جب سے پشاور میں آرمی پبلک سکول پہ حملے کا سانحہ ہوا ہے
کچھ لکھنے کو دل نہیں مانتا۔پشاور جیسے واقعات ہمارے ملک میں روز ہوتے ہیں
ممکن تھا کہ میں اور میری قوم اسے بھی دوسرے یا تیسرے دن بھول جاتی لیکن اس
واقعہ کو، اس کے ساتھ جڑے دکھ کو لواحقین نے بھلانے نہیں دیا۔ فوج اس واقعہ
کے لواحقین میں شامل تھی۔یہ درست ہے کہ شہید ہونے والے بچوں کی بڑی
تعدادضربِ عضب میں دادِ شجاعت دیتے فوجیوں کے بچوں کی تھی لیکن ایسا نہیں
کہ اس میں عام شہریوں کے بچے شامل نہ تھے اور پھر اس ادارے میں پڑھاتے
اساتذہ۔ہم اب مرگِ انبوہ کے عادی ہو چکے۔ہمیں دو سو یا دوہزار لاشیں اٹھانے
سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔فوج کا شکریہ کہ اس نے نہ اپنی ترجیعات بدلیں اور نہ
قوم کو جنجھوڑنا چھوڑا۔ہم لوگ ضربِ عضب کی حمایت میں یکسو نہیں ہوئے فوج نے
قوم کو گدی سے پکڑ کے یکسو کیا۔ہماری تو اب بھی یہ حالت ہے کہ صفوں سے نکل
نکل کے بھاگ رہے ہیں۔ہم نے ہی کیا اس شخص کو چئیرمین سینٹ نہیں بنا دیاجو
کل سینیٹ میں کھڑا ہو کے بائیسویں ترمیم پہ مگر مچھ کے آنسو بہا رہا تھا۔
طولانی تمہید کے لئے معذرت ۔آج کا موضوع لیکن متحدہ کے دفتر پہ رینجرز کا
چھاپہ ہے۔میرا تعلق چونکہ ملک کی غالب اکثریت یعنی متوسط طبقے سے ہے۔اس لئے
مجھے الطاف حسین نے ہمیشہ متاٗثر کیا ہے۔میرے کالم گواہ ہیں کہ میں نے
ہمیشہ ایم کیو ایم کو اور اس کے اقدامات کو اس کے اصل تناظر میں دیکھا
ہے۔میں نے ہمیشہ لکھا کہ ایم کیو ایم رد عمل کی پارٹی ہے۔اس کے پرکھوں کا
پاکستان بنانے میں کردار بھی تھا اور قربانی بھی۔وہ لوگ ہم سے زیادہ ذہین
بھی تھے اور پڑھے لکھے محب وطن اور معتدل و مہذب بھی۔انہوں نے یہاں آ کے نہ
صرف اس نوزائیدہ مملکت کا انتظام و انصرام سنبھالا بلکہ اسے اپنے قدموں پہ
بھی کھڑا کیا۔ کسی زمانے میں یہی معتدل لوگ کراچی میں جمیعت علمائے پاکستان
اور جماعت اسلامی کی قوت تھے۔چیزیں بالکل درست سمت میں رواں دواں تھیں ۔وہ
آہستہ آہستہ قومی دھارے کا حصہ بن رہے تھے لیکن ہماری تنگ نظری اور کم علمی
نے انہیں قومی دھارے سے کاٹ کے لسانیت اور عصبیت کی طرف دھکیل دیا۔ہم نے
انہیں پردیسی سمجھ کے دیوار کے ساتھ لگانے کی کوشش کی۔
آئیے ذرا اپنے گریبان میں جھانکیں ۔کیا یہ ہم ہی نہیں تھے جنہوں نے اردو
بولنے والوں کو ہندوستانی مٹروا،کالیا اور مکڑ کے القابات نہیں دئیے؟کیا یہ
ہم ہی نہ تھے جنہوں نے انہیں کوٹہ سسٹم کے تازیانوں سے چھلنی کیا۔کیا ہم نے
انہیں وہ مقام دیا جس کے وہ اپنی قربانیوں اور ذہانتوں کی وجہ سے مستحق
تھے۔ہم نے کمزور جان کے ان کی عزتوں پہ بھی حملے کئے۔اس کے باوجود وہ لوگ
جنہوں نے مہاجرت کا دکھ سہا تھا،پاکستان کے ساتھ وفادار بھی رہے اور مخلص
بھی۔انہوں نے اس کی ترقی وترویج میں بھرپور حصہ ڈالا۔پھر وہ لوگ آہستہ
