مبارکاں! پاکستان اور پاکستانی ہنر مندوں، ماہرین اور
انجینئرز نے ملک میں ہی ڈرون جسے ’’ براق ‘‘ کا نام دیا گیا ہے تیار کر لیا
ہے ، براق لیزر گائیڈڈ میزائل’’براق ‘‘ فائر کرنے کا کامیاب تجربہ بھی کر
لیا گیا ہے، میزائل تجربے میں ساکن اور حرکت کرنے والے اہداف کو کامیابی سے
نشانہ بنایا گیا، مسلح ڈرون ’’ براق ‘‘ ہر قسم کے موسم میں پرواز بھی کر
سکتا ہے۔ خوشی کی بات یہ بھی ہے کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اس کے
تجربے کا بذاتِ خود مشاہدہ بھی کیا اور تجربے کے وقت بنفسِ نفیس موجود بھی
رہے ،اور سائنسدانوں، انجینئروں کو مبارک باد بھی دی، ان کی فنی صلاحیتوں
کو بھی خوب خوب سراہا اور اُن کی حوصلہ افزائی بھی کی، وہاں نعرۂ تکبیر
اللّٰہ اکبر کی گونچ بھی سنائی دی۔ اس موقعے پر انہوں نے اپنے خطاب میں
ڈرون ’’براق ‘‘ کے تجربے کو تاریخی کامیابی بھی قرار دیا جس سے دہشت گردی
کے خلاف جنگ میں مدد ملے گی،
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانیوں کے پاس دماغ بھی ہے اور عقل بھی اور
انہی دو چیزوں سے مل کر بنتی ہے ’’کوشش‘‘ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کوشش کرتے
رہنے سے کچھ حاصل کرنے کا جنون بڑھتا ہے اور جب جنون بڑھ جائے تو ایسی
ایجادیں اور کامیابیاں حاصل ہو جاتی ہیں جس کا نام ہے ’’ براق‘‘ ماہرین کی
انتھک محنت اور کوششوں سے دفاعی صلاحیت بڑھ چکی ہے، یعنی کہ پاکستان نے ایک
اور اہم سنگِ میل عبور کر لیا ہے، اب مملکتِ خدا داد کی طرف میلی آنکھ سے
دیکھنے والے بھی اپنی آنکھوں کو بند کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔یہ بھی
حقیقت ہے کہ ان ایجادات سے پاک افواج کی آپریشنل تیاریوں میں لازماً اضافہ
ہوگا۔
’’براق ‘‘ نام ہی خوبصورت نہیں بلکہ یہ ہمارے پیغمبرنبیٔ آخرزماں حضرت محمد
مصطفی صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی سواری کے نام سے بھی موسوم ہے، جب شبِ
معراج کا واقعہ ہوا تو حضورِ پُر نور صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم ’’ براق ‘‘ پر
ہی سوار ہوکر سفرِ معراج پر روانہ ہوئے تھے۔ اب جبکہ یہ نام اتنے عظیم ہستی
کے ساتھ جُڑا ہوا ہے تو اسے ناکامی کیسے ہو سکتی ہے، اسی لئے اکیسویں صدی
کے ’’براق ‘‘ نے بھی کامیابی سے اپنا اہداف پا لیا ہے۔
بغیر پائلٹ طیاروں کو عرفِ عام میں (UAV)یعنی ان مینڈ ایریل وہیکل
(unmanned Aerial Vehicle)ڈرون کہا جاتا ہے۔ امریکہ اور اسرائیل یہ
ٹیکنالوجی تسلسل سے استعمال کرتے آئے ہیں۔ اور نِت نئے تجربات کرتے رہے ہیں۔
امریکہ اس میں سب سے آگے ہے بلکہ آج یہ کہنا چاہیئے کہ آگے تھا۔ کیونکہ اب
تو ہم بھی اس ٹیکنالوجی میں خود کفیل ہو چکے ہیں۔اب ترقی پذیر ممالک میں
بھی ڈرون طیاروں کا کے حصول کا شوق بڑھ رہا ہے، کئی ممالک ہیں جن میں چین
بھی شامل ہے۔ ایسے طیاروں کی ضرورت وقت کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔ آیئے
دیکھتے ہیں کہ طیارے کب اور کیسے وجود میں آئے اور انہیں ڈرون کیوں کہا
جاتا ہے؟
اکثر ایسی خبریں آپ سب نے شہ سرخیوں میں دیکھی ہوگی کہ ’’ آج پھر ڈرون حملے
کے نتیجے میں کئی افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔‘‘’’اس ڈرون نے تو سب کی
نیندیں اُڑا رکھی ہیں۔ اب تو خوابوں میں بھی ڈرون ہی تعاقب کرتا نظر آتا
ہے۔‘‘اسی طرح کی خبریں اکثر ملتی رہتی ہیں اور ایسی ہی بحث عوام الناس میں
بھی اکثر موضوع بحث رہا کرتی ہیں۔ بھائی! اگر آپ کو ڈرون سے اتنا ہی خوف
آتا ہے تو آپ اُسے بغیر پائلٹ ہوائی جہاز بھی کہہ سکتے ہیں، اس سے آپ کی ڈر
میں یقینا کمی واقع ہوگی۔دراصل گزشتہ صدی سے اب تک اِن ڈرون طیاروں کی
مقبولیت میں کافی اضافہ ہوا کہ کم و بیش ہر کوئی ان کے بارے میں کچھ نہ کچھ
جاننے کی جستجو رکھتا ہے۔ بغیر پائلٹ طیارہ بنانے کی اوّلین کوششوں کا
تحقیق کی روشنی میں پتہ چلا ہے کہ امریکہ میں خانہ جنگی کے دوران ایک شخص
نے ایسا طیارہ بنایا جس کی ٹوکری میں دھماکہ خیز مواد بھر دیا جاتا تھا اس
ٹوکری میں موجود دھماکہ خیز مواد کو ٹائم ڈیلے فیوز میکنزم کے ذریعے مختلف
جگہوں پر اُلٹ دیا جاتا ہے مگر تیز ہوا اور ناموافق موسمی حالات کے باعث یہ
تجربہ ناکام ہوگیا، لیکن اس کے لئے کوششیں جاری رہیں۔ انیس سو تراسی میں
پہلی بار ایک پتنگ کے ذریعے فضا میں تصویرکھینچی گئی ۔ انیس سو اٹھانوے میں
اس ٹیکنالوجی کو امریکہ اور اسپین کی جنگ کے دوران استعمال کیا گیا اور اس
طرح تاریخ میں پہلی مرتبہ دشمن کی حرکات و سکنات کی تصاویر حاصل کی گئیں۔
غالباً دوسری جنگِ عظیم کے ابتدائی ایّام میں امریکی صدر فرینکلن روز ویلٹ
نے بمبار چمگاڈروں کے ذریعے طیاروں کو نشانہ بنانے کے منصوبے کی منظوری دی۔
چمگاڈڑوں کے ساتھ بندھا بم ایک سرجیکل کلپ کے ساتھ لگا ہوتا اور یہ کلپ
چمگاڈر کی چھاتی سے جڑا ہوتا لیکن یہ سب کچھ سوچ کے مطابق نہ ہو سکا۔ کم و
بیش چھ ہزار چمگاڈریں اس تجربہ کی بھینٹ چڑھا دیئے گئے۔انیس سو ساٹھ میں
امریکہ نے ایک طیارے کے ذریعے سوویت یونین کی نگرانی کی کوشش کی جو ناکام
ہوگئی۔ روس نے امریکہ کا جاسوس طیارہ U-2مار گرایا جبکہ گیری پاورز کو
گرفتار کر لیا گیا۔ اس واقعے کے بعد ایسے طیارے بنانے کی ضرورت محسوس کی
گئی جو نگرانی تو کریں گے ان میں پائلٹ موجود نہیں ہوگا۔انیس سو ستر اور
انیس سو اسّی کے آخر میں اسرائیل نے اسکاٹ Scoutاور پاونیز Pioneesکے نام
سے بغیر پائلٹ کے دو طیارے بنائے جن کا ڈھانچہ آج کے بغیر پائلٹ طیاروں سے
ملتا جلتا ہے۔ انیس سو نوے کی دہائی میں امریکہ نے بغیر پائلٹ طیاروں کا
ایک مکمل نظام Maleتیار کیا۔اس نظام میں MQ-I predetorنامی بغیر پائلٹ
طیارہ استعمال ہوا۔ یہ پہلی بار انیس سو نناوے میں کوسوو تنازع کے دوران
مسلسل اٹھتر روز تک نیٹو کے آپریشنز کی فضائی نگرانی کے لئے استعمال ہوتا
رہا۔
MQ-I Predeterبنیادی طور پر نگرانی کے مقاصد کے لئے بنایا گیا تھا۔ اس میں
صرف دو میزائل فائر کرنے کی صلاحیت تھی لہٰذا امریکہ نے بیک وقت دس سے زائد
میزائل فائر کرنے کی صلاحیت رکھنے والا ایک انتہائی جدید ترین بغیر پائلٹ
طیارہ بنایا جسے MQ-9 Reaperکا نام دیا گیا۔ آج یہی طیارہ نگرانی اور فضائی
حملوں کے لئے استعمال ہو رہا ہے۔نئے ڈرون طیاروں میں یہ سب سے زیادہ مقبول
ہے۔
خیر ! یہ سب معلومات اس لئے بتایا گیا ہے کہ ڈرون سے متعلق کچھ تفصیلات آپ
کے علم میں ہو۔ ویسے بھی اب اس کی ضرورت باقی نہیں رہی کیونکہ ہمارا
پاکستان بھی اب ڈرون ’’براق ‘‘ بنا چکا ہے اور اس کا کامیاب تجربہ بھی کر
لیا گیا ہے۔ دشمنوں ہوشیار باش! ہماری طرف یا ہمارے ملک کی طرف میلی آنکھ
سے دیکھنے کی جرأت مت کرنا کیونکہ یہ قوم جاگ رہی ہے اور قوم ہی کیوں ہمارے
سپاہ جاگ رہے ہیں، اس لئے اپنی میلی آنکھوں کو نیچی کر لو بلکہ یوں کہہ لیا
جائے تو بہتر ہوگا کہ اپنی میلی آنکھوں کو خود ہی پھوڑ دو تاکہ کانوں کے
سننے اور دماغ کے کہنے پر اندھی آنکھوں سے عمل نہ کر سکو۔
حقیقت میں اکیسویں صدی میں سائنس نے اس حد تک ترقی کر لی ہے کہ خود انسان
بھی اپنے تجربات اور ان کی کامیابی پر دنگ ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک تو بغیر
پائلٹ طیارے جاسوسی کے طور پر استعمال ہوتے رہے ہیں لیکن اب یہ سیکوریٹی کے
لئے مستعمل ہیں اور کچھ بعید نہیں کہ آنے والے وقتوں میں ان کا استعمال
زندگی کے اکثر شعبے میں کیا جانے لگے کیونکہ ہمارے ماہرین جاگ رہے ہیں اور
وہ اپنے ملک کے لئے نئے سے نئے جدتی ساز و سامان ، ہنر مند انجیئنرز دفاعی
صلاحیت بڑھانے میں کوشاں ہیں ، اور کیوں نہ ہو ایک ایٹمی ملک ہونے کے ناطے
ہمیں ہر چیز، ہر شئے پر مکمل دسترس ہونا چاہیئے جیسا کہ ہے: |