اردو ڈائجسٹ ٗ دلا بھٹی کے دیس میں

نوجوان نسل میں لکھنے کا شعور بیدار کرنے کے لیے اردو ڈائجسٹ کی ٹیم ( محمداسلم لودھی ٗ غلام سجاد اور رضوان حیدر) 12 مارچ 2015ء کی صبح پنڈی بھٹیاں جانے کے لیے صبح 9 بجے نکلی ۔آسمان پر بادلوں کے آوارہ ٹکڑے منڈلا رہے تھے ٹھنڈی ہوا انسانی جسموں کو گدگدا رہی تھی خوشگوار موسم انسانی رویوں پر اثر انداز ہورہے تھے جب ہماری گاڑی نہر کے ساتھ ساتھ موٹر وے کی جانب بڑھنے لگی۔ نہر کے اردو گرد پھول پودے لگا کر ماحول کو نہایت خوش کن بنا دیاگیا ہے۔ جس سے یقینا لاہور میں آنے والوں پر اچھا تاثر ابھرتا ہوگا ۔ کچھ ہی دیر بعد ہم موٹروے پر پہنچ گئے ۔ یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں موٹر وے جیسی شاہراہ واقعی ایک نعمت سے کم نہیں ہے جہاں 120 کلومیٹر کی رفتار سے چلنے والی گاڑی رینگتی ہوئی محسوس ہوتی ہے ۔ موٹر وے کا وہ حصہ جو لاہور شہر کے مغرب سے گزرتا ہے زیادہ پرکشش نہیں تھا کیونکہ اردگرد فیکٹریوں کا سیاہ رنگ کا زہریلا دھواں اور جھگیوں کی بہتات ٗ جا بجا پھیلے ہوئے گندگی کے ڈھیر اور دریائے راوی کی بے بسی ٗ ماحول کو تکلیف دہ بنا رہی تھی ۔ جونہی ہماری گاڑی لاہور سے باہر بابو صابو انٹر چینج پر پہنچی تو ماحول نے انگڑائی لی اور خوشگواری نے ہمیں اپنی کشش کا احساس کروایا ۔ لاہور سے شیخوپورہ کا فاصلہ 36 کلومیٹر ہے جو پندرہ بیس منٹ میں اس لیے باآسانی طے ہوگیا کہ موٹروے کے دونوں اطراف دور دور تک لہلاتی فصلیں قطا ر در قطار ہمارے ساتھ دوڑتی ہوئی محسوس ہورہی تھیں ۔کسی کھیت میں گندم کے پودے اپنی خوبصورتی کا احساس کروا رہے تھے تو کسی کھیت میں سرسوں کے خوشنما پھول اپنی پرکشش جاذبیت کا احساس کروا کر مسلسل دیکھنے پر مجبور کررہے تھے۔ دور کہیں کہیں اینٹوں کے بھٹوں اور فیکٹریوں کی چمنیوں سے نکلتا ہوا سیاہ رنگ کادھواں ماحول کو آلودہ کرکے ہمارے لیے اذیت کا باعث بن رہا تھا ۔ ہر سال ماحولیات کو خوشگوار بنانے کے لیے کروڑوں روپے مختص تو کردیئے جاتے ہیں لیکن لاکھوں روپے تنخواہ لینے والے ماحولیات کے ارباب اختیار کو یہ توفیق نہیں ہوتی کہ وہ فیکٹریوں کی چمنیوں سے نکلنے والے دھویں اور نہر میں سیوریج کے گندے پانی کی آمیزش کو روکنے کا اہتمام کرسکیں ۔بہرکیف جوں جوں گاڑی شیخوپورہ سے پنڈی بھٹیاں کی جانب بڑھ رہی تھی تو موٹر وے بنانے والے کے لیے ہمارے دل سے تشکرانہ جذبات ابھر رہے تھے اس کے باوجود کہ میاں محمدنواز شریف کی بیشتر پالیسیوں سے ہمیں بھی اختلاف ہے لیکن انتہائی مخالفت کا سامنا کرتے ہوئے جس جانفشانی سے انہوں نے لاہور تا اسلام آباد تعمیر کروایا ۔ بلاشبہ وہ تحسین کے مستحق ہیں ۔۔ کورین تعمیراتی کمپنی ڈائیو کا بنا ہوا یہ موٹر وے کہیں کہیں ٹوٹ پھوٹ کاشکار ہے جہاں ایف ڈبلیو او کی جانب سے از سر نو تعمیر نظر آئی ۔ آٹھ دس میل کے حصے میں ہونے والی یہ تعمیر انتہائی نظم و ضبط کے ساتھ اس طرح کی جارہی تھی کہ میں انتظامات کی تعریف کیے بغیر رہا نہ جاسکا ۔ کاش ملک کی دوسری سڑکوں کی تعمیر کے حوالے سے بھی ایسے ہی اقدامات کرلیے جائیں تو عوام کو بے شمار پریشانیوں اور اذیتوں سے چھٹکار ا مل سکتا ہے ۔ دیگر سڑکوں کی تعمیر کاعالم یہ ہے کہ ٹھیکیدار سڑک پر پتھر ڈال کر ایک سال تک غائب ہوجاتا ہے پھر چھے مہینے اس کی سطح ہموار کرنے میں لگ جاتے ہیں گویا وہ پراجیکٹ جو ایک یا دو ماہ میں مکمل ہوسکتا ہے اس پر نہ صرف دو سے تین سال لگا دیئے جاتے ہیں بلکہ ابتدائی تخمینہ بھی دو گنا ہوجاتا۔ جو ہمارا قومی مزاج کا حصہ بن چکا ہے۔

