برائے
بحث میں وہ مسئلہ وہیں کا وہیں رہ جاتا ہے اس کا نہ تو کوئی اس حل نکلتا ہے
اور نہ ہی اس مسئلے کے حل کی جانب کوئی خاطر خواہ پیش رفت ہوتی ہے۔ بیشتر
ملکی سلامتی کے اہم فیصلے سیاسی اختلافات کی نظر ہو کر کھٹائی میں پڑ جاتے
ہیں اور سالوں گزر جانے کے باوجود ان فیصلوں پر عملدرآمد نہیں کیا جاتا اس
کی سب سے بڑی مثال کالا باغ ڈیم کی تعمیر ہے جو کئی سال گزر جانے کے باوجود
آج تک نہیں بنایا جا سکتا۔اس منصوبے پر بیش بہا پیسہ خرچ کیا جا چکا ہے کئی
باراس پر اٹھنے والی لاگت اور اس سے ہونے والے نقصانات اور فوائد کا تخمینہ
لگایا جا چکا ہے لیکن اس ڈیم کی تعمیر کا آغاز تک نہیں کیا جا سکا اور اس
کی وجہ صرف اور صرف سیاسی اختلافات ہیں ۔ ہماری ملکی پالیسی اور فارن
پالیسی کی یہی کمزوری ہے کہ جب ہم بگھلہیار ڈیم (انڈیا میں بنایا جانے والا
وہ ڈیم جو پاکستانی دریاؤں پر بنایا جا رہا ہے ۔) کا مقدمہ عالمی سطح پر
بلند کرتے ہیں تو ہم ہار جاتے ہیں کیونکہ سندھ طاس کے معاہدے کے مطابق
پاکستا ن کو اپنے دریاؤں پر 50 سال کے اندر سو کے قریب ڈیم بنانا تھے جو
ہمیشہ سیاسی محاذ آرائی کا شکار ہوتے رہے اور نہ بن سکے اور آج ہم بجلی کے
بحران کا سامنا کر رہے ہیں ۔
یہ اسی الزام تراشی اور لفاظی کی جنگ کا نتیجہ یہ ہے کہ نہ تو تھر کے بھوک
سے بلکتے ہوئے جان کی بازی ہارتے ہوئے بچوں کے لیے کیا جا سکا اور نہ ہی
بارشوں کے بعد آنے والے سیلاب کی تباہ کاریوں کو روکنے کے لیے کچھ کیا جا
سکا ْ ۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی اشتہارات اور غیر اہم منصوبوں پر تو بے
بہا پیسہ لٹا رہے ہیں لیکن اسی پیسے سیملکی سلامتی کے منصوبوں کے لیے کچھ
کرنے کو تیار نہیں ۔ اگر اشتہارات پر پیسہ لگانے کی بجائے ان مسائل کے حل
پر پیسہ لگایا جائے تو اس پارٹی کو اشتہار لگوانے کی ضرورت ہی باقی نہ رہے
۔ ۔عوام کے مسائل پرہر نیوز چینل کئی کئی گھنٹے کے ٹاک شوز چلاکر اپنی
ریٹنگ تو بڑھوا سکتا ہے لیکن اس کا عوام کو قطعا کوئی فائدہ نہیں پہنچ پاتا
۔ ہر پارٹی سے تعلق رکھنے والے کارکن اور سیاست دان ان ٹاک شوز میں گھنٹوں
لمبی بحث کرتے ہیں ، جبکہ مہینے ، اور سال گرز جانے کے باوجود عوامی مسائل
جوں کے توں رہتے ہیں ۔ ملک ایک کے بعد دوسرے بحران کا شکار ہوتا چلا جا
رہاہے اور کوئی اس جانب ٹھوس عملی اقدام کرنے کو تیار نہیں ہے ۔
ایسا نہیں ہے کہ ہمارے ملک میں وسائل کی کوئی کمی ہے ۔ اگرماہرینِ ارضیات
کی رپوٹوں کو دیکھا جائے تو پاکستان وسائل سے مالا مال ایک ایسا ملک ہے جس
کے اگر اپنے وسائل کا 10% فی صد حصہ ہی کام میں لایا جائے تو اس ملک کی
تقدیر بدل سکتی ہے ۔ اور اس کے لیے کسی بھی عالمی ادارے کی ضرورت نہیں ۔
پاکستان کے پاس پاکستان اٹامک انرجی کمشن جیسا ادارہ موجود ہے ۔ اس کے ذمہ
ملکی وسائل کو تلاش کرنے اور ان کو کام میں لانے کا کام دیا جانا چاہیے اور
اگر مالی مجبوریاں آڑے آئیں تو چین یا سعودی عرب جیسے ملک ہماری مدد کر
سکتے ہیں ۔ توجہ طلب امر صرف یہ ہے کہ یہ سب نیک نیتی سے کیا جائے اور
کرپشن اور سیاست سے پاک ہو ۔ہمارے ملک کا بے بہا وسائل کے باوجود ترقی کی
راہ میں کئی ممالک سے بہت پیچھے ہونا صرف یہ بات کا مظہر ہے کہ ملکی بقا ء
کے مسئلوں کو بھی فائلوں اور سیاسی محاذ آرائی میں جھونک دیا جاتا ہے اور
اس سیاسی محاذ آرائی میں وہ مسئلہ جوں کا تو ں فائلوں میں بند ہو کر
الماریوں کی زینت بن جاتا ہے ۔ |