آہستہ اپنا کام مکمل کر کے راہی ملک عدم ہوئے تو ان کی اس نسل نے سر اٹھایا
جو اسی ماحول میں وہی خوراک کھا کے اور اسی دھرتی پہ رہ کے پلی بڑھی تھی۔ان
کے بزرگوں کے مزاج میں عقل تھی ،فہم تھا، ذہانت تھی اور اپنے نئے ملک کے
ساتھ وفاداری کہ اس کے لئے انہوں نے اپنا جان مال عزت سب قربان کیا تھا۔نئی
اکھڑ مزاج نسل ذہین تو تھی لیکن ان میں وہ اعتدال اور وفاداری ہر گز نہ تھی
جو ان کے بزرگوں کے پاس تھی۔وہ تھپڑ کھا کے دوسرا گال بھی پیش کیا کرتے
تھے۔یہ نسل دراصل اپنے خون اور ہمارے ماحول کی پروردہ تھی۔وہ ملک سے زیادہ
اپنے آپ سے اور اپنے مفادات سے وفادار تھی۔حالات کے جبر نے شاید انہیں اس
پہ مجبور کیا تھا۔
انہوں نے اپنی ذہانت اورعلم کو استعمال کرتے ہوئے اپنے گرد ایک مضبوط حصار
بنا لیا۔اقلیت ویسے بھی زیادہ منظم ہوتی ہے۔وہ شاید یوں اکٹھے نہیں ہوتے
،ہمارے روئیے نے انہیں اکٹھا ہونے پہ مجبور کر دیا۔پھر جب وہ اکٹھے ہو گئے
تو ہم نے اپنی جبلت کے مطابق اپنے جسم ڈھیلے چھوڑ دئیے اور کراچی ان کے
حوالے کر دیا۔وہ کراچی میں مطلق العنان ہو گئے اور باقی سارا اسی مطلق
العنانی کا عذاب ہے۔سیر پہ ہمیشہ سوا سیر ہوا کرتا ہے۔جمیعت کا نام ونشان
مٹ گیا۔جماعت اسلامی بھی سکڑ کے چند ہزار رہ گئی۔پیپلز پارٹی نے لیاری پہ
اکتفا کر لیا۔کسی پارٹی نے اردو بولنے والوں سے ربط ہی نہیں رکھا اور یوں
وہ بس الطاف بھائی کے ہو گئے اور کراچی میں" جو قائد کا غدار ہے وہ موت کا
حقدار ہے"کے نعرے لگنے لگے۔اس قلعے میں دراڑیں ڈالنے کی بہت کوششیں ہوئیں
لیکن کوئی بھی بارا ٓور ثابت نہ ہو سکی۔ الطاف بھائی کو عسکری طور پہ
طالبان نے اور سیاسی طریق پہ تحریک انصاف نے چیلینج کیا۔بھائی نے اس خطرے
کو بہت مدت پہلے بھانپ کے فوجی آپریشن کا واویلا مچا رکھا تھا۔
موضوع طویل ہے اور کالم کی تنگنائیاں اس کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔نائن زیرو
پہ رینجرز کے چھاپے کے بعد بھائی کے کن ٹٹے تو رینجرز کو پیارے ہو گئے۔جو
باقی بچ رہے ہیں جلد پکڑے جائیں گے۔شاید بھائی اب خود بھی ان سے جان چھڑانا
چاہ رہے تھے۔الطاف مہاجروں کا مصدقہ لیڈر اب بھی ہے۔آپ طاقت سے اردو بولنے
والوں کو الطاف کی حمایت سے محروم نہیں کر سکتے۔الطاف حسین اگر آج بھی اپنی
پارٹی اور اپنے آپ کو تخریبی سر گرمیوں سے علیحدہ کرنے کا اعلان کریں اور
سماج سدھار کا بیڑا اٹھا لیں۔کراچی کے امن کو یقینی بنانے میں مدد گار
ہوں۔ان کے یہ اقدامات بر سر زمین نظر بھی آئیں تو میں دعوےٰ سے کہہ سکتا
ہوں کہ پانچ سال بعد نہیں تو دس سال بعد ایم کیو ایم پورے ملک پہ حکمران ہو
گی۔الطاف بھائی! پاکستانی آپ سے نہیں آپ کی فسطائیت سے خار کھاتے ہیں۔ظلم و
جبر کو چھوڑیں۔تلوار سے نہیں اپنے پرکھوں کی وفاداری اعتدال اور ذہانت سے
آگے بڑھیں ہمارے دیدہ ودل آپ کے لئے فرش راہ ہیں۔ |