موٹر وے کے ارد گرد بنے ہوئے گاؤں دور سے بہت خوبصورت دکھائی دے رہے تھے جب میں غلام سجاد کو مخاطب کرکے کہتا کہ وہ دیکھو آپ کا "کوٹ سلطان" آگیا ہے تو غلام سجاد کا چہرہ کھل اٹھتا اور وہ گاؤں کی خوبصورت یادوں میں کھو جاتے ۔ رضوان حیدر بھی ہمارا ہم سفر تھا جس کا تعلق مظفرگڑھ کے نواحی قصبے سے ہے اس کو بھی دیہاتی ماحول اچھا لگتا ۔ برسین کے پٹھے کاٹنے والی دیہاتی عورتوں کو کام میں مصروف دیکھ کر بہت خوش ہورہا تھا ۔ ہماری یہ خوشی شاید اس وجہ سے بھی تھی کہ روزانہ گھر سے اردو ڈائجسٹ دفتر تک آتے ہوئے درمیان میں آنے والی تمام عمارتوں ٗ شاہراہوں انڈر پاسز کو دیکھ دیکھ کر دل اکتا چکا تھا۔نئے اور خوبصورت ماحول کو دیکھنے کی آرزو ہمیشہ دل میں موجزن رہتی تھی ۔ اس اعتبار سے اردو ڈائجسٹ کے ایگزیکٹو ایڈیٹر جناب طیب اعجاز قریشی کا یہ اقدام واقعی قابل تعریف ہے کہ اردو ڈائجسٹ کو نوجوان نسل کی تحریروں سے بھی کیوں نہ آراستہ کیا جائے ۔ ان کے مطابق ادبی میدان میں ہمارا ماضی بہت درخشندہ ہے لیکن ماضی کی خوبصورت تحریروں کے ساتھ ساتھ ہمیں موجودہ نسل کی لکھی ہوئی تحریریں بھی ڈائجسٹ میں شامل کرنی چاہیں ۔ پھر یونیورسٹیز ٗ کالجز اور دیگر تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم نوجوانوں کے سوچوں کو مثبت دھارے میں لانے کے لیے انہیں بھی اردو ڈائجسٹ میں لکھنے کی ترغیب دینی چاہیئے ۔ پنڈی بھٹیاں کے بوائز اور گرلز کالجز کا یہ دورہ جناب طیب اعجاز قریشی صاحب کے روشن دماغ کی سوچوں کا ہی نتیجہ ہے ۔

