افواج پاکستان ہی درحقیقت مملکت پاکستان ہیں
(Sardar Attique Ahmed Khan, Azad Kashmir)
پاکستان کوروزِاول سے ہی دل سے
تسلیم نہ کرنے کے کئی شواہد ہندوستان کی پالیسیز میں نمایاں رہے ہیں جن کا
اظہار مختلف موقعوں کی مناسبت سے کیا جاتا رہا ہے۔ سابقہ مشرقی پاکستان کو
الگ کرنے کی تحریک منظم کرتے وقت باقی باتوں کے ساتھ ساتھ ہندوانہ اصطلاحات
بھی اس منظم طور متعارف کروائی گئیں کہ پاکستان کو کمزور کرنے کا جو منصوبہ
بھی کامیاب ہووہ خود بخود اپنے نام اور عنوان سے ہندوستان کی فاتحانہ فہرست
میں اضافہ کرتا چلا جائے۔ رام اور احیم سے لے کر بنگلہ دیش، سندھو دیش اور
کاشر دیش تک کی اصطلاحات خود وضاحت کے لیے کافی ہیں۔ ان اصطلاحات کو فیشن
کے طور پر نئی نسل کے ایک طبقے کی زبان میں ڈال کر پاکستان مخالف تمام
عناصر اور ان کو پہلے سے فراہم کردہ اسباب و وسائل کو اس فیشن زدہ جواں سال
طبقے کی پشت پر لا کر کھڑا کر دیا گیا۔ کجایہ کہ ان خطرات سے نمٹنے کے لیے
قبل از وقت پیش بندی کردی گئی ہوتی بعد از وقت بھی قومی سطح پر دور دور تک
کوئی کاوش دکھائی نہیں دیتی ۔ اس بے حسی پر افسوس اور ماتم کے سو اکیا بھی
کیا جاسکتا ہے۔ بنگلہ دیش کے قیام کے موقع پراندرا گاندھی کا یہ فاخرانہ
اور فاتحانہ اعلان کہ دو قومی نظریہ کو بحرِ بنگال میں دفن کر دیا گیا ہے۔
درحقیقت پاکستان کو نیست و نابود کرنے کا اعلان تھا۔ ہندوستان کافی عرصہ تک
بوجوہ جموں و کشمیر کو ترنوالہ سمجھتا رہا اور اسی کے مطابق اپنی یکطرفہ
منصوبہ بندی میں اس اطمینان کے ساتھ مصروف رہا کہ دوسری جانب یعنی ہماری
طرف سے کوئی روک تھام موجود نہیں ہے ۔ 1970ء میں اُس وقت کے فوجی حکمران
جنرل یحییٰ خان کو پاکستان کے شفاف ترین انتخابات کروانے کا اعزاز حاصل ہوا۔
ان منصفانہ انتخابات کا ایک سبب صدارتی طرزِ حکومت دوسرا یحییٰ خان کی
انتظامی اہلیت و صلاحیت تیسرا حکومت پاکستان کی غیر جانبداری اور انصاف
پسندی تھا۔ ان انتخابات میں شیخ مجیب الرحمن، ذوالفقار علی بھٹو اور سردار
عبدالقیوم خان کو بالترتیب مشرقی پاکستان ، مغربی پاکستان اور آزاد کشمیر
میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل ہوئی۔ اُس انتخاب کی مناسبت سے حکومت
پاکستان کاایک بہت اچھا اقدام تمام جماعتوں کے سربراہان کو سرکاری ذرائع
ابلاغ پر اظہار خیال کا یکساں موقع فراہم کرنا بھی تھاجس کے باعث عام آدمی
کو قیادت کے خیالات سے مستفید ہونے کا موقع ملا ہے۔ اس سہولت کی موجودگی آج
بھی انتخابی عمل میں بہت مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔عام انتخابات کے بعد حکومت
سازی کے مرحلے سے گزر کراپنے اپنے ایجنڈے پر عمل درآمد کا آغاز کیا گیا ۔
شیخ مجیب الرحمن نے سردار عبدالقیوم خان کی طرف سے بھیجے گئے سردار محمد
عبدالغفار خان ،حاجی راجہ محمد افضل اور دیگر ساتھیوں پر مشتمل وفد کے جواب
میں اپنے قریبی ساتھیوں تاج الدین اور کمال الدین کے ذریعے سردار عبدالقیوم
خان سے اپنی بے بسی کا اظہار پہنچایا اور کہا کہ حالات میرے قابو سے باہر
ہیں ۔آگے بڑھنے اور پیچھے ہٹنے ہر دو صورتوں میں میرے لیے خطرات ہیں۔ میں
خود اپنے آپ کو حالات کے رحم و کرم پر محسوس کرتا ہوں ۔ ذوالفقار علی بھٹو
نے اقتدار سنبھالتے ہی اپنے ایجنڈے پر عمل درآمد کا آغاز کر دیا۔ ملک کے
محروم اور بے زبان طبقے کو زبان دینا بلاشبہ ذو الفقار علی بھٹو کا بڑا
کارنامہ تھا ۔ امریکی صدر نکسن نے کسی بھی ملک میں موجود اس طبقے کو خاموش
بے بس اکثریت کے نام سے یاد کیا ہے۔مثبت او ر منفی دو حوالے تاریخ میں بھٹو
صاحب کے منسوب رہیں گے۔ ملک کے بے زبان طبقے کو زبان دینا اور پاکستان میں
منفی سوچ رکھنے والی قوتوں کو مرکزیت مہیا کرکے ایک مضبوط قوت کا احساس
دلانا۔ بھٹو صاحب کی سوشلسٹ معیشت نے وقت کے ساتھ کیا گل کھلائے وہ محتاجِ
وضاحت نہیں۔ آزاد کشمیر میں آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کی بھر پور
کامیابی کے بعد سردار محمد عبدالقیوم خان نے بھی دوسرے لیڈروں کی طرح اپنے
ایجنڈے پر عمل درآمد کا آغاز کرتے ہوئے آزاد کشمیر میں جہاں زندگی کے مختلف
شعبوں کی پہلی بار باضابطہ بنیادیں رکھیں وہاں سرِفہرست نظریاتی اور فکری
انتشار کو روکنے کے لیے فکری لام بندی کا آغاز کرتے ہوئے کشمیر بنے گا
پاکستان کی فکر کو آزاد کشمیر کے آئین میں شامل کیا۔ حالانکہ آزاد کشمیر
قانون ساز اسمبلی میں مسلم کانفرنس کے پاس اکثریت بھی موجود نہیں تھی۔ یہ
نظریاتی اقدام صرف سرکاری احکامات کی زینت ہی نہیں بنا رہا بلکہ آزاد کشمیر
کے درو دیوار، تعلیمی ادارے ، سرکاری دفاتر حتیٰ کہ ایوانِ صدر اور دیگر
سرکاری عمارات میں زیرِاستعمال کراکری اور فرنیچر پر بھی کشمیر بنے گا
پاکستان کا لکھا جانا لازمی قرار پایا۔ صدر آزاد کشمیر اور چیف ایگزیکٹو کی
حیثیت سے سردار عبدالقیوم خان اور ان کے سینئر ساتھی پرائمری اور مڈل
سکولوں میں باالا ہتمام خود بچوں کے ساتھ مل کر یہ نعرے لگواتے تھے۔ چھوٹے
اور بڑے عوامی اجتماعات میں صدر آزاد کشمیر نعرہ لگانے کا فریضہ خود
سرانجام دیتے تھے۔ حکومت اور مسلم کانفرنس کے سینئر ساتھیوں کو خود قومی
نعرے لگوانے کا پابند کیا گیا۔ اﷲ تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ مسلم
کانفرنس نے اس عمل کو آج تک پورے اہتمام سے جاری رکھا ہے۔ ان کچھ باتوں کا
ذکر کرنا اس لیے اچھا لگتا ہے کہ سات سال کے جمہوری دور میں طویل تعطل کے
بعد اس سال 23مارچ کو یوم پاکستان جس بھر پور انداز سے منایا گیا اس سے
امید ہو چلی ہے کہ ملک کو کئی الٹے سیدھے تجربات اور میثاقِ جمہوریت جیسے
رسوائے زمانہ معاہدوں سے آزاد کرکے قومی تشخص کی بحالی اوحصولِ منزل کے
باوقار راستے پر ڈالے جانے کی خواہش پوری طرح توانا ہے۔میثاقِ جمہوریت کے
تحت ہونے والی لوٹ مار قابل افسوس اور قابلِ مذمت سہی لیکن یہ نقصان ایسا
نہیں جس کی تلافی ممکن نہ ہو۔البتہ یوں لگتا تھا میثاقِ جمہوریت کے تحت
کارواں کے دل سے احساس ِزیاں تیزی سے نکالا جارہا ہے جس کی تلافی شاید مال
و دولت کے نقصان سے کہیں بڑھ کر ہے۔ 23مارچ کی پریڈ میں ایک ایک عمل، ایک
ایک حرکت، ایک ایک قول اور ایک ایک فعل اور پریڈ کی جانب اٹھنے والا ایک
ایک قدم دوست اور دشمن ہر ایک کے لیے ایک پیغام کی حیثیت رکھتا ہے۔ غیر
ملکی سفارتکاروں کی ایک بڑی تعداد تمام تر معلومات رکھنے کے باوجود مشاہدے
کے لیے گراؤنڈ میں موجود تھی۔ کئی دانشوروں کی معلومات کے لیے یہ پریڈ
یقینا اضافہ کے باعث تھی۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام سو فیصد پاکستانی ہے
یہی کچھ کم نہیں لیکن اس پر طرۂ یہ کہ پاکستان کو جن ممالک اور مراکز سے
کوئی بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے وہ تمام کے تمام پاکستان کے درمیانی اور دور
مار مزائلوں کی زد میں ہیں۔ 23مارچ کی پریڈ نے قوم کو ایک نیا حوصلہ دیا ہے۔
جس طرح قیام پاکستان کے وقت عام آدمی نے قائداعظم کا ساتھ دیتے وقت رنگ،
نسل، قبیلے، فرقے اور علاقے کی قید سے بلند ہو کر پاکستان کا قیام یقینی
بنایااسی طرح اب بھی پاکستانی عوام کی اکثریت کسی بھی ایسے شخص کے ہاتھ کو
مضبوط کر سکتی ہے جس کا عقیدہ اور سمت دونوں درست ہوں۔ 23مارچ کو پریڈ میں
میاں نواز شریف اگر زیادہ خوش دکھائی دیتے، زیادہ مطمئن اور پر اعتماد
دکھائی دیتے تو یقینا اس قوم کے اعتماد میں اور اضافہ ہوتا۔ صدر پاکستان کی
تقریر بلا شبہ بہت عمدہ تھی البتہ ان کے چہرے پر خوشی ، اطمینان اور اعتماد
کی موجودگی سے زیادہ اچھا پیغام دیا جاسکتا تھا۔ یوم پاکستان کے موقع پر جس
طرح پاکستان کی دفاعی قوتوں نے اپنے ناقابل تسخیر ہونے کا برملا پیغام دیا
اُسی نسبت سے عوام الناس کے ردعمل میں بھی پورا جوش و جذبہ موجود تھا۔ جنرل
راحیل شریف کی صرف آمد کے اعلان پر سارے مجمع کا خودبخود اٹھ کر شوق سے
تالیاں بجانا درحقیقت پاکستان اور اس کے دفاع کرنے والوں کے ساتھ گہری اور
والہانہ وابستگی کا اظہار تھا اور سیاسدانوں کی طرف سے پیدا کیے جانے والے
خلاء کو پر کرنا بھی مقصود تھا۔
ایسے ہی قومی ایام جب بھی خالص سیاسی بنیادوں پر منائیں جاتے ہیں تو ان میں
قائد اعظم اور علامہ اقبال بھی ضرور شامل کیئے جاتے ہیں لیکن بنیادی طور پر
سارا زور حکمرانوں کی تشہیر پر ہوتا ہے۔ اب کی بار قومی پرچم اور قیادت کی
قدِآدم تصاویر کا جگہ جگہ آویزاں ہونا بلاشبہ تجدید عہد کا پیغام تھا۔ یہ
بات کوئی راز نہیں کہ یہ سارا نظام دفاعی اداروں نے سنبھال رکھا ہے جس کے
نتیجے میں ایک واضح فرق ساری قوم کو دکھائی دیا ۔یہ بھی بہت کم دیکھنے میں
آیا ہے کہ آزاد کشمیر کا فلوٹ ترتیب میں کبھی آگے لایا گیا ہو لیکن اب کی
بار کشمیر کی جس پالیسی کا اظہار جنرل راحیل شریف نے کشمیر کو پاکستان کی
شہ رگ قرار دے کر یوم شہداء کے موقع پر کیا تھا۔ جس کا ذکر کاکول سے لے کر
یورپ، امریکہ کے دورے تک افواج پاکستان کے سالار اعلیٰ بار بار کرتے آرہے
ہیں اسی کی ایک جھلک 23مارچ کی پریڈ میں دکھائی دی اور کشمیر کا فلوٹ پنجاب
کے فورا بعد میدان میں لایا گیا۔ بعض سیاستدان اور سیاسی حکومتیں جموں و
کشمیر کے معاملے پر پاکستان سے زیادہ ہندوستان کے مزاج اور لحاظ کو سامنے
رکھتے ہیں اورآزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو آبادی اور رقبے کے حوالے سے
دیکھتے ہیں۔ جبکہ پاکستان کی دفاعی قوتیں کشمیر کی جغرافیائی ، دفاعی اور
معاشی اہمیت سے پوری طرح آگاہ ہونے کے باعث ریاست جموں و کشمیر کو اپنے
ترجیحات میں سرفہرست رکھتی ہے۔
سردار عبدالقیوم خان گزشتہ چالیس سے زائد سالوں سے بارہا کہہ چکے ہیں کہ وہ
جموں و کشمیر کو پاکستان کے نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں نہ کہ بعض دوسرے لوگوں
کی طرح جو پاکستان کو کشمیر کی نظر سے دیکھتے ہوں۔
23مارچ کی پریڈ نے نواز لیگی وزیر دفاع سمیت ملک کے اندر اور باہر کئی
دانشوروں کو ایک واضح پیغام دے دیا ہے کہ افواج پاکستان ہی درحقیقت پاکستان
ہیں۔ دشمن ہمارے ملک کے کئی طبقات سے مطمئن ہونے کے باوجود مسلح افواج
پاکستان سے انتہائی مایوس ہیں اور دشمن کی یہی پشیمانی محب وطن قوتوں کے
اپنی قومی فوج پر اعتماد میں اضافے کا باعث بنتی جارہی ہے ۔ ہندوستانی فوج
کے کمانڈر انچیف کا پاکستانی فوج کو دنیا کی بہترین پیشہ وارانہ فوج قرار
دینا اور برطانیہ، امریکہ اور چین اوراقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری بانکی
مون کا پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں کا اعتراف بلاشبہ اہل پاکستان کے لیے کسی
اعزاز سے کم نہیں۔ نواز لیگی وزیر دفاع سے لے کر ان چند شکستہ خورد
دانشوروں اور ساستدانوں کو جو افواج پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کو موقع
بھی ہاتھ نہیں جانے دیتے چاہیے کہ وہ اپنے رویوں پر نظرثانی کریں۔ اور
نوشتہ دیوار پڑھنے کی کوشش کریں کہ پاکستان کو آنے والے ایام میں جنوب
ایشیائی ، ایشیائی اور بین الاقوامی اہمیت کے کسی بھی موقع اور مرحلے پر
نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ قومی اداروں کو چاہیے کے ملک میں نظریاتی اور
فکری لام بندی کی ہمہ گیر مہم کا اہتمام کریں۔ ماضی کے دیگر کئی مواقعوں کی
طرح میرا اب بھی یہ اصرار ہے کہ قومی اور صوبائی سطح پر نظریہ پاکستان
وزاتیں قائم کی جائیں، نصاب تعلیم کا ازسرنو جائزلیا جائے اور مستقبل کے
سفر کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے اپنے ماضی تاریخ اور شاندار روایات
کے ساتھ تعلق کو مضبوط سے مضبوط تر کیا جائے۔ مجھے تو غالبا اپنے
Optimistic بلکہOveroptimistic مزاج کی وجہ سے اور اﷲ کے کرم کے باعث کبھی
مایوسی نہیں ہوئی لیکن ٰاس ملک کے ایک بڑے طبقے کو جس منظم منصوبہ بندی کے
تحت پاکستان کے مستقبل سے مایوسی اور بد دل کیا گیا ہے اسی بھرپور انداز سے
اس کا ازالہ ایک منظم کاوش کا محتاج ہے۔ 23 مارچ کی پریڈ کا واضح پیغام ہے
کہ
یہ ڈوبتے تارے یہ فسردہ شب مہتاب
آثار بتاتے ہیں سحر ہو کے رہی گی
23مارچ پریڈا---- قومی ترجیحات کی ایک جھلک |
|