نخلِ آرزو میری زندگی کا سب سے حسین خواب
ہے ۔،۔طارق حسین بٹ شانؔ
نخلِ آرزوکسی ایک موضوع پر نہیں بلکہ بے شمار موضو عات کو اپنے دامن میں
سمیٹے ہوئے ہے۔،۔سید آصف ہا شمی (مہمانِ خصوصی)
نخلَ آرزو قوم کے حقیقی جذبات کی آئینہ دار ہے۔،۔ظفر عباس لک(صدرِ محفل)
یہ نئے پاکستان کے لئے انقلاب کی نوید ہے ۔،۔امجد اقبال امجد
تصوف کے ابواب اس کتاب کا انتہائی خوبصورت حصہ ہیں۔،۔نو را لحسن تنویر
میں ابھی تک یہ نہیں سمجھ سکا کہ طارق حسین بٹ اپنی کتابوں کے لئے اتنا وقت
کیسے نکال لیتا ہے۔،۔عبدالستار پردیسی
نخلِ آرزو نے بے لاگ تحریر کا اعلی معیار قائم کیا ہے۔،۔سہیل خاور
اقبال سے محبت میرے اور مصنف کے درمیان قدرِ مشترک ہے۔،۔وحید پال
نخلِ آرزو کا اسلوب انتہائی خوبصورت ہے ۔،۔ ڈاکٹر شہزاد اکرم
نخلِ آرزو میں مصنف نے استحصال سے پاک معاشرے کا خوب دیکھا ہے۔،۔ سید سجاد
حسین شاہ
مصنف انتہائی نفیس شخصیت کے مالک ہیں جس کا بین ثبوت نخلِ آرزو کی شکل میں
ہمارے سامنے ہے۔،۔میاں منیر ہانس (میزبان)
۔،۔عبدالستار پردیسی،سید قیوم شاہ اور سہیل خا ور کو ان کی سماجی خدمات کے
صلے میں اعزازی شیلڈز پیش کی گئیں۔،۔
|
|
(دبئی۔۔ یو اے ای)طارق حسین بٹ کی دوسری تخلیق نخلِ آرزو کی تقریبِ رونمائی
۱۳ مارچ کو ملا پلازہ دبئی میں منعقد ہوئی ۔تقریب کا اہتمام مجلسِ قلندرانِ
اقبال گلف کے صدر میاں منیر ہانس نے کیا تھا ۔ تقریب کے مہمانِ خصوصی آئی
جی ظفرعباس لک تھے جبکہ صدارت کی سعادت پاکستان کی نامی گرامی سیاسی اور
سماجی شخصیت سید آصف ہاشمی کے حصے میں آئی۔پروگرام کا باقاعدہ آغاز رافع
رضوان کی تلاوتِ کلامِ پاک سے ہو اجبکہ نعتِ رسولِ پاک ﷺ کی سعادت محمد
بلال فلک کے حصے میں آئی ۔نظامت کے فرائض ملک اسلم نے انتہائی احسن انداز
میں نبھائے اور تقریب کے ٹیمپو کو اپنے ادب نواز انداز سے بر قرار رکھا۔اس
موقعہ پر صدرِ تقریب سید آصف ہاشمی نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اس کتاب کو
دیکھنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ کتاب بے شمار موضوعات کا
احاطہ کئے ہوئے ہے۔اس میں سیاست،معیشت۔فلسفہ، تصوف اور تاریخ کے موضوعات پر
طبع آزمائی کی گئی ہے۔کتاب کا انداز اتنا دلنشین ہے کہ قاری اسے پڑھنے پر
مجبور ہوجاتا ہے ۔اس کے اندر جس خواب کی بات کی ہے وہ انتہائی بلند
ہے۔پاکستان اس وقت جس طرح کے نظام کا اسیر ہو چکا ہے وہ اپنی افادیت کھو
چکا ہے لہذا ضروری ہے کہ معاشرتی ڈھانچوں کو از سرِ نو مرتب کیا جائے تا کہ
پاکستان آگے کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکے،نخلِ آرزو اس سفر میں عوام کی
راہنمائی کا فر یضہ سر انجام دے سکتی ہے۔مہمانِ خصوصی ظفر عباس لک نے کہا