موٹروے پر سفر کرتے ہوئے راستے میں اپر چناب سمیت نصف درجن نہریں بھی آئیں لیکن ان میں سے کوئی ایک نہر بھی اس لیے قابل دید نہیں تھی کہ یہ نہریں دونوں کناروں کی بوسیدگی اور بے ترتیبی کی منہ بولتی تصویر تھیں ۔ بھارت نے 66 ڈیم بنا کر پاکستانی دریاؤں کا پانی بھی زبردستی روک رکھا ہے ۔اگر پہلے کی طرح دریاؤں اورنہر وں میں پانی چھوڑ دیا جائے تو یقینا یہ نہریں پانی کی پوری مقدار کو برداشت نہیں کرسکیں گی ۔ پاکستان میں کرپشن ٗ لوٹ مار کامرض اس قدر بڑھ چکاہے کہ کوئی محکمہ ایسا نہیں بچا جو اس سے محفوظ ہو ۔ لاپرواہی ٗ سرکاری وسائل کی لوٹ مار ٗ اختیار کاناجائز استعمال تو ایک عام سی بات بن چکی ہے ۔اس ماحول میں موٹروے جیسی جدید سہولتوں سے آراستہ شاہراہ کا معیار اور وجود واقعی ایک عجوبہ تصور کیا جاسکتا ہے جو اپنی تعمیر کے17سال بعد بھی بہت اچھی حالت میں ہے جہاں ہماری گاڑی اپنی منزل کی طرف ایسے بڑھ رہی تھی کہ راستے میں کوئی رکاوٹ اس کی رفتار کم کرنے کا باعث نہیں بن رہی تھی ۔ کاش لاہور تا کراچی اور کاشغر سے گوادر تک موٹر وے کی تعمیر کا منصوبہ بھی پایہ تکمیل کو پہنچ جائے تاکہ کراچی اور گوادر بھی عام آدمی کی دسترس میں آسانی سے آجائے ۔

بہرحال پنڈی بھٹیاں کا انٹر چینج نظر آتے ہی ہم نے گھڑی پر ڈالی تو اس ۱۰ بجے کر ۱۰ منٹ ہوچکے تھے ۔گویا ۱۱۰ کلومیٹر کا سفر ہم نے صرف ایک گھنٹہ دس منٹ میں طے کرلیا ۔ہمارے دل میں اس موٹر وے کو بنانے والے شخص کے لیے تحسین بھرے جذبات ابھرے ۔ پنڈی بھٹیاں ایک چھوٹا سا قصباتی شہر ہے ۔جو دلابھٹی کا شہر کہلاتاہے ۔وسطی پنجاب کا تاریخی قصبہ پنڈی بھٹیاں ضلع حافظ آباد کا دوسرا بڑا قصبہ اور تحصیل کا صدر مقام ہے ۔ یہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور سے ۱۱۰ کلومیٹر کے فاصلے پر دریائے چناب کے کنارے پر واقع ہے ۔ یہ چاروں اطراف سے شیخوپورہ ٗ چنیوٹ ٗ فیصل آباد اور سرگودھا کے اضلاع میں گھرا ہوا ہے جبکہ اس کا ضلعی مقام حافظ آباد اس کے شمال مشرق میں 59 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

جہاں تک اس قصبہ کی تاریخ کاتعلق ہے تو یہ تقریبًا آٹھ صدیاں قبل تغلق دور میں وجود میں آیا تھا جبکہ جیسلمیر کے علاقے بھٹیزسے اٹھ کر آنے والے بھٹی قبیلہ کے افراد نے اس کی آبادکاری شروع کی ۔ پہلے پہل یہ پنڈی بھٹیاں کے نواحی قصبے "باغ کہنہ" میں ہنجرا قبیلہ کے پاس آکر پناہ گزیں ہوئے پھر رفتہ رفتہ موجودہ مقام پر پنڈی بھٹیاں آکر اپنے قبیلے کے نام سے بستی قائم کرکے اس کی آبادکاری شروع کردی ۔ وقت کے ساتھ ساتھ اپنی تعداد تعداد اور قوت میں اس طرح اضافہ کرتے گئے کہ بالآخر علاقے میں اپنی عملداری قائم کرلی۔ حتی کہ مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کے عہد میں یہاں کا "دلا بھٹی" باغی ہوکر مغل صوبے دار کے مدمقابل آکھڑا ہوا ۔ دلا بھٹی کی بہادری اور جرات کے متعلق کئی لوک داستانیں اس سے منسوب کی جاتی ہیں اور انہیں داستانوں کے سبب آج بھی مقامی تاریخ و ثقافت میں اس کا نام ایک بہادر اور نذیر ہیرو کے طور پر پیش کیاجاتاہے۔ بالآخر ۱۵۸۹ء میں مغلوں نے اسے گرفتار کرکے لاہور کے محلہ نخاس میں تختہ دارپر لٹکا دیا ۔

