چند روز قبل میاں الیف کے گھر
چوری ہوئی اور چور چھوٹی موٹی اشیائے ضرورت کے ساتھ اسکا زیور بھی لے اڑے ۔
یہ کسی بھی متوسط طبقے کے ایک سرکاری ملازم کے لیے ایک بڑا معاشی نقصان ہے
جو میاں صاحب اور ان کے اہل خانہ کو برداشت کرنا پڑا۔میاں صاحب نے حصول
انصاف کی خاطر پولیس کا در کھٹکھٹانا چاہا مگر کچھ صاحب الرائے شخصیات کے
کہنے پر وہ اس امر سے باز رہے ۔اس امر سے ان کا اندیشہ تھا کہ پولیس جیبیں
ٹٹولنے کے سوا کچھ نہیں کرے گی اور دیگر رشتہ داروں کو بلا وجہ تنگ کیا
جائے گا اور قرابتداروں کے مابین پھوٹ پڑے گی۔میاں صاحب کو معاملہ اﷲ کے
سپرد کرنے کو کہا گیا مگر وہ بھی توآخر انسان ہیں ، نقصان کے ازالے کی بابت
سوچتے رہے ۔میاں صاحب کو دراصل اپنی ایک رشتہ دار خاتوں پہ شک ہو گیا
تھا۔میاں صاحب کو سمجھایا گیا کہ وہ خاتوں کے بزرگوں سے ذکر کریں اور ان سے
معاملے کو حل کرائیں ۔وہ براہ راست اس پہ الزام نہ لگائیں ۔لیکن میاں صاحب
صبر نہ کر سکے اور حکمت کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس خاتوں پہ
الزام لگا ہی بیٹھے۔ پہلے تو خاتون کے بزرگوں نے اپنے تئیں چھان بین کی اور
تسلی کی کہ لڑکی بے گناہ ہے ۔ چونکہ خاتون بے گناہ تھی اس لئے اسکے سسرال
اور میکے والوں پہ یہ شاق گزرا کہ ان کی بیٹی کو خوامخواہ بدنام کیا گیا ہے
لہذا میاں صاحب خاتوں سے معافی طلب کریں ۔اس صورتحال میں میاں صاحب کے رشتہ
داروں اور خاتوں کے لواحقین کے مابیں خلیج حائل ہو گئی۔اس صورتحال سے نبرد
ٓزما ہونے کے لیئے فریقین گاؤں کے چند بااثر افراد کے پاس ثالثی کے لئے
پہنچ گئے۔ثالثی ارکان نے دونوں کا موقف سنا اور موقع بھی ملاحظہ کیا اور اس
نتیجے پہ پہنچے کہ خاتوں نے چوری نہیں کی لہذا میاں صاحب خاتوں کے بزرگوں
سے معذرت کریں اور معاملے کو رفع دفع کریں ۔
یہ اپنی نوعیت کا ایک معمولی سا واقعہ ہے اس قسم کے بے شمار واقعات ہمارے
گاؤں محلے میں روزانہ وقوع پزیر ہوتے ہیں ۔لیکن اس چھوٹے سے واقعے سے
معاشرے کے کتنے ہی عیب بے نقاب ہو گئے ہیں ۔پہلا عیب تو یہ سامنے آتا ہے کہ
حکومت کی طرف سے قانوں کی عملداری قائم کرنے اور عدل وانصاف کے ذمہ دار
ادارے اس قدر بے وقار ہو چکے ہیں کے لوگ ان پہ اعتماد نہیں کرتے اور کسی
بھی زیادتی کا شکار ہونے پر بھی ان اداروں سے دور ہی رہتے ہیں ۔ یہ وہ
ریاستی اور سیاسی ظلم ہے جس کی چکی میں عوام گزشتہ دو صدیوں سے پس رہے ہیں۔
اب اگر معاشرے پہ نظر دوڑائی جائے تو تمام قصور حکومت کا ہی نہیں ۔ لوگ ایک
دوسرے کے مال کی حرمت سے بیگانہ ہو گئے ہیں کہ ایک شخص گھر سے باہر جاتا ہے
تو دوسرا اسکا مال ہتھیا لیتا ہے اور اسکے پڑوسی بھی اس کے مال کی خبر نہیں
رکھتے۔یہ ایک ظلم ہے جو ہم ایک دوسرے سے نظریں چرا کر کر رہے ہیں ۔چوری اور
ڈکیتی کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کا تجزیہ کیاجائے تو اس کی ایک وجہ والدین
اور اساتذہ کی عدم توجہ بھی ہے ۔ والدین اور اساتذہ اولاد کی اخلاقی تربیت
نہیں کر رہے جس کی وجہ سے نوجوان چوری اور ڈکیتی کی طرف مائل ہورہے ہیں ۔گویا
اخلاقی ظلم کی وجہ سے معاشی ظلم جنم لیتا ہے اخلاقی جرم کے تخم سے قانونی
جرم کا پودا ہی پھوٹتا ہے۔اسی طرح معاشی ظلم کا شکار شخص بے صبری کی وجہ سے
بہتان جیسے ظلم کا ارتکاب کر لیتا ہے اور کسی کی عزت کو پاؤں تلے روند دیتا
ہے ۔اب اس ظلم کا شکار ہونے والے غصے کی پٹی آنکھوں پہ لپیٹ کر ایک اور ظلم
کا ارتکاب کرتے ہیں یعنی عصبیت جاہلیہ کی بنیاد پہ اپنے اپنے رشتہ داروں کو
جمع کرتے ہیں اور ایک تنازعہ جنم لیتا ہے۔اب اس تنازعے کو حل کرنے کے لیے
ایسے افراد کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں جو خود ظلم کے پروردہ ہوتے ہیں ان کے
دل اﷲ کے خوف سے عاری ہوتے ہیں اور وہ عدل وانصاف کیـ ’’الف ب‘‘ بھی نہیں
جانتے۔وہ اپنے مفادات کے تناظر میں فیصلے کرتے ہیں اور لوگوں کو مدتوں
الجھائے رکھتے ہیں ۔یہ ایک اور ظلم ہے کہ معاشرے کی زمام کار ان لوگوں کے
ہاتھ میں دی جاتی ہے جو اس کے اہل نہیں ہوتے۔
اگر گاؤں کے ایک چھوٹے سے واقعے کو ملکی سطح پہ لے جائیں تو معلوم ہو گا کہ
دہشت گردی جیسے بڑے مسئلے کے پیچھے کتنے بڑے مسائل پوشیدہ ہیں ۔ایک اعلی
تعلیم یافتہ شخص جب در در کی ٹھوکریں کھاتا ہے اور اس نظام سے مایوس ہوتا
ہے تو وہ درندگی پہ اتر آتا ہے ۔وہ بے روزگاری، غربت،استحقاق(میرٹ)کے قتل ،جاگیردارانہ
ظام کے ظلم اور کرپشن مافیا کے خلاف اٹھتا ہے لیکن خود کو ایک بڑے ظالم کے
روپ میں بدل دیتا ہے ۔وہ دہشت گرد بن جاتا ہے اور معصوم عوام کے خون سے
اپنے ہاتھ رنگ لیتا ہے۔وہ چور اور ڈکیت بن کر لوگوں کے مال و جان سے کھیلتا
ہے یا کسی مافیا کا حصہ بن کر روئے زمیں فساد فی الارض کا مرتکب ہوتا ہے۔
حاصل بحث یہ کہ ہم ایک کے بعد ایک ظلم کے نظام میں جکڑے ہوئے ہیں اور یہ
ظلم ہمارے رگ وپے میں سرایت کر چکا ہے جس کا اظہار ہم قدم بہ قدم کرتے نہیں
تھکتے۔ہم مظلوم معاشرہ، ستم رسیدہ قوم یا استحصال کا شکار عوام کہلاتے ہیں
مگر فی الحقیقت ہم ظالم سماج ہیں جو حتی المقدورظلم ڈھانے میں کوئی کسر
اٹھا نہیں رکھتے۔اس ملک میں تبدیلی کے خواہاں افراد اور جماعتیں؛ افراد اور
معاشرے کی مظلومیت کو سامنے رکھ کر تبدیلی کا نعرہ لگاتے ہیں مگر وہ بھول
جاتے ہیں کہ تصویر کا دوسرا رخ کس قدر بھیانک ہے اس میں امن ومحبت کے رنگ
بھرنے کی ضرورت ہے۔ہر شخص اپنی غلطیوں کا بہتریں وکیل ہے اور دوسروں کے لیے
وہ قاضی بن بیٹھتاہے وہ اپنے لیے تو انصاف کا خواہشمند ہے مگر خود انساف
کرنے کو تیار نہیں اگر ہر شخص اپنا محاسبہ کرے اور اپنی اصلاح کی کوشش کرے
تومعاشرے میں تبدیلی آسکتی ہے۔ ہمارے انقلابی ذہن رکھنے والے تبدیلی کے
خواہاں اس بھول پن میں گرفتار ہیں کہ عدالتی نظام بہتر کر لیا جائے تو نجات
مل جائے گی ، یاپولیس کے نظام میں بہتری کر کے معاشرے میں تبدیلی آجائے گی
، یا محض ایوانوں میں چہرے بدل دیے جایئں تو ملک بحرانوں سے نکل سکتا
ہے۔جبکہ اسکے برعکس حقیقت یہ ہے کہ اگر اس ملک و معاشرے کو ظلم سے پاک کرنا
ہے تو انقلاب ناگزیر ہے مگر یہ انقلاب ذہنی تبدیلی سے مشروط ہے کیونکہ
معاشرے کے ادارے ہی نہیں بلکہ ہر فردظلم کے نظام کا باقائدہ حصہ بنا ہوا ہے۔
معاشرے کے ظالم افراد کے قلب وذہن کو ظلم سے پاک کر کے اس میں ایمان، علم ،عدل
اور حیاء جیسی اقدار کو راسخ کرنا ہو گااور انہیں اسکا عملی نمونہ بنانا ہو
گا۔ظالم معاشرے کے افراد کی تربیت کے ذریعے انہیں عدل و انصاف کا پیامبر
بنانا ہو گا۔ یہ یقینا دقت طلب اور وقت کا متقاضی امر ہے ۔معاشرے کو سیدھی
راہ پہ گامزن کرنے کا واحدطریقہ اﷲ اور اسکے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کے
مطابق امر بالمعروف و نہی عن المنکر ہے ۔یہ ہماری دینی ذمہ داری ہے کی حتی
المقدور نیکی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں ۔انفرادی طور پر خود اس فریضے
کو انجام دیں اور اجتماعی طور پہ جو جماعتیں اس فریضے کو انجام دے رہی ہیں
ان کے قدم مضبوط کریں ان کے دست وبازو بنیں۔ یہی ایک راستہ ہے جس پہ چل کر
ہم امت وسط یعنی ایک معتدل قوم بن سکتے ہیں اور ہمارے مسائل عدل کی بنیادپہ
حل ہو سکتے ہیں۔یہی وہ انقلاب ہے جسکی ہمیں ضرورت ہے مگر۔۔۔۔۔
تو کسی انقلاب کی آمد کا انتظار نہ کر
جو ہو سکے تو خود اک انقلاب پیدا کر۔ |