کہ وقت آگیا ہے کہ ہم اپنا محاسبہ کریں اور موجودہ کرپٹ نظام کی جگہ ایک
شفاف اور جوابدہی کا نظام لائیں تا کہ پاکستان اقوامِ عالم میں اپنا مقام
بنا سکے۔انھوں ے کہا کہ اس ملک کو سیاست دانوں نے ہی چلانا ہے لہذا ضروری
ہے کہ وہ اپنی ترجیحات کا اس سر نو جائزہ لیں تا کہ عد ل و انصاف کو یقینی
بنایا جا سکے۔انھوں نے کہا کہ مصنف نے سلگتے موضوعات پر قلم اٹھا یا ہے اور
عوام کو ان کے حقوق کق شعور دینے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہمارا
المیہ یہ ہے کہ سیاست دانوں کی اکثریت ذاتی مفادت کی اسیر بنی ہوئی ہے اور
اقتدار ان کے ذاتی کار وبار میں وسعت کی بنیاد بن کر رہ گیا ہے۔نخلِ آرزو
اس طرزِ سیاست کے خلاف ایک توانا آواز ہے۔،۔
|
|
صا حبِ کتاب طارق حسین بٹ نے اپنے خطاب میں کہا کہ یہ کتاب در اصل اس بات
کی غماز ہے کہ انقلاب کو دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں سکتی کیونکہ موجودہ
نظام اپنی افادیت کھو چکا ہے اور ایک شفاف نظام کے بغیر چارہ کار نہیں
ہے۔اسلامی نظام ہی وہ واحد نظام ہے جو انسانیت کہ عدل و انصاف کی بنیادیں
فراہم کر سکتاہے کیونکہ یہ امن ،محبت اور انسان دوستی کا مذہب ہے۔پاکستان
کی بقا صرف اسلامی نظام کو من و عن نافذ کرنے میں ہے۔تقریب کے میزبان میاں
منیر ہانس نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے حاضرین کا شکریہ ادا کیا اور اس
شام کو کامیاب بنانے میں ان کی کاوشوں کا سراہا۔انھوں نے کہا کہ مصنف کے
ساتھ میرے دیرینہ مراسم ہیں۔وہ ایک انتہائی نفیس انسان ہیں جس کا واضح ثبوت
ان کی نئی تخلیق (نخلِ آرزو ) ہے۔یہ کتاب ایک ایک نئے پاکستان کی آواز
ہے۔یہ کتاب ہمارے کل کی بنیادیں رکھنے میں ممدو معاون ثابت ہو گی کیونکہ اس
میں عوامی حقوق کی بات کی گئی ہے۔ ،۔تقریب میں سید سجاد حسین شاہ،ڈاکٹر
شہزاد اکرم،وحید پال،نور الحسن تنویر،سہیل خاور،امجد اقبال امجد،عبدالستار
پردیسی،عبدالسلام عاصم اور ارسلان طارق بٹ نے بھی خطاب کیا۔ارسلان طارق بٹ
نے اپنا مضمون (نخلِ آرزو کا مصنف ایک بیٹے کی نظر میں) پڑھنے پر خصوصی داد
سمیٹی ۔اس موقعہ پر سید آصف ہاشمی نے انھیں اپنے بیٹے کی الیکشن مہم میں
اپنی خدمات پیش کرنے کی درخواست کی جسے ارسلان طارق بٹ ے انتہائی محبت سے
قبول کر لیا ۔اس تقریب میں پاکستانی کیمیونیٹی کے عبدالستار پردیسی،سید
قیوم شاہ اور سہیل خاور کو ان کی سماجی خدمات پر شیلڈز بھی پیش کی گئیں۔اس
تقریب کی سب سے بڑی خو بصورتی یہ تھی کہ اس میں مختلف سیاسی جماعتوں کے
قائدین ایک ہی چھت کے نیچے اکٹھے ہوئے اور انتہائی صبرو تحمل سے ایک دوسرے
کے نقطہ نظر کو سنا۔ تین گھنٹو ں تک جاری رہنے والی اس تقریب میں
پاکستانیوں کی بڑی تعدادنے شرکت کر کے تقریب کو چار چاند لگا دئے ۔،۔ |