حساب کون لے گا ؟
(Falahuddin Falahi, India)
دہلی میں جب سے آپ کی حکومت بنی
ہے اور اروندر کجریوال وزیر اعلی بنے اُسی وقت انہوں نے بجلی نصف اور پانی
معاف کرنے کا جیسے ہی اعلا ن کیا تب ہی سے تمام دیگر پارٹیوں کے ساتھ ساتھ
میڈیا چیخ چیخ کر کہنے لگے کہ کہاں سے پورا ہوگا ؟کیسے وعدے پورے کئے جائیں
گے ۔یعنی بجلی نصف اور پانی مفت سے عوام کے جیب پر بوجھ بڑھے گا اور عوام
سے ہی پیسہ لیا جائے گا یہ کہا ں سے درست ہے کہ عوام کا پیسہ عوام کو ملے ؟وغیرہ
وغیرہ نہ جانے کتنے سوالات اٹھائے گئے ۔اتنے سارے سوالات اٹھنے سے یہ تو
معلوم ہوگیا کہ آج تک ہندوستان کی آزادی کے بعد کوئی ایسی پارٹی وجود میں
نہیں آئی ہے جو عوام کو سبسیڈی دینے کی بات کہے یا پھر عوام کیلئے کچھ راحت
کا بندوبست کرے ۔یعنی الیکشن جیتنا اور اس کے بعد اپنی اپنی تجوری کو بھرنا
ہی پارٹیوں کا مقصد تھا ۔لیکن ہائے افسوس کہ تمام سیاسی پارٹیوں کے عیش پر
دہلی کی نووارد عام آدمی پارٹی نے جھاڑو پھیر کر سیاست کا مزہ خراب کر دیا
ہے یہ ایک ایسی اکیلی پارٹی ہے جو یہ کہتی ہے کہ سبسیڈی عوام کو ملے راحت
عوام کو ملے جبکہ اس سے قبل تمام سیاسی پارٹیاں بڑے بڑے سرمایہ داروں کو
سبسیڈی دیتے آئی ہیں اور انکے فائدے کیلئے عوام کو بلی چڑھانے کا کام کرتے
آئیں ہیں ۔لیکن ہائے افسوس یہ سرپھرے کی پارٹی کیسے وجود میں آگئی جس نے
عوام کو ہوش میں لانے کا کام کیا ہے اب تک تو سیاست کی گلیوں میں قمقمے اور
بنگلوں میں رعب و دبدبہ رہتا تھا ۔لوگ نیتا جی نیتا جی کہہ کر اپنے سروں پر
اٹھاتے پھرتے تھے ۔چاہے ان کو جتنا ذلیل کیا جائے ان کی دولت لوٹی جائے
انکی زمین ہڑپ کی جائے یا پھر انکی عزت و ناموس کو تار تار کیا جائے یا پھر
اسے موت کی نیند سلا دیا جائے یہ بیچاری جنتا تو کچھ بھی نہیں بولتی تھی
بلکہ الیکشن میں میراہی ووٹ بینک بن کر رہتی تھی ۔اس عام آدمی پارٹی نے
کایا ہی پلٹ دی ہے عوام کو جاگرک بنا کر بے وقوفی کی ہے ۔انڈین پولیس کا
قبیح اور گھنونا چہرہ اب تک فلم اور مشاہدہ کیلے پورے ہندوستان میں سامنے
آتا رہا رشوت خوری کا بازار عروج پر رہا آٹھ ہزار مہینہ کمانے والے پولیس
لاکھوں کماتے تھے لیکن کسی حکومت یا کسی لیڈر نے اس جانب توجہ نہیں دی ۔یہ
کجریوال نے پولیس کا گریبان پکڑنے کی کوشش کی اسے اسکی اوقات میں رہنے کی
دھمکی دی ،پولیس کی ناجائز کمائی پر روک لگانے کیلے جنتا کو بھڑکایا ہے ۔اسے
حکومت کسی بھی طرح کرنے نہیں دیا جاناچاہئے روکے اسے روکے ۔
لیکن ہمارے وزیر اعظم صاحب پر کون سوال اٹھا سکتا ہے کون میڈیا ہے جو آج ان
کیخلاف ایک بیان بھی جاری کرے سب کی زبان پر تالے لگ چکے ہیں واہ بے شرمی
بے غیرتی کی بھی حد ہو گئی ہے ۔وزیر اعظم آس پاس کے قریب کے ملکوں میں جا
جا کر پیسے بانٹنے میں مصروف ہیں کوئی ہے جو اس کا جواب دے کے پیسہ کہاں سے
آئے گا ؟۔عوام کے جیب پر اس کا بھار پڑے گا کہ نہیں ،ہے کوئی جو لیکھا
جوکھا عوام کو بتانے کی ہمت کرے ۔ملک کے باشندوں کو وزیر اعظم نے کچھ دیا
ہو یا نہ دیا ہو لیکن موریسس کے باشندوں کو 23.148روپے دے دی ہے ۔50کروڑ
ڈالر 150x60=3000کروڑ رپیے جبکہ موریسس کی کل آبادی 12لاکھ 96ہزار ہے ۔کہاں
گئے وہ میڈیا جو بجلی نصف اور پانی مفت کرنے پر ہائے توبہ مچا رکھی تھی ؟کہاں
گئے وہ اپو زیشن جس کو ملک کا پیسہ لوٹنے کا تجربہ حاصل ہے ؟کہاں گئے وہ بے
وقوف پبلک جو اپنی جیب پر بار پڑنے کا رونا رو رہے تھے ۔اب کس کی جیب سے
پیسہ نکالا جائے گا اور کس کو دیا جا رہا ہے ۔؟ان سب حالات سے یا تو واضح
ہے کہ عوام اب اپنے حقوق کی لڑائی لڑنے کیلئے تیار ہے روایتی لٹیری پارٹیوں
کے زوال کا وقت آچکا ہے اب تمام کی تمام روایتی پارٹیاں ختم ہونگی عوامی
بیدار ہو چکے ہیں وہ اپنی محنت کا ایک ایک پیسہ وصول کر رہے گی ۔ |
|