سر جھکائے، آنکھیں موندھے آگے کی
طرف جھکا ہوادیکھ کر عارف میاں ، مجھ سے پوچھ بیٹھے کہ کیا بات ہے قادر
بھائی ،آج آپ کی طبعیت ٹھیک نہیں لگ رہی ۔میں نے سر ہلاتے ہوئے کہا کہ نہیں
ٹھیک ہوں۔اس وقت میں اپنے شناسا کی کمپوئٹر سافٹ وئیر کی دکان پر بیٹھا تھا
، میرا معمول ہے کہ گھر کے بجائے دکان پر آجاتا ہوں ، شور و شرابے میں کالم
لکھتا ہوں ، ڈاک چیک کرنے کے بعد جیسے جواب دینا ہوتے ہیں انھیں مناسب جواب
دیکر اخبارات کا مطالعہ کرتا ہوں اتنی دیر میں عارف میاں اسکول سے آجاتے
ہیں اور میں روانگی کی راہ پکڑتا ہوں ۔میرے سامنے اس وقت کمپوئٹر کی اسپاٹ
اسکرین موجود تھی جیسے میں گھورتا ہوا دیکھ کر اپنے غصے کو کم کرنے کی کوشش
کر رہا تھا ۔اکثر اوقات کچھ ایسے واقعات رونما ہوجاتے ہیں جس پر نہ چاہتے
ہوئے بھی انسان غصے میں آگ بگولہ ہوجاتا ہے ، اپنے جذبات کو ٹھنڈا رکھنے کی
کوشش کرتے ہوئے میں نے ایک بار پھر عارف میاں کو دیکھا اور پھر اس سے پوچھا
کہ عارف میاں یہ بتاؤ کہ تم اتنی محنت کیوں کرتے ہو ؟۔ اس نے جوابدیا کہ’
اپنے مستقبل کیلئے تاکہ میرا مستقبل بہتر ہوسکے‘۔عارف میاں اپنی تعلیم کے
ساتھ ساتھ اپنے وگھر کے اخراجات پورے کرنے کیلئے اِس دکان پر کام بھی کرتا
تھا اور اسکول سے آنے کے بعد رات بارہ بجے تک مستقل دکان پر موجود رہتا۔اسے
چھٹی کی اجازت بھی نہیں تھی ۔
میری آج کفیت انتہائی دل گرفتہ تھی کیونکہ آج ایک بار پھر میرے احساسات اور
جذبات کا خون ہوا تھا ، میں انتہائی حساس طبعیت کا مالک ہوں ،اس لئے جلد
غصے میں آجانا اور نتائج کو فوری حاصل کرنے کے علاوہ جلدباز عادت کا حامل
ہوں۔ لوگ صحافت سے سیاست کی جانب جاتے ہیں لیکن میں سیاست سے صحافت میں آیا
تھا کیونکہ طاقت کا محور پاکستان میں عوام نہیں بلکہ صحافی کے ہاتھ سے لکھے
جانے والے الفاظ ہیں ۔میں نے جس شعبے کا انتخاب کیا وہ عام قارئین کی نظروں
میں بہت کم وقعت رکھتا ہے ماضی کے برعکس کالم نویسی کی گذارشات پر اب حکومت
بہت کم ہی کوئی عمل کرتی ہے ۔لیکن اس میں میرے لئے ایک خاص خوبی یہ ہے کہ
آپ اپنے احساسات و خیالات کو اپنے لفظوں میں پرو کر ایک مالا کی شکل میں
لاتے ہیں اور مختلف بکھرے موتیوں کو یکجا کرکے چودہ سو حروف ،سمندرکوزے میں
بند کرنے کے مصداق مکمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن کوئی نہ کوئی تشنگی رہ
جاتی ہے اور یہی تشنگی نئے کالم کو لکھنے کا موجب بنتی ہے۔میں زیادہ تر
کالم میں ایسے موضاعات کا انتخاب کرتا ہوں جس سے کم از کم عام قارئین کی
معلومات میں اضافہ ہوسکے اور کسی کتاب پر تبصرہ کرنے سے بہتر خیال کرتا ہوں
کہ انسان کی حالت ِ زار کو موضوع بناؤں اور جو دید ہے اس کے ساتھ شنید شامل
کرکے کم سے کم کسی باشعور تک اپنا موقف پہنچانے کی کوشش کروں۔ممکن ہے کہ
کہیں جذبات غالب آجاتے ہوں ، لیکن انھیں میں جذبات نہیں ، بلکہ احساسات کا
عمل دخل ضرور کہہ سکتا ہوں کیونکہ میرا ماننا ہے کہ جب تک آپ کی تحریروں
میں احساسات شامل نہ ہو اور کسی کا دکھ بیان کرتے وقت خود آپ کے اپنے دل سے
ہوک نہ اٹھتی ہو ، کسی کی مسکراہٹ کو بیان کرتے وقت خود آپ کے ہونٹوں پر
مسکراہٹ نہ ہو آپ کی تحریر میں اثر نہیں پیدا ہوسکتا۔یہ میں نے سیاست سے
سیکھا کہ عوام کے پاس جانے کیلئے عوام کو سمجھنا ضروری ہے ،عوام کے دکھ درد
کا ادراک کرنے کیلئے اس کا بے لوث ہونا اور ان کے غم و خوشی میں برابر کا
شریک ہونا فرض ِ اولین ہے۔کیونکہ ہم معاشرے سے الگ نہیں ہیں اس لئے معاشرتی
مسائل کی اہمیت کو اجاگر کرتے وقت اس کے اثرات و مضمرات کو بھی چانجتے ہیں
کہ اس عمل کا ردعمل کیا آسکتا ہے۔بادی النظر کسی کی تحریر کو وقت گذارنے
کیلئے پڑھنا مناسب نہیں ، کیونکہ آپ کے پاس اپنے منتشر خیالات نہیں بلکہ
قوم کیلئے سے دیا گیا ایک ایسا عطیہ خداوندی ہے جس کا کوئی اجر و تعاون کی
خواستگار آپ نہیں ہوتے۔مجھے دوسروں کا نہیں معلوم ، لیکن میرا ماننا ہے کہ
جب تحریریں ، معاوضوں میں تولیں جائیں تو وہ ترازو میں بکنے کیلئے تو بہت
وزن دار ہوتی ہیں لیکن حقیقت کے میزان میں اس کی کوئی وقعت نہیں ہوتی ۔اگر
کسی تحریر کا کوئی ردعمل سامنے نہ آرہا ہو تو اس کا مطلب ہے کہ آپ راستے سے
بھٹک گئے ہیں اور خوفزدہ عناصر اپنے مقاصد میں کامیاب ہوچکے ہیں۔مصالحت کا
عنصر جس قدر صحافت میں ہے اس کا عشر عشیر کہیں اور نہیں ملتا۔اسی طرح
مفاہمت بھی صحافت میں جس فراوانی کے ساتھ موجود ہے پاکستانی موجودہ سیاست
اس کے سامنے ہتھیلی میں رکھے چنے جتنا ہے،معدودے چند پاکستانی صحافت میں
کام نویسوں کا مستقبل انتہائی تاریک ہے، انھیں اپنے مزاج و رویوں کے برخلاف
لکھنا پڑتا ہے،ادارتی صفحوں میں لکھتے وقت اُسے ادارتی بورڈ کی بے رحم چھری
کا سب سے پہلے سامنا کرنا پڑتا ہے،پاکستان کے معروضی حالات کے سبب اسلام ،
مذہب ، طالبان، سیاسی جماعتوں ، شخصیات ہردو قسم ، حکومتی وعدلیہ کی
پالیسوں پر تنقید یا جائزہ اور امن و امان پر قانون نافذ کرنے والوں اداروں
پر قلم اٹھائے بغیر لکھی تحریروں کو اہمیت دی جاتی ہے۔ یا پھر کسی پینل میں
شریک کالم نویس کی اُن تحریروں کو جو وہ خود بھی دوبارہ پڑھنا پسند نہیں
کرتے ، کیونکہ ان کے نزدیک نوکری ترجیح بن جاتی ہے۔ہوسکتا ہے کہ اس جملے پر
کسی صاحب علم کو اعتراض ہو ، لیکن میں ذاتی طور پر اخبارات میں پیشہ وارنہ
جذبے کا فقدان پاتا ہوں، مصلحت ، مفاہمت اور ڈر کے سائے میں لکھی جانے والی
تحریروں سے بہتر ہے کہ سوشل میڈیا پر بے لاگ انداز میں جلوہ افروز ہوکر
اپنے احساسات کو پہنچایا جائے اور اس کا فوری ردعمل بھی ملتا ہے۔ تاریک
سیاہ رات میں ایک اجلی صبح کی پہلی روشنی کا خوش کن احساس بھی موجود ہے جو
پست ہوتی ہمت کو دوبارہ جُت جانے پر آمادہ کر لیتی ہے۔میں بھی عارف میاں کی
طرح مایوس نہیں ہوا ہوں ،کیونکہ میرا ماننا ہے بہتے پانی میں ہی زندگی کا
راز پنہاں ہے۔ ساکت پانی موت کی علامت ہے۔ |