مغلوں کے عہد میں پنڈی بھٹیاں انتظامی طور پر پر گنہ حافظ آباد میں شامل تھا ۔ 1802ء میں اس پر سکھ حکمران راجہ رنجیت سنگھ حملہ آور ہوا اور قابض ہوگیا ۔ اس دوران یہاں کے بھٹی قبیلے نے بھاگ کر جان بچائی اور جھنگ کے سیالوں کے ہاں پناہ لی ۔سکھوں نے یہاں مسلمانوں کے مذہبی مقامات کو شدید نقصان پہنچایا ۔ بالخصوص شاہی جامع مسجد کے صحن کو اصطبل میں تبدیل کردیا۔ انتظامی طور پر مقامی نظم و نسق بھی تبدیل کردیاگیا اور پنڈی بھٹیاں اور پورے علاقے کو دیوان ساون مل کے سپرد کردیاگیا۔ جب انگریزوں نے پنجاب پر قبضے کے لیے سکھوں کے ساتھ لڑائیاں لڑیں تو یہاں کے بھٹی قبیلے نے اپنے مقبوضات کی بحالی کے لیے انگریزوں کا بھر پور ساتھ دیا اور پنجاب پر انگریزوں کی فتح کے بعد اس کے ساتھ ہی یہ پنڈی بھٹیاں قصبے کو دوبارہ اپنی عملداری میں لینے میں کامیاب ہوگئے ۔ انگریزی عہد میں یہاں لاہور سے سرگودھا تک براستہ پنڈی بھٹیاں سڑک تعمیر ہوئی ۔تھانہ ٗ مدرسہ اور شفاخانہ تعمیر ہوئے قیام پاکستان سے پہلے یہ قصبہ دیسی گھی کی فروخت کا ایک بڑا مرکز تصور کیاجاتا تھا ۔ اس کے علاوہ چمڑے کی کاٹھیوں کی وجہ سے بھی مشہور ہوگیا۔یہاں چاول چھڑنے کے متعدد کارخانے اور جینز کی پتلونیں تیار کرنے کی ایک بڑی فیکٹری بھی ہے ۔ یہ علاقہ چاول کی کاشت کے حوالے سے بہت مشہور ہے۔

پنڈی بھٹیاں میں 1881ء میں میونسپل کمیٹی قائم کی گئی ۔ ٹاؤن کمیٹی کی عمارت انتہائی دلکش اور قدیم تھی ۔ یہ شیرشاہ سوری کے زمانے کی ایک سرائے تھی جسے انگریزی دور میں سرکاری افسران کی قیام گاہ میں تبدیل کرلیا گیا اب اسے معدوم کرکے اس کی جگہ تحصیل ایڈمنسٹریشن کی نئی عمارت کھڑی کر دی گئی ہے۔ ۱۸۸۳ء میں یہاں انجینئر کنہیا لال نے جنوبی گیٹ تعمیر کروایا جو اب عاقل گیٹ کے نام سے مشہور ہے۔ یہاں کی آبادی پچاس ہزار کے لگ بھگ ہے ۔ دو بڑے بازار اور کئی ذیلی مارکیٹیں ہیں ۔ یہاں ایڈیشنل سیشن و سول عدالتوں کے علاوہ کئی سرکاری دفاتر بھی موجود ہیں۔طلبا و طالبات کے لیے ڈگری کالجز ٗ کالج آف ٹیکنالوجی اور ووکیشنل انسٹیٹیوٹ بھی موجود ہے ۔ دو غلہ منڈیوں کے علاوہ یہاں شور زدہ زمینوں کی تحقیق کرنے والا ایک بڑا ادارہ بھی موجود ہے ۔ میاں خیر محمد نون کی خانقا ہ بھی اسی شہر کا حصہ ہے جنہیں ۱۷۶۵ء میں سہ حاکمان لاہور کے دور میں سکھوں نے شہید کردیا تھا۔ ان کے مریدوں نے ان کی میت کو پنڈی بھٹیاں لاکر دفن کیا اور مزار تعمیر کیا۔

پنڈی بھٹیاں کے عوام نے تحریک پاکستان میں بھی بھرپور کردار اداکیا۔ یہاں انجمن اصلاح المسلمین پنڈی بھٹیاں نام کا ایک سماجی ادارہ ۱۹۳۲ء سے قائم ہے۔ اس ادارے کے تحت ایک بہترین کتب خانہ بھی قائم ہے جس میں قیمتی کتب کے علاوہ کچھ نوادارت بھی محفوظ ہیں۔ اس ادارے کے جلسوں میں مولانا ظفر علی خاں ٗ قدرت اﷲ شہاب ٗ عطا ء اﷲ شاہ بخاری جیسی شخصیات شرکت کر چکی ہیں۔

اس تاریخی شہر میں ہماری آمد کا مقصد گورنمنٹ بوائز ڈگری کالج اور گورنمنٹ ڈگری کالج برائے خواتین کے اساتذہ کرام ٗ طلبہ و طالبات سے اردو ڈائجسٹ کو متعارف کروانا ٗ اردو زبان کی اہمیت بتانا تھا اور بطور خاص نوجوان نسل کو اردو ڈائجسٹ کے لیے لکھنے کی دعوت دینا بھی تھا ۔جونہی ہم انٹر چینج سے شہر کی جانب مڑے تو وہی گندہ ماحول جو ہر پاکستانی چھوٹے بڑے شہر کا کلچر بن چکا ہے ٗ نے ہمارا استقبال کیا ۔ اس جابجا پھیلی ہوئی گندگی ٗ تجاوزات کی بھرمار ٗ خوانچہ فروشوں اور ریڑھی بانوں کی بے ترتیبی کو دیکھ کر یوں محسوس ہورہا تھا جیسے اس تاریخی شہر میں انتظامیہ نام کی کوئی چیز نہیں ہے ۔ چند پولیس والے دھوپ میں آدھ کھلی آنکھوں کے ساتھ سستاتے ہوئے دیکھے تو گئے ہیں لیکن عملی طور پر یہ شہر انتظامیہ کے وجود سے مکمل طور پر انکار ی تھا۔

جیسے ہی ہماری گاڑی گورنمنٹ ڈگری کالج میں داخل ہوئی تو وائس پرنسپل پروفیسر اسد سلیم شیخ نے ہمارا گرمجوشی سے استقبال کیا ۔ چائے اور مشروب کے بعد پرنسپل پروفیسر محمداویس سے ملاقات ہوئی انہوں نے بھی اردو ڈائجسٹ کے اس اقدام کو بے حد سراہا کہ نوجوان نسل کو اردو میں لکھنے پر آمادہ کیا اور اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلایا ۔ پروفیسر اسد سلیم شیخ نے بتایا کہ یہ کالج ۱۹۹۶ء میں قائم ہوا تھا اس کالج کے تین ہونہار طالب علموں نے ڈویژن بھر میں اول پوزیشنیں حاصل کی ہیں جبکہ پنجاب سطح کے تقریری اور انشا پردازی کے مقابلوں میں کالج کے طلبا نے ضلع اور ڈویژن سطح پر بھی پوزیشنیں لے کر اپنی بھرپور صلاحیتوں کااظہار کیا ہے ۔ اس کالج کی کراس کنٹری ٹیم مسلسل بارہ سال سے انٹر کالجیٹ مقابلوں میں چمپیئن چلی آرہی ہے ۔۱۲۵ کنال پر واقع اس کالج میں دیہاتوں کے آنے والے طلبہ کے لیے ہوسٹل کی سہولت بھی موجود ہے جبکہ جدید سائنسی علوم اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سے روشناس کرانے کے لیے گزشتہ گیارہ سال سے کمپیوٹر سنٹر بھی کام کررہا ہے ۔

پھر ہم اس آڈیٹوریم میں پہنچے جہاں ایک سو بیس کے لگ بھگ سیکنڈ ائیر ٗ تھرڈ ائیر اور فورتھ ائیر کے طلبہ ہمارے منتظر تھے ۔ اندھیرے میں ڈوبے ہوئے کلاس روم کو دیکھ کرمیں نے پروفیسر اسد سلیم شیخ سے پوچھا کیا کالج میں بجلی کبھی آتی بھی ہے کہ صرف جاتی ہے ۔ پروفیسر صاحب نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا دراصل ہمارا کالج دیہاتوں کے فیڈر پر ہے شہرمیں تو بجلی کسی نہ کسی حد آ ہی جاتی ہے لیکن کالج میں سوا دس بجے بجلی جاکر سوا ایک بجے آتی ہے یہی وقت بچوں کے پڑھنے کا ہوتا ہے اور اسی وقت کلاس روم میں کم روشنی کی وجہ سے استاد اور طالب علم دونوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔پروفیسر صاحب کی بات سن کر ہم سوائے افسوس کے اور کر بھی کیا سکتے تھے۔

بہرکیف ٹھیک گیارہ بجے ہم آڈیٹوریم میں پہنچ چکے تھے تلاوت قرآن پاک سے تقریب کا آغاز ہوا نعت رسول مقبول ﷺ کے بعد کالج کے تین طالب علموں (جن میں محمد رمضان تھرڈ ائیر ٗ حافظ محمد ثقلین صالح ٗ فرسٹ ائیر اور محمدعباد سیکنڈائیر شامل ہیں ) نے اردو ڈائجسٹ کی جانب سے دیئے گئے موضوع "والدین اور اولاد میں دوریاں کیوں بڑھ رہی ہیں ؟" پر فکر انگیز اظہار خیال کیا۔اس کے بعد اردو ڈائجسٹ کی جانب سے مجھے ( محمد اسلم لودھی بطور پروگرام کوآرڈی نیٹر)اظہار خیال کے لیے سٹیج پر بلایا گیا ۔ میں نے کالج میں اردو ڈائجسٹ کی جانب سے اپنی آمد پر مختصر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا -:

زندگی میں کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میں اس طرح آپ کے کالج میں آکر آپ سے مخاطب ہوں گا۔ یہ بھی قدرت کامجھ پر عظیم احسان ہے ۔ آپ سے مخاطب ہونے کا اعزاز مجھے اردو ڈائجسٹ کی وجہ سے حاصل ہوا ہے جو جناب الطاف حسین قریشی اور ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی جیسے کہنہ مشق صحافیوں کی سرپرستی میں گزشتہ 54 سال سے شائع ہورہا ہے ۔ نہ برصغیر پاک و ہند بلکہ مشرق وسطیٰ ٗ یورپ اور امریکہ تک اردو پڑھنے والوں کا محبوب ترین ڈائجسٹ ہے ۔ یہ ڈائجسٹ ایک فرد کی طرح ہر خاندان کا حصہ رہا ہے ۔ اس کے پڑھنے والوں میں نسل در نسل کے لوگ شامل ہیں ۔ یہ پاکستان کا واحد ڈائجسٹ ہے جس کو داد ا بھی شوق سے پڑھتا رہا ہے اور پوتا بھی اسے پسندیدگی کی نظر سے دیکھتا ہے اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ اس کی تحریروں میں بیہودگی ٗ لچرپن سے نفرت سیکھائی جاتی ہے اور مقدس رشتوں سے محبت ٗدین اسلام کی سربلندی ٗ وطن عزیز سے گہری محبت کا درس ملتا ہے یہی وجہ ہے کہ جب یہ ڈائجسٹ کسی کے ہاتھ میں ہوتا ہے وہ شرمندہ ہونے کے بجائے اسے اپنے لیے اعزاز تصور کرتا ہے ۔

اس ڈائجسٹ میں جہاں ممتاز ادیبوں شاعروں اور لکھنے والوں کی تحریریں شائع ہوتی ہیں وہاں اردو ڈائجسٹ کی انتظامیہ نے یہ فیصلہ کیاہے کہ کیوں نہ آج کی نوجوان نسل کو بھی اردو لکھنے کی طرف ترغیب دی جائے تا کہ آپ جو محسوس کرتے ہیں اسے لفظوں کا روپ دے کر ہمیں فراہم کریں ۔ اس مقصد کے لیے اردو ڈائجسٹ میں ایک گوشہ "اردو ڈائجسٹ فورم" کے نام سے مخصوص کردیاگیا ہے جس میں بطور خاص نوجوان نسل کو دعوت دی جارہی ہے کہ وہ بھی اپنے ارد گردپھیلی ہوئی کہانیاں ٗ افسانے لکھیں ۔ غزلیں ٗ نظمیں لکھیں ۔ اردو ڈائجسٹ کے صفحات آپ کی تحریروں کے منتظر ہیں ۔

یہاں یہ بتاتا چلوں کہ میں جب پنڈی بھٹیاں کالفظ سنتا تھا تو میرے ذہن میں پنجابی تہذیب کا جنگجو ہیرو "دلا بھٹی " نام آتا تھا لیکن مجھے یہ بتاتے ہوئے فخر محسوس ہورہاہے کہ آج پنڈی بھٹیاں کی پہچان صرف دلا بھٹی ہی نہیں رہا۔ بلکہ سرزمین پنڈی بھٹیاں نے ایک اور عظیم سپوت کو جنم دیا ہے جو اپنی خوبصورت تحریروں کے ذریعے اردو ادب میں بہت بڑا مقام حاصل کرلیا ہے بلکہ سرزمین پنڈی بھٹیاں کی پہچان بن چکا ہے میری مراد پروفیسر اسد سلیم شیخ صاحب سے ہے ۔ جس طرح خوشبو کو کسی حصار میں قید نہیں کیا جاسکتا اسی طرح پروفیسر اسد سلیم شیخ اپنی تحریروں کے ذریعے خوشبو کی طرح پاکستان کے ادبی اور صحافتی حلقوں میں یکساں مقبول ہوچکے ہیں۔ پاکستان کا سب سے بڑا اخبار نوائے وقت ٗ ہفت روزہ فیملی ٗ یا کوئی اور اخبار ہو۔ ہر میگزین اور ہر اخبار میں پروفیسر اسد سلیم شیخ کی خوبصورت تحریریں پنڈی بھٹیاں کا تعارف کرواتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں ۔

میں نے اردو ڈائجسٹ کو جوائن کرتے ہی پروفیسر اسد سلیم شیخ صاحب درخواست کی تھی کہ اب اردو ڈائجسٹ کو آپ کی خوبصورت تحریروں سے محروم نہیں رہنا چاہیئے میری درخواست پر انہوں نے " تین ک کا سفر " لکھ کر اردو ڈائجسٹ کے ایڈریس پر بھجوا دیاجو ہر اعتبار سے منفرد اور خوبصورت سفر نامہ ہے بلکہ پڑھنے والے بھی خود کو اس سفر نامے کاایک حصہ تصور کرتے ہیں ۔ اﷲ نے چاہا تو یہ سفر نامہ اردو ڈائجسٹ کے مئی 2015ء میں اشاعت پذیر ہوگا ۔

وہ قوم کبھی ترقی نہیں کرسکتی جس کی اپنی کوئی زبان نہ ہو ۔ چین اقتصادی اعتبار سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک بن چکا ہے اس کی تمام تر ترقی کا راز اپنی زبان ٗ اپنی تہذیب اور اپنے کلچر میں مضمر ہے ۔انہوں نے دنیاوی علوم کو اپنی زبان کے سانچے میں ڈھال کر اپنی قوم کو پیش کیا جواس کی کامیابی کا باعث بنا ۔ آپ ایران چلے جائیں وہاں آپ کو فارسی کے علاوہ کسی اور زبان میں گفتگو سنائی نہیں دے گی ۔ دنیا کے کسی بھی ملک کا شہری جب ایران جاتا ہے تو اسے وہاں رہنے ٗ چلنے پھرنے کے لیے فارسی سیکھنی پڑتی ہے ۔ فرانس ٗ جرمنی ٗ ترکی ٗ روس حتیٰ کہ جاپان جیسے ملکوں میں بھی اپنی اپنی زبانوں کوہی مرکزی حیثیت سے حاصل ہے۔ شاید پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس کے آئین میں قومی زبان کی حیثیت سے "اردو " کالفظ لکھا تو ضرور ہے لیکن وطن عزیز میں اس کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک ہورہا ہے ۔جو شخص اردو میں خوبصورت لکھ سکتا ہے جو شخص اردو کی تحریریں پڑھ سکتا ہے اسے وہ مