مقتول کی جیت، قاتل کی ہار - پروین رحمن کا مشن جاری ہے

 کل کے اخبار میں خبر تھی کہ پروین رحمن کا قتل ملزم کوگرفتارہوگیاہے۔ ممتاز سماجی ورکر پروین رحمن قتل کیس پر سپریم کورٹ اپنے سوموٹو پر سماعت کررہی ہے ۔اسی ماہ کی 13 تاریخ اس کیس کی سماعت کا دن تھا،اور یہی دن تیرہ مارچ سال 2013 ،پروین رحمن کی شہادت کا بھی ہے۔معززدعدالت نے پروین رحمن سوموٹو کیس کی اگلی سماعت اپریل کے تیسرے ہفتے مقرر کررکھی ہے ۔ اور خبر آئی ہے کہ قاتل گرفتار کرلیا گیا۔ جو کہ اہم پیش رفت ہے۔

آج کی ہماری اس تحریر کا موضوع بھی پروین رحمن ہیں ۔ مغربی مفکر نے کہا تھا کہ لوگوں کو پتہ نہیں کہ ان کا مسئلہ کیا ہے ۔ بلکہ انہیں پتہ ہی نہیںکہ ان کی زندگی کا مقصد کیا ہے۔ ایسے بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو اپنی زندگی ایک مقصد کے تحت گزارتے ہیںایسے لوگ تحسین کے قابل ہوتے ہیںجو اپنی زندگی دوسروں کے لیئے وقف کردیتے ہیں، ایسے لوگ قومی ہیروز ہوتے ہیں۔

سال 2013 اور مارچ کی 13 تاریخ کو ایک ایسی خاتون جو قومی ہیرو تھیں کی جان لے لی گئی جس نے اپنی تمام عمر غریبوں کی زندگیوں کو سہولتیں دینے کی کوششوں میں گزاری۔ اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کی ڈائریکٹر پروین رحمن کو کراچی شہر والوں نے ماں کا درجہ دیا ہوا تھا۔ پروین رحمن 30 برس سے کراچی کی ایک بستیوں میں غریبوں کی خدمت کر رہی تھیں۔ بنگلہ دیش سے آنے والے مہاجرین کی اس بستیوں کا بچہ بچہ پروین رحمن کی پرخلوص خدمات کا گواہ ہے۔ پروین رحمن 1957ءمیں ڈھاکہ میں پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم ڈھاکہ ہی میں حاصل کی۔ 1982ءمیں ڈاؤکالج آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کراچی سے آرکیٹکٹ میں گریجوایشن کیا۔ 1983ء میں انہوں نے اورنگی پائلٹ پراجیکٹ پر کام شروع کیا۔ زندگی کا 30 سال سے زائد عرصہ اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کو دیا۔ اور شادی تک نہیں کی غریبوں کے گھر آباد کرنے والی نے اپنا گھر آباد نہیں کیااورگلستان جوہر کراچی میں اپنی ضعیف والدہ کے ساتھ رہائش پذیر تھیں۔

پروین رحمن۔ کے نام اور اس کے کام سے خوف ذدہ حلقوں کی بات اور شناخت و نشاندہی کرنے کی راقم کو کوئی ضرورت نہیں ، جس نے اپنے کام سے نام بنایا ہو،جس کا مقصد واضح اورحوصلہ بلند ہو، جس کے ارادے پختہ ہوں، ڈرو خوف نہ ہووہ کبھی بھی ناکام نہیں ہوتے۔ پروین رحمن کے کام کو روکنے اور اس کے حوصلے توڑنے کی کئی بار کوشش کی گئی مگر سماج کے دشمنوں کو منہ کی کھانی پڑی۔ او رتب انہوں نے اس بلندو تواناآواز کوخاموش کرانے کی ٹھان لی۔بزدلوں نے ایک بہادر خاتون کو راہ سے ہٹانے کے لیے قتل کردیا۔ پروین جس نے عوام دوست ماحول کی تعمیر اور پسے ہوئے محروم وگوں کی ترقی کو اپنا مقصد بنا رکھا تھااس کو معلوم تھا کہ جو راہ اس نے لی ہے یہ راستہ کٹھن ہے۔ اس کو یہ معلوم تھا کہ اس جدوجہد میں اس کی جان بھی جاسکتی ہے۔ جوراہ خوداس نے اپنائی تھی،اس پر چلتے ہوئے اس کو کئی خطرات لاحق تھے مگر پروین نے اپنا کام جاری رکھا بالآخر اس مقصد کی راہ میں قربان ہوگئی۔
لاکھوں ہی مسافر چلتے ہیں منزل پہ پہنچتے ہیں دو ایک
اے اہلِ زمانہ قدر کرو نایاب نہ ہوں، کم یاب ہیں ہم

وقتی طور پر یہ سمجھ لیا گیا کہ پروین کی موت سے غریبوں، مظلوموں، محروموں ،محکوموں کی آواز بھی خاموش ہوگئی ہے ۔مگر ایسا نہ تھا یہ آواز اور بھی بلند ہوگئی ہے ۔پر وین رحمان شہید اپنے سماجی کاموں کے حوالے سے اعلی خدمات کی وجہ ہمیشہ کے لیے ب امر ہوگئی ہے ۔ پروین کا جسد خاکی منوں مٹی تلے چلا گیا مگر ان کا مقصد اور نظریہ زندہ ہے ۔ کون کہتا ہے کہ پروین ہمارے درمیان موجود نہیں وہ آج بھی ہمار ے درمیان موجو د ہیںان کا، کام اور نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔ پروین رحمٰن نے اپنی تمام عمر غریبوں کی زندگیوں کو سہولیات دینے کے لیے وقف کر رکھی تھی عظیم شخصیات میں ان کا نام شامل ہوگیا ہے۔ جنہیں ہم ہمیشہ خراج تحسین پیش کرتے رہیںگے۔ موت سب کو آنی ہے اورسب ہی مرجاتے ہیں کہ ہر ذی روح کا انجام موت ہی ہوتا ہے۔ جو حق اور انصاف کی جنگ لڑتے ہوئے اپنی جان دے دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں میںپروین رحمان بھی شامل ہیں، جنھوں نے انسانیت کی بقاءکی خاطر موت کو گلے لگایا۔ ان کا قصور یہ تھا کہ وہ کچی آبادی کے غریب مگر عزت دار مکینوں کے حقوق کے لیے نہ صرف مختلف قسم کے مافیا گروپوں کے سامنے سینہ سپر تھیں بلکہ انھیں ”اپنی مدد آپ“ کے اصول کے تحت جینا اور زندگی برتنا سکھا رہی تھیں۔جس دن بزدل نقاب پوشوں نے فائرنگ کرکے ان کی جان لے لی۔ اسی دن سے ان کے چاہنے والے ان کے مشن کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔

آج سماج دشمنوں جنہوں نے پروین کی جان لے لی اس کے مشن کو ختم نہ کرسکے اپنی ناکامی پر روتے ہیں اور پروین کے ہزاروں کارکنان خوش ہیں کہ وہ پروین کے فلسفہ اور مشن کے حامی ہیں اوراس کو جاری رکھے ہوئے ہیں یہ لوگ بھی قابل تحسین ہیں۔
Riaz Jazib
About the Author: Riaz Jazib Read More Articles by Riaz Jazib: 53 Articles with 53224 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.