حاکمیت کے فریقین میں ہمہ گیریت ناممکن ہے
(lateefjohar baloch, awaran balochistan)
جہاں کہیں کوئی ریاست کسی دوسرے
کے وطن پر قابض ہوتا ہے تو انکی قبضے کا وجود ہی دوسرے قوم کی اقتدار اعلیٰ
کو کمزور و ختم کرنے سے ہے۔اسی طرح اسکا ہر عمل و کوشش یہی رہتی ہے کہ وہ
اپنی طاقت کو دن بہ دن بڑھاتا جائے ،وہ طاقت اقتدار اعلیٰ ہی ہے جو ایک کے
ختم ہونے سے مقبوضہ اور دوسرے کی جبرپرشروع ہوتی ہے تو قابض کہلاتی ہے
۔مقبوضے کا معنی اگر ہم انکی حکومت و طاقت کے چھن جانے سے لیں تو غلط نہیں
ہوگا۔اور پھر قابض اپنی قبضہ گیریت کو مضبوط کرنے کیلئے مختلف پالیسیاں
تشکیل دیتی ہیں اور ریاستی وجود کو مدنظر رکھ کر ہر وقت اپنی آئین میں
ترامیم لاتی رہتی ہیں ۔ریاست چاہے کتنی نرم یا سخت قوانین بنائے انکی اثرات
کا مقبوضے پر کوئی مثبت اثرات نہیں پڑتا، یہ ترامیم مقبوضہ قوم پر مظالم
میں تیزی اور غلامی کی زنجیروں کو مضبوط کرنے کیلئے مرتب کی جاتی ہیں ۔اسی
طرح ریاست اپنی حواریوں و باجگزاروں کے ذریعے ترامیم کے متعلق مختلف بحث و
مباحثہ شروع کرواتی ہے تاکہ دنیا کو گمراہ کرنے سمیت مظلوم قوم کے غیرسیاسی
ممبران کو صحیح یا اچھا ہونے کی امید پیدا کرکے کچھ وقت اور اپنی لوٹ مار و
استحصال کو جاری رکھ جاسکے۔اسی طرح بلوچ اور پاکستان کا رشتہ قابض و مقبوضہ
کا ہے۔ پاکستان کی آئین اور اس میں ترامیم کبھی بھی بلوچ ترقی یا مفادات و
دفاع کے کیلئے نہیں ہوتی ہیں۔ بلکہ اُس نظام کی مضبوطی کیلئے ہیں جو27 مارچ
1948 ء کو ہم پر حملہ کرکے بلوچستان پر بزور طاقت رائج کردی گئی۔لیکن اس کے
باوجود پاکستانی آئین یا قوانین میں رد و بدل یا ترامیم کو بلوچ مسئلے کا
حل قرار دیتے ہیں ، جب بلوچ قوم ایسی اقدامات کو مسترد کرتا ہے تو ریاستی
میڈیا سمیت اسکی باجگزار آسمان سر پر اٹھاتے ہیں جبکہ یہی کنٹرولڈ میڈیا و
قانون ساز اسمبلی بلوچ پر ظلم کی داستانوں پر چُپ کا روزہ رکھے ہوئے ہیں
اور اس میں ریاستی قائم کردہ نام نہاد صوبائی (مقبوضہ خطے کے نام کو صوبہ
نام دینا بھی اسکی ریاستی وجود کو گھٹانے کا ایک حربہ ہے) اسمبلی اور
پارلیمنٹیرین کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔حالانکہ یہ کہیں بھی نہیں ہو سکتا کہ کسی
صوبے کو اقتدار دیا جاسکے بلکہ تھوڑی بہت اختیار کی تقسیم ہوتی ہے باقی
مرکز کے ہاتھ میں ہوتا ہے ،وہ پھر اسی اسمبلی کو اپنی ریاستی وجود کو
مقبوضہ علاقہ میں برقرار رکھنے کیلئے استعمال کرتا ہے ۔اس میں تمام اسمبلی
ممبران جو قانون سازی کا حصہ ہوتے ہیں ریاستی قبضہ و جبر میں برابر شریدار
ہیں، اور اگر بات نام نہاد مالک حکمرانی یا اسمبلی کا ہو تو وہ صرف ریاستی
خفیہ اداروں کے ملازمین کے علاوہ کچھ نہیں ۔لیکن اس کے باوجود وہ اختیار و
اقتدار کا ورد کرتے نہیں تھکتے کہ جی اب فلانہ قانون یا اٹھاریوں ترمیم
وغیرہ کے بعد ہم بااختیار ہیں اب بلوچستان کے مسائل حل ہونگے یہ سب فضول و
گمراہ کن نعرے و باتیں ہیں ۔ سیاسیات کے ماہر یا مفکرین ان سب چیزوں کو
غلام اور آقاوالی نظام میں رد کردیتے ہیں۔ آج کل اکیسویں ترمیم کا بحث بڑی
زور شور کے ساتھ جاری ہے ۔نیا ایکشن پلان و فوجی عدالتیں کے قیام کو نام
نہاد جمہوری لوگ بھی خوش آمدید کہہ رہے ہیں ، اسی سے انکی اصلیت و اختیار
عیاں ہو جاتے ہیں ۔ لیکن وہ سب یہ بات بھول گئے ہیں یا اصل مسئلے کو دبانا
چاہتے ہیں کہ مسئلہ غلامی ہے ، جس کا احساس و شعور ہر بلوچ کے دل میں پیدا
ہو گیا ہے ۔ پھر غلام کیلئے ریاستی قوانین میں نرمی یا سختی کوئی معنیٰ
نہیں رکھتا کیونکہ یہ مقبوضہ قوم کو پتہ ہے کہ اگر وہ اپنی ریاست کی بحالی
کی بات کریں توہم پر غضب کے سوا کچھ نہیں۔ لیکن یہ غضب غلامی کی عذاب سے
بدتر نہیں ،اس لیے بلوچ پاکستان کی مروجہ قوانین و آئین کی پاسداری کرتے
ہیں نہ ہی پاکستان بلوچستان کی ترقی و دفاع کیلئے اپنی آئین و قوانین میں
ترامیم کرتی ہے۔بقول نمیرانیں استاد صباء دشتیاری کا پاکستان کی نفسیات ہی
بلوچ دشمنی ہے ۔ اسکا ہر حربہ لوٹ مار کی دفاع میں ہوگا۔اسی طرح آج تحفظ
پاکستان آرڈیننس کے تحت انسداد دہشت گردی فورس کے قیام کا فیصلہ اورخصوصی
قوانین اور الگ تھانے وخصوصی عدالتیں بنائی جا رہی ہیں ، یہ سب بلوچ عوام
پر ظلم و جبر کو قانونی جواز دینے کے علاوہ کچھ نہیں ہیں۔ان خصوصی فورس و
عدالتوں میں پاکستانی آرمی و خفیہ اداروں کے اہلکار ہیں جن کی کاروائیاں
بلوچستان میں پہلے ہی شدت سے جاری ہیں،اور دن دیہاڈے گھروں میں گھس کر
بلوچوں کو اغواء کرکے لے جاتے ہیں یا بھرے بازار میں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ
بناکر پھر مختلف ناموں سے قبول کرکے قبضے کے خلاف جد وجہد و انکے جہدکاروں
کی آزادی کی جنگ کو پاکستان مذہبی دہشت گردی کا نام دینے کی ہر ممکن کوشش
کرتا آرہا ہے۔اُنکی قائم کردہ خصوصی تھانوں وخفیہ ٹارچر سیلوں سے ہمیں مسخ
شدہ لاشیں موصول ہورہی ہیں۔ پاس ہونے والے اس نئے بل کے تحت سیکورٹی اداروں
کو خطرے کی صورت میں ہر جگہ کاروائی کی اجازت ہوگی، مگر بلوچستان میں یہ
کارروائیاں پہلے ہی ہو رہی ہیں اور یہ کارروائیاں فوج کو کسی خطرے کی پیش
نظر نہیں کرنی پڑ رہی ہیں بلکہ یہ عام بلوچوں پر حملے کرکے بلوچ نسل کشی کر
رہے ہیں ۔ اصل حکمران پاکستانی فوج کا جب جی چاہ رہا ہے وہ سخت سے سخت
کاروائیوں سے انسانیت و بلوچ روایات کی پامالی کرتے آرہے ہیں۔اوراب قومی
ایکشن پلان کے تحت دنیا کو گمراہ کرنے کے ساتھ ساتھ بلوچ کے لیئے مظالم میں
اضافہ کا سبب ہوگا۔دنیا میں رائج عالمی و انسانی حقوق کے اداروں کی آئین و
قوانین کی موجودگی اور پھر انکی خاموشی سے فائدہ اٹھاکرپاکستان تمام قوانین
کی پامالیاں کرتے ہوئے بلوچ قوم کی استحصال میں دن بہ دن تیزی لا رہا ہے
۔پھر بھی کوئی نادان کہے کہ ریاستی وجود کو برقرار رکھنے و ظلم و جبر ، لوٹ
مار کی دفاع میں بنائے گئے قابض کے قوانین اور ان میں ترامیم مقبوضہ خطے کا
حل ہیں تو خود کو دھوکہ یا مظلوموں کے ساتھ مذاق کے سوا کچھ نہیں۔جو لوگ
پاکستانی آئین و قانون میں رہتے ہوئے اچھا ہونے کی ورد کررہے ہیں انکا اور
پاکستان کا رشتہ بہت قریبی ہے اور بلوچ سے بہت بڑی دشمنی ۔وہ اُسی
اقتدار(قابض) کومضبوط کرنا چاہتے ہیں جو ہماری غلامی کا سبب ہے۔کیونکہ ہر
کسی کی اقتدار اعلیٰ کی مضبوطی اس کی کامیاب حکمرانی کا ضامن ہے۔ وگر نہ
بلوچ کی اقتدار و حکمرانی میں قابض کی وجود کا سوال ہی باقی نہیں رہتا اور
نہ انکی رٹ و آئین و استحصالی نظام برقرار رہتی ہیں۔اس لئے ریاستی آئین و
قانون کبھی بھی بلوچ اقتدار اعلیٰ یا حکمرانی کو برداشت نہیں کرتے کیونکہ
بلوچ کی طاقت کی کمزوری یا ختم ہونا انکی بلوچستان میں زندہ رہنے کے لئے
آکسیجن ہے ۔ بقول جین بودین ’’ حاکمیت وہ طاقت ہے جو قانون سے بالاتر ہر
شہری اور رعایا پر فائق ہوتی ہے‘‘ اور آج ہم پر پاکستان کی حاکمیت ہے۔ اور
ہم اس حاکمیت کو نہیں مانتے اس کو چیلنج کرکے قبضے کے خلاف جدوجہد کررہے
ہیں۔تو پھر پاکستانی آئین و قانون میں بلوچ اور پاکستان کی مشترکہ مفادات
میں کوئی بھی چیز مشترک نہیں۔ پاکستان کی ہر ممکن کوشش بلوچ کی جدوجہد کے
ہر قدم کو روکنا ہے۔ اب بلوچ قوم کو انکی تمام قوانین کو رد کرکے انکے
حربوں کا بھرپور مقابلہ کرنے کیلئے اپنی قومی مفادات و تنظیمی و پارٹی
اصولوں کے تحت ہر وقت تیار رہ کر کام کرنا ہوگا۔آج پاکستان اپنی ناجائز
مطلق العنانیت کو بلوچ و سندھی سمیت دوسرے محکوم اقوام کی رسم و رواج ،
روایات کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی تمام قوانین کی پامالی کررہاہے۔ حالانکہ
کسی ریاست کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنی ناجائز طاقت کو دوسروں کی قومی روایات
یا اقتدار ، انسانی و اخلاقی قوانین کا خیال رکھے بغیر اپنی توسیعی مفادات
کی خاطر عالمی قوانین سے بالاتر ہوکر قبضہ یا ظلم و جبر کرے ۔پاکستان اور
انکی باجگزاروں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ قابض و مقبوضے کے یا ہمارے
خطے پر ہماری اور پاکستان کی کبھی بھی ہمہ گیریت نہیں ہوتی ۔ اور ہماری
جدوجہد پاکستان کے اقتدار کی دائمی حیثیت کو ختم کرنے کیلئے ہے ۔ بلوچ قوم
جانتی ہے کہ پاکستان کبھی بھی یہ برداشت نہیں کرتا ۔اس کے باوجود بھی وہ
اپنی آزادی و دفاع میں قابض ریاست کی تمام قوانین کو خاطر میں نہیں لاتے۔
اس لیئے دنیا کو بھی حقیقت تسلیم کرکے بلوچ اور پاکستان کے رشتے کو
پاکستانی آئین و قوانین یا اندرونی مسئلے جیسے غیر حقیقی باتوں سے الگ حاکم
و محکوم ، قابض و مقبوضے کا نام دینا چاہیے۔ خود ریاست پاکستان کواتنی
اخلاقی جرأت نہیں ہے کہ وہ یہ تسلیم کرے لہٰذا ہمیں بلوچ قوم کو اپنی عوامی
طاقت کومضبوط تنظیمی و پارٹی پلیٹ فارم سے سیاسی قوت بناکر پاکستانی مطلق
العنانیت کے سامنے مضبوط دیوار کی مانند کھڑا ہونا ہے اور انکی حاکمیت کا
خاتمہ کرنا ہے۔ پھر جاکر ہم اپنی قومی دفاع و بقاء کو برقرار رکھ سکیں گے
وگرنہ پاکستانی قانون و آئین یا انکے باجگزاروں سے امید و دوستی ہماری قومی
موت کے سوا کچھ نہیں۔ |
|