ہمارے ہاں ہر نئی آنے والی حکومت جمہوریت کے استحکام کے
بہت دعوے کرتی ہے لیکن اس حقیقت کو نظر انداز کر دیاجاتاہے کہ محض قومی
وصوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے نتیجے میں مرکز اور صوبوں میں منتخب
حکومتوں کے قیام سے جمہوریت مستحکم نہیں کی جا سکتی قومی وصوبائی اسمبلیوں
کے انتخابات کو جمہوری استحکام کی جانب سفر کا آغاز تو قرار دیا جاسکتاہے
منزل نہیں سمجھاجاسکتا جمہوری استحکام نہ صرف بلدیاتی انتخابات بلکہ شہریوں
کے بنیادی حقوق اور آئین وقانون کی بالادستی سے عبارت ہے اگر کوئی حکومت
آئین وقانون کی بالادستی کو یقینی نہیں بناتی شہریوں کو ان کے بنیادی حقوق
نہیں دیتی اور ایک منصفانہ معاشرہ قائم نہیں کرتی تو اسے کسی صورت جمہوری
حکومت نہیں قرار دیاجاسکتا بلدیاتی انتخابات کی افادیت اور اہمیت موجودہ
ادوار میں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے مگر کیا وجوہات ہیں کہ موجودہ حکومت جو
تقریبا دو تہائی اکثریت کی حامل حکومت ہے ان انتخابات کے اتنے خلاف نظر آتی
ہے کہ ان کو منعقد ہی نہیں کروانا چاہتی کیا مسلم لیگ ن گراس روٹ لیول پر
کمزور ہے یا مسلم لیگ ن گراس روٹ لیول پر اپنا وہ بنیادی سیٹ اپ نہیں رکھتی
جو دوسری جماعتیں رکھتی ہیں یا کہ وہ ان جماعتوں سے خوف زدہ ہے جو پہلے
بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیکر کر جیت چکی ہیں اور اس بنیادی جمہوریت کے
سیٹ اپ کو کامیابی سے چلا چکی ہے یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب برحال سامنے
آنا باقی ہے جب سے مسلم لیگ ن کی حکومت آئی ہے بہت سے مبصرین کو یہ خدشات
تھے کہ اب شاید حکومت یہ انتخابات منعقد کروانے کی کوشش ہی نہ کرئے بعدا
زاں ان کے یہ خدشات سچ ثابت ہوئے جب حکومت نے ان انتخابات کے علاوہ دیگر
کئی آپشن جن میں کمشنری نظام ،نمبرداری نظام پر غور شروع کیا اس وقت بات
اور واضح ہو گئی لیکن صورت حال حکومت کے لئے اس وقت مشکل ہو گئی جب سپریم
کورٹ نے مداخلت کرتے ہوئے ان انتخابات کو منعقد کروانے کے لئے شیڈول مانگا
سپریم کورٹ نے پورے ملک میں ستمبر تک بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا حکم
دیا اٹارنی جنرل کے مطابق کنٹونمنٹ بورڈ میں بلدیاتی انتخابات16مئی
اورخیبرپختونخواہ میں7جون کوکرائے جائیں گے پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی
انتخابات تین مراحل میں کروائے جائیں گے پہلا مرحلہ16جنوری2016 دوسرا
مرحلہ20فروری اور تیسرا مرحلہ26مارچ کو مکمل ہوگاان کے مطابق پنجاب اور
سندھ میں چالیس لاکھ نئے ووٹروں کا اندراج باقی ہے جس کے لئے ڈیڑھ ماہ کا
وقت درکار ہے جبکہ حلقہ بندیوں کے لئے چار ماہ چاہیں سپریم کورٹ نے ستمبر
تک پورے ملک میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا حکم دے کر نہ صرف آئین کی
بالادستی قائم کی بلکہ نچلی سطح پر جمہوریت کے قیام کی جانب اہم پیش رفت کی
ہے دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو اس معاملے میں قصور الیکشن کمیشن کا بھی ہے
الیکشن کمیشن نے بھی اپنی آئینی ذمے داریاں پوری نہیں کیں نئے ووٹوں کے
اندراج کے معاملات تھے یا حلقہ بندیوں کے مسائل اگر الیکشن کمیشن نے اپنی
ذمے داریاں پوری کی ہوتیں تو بلدیاتی انتخابات یوں پس پشت نہ جاتے مگر
المیہ تویہ ہے کہ کنٹونمنٹ بورڈز سترہ برسوں سے منتخب نمائندوں سے محروم
ہیں صورتحال یہ ہے کہ کنٹونمنٹس ایکٹ میں ترمیم کے لئے آرڈیننس تک جاری
نہیں کیا جاسکا اس سے عدم دلچسپی کی کیفیت کا بخوبی اندازہ لگایاجاسکتاہے
الیکشن کمیشن کا یہ موقف بھی معنی خیز ہے کہ1924کے ایکٹ کے تحت الیکشن
کرانا اس کی ذمے داری نہیں ہے تاہم آئین کے آرٹیکل219کے تحت الیکشن کا
انعقاد تو بہرصورت الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے ملک بھر کے عوام کے لئے یہ
امر اطمینان کا باعث ہے کہ سپریم کورٹ نے اس سارے معاملے میں ابہام اور
رکاوٹیں ختم کر کے ستمبر تک بلدیاتی انتخابات کو یقینی بنانے کا حکم دیاہے
۔سپریم کورٹ نے ستمبر تک پورے ملک میں بلدیاتی انتخابات کا حکم دے کر
جمہوریت اور قوم کی بڑی خدمت کی ہے مقامی سطح پر شہریوں کے بیشتر مسائل کی
وجہ محض مقامی حکومتوں کی عدم موجودگی ہے اگر تسلسل کے ساتھ بلدیاتی
انتخابات منعقد ہوتے تو معاشرے میں بہت سی مثبت تبدیلیاں رونما ہوسکتی تھیں
اور عوام کے ساتھ ہونے والی بہت سی ناانصافیوں کا تدارک کیاجاسکتاتھا اس
سلسلے میں حکومت اور الیکشن کمیشن نے مجرمانہ غفلت کامظاہرہ کیاہے دونوں
عوام کی محرومیوں اور ان کو درپیش آنے والے مسائل کے بالواسطہ ذمے دار ہیں
اب جبکہ سپریم کورٹ کا ایک واضح حکم آچکاہے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس پر اس
کی روح کے مطابق عمل کیاجائے تاکہ جمہوریت کی بنیاد کو مضبوط بنایا جا سکے
اس سلسلے میں کسی بھی لیت ولعل سے کام لینا خدانخواستہ جمہوریت کے لئے
نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ |