بلدیاتی نظام کا نفاذ……ایک اہم بنیادی ضرورت

نظام کی موجودگی۔۔۔۔۔اس کی اصلاح۔۔۔۔۔اسے پاکستانی مزاج اور ضروریات کے مطابق ڈھالناتو ایک پہلوہے لیکن بلدیاتی نظام کی مسلسل عدم موجودگی نے بڑا خلا پیداکر دیاہے۔عام آدمی کا مسئلہ انڈرپاس،فلائی اور اور میڑوبس نہیں بلکہ تھانہ ،کچہری،ہسپتال،سکول کالج ہے۔فیلڈمارشل ایوب خان اور جنرل ضیاء الحق کے بلدیاتی نظام سے لے کر جنرل پرویز مشرف کے ناظمین کے دور میں عام آدمی کو سرکاری دفاتر تک رسائی حاصل رہی ہے اور کسی حد تک شنوائی کا احساس بھی ۔ہر نئے نظام میں کچھ نقائص بھی ہوتے ہیں جنہیں وقت کے ساتھ دورکیا جاسکتاہے۔پرویز مشرف کے دورمیں بنیادی سطح پر ہونے والی تعمیر وترقی بلا شبہ ماضی کے سالہا سال پر بھاری ہے۔تا ہم انتظامیہ اور سرکاری آفیسران کو عوامی مینڈیٹ کے زور پر بلڈوز کرنے کا رویہ ہر دور میں نظر ثانی کا محتاج رہا ہے ۔ ہمارے قومی مزاج میں تابعداری کو فوقیت حاصل رہتی ہے جبکہ دوران حکومت اچھی کارکردگی کے لیے آفیسران کا تعاون مدد گار ثابت ہو سکتا ہے ۔ البتہ تعاون کرنے والا اپنی رائے کا اظہار بھی کرے گاجسے برداشت کرنے کی صلاحیت قیادت میں موجود ہونی چاہیے ۔ غیر مشروط تابعداری کرنے والی انتظامیہ ہمیشہ حکومتوں کی تباہی کا باعث بنی ہے۔ قیادت کے بنیادی فرائض میں شامل ہے کہ وہ انتظامیہ کو ذاتی یا جماعتی ملازم سمجھنے اور وفادار بنانے کے بجائے انھیں ریاستی کارندہ ہونے کا اعتماد دلائیں۔

گزشتہ روزسیالکوٹ بارایسوسی ایشن ،پریس کلب اور دیگرسیاسی سماجی تقاریب میں شرکت کے دوران میری سابق ناظم سیالکوٹ میاں نعیم ،حافظ حامد رضا ، حافظ محمد رضا ،چوہدری خیرات حسین، اعجاز نوری اور دیگراحباب کے ساتھ سیالکوٹ کی تعمیر و ترقی اور پرویزمشرف کے دور میں بننے والے کامیاب پرائیویٹ ائیر پورٹ پر گفتگورہی جہاں ہر ماہ پچاس سے زائد بین الااقوامی پروازیں چل رہی ہیں۔سیالکوٹ کا پرائیویٹ ائیر پورٹ مقامی چیمبر آف کامرس، کاروباری و سماجی شخصیات اور اہل سیالکوٹ کا مشترکہ شاندارکارنامہ ہے لیکن اس کارنامے کی انجام دہی کے لئے جنرل پرویزمشرف جیسے شخص کی حکومت اور موثر بلدیاتی نظام کی موجودگی کو کبھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

ریاست کی بنیادی ذمہ داری میں عوام کے لیے رسائی، شرکت کا احساس اور جس حد تک ممکن ہو اطمینان ضروری ہے۔ملک میں مردم شماری کا کام چھوٹے انتظامی یونٹس کی بنیادپر شروع کرکے جہاں جہاں فضا سازگار ہو وہاں بلدیاتی نظام کومتعارف کرواناشروع کیاجائے۔وسائل کی تقسیم آبادی،رقبے اور ضروریات کی بنیاد پر کی جائے۔جن لوگوں کو ان کی ماؤں نے آزاد جناہے انہیں کبھی ایک اور کبھی دوسرے کا محتاج بنا کر زندہ رہنے پر مجبور نہ کیا جائے۔ہر چھو ٹے یونٹ میں انتظامیہ اور عوامی نمائندوں کو غیر ضروری دخل اندازی کے بغیر کام کرنے کا موقع دیکر ملک میں ایک بھر پور انتظامی،معاشی ، سیاسی اورمعاشرتی ترقی کا ماحول پیدا کیا جاسکتاہے۔سیاسی جماعتیں بلدیاتی سطح پر کام کے خواہش منداپنے جماعتی کارکنان کی راہنمائی اور سرپرستی کریں تاکہ ملک میں نچلی سطح پر مقامی قیادت کی تیاری اور شرکت و مشاورت کا ماحول بن سکے ۔

اسی بنیادی سطح سے کسی ایک ڈویژن ،ضلع یا اسکی چند تحصیلوں میں ایک بارشفاف اورقابل اعتماد انتخابی نظام متعارف ہو جائے تو سارے ملک پر اس کے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔سارے ملک کواکٹھے درست کر نے کا عمل خاصا مشکل ہے۔جہاں مقامی آبادی ہر طرح کے تعاون کے لیے تیارہے انہیں دوسروں کے عدم تعاون کی سزا دینے کی بجائے انہیں لیڈ رول کا موقع فراہم کرنا چاہیے ۔

یکے بعد دیگرے ملک کے تما م انتظامی اور صوبائی یونٹس کو اس راستے پر آسانی سے چلایا جا سکتا ہے۔
موجودہ خرابیاں مادر پدر آزاد پارلیمانی جمہوری نظام کا نتیجہ ہیں۔راتوں رات ان خرابیوں کی اصلاح کرنے کی خواہش زیادہ دانشمندی نہیں بلکہ اس کا ر خیر کو کسی چھوٹی سی سطح سے بھی شروع کر دیا جائے تو اس ملک میں بکثرت موجود مخلص ،محنتی،دیانتدار اور اہل افراد کو مایوسی اور لا تعلقی کی کیفیت سے نکا لا جا سکتا ہے ۔ عام آدمی کی ملک سے لا تعلقی کا رجحان بہت خطرناک ہے۔مطمئن اور راضی شہری تو ملک کا عظیم سرمایہ ہیں لیکن ناراض شخص بھی اپنے تعلق اور دعوے پر قائم ہے اسی لیے وہ ناراضگی اور غصے کا اظہار کر رہا ہے لیکن گزشتہ چند سالوں میں بے عقیدہ قیادت کی لوٹ مار اور واہی تبا ہی نے عوام کے ایک بڑے حصے کو لا تعلق کر دیا ہے جو بہت نقصان دہ رجحان ہے۔ہمیں اچھی بری ہر بات سے لاتعلقی والے شخص کو اس مایوسی کے اندھیروں سے نکال کرملک و ملت سے وابستہ کرناہے۔اسے اپنے حق کی بنیاد پر زندہ رہنے کا احساس دلاناہے۔سیاسی قیادت اور جماعتوں کا اس ضمن میں بہت اہم کردارہے۔اگر وہ اپنے رویے بدل کر ان امورکو اپنی ترجیحات میں شامل کر سکیں تو یہ کوئی بڑی مشکل نہیں۔حکومت کو چاہیے کہ خدا خداکر کے ملک کے کسی ایک کونے سے اس نظام کے تعارف کا آغاز کر دے۔بلدیاتی نظام اگر مؤثر ہو تو علاقائی وسائل اور نچلی سطح پر موجود با صلاحیت و ہنر مند افرادی قوت کو ایک بڑے سرمائے میں تبدیل کر کے دستیاب وسائل سے زیادہ سے زیادہ استفادہ اور بڑی سطح کی لوٹ مارکی روک تھام کی جاسکتی ہے۔میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ہم ہنگامہ آرائی اور افراتفری سے رفتہ رفتہ نکل کر ایک باوقار ،مستحکم اور قابل عمل نظام کی طرف کیوں نہیں منتقل ہو نا چاہتے۔

بلدیاتی نظام ہو یا دیگر انتظامی اور ترقیاتی اموراس بات کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ کیا ملک کے مختلف حصوں اور ضروریات کے مطابق چھوٹے یونٹس قائم کیے جانے چاہیے ہیں؟جن کے ذریعے عوامی ضروریات کا گاؤں اور محلے کی سطح پر جائزہ لیا جائے اور مقامی مشاورت سے تر جیحات کا تعین کیا جائے۔پاکستان اور کشمیر ی تارکین وطن ہمارا انمول سر مایہ ہیں جن کا ہم نے کو ئی قابل ذکر استفادہ نہیں کیا۔پاکستانی سفارت خانوں کے ویلفیئر اتاشی صاحبان کو پاکستانی کمیونٹی سے رابطہ کر کے انہیں بر وقت اطلاعات اور معلومات کی فراہمی کے علاوہ راہنمائی بھی مہیا کرنی چاہیے۔وہ رہنمائی کریں کہ اپنے ہی گاؤں ،علاقے کے کسی سکول ،کالج ،فنی ادارے، ہسپتال یا واٹر سپلائی کے قیام یابہتری کے لیے لوگ کس طرح موثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔میرا یقین ہے کہ اس طرح چند سالوں میں کسی باقاعدہ نظام کے ذریعے مقامی مسائل تیزی سے حل ہو سکتے ہیں۔ کسی باقاعدہ نظام کی عدم موجودگی کے باوجود بیرون ملک ہمارے لوگ پہلے سے رضاکارانہ طور پر اپنی علاقائی تنظیموں کے ذریعے اپنے علاقوں میں بڑی خدمات سرانجام دے رہے ہیں جنہیں ایک مستقل اور با اعتماد نظام سے منسلک کیا جا سکتا ہے ۔اس طرح ایک طرف مسائل میں کمی اور ساتھ ہی عوامی شرکت اور ملکیت Owner shipکے ماحول میں ان منصوبوں کی رضاکارانہ حفاظت اور مرمت و بہتری کی فضاساز گار ہو سکتی ہے۔

سرکاری انتظامیہ سے طاقت کے زور پر استعداد سے زیادہ کام لینے کی روش مناسب نہیں۔ انتظامیہ کومقامی آبادیوں میں پرانے لوگوں کی مشاورت کے ذریعے اُن کے تجربات سے استفادہ کرنا چاہیے ۔ رہنمائی کا احساس اور سر پرستی کا یقین ہی اُن کی شرکت کا جذبہ بیدار کر کے اسے مضبوط کر سکتی ہے۔

اسی طرح دیہی اور شہری معاشی نظام کے الگ الگ ماڈل بنانے پر غور کرنا چاہیے ۔ چھوٹے یونٹس میں معیاری مصنوعات کی تیاری کے حوالے سے ماڈل ولیجزقائم کیے جا سکتے ہیں ۔جن کو خام مال کی فراہمی، واپس خریداری کی ضمانت اورمارکیٹنگ کے پروگرام کے ذریعے رفتہ رفتہ ان چھوٹے یونٹس اور ان کے کارکنان کو خود کفالت کے راستے پر ڈالنا کوئی ناممکن کام نہیں ۔

ہنر مندی کو ہائی سکولوں اور دینی مدارس کی بنیاد پر متعارف کروانا چاہیے۔ سکولوں سے لے کر جیل خانہ جات تک ہنر مندی کا یہ پروگرام یکساں طور پرقابل عمل ہے ۔

ہمارے نظام میں اصلاح نہ ہو نے کے باعث عالمی برادری بھی تھک ہار کر ہماری بعض خرابیوں میں شرکت میں ہی بھی عافیت سمجھتی ہے ۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں زلزلہ کے متاثرین کے لیے ملنے والی امداد میں سے پچپن ارب روپے سے زائدرقم کوپیپلز پارٹی کی حکومت نے کتنی آسانی سے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں منتقل کرکے اس رقم کو متاثرین کی بحالی کے بجائے جیالہ نوازی اور سیاسی خرد برد کے لیے استعمال کیا۔
پاکستان اور کشمیر کے لیے مختص اربوں روپے ورلڈ بنک کو ایک جماعت یا لیڈر کے نام پر منتقل کرنے کی تجویز سے کبھی اتفاق نہیں کرنا چاہیے تھا۔ ایک طرف متاثرین زلزلہ کے سکولوں ، ہسپتالوں ، انتظامی اداروں کے ادھورے اور نا مکمل منصوبہ جات اور دوسری جانب اربوں روپے کا جماعتی اور شخصی آمریت کے لیے استعمال کیا جانااس ملک کے ساتھ کتنی زیادتی اوربے انصافی ہے ۔

اس لوٹ مار کو میثاق جمہوریت کے نام پر تحفظ کی فراہمی بھی غالباً اسی منصوبے کا حصہ ہے کہ دونوں بڑی جماعتیں عوامی مفادات کے تحفظ کے بجائے ایک دوسرے کی شخصی ، صنعتی اور کاروباری مفادات پر پہرے داری کے لیے یکجا ہیں۔ مزید یہ کہ عالمی برادری اور مالیاتی اداروں کی جانب سے پاکستان پر کرپشن اور بددیانتی کے الزامات اور پھر احتساب کے نام پر مہنگے قرضوں کی فراہمی ایک عجیب دو عملی کا مظاہرہ ہے ۔ افراد اور جماعتوں کے نام پر استعمال ہونے والے عالمی قرضوں کی ادائیگی بلاول ہاؤس اور رائیونڈ ایمپائر فروخت کر کے کی جانی چاہیے نہ کہ دن کو ریڑھا اور رکشہ چلانے والا مزدور ان مجرمانہ اقدامات کی سزا بھگتے ۔اقتصادی ،معاشی اور مالی معاونت کے معروف اصولوں کی پامالی کا کوئی جواز نہیں۔

مناسب ہو گا کہ حکومت الیکشن کمیشن کو مزید وقت ضائع کیے بغیر شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے مردم شماری ، بلدیاتی ووٹر لسٹوں و پولنگ سکیم ہا کی تیاری اور انتخابی عملے کی تربیت پر معمور کر دے ۔
باقی ان شاء اﷲ آئندہ جمعرات
Sardar Attique Ahmed Khan
About the Author: Sardar Attique Ahmed Khan Read More Articles by Sardar Attique Ahmed Khan: 23 Articles with 38044 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.