جب کسی کا برا وقت آتا ہے۔ سچ
منہ سے خود بخود نکلنا شروع ہوجاتے ہیں، اپنے ہی بچھائے جال میں پھنستا
جاتا ہے،یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں خزاں آکرپتے جھاڑتی ہے تو بہار میں نئی
کونپلیں بھی پھوٹتی ہیں،نئے پھول بھی کھلتے ہیں،اس ملک میں ماتم کدوں میں
نوحے پڑھے جاتے ہیں تو شادیوں،خوشی کے موقعوں پر میٹھے گیت بھی سننے کو
ملتے ہیں،سیاست الزامات،پراپیگنڈا،مخالفین کیخلاف بیان بازی تو عام سی بات
سمجھی جاتی ہے،اگر یہ الزامات حقیقت کا روپ دھار لیں،الفاظ کے بجائے گولی
سے بات کی جائے تو وہ سیاست نہیں رہتی دہشت گردی بن جاتی ہے۔
صرف ایک باربیس سو نو میں کراچی گیا اس کے بعد کبھی نہیں ،روشنیوں کے شہر
کا موسم عمومی طور پر معتدل رہتا ہے،گرمیاں ہوں یا سردیاں یہاں شامیں بہت
دل فریب ہوتی ہیں۔ہلکی ہلکی سی خنک ہوا بہت محسور کن تاثر دیتی ہے۔شائد اب
زندگی اتنی بے ہنگم ہوچکی ہے کہ ان باتوں کا خیا ل ہی نہیں آتا ہوگا۔ہم
معمول کی باتوں کو کم ہی خاطر میں لاتے ہیں۔اگر کوئی بات خاص ہو اور وہ بھی
بہت زیادہ خاص تب کہیں جاکے توجہ حاصل کر پاتی ہے۔آج کل کراچی ایک بار پھر
موضوع بحث بنا ہوا ہے،سیاست میں ایک بار پھر بھونچال آیا ہوا ہے،اب کے بار
سیاست نظر نہیں آتی،دھمکیاں،اسلحہ،نفرت دکھائی دیتی ہے،کھل کے کہیں تو
عوامی خدمت گاروں کے روپ میں دہشت اور دہشتگرد نظر آتے ہیں۔
جو زبان حق پرستی اور فوج کے قصیدے پڑھتی نہیں تھکتی تھی آج وہی زبان فوج
کیخلاف شعلے اگل رہی ہے،جو برسوں تک جرنیلوں کے بوٹ پالش کرتے رہے آج بے
نقاب ہونے پر انہی کو دھمکیاں دے رہے ہیں،مجھے ان کی زبان ان کے رویے پر
حیرت نہیں بلکہ میں اس بات پر ششدر ہوں کہ اسلام آباد میں جب ایک مدرسے کے
سر پھروں نے ڈنڈے اتھائے تو ان کو خاک بنا دیا گیا،خیبر پی کے میں دہشت کی
آگ لگی تو چنگاری پھینکنے والوں کو انجام تک پہنچا دیا،بلوچستان میں ڈیرہ
بگٹی میں ریاست کو چیلنج کیا گیا تو اسی صوبے کے سابق گورنر کو ہی غار میں
بم مار مار کر دفن کردیا گیا،نام نہاد سول سوسائٹی،انسانی حقوق کی تنظیموں
کا ایسا شور مچا کہ ہر شکل میں ہی دہشتگرد نظر آنے لگا،ہر طرف پاک فوج کی
حق میں ریلیاں نکالیں گئیں،پاک فوج زندہ بادکے نعرے گونجے۔اب ایک سیاسی
جماعت کے روپ میں پریشر گروپ بے نقاب ہوا ہے تویہ سب زبانیں کیوں گنگ ہیں؟
ایسے لگتا ہے شاید بلدیہ ٹاؤن فیکٹری میں جلائے جانیوالے انسان نہیں
تھے،عدلیہ بحالی تحریک میں بارہ مئی کومارے جانیوالے وکیل،سیاسی کارکن کسی
ماں کے بیٹے،کسی بہن کے ویر یا بچوں کے باپ نہیں تھے،ٹارگٹ کلروں کے ہاتھوں
تاریک راہوں میں مارے جانیوالے انسان نہیں تھے،کتوں کے مارے جانے پر آسمان
کو سر پر اٹھانے والوں کی خاموشی سوالیہ نشان ہے۔
پاکستان لسانیت جیسے موذی مرض میں عرصہ دراز سے مبتلا ہے،اس کی وجہ سمجھنا
یا سمجھانا ذرا مشکل سا کام لگا ہے ،الجھاؤ ہے اور تناؤ سی کیفت ہوجاتی
ہے،مگر یہ ایسی کڑوی حقیقت ہے جسے نا چھپایا جاسکتا ہے اور نا کھلے لفظوں
میں بیان کیا جا سکتا ہے،یہ مرض اس قدر خطر ناک نوعیت اختیار کر چکا ہے کہ
دینی جماعتوں میں بھی اس کا تاثر ملنے لگا ہے۔ اقتدار میں ہوں یا جن کہ پاس
اختیارات ہوں یقینا وہی اکثریت میں بھی ہونگے، انہیں اس بات پر دھیان دینے
کی کبھی ضرورت نہیں پڑتی،اب اگر آپ کو آپ کے گھر میں ہی محدود کر دیا جائے
یا حدود کی بیڑیاں ڈال دی جائیں۔نیوٹن کہ قانون کہ مطابق ہر عمل کا ردِ عمل
ہوتا ہے۔اسی طرح زنجیر جو پہناؤ گے جھنکا ر تو ہوگی۔سیاسیات کو ذاتیات سے
دور رکھنا چاہئے۔آپ کی ذمہ داری ملکی سطح کی ہے۔تنقید برائے اصلاح کی
جائے۔تخریبی سیاست سے اجتناب کیا جائے۔ایسے عوامل سے سختی سے نمٹا جائے جو
سیاسی جماعتوں کہ نام پر لوگوں کو دھمکاتے پھرتے ہیں۔
نائن زیرو یا اس کے اطراف سے دہشگرد پکڑے گئے ہیں،اسلحہ ملا ہے تو اس پر
سکیورٹی اداروں کو بلا تفریق کارروائی کرنے دی جائے،شفاف تحقیقات کے بعد
دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجانا چاہیے،دہشگرد منصورہ میں ہوں یا بلاول
ہاؤس یا کسی پختون کے گھر یا پھر رائیونڈ کے کسی محل میں سب کے سب دہشتگرد
ہیں،ان کے خلاف بلا تفریق کارروائی ہونے دی جائے،بلا وجہ شور مچا
کر،دھمکیاں دے کر اپنے آپ کو کیوں جال میں پھنسایا جا رہا ہے،ویسے ایک بات
تو سچ ہے کہ ظلم کا انجام بہت برا ہوتا ہے چاہے وہ کسی صورت میں بھی ہو۔ |