یہ بات اب تاریخی حقیقت بن چکی
ہے کہ بھارت نے پاکستان کو دل سے تسلیم ہی نہیں کیا ہے ۔بھارت خطے میں اپنی
بالادستی قائم کرنا چاہتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ پاکستان اس کی راہ میں سب
سے بڑی رکاوٹ ہے ۔یہی وجہ ہے کہ وہ روزِ اوًل سے ہی اس کی سلامتی کے درپے
ہے ۔65 اور 71کی دوروایتی انداز میں لڑی جانے والی جنگوں کے بعد بھارت نے
سول استعمال کی آڑ میں ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کے لیے کوششیں تیز کر دی ۔پاکستان
پر اپنی دھاک بیٹھانے کے لیے وہ ہرطرح کی جارحیت کا ارتکاب کرنے کی کوششو ں
میں لگا ہوا ہے۔1980کی دہائی میں بھارت نے سرحدی کشیدگی میں اضافہ کیا اور
بہاولپور سے پاکستان کو کاٹنے کا حتمی منصوبہ بنایا تھا مگر اس وقت ڈاکٹر
قدیر خان نے ایک انٹرویو میں پاکستان کے پاس ایٹم بم کی موجودگی کا انکشاف
کیا تھا جس پر بھارت کو اپنی مہم جوئی کو ترک کرنا پڑا تھا۔ 90کی دہائی میں
بھارت پر جنگی جنون ایک بار پھر سوار ہوا اور اس نے خطے میں اپنی بالادستی
ثابت کرنے کے لیے ایٹمی دھماکے کر دیے جس کے جواب میں پاکستان نے بھی چاغی
کے مقام پر ایٹمی دھماکے کر کے اپنی قوت کا اظہار کر دیا ۔کارگل کا آپریشن
پاکستان میں سیاسی معاملے کی نظر ہو گیا مگر اسی آپریشن نے بھارت کو کسی
بھی قسم کی سرحدی جارحیت سے باز رکھا ہے۔بھارت ہمیشہ سے پاکستانی سرحد اور
لائن آف کنٹرول کے ساتھ ساتھ اپنا دباؤ برقرار رکھتا ہے اور وہ سقوطِ ڈھاکہ
کی طرز پر کسی نہ کسی مہم میں مصروف رہتا ہے۔ اس صدی کے آغاز میں بھی بھارت
نے سرحدوں پر غیر معمولی نقل و حرکت کی اور پھر 2004میں اس نے کولڈ سٹارٹ
ڈاکٹرائن متعارف کروایا۔اس فوجی نظریہ کے مطابق بھارت نے سرحد کے ساتھ ساتھ
مستقل طور پر چھوٹے چھوٹے فوجی یونٹ قائم کیے اور اس سے پاکستان پر دباؤ
میں مزید اضافہ ہو گیا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان روایتی طریقہ دفاع پر بھر
پور توجہ دے رہا ہے 60کلومیٹر رینج کا حامل نصر میزائل بھی اسی مقصد کے لیے
ہے ۔بھارت کے وہ چھوٹے فوجی یونٹ جو مستقل سرحدوں پر تعینات ہیں اب اس
میزائل کی زد میں ہیں اور مہم جوئی سے باز آئے ہوے ہیں ۔بھارت کا جوہری
پروگرام اور عالمی منڈی سے فوجی ہتھیاروں کی بڑے پیمانے پر خریداری اس کے
توسیع پسندانہ عزائم کو عیاں کرتی ہے۔
اپنی سرحدوں کا دفاع پاکستان کا بنیادی حق ہے اور کسی طور بھی اپنے اس حق
سے دستبردار نہیں ہو سکتا ہے ۔بھارت کے مقابلے میں پاکستان ایک چھوٹا ملک
ہے اور عددی اعتبار سے وہ ایک بڑی فوج نہیں رکھ سکتا ہے اسی لیے روایتی
طریقہ کار کے ساتھ ساتھ اسے غیر روایتی طریقہ حرب کو بھی جدت کے ساتھ
اختیار کرنا پڑ رہا ہے ۔1998میں ایٹمی دھماکے کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان نے
اپنا میزائل پروگرام بھی جاری رکھا اور وہ تا حال جاری ہے ۔پاکستان کے
میزائل پروگرام کا مقصد صرف اور صرف بھارت کو کسی بھی قسم کی جارحیت سے
روکنا اور توسیع پسندانہ عزائم سے باز رکھنا ہے ۔پاکستان یہ بات بخوبی
سمجھتا ہے کہ ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کے لیے نہیں ہوتے ہیں بلکہ ان کا
مقصد دشمن کو خبردار کرنے اور اسے مہم جوئی سے باز رکھنے کے لیے ہوتا ہے
۔پاکستان نے 17نومبر 2014سے لے کر 14مارچ2015تک بڑی تیزی سے مختلف قسم کے
میزائلوں کے کامیاب تجربات کیے ہیں ان میں350کلومیٹر سے لے کر 2750کلو میٹر
تک مار کرنے والے میزائل شامل ہیں ان میزائلوں میں روایتی اور غیر روایتی
ہتھیار لے جانے کی صلاحیت موجود ہے۔پاکستان کا اپنا تیار کردہ ڈرون طیارہ
بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔اتنی کامیابیاں حاصل کرنے کے باوجود پاکستان
ایک ذمہ دار ملک ہے اور وہ جانتا ہے کہNUCLEAR THRESHOLDکی سطح بلند سے
بلند ترین ہونی چاہیے اور وہ جانتا ہے کہ اسے کہاں جا کر غیر روایتی
ہتھیاروں کو استعمال کرنا ہے ۔ لیکن بھارت پاکستان کی restraint کی پالیسی
کو مختلف انداز میں آزماتا رہتا ہے ۔یہی چیز خطے میں عدم استحکام اور
ہتھیاروں کی دوڑ کا باعث بنتی ہے۔آج ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی معاشرہ
پاکستان پر دباؤ بڑھانے کی بجائے بھارت کو مجبور کرے کہ وہ اپنے توسیع
پسندانہ عزائم پر قابو پائے اور امریکہ کے ساتھ ایٹمی ٹیکنالوجی کی منتقلی
اور ہتھیاروں کے حصول کے معاہدوں کی بجائے انسانی فلاح و بہبود پر توجہ صرف
کرے۔ اس خطے میں دنیا کی تقریباً22فیصد سے زیادہ آبادی کسی بھی ایٹمی
جارحیت کی متحمل نہیں ہو سکتی ہے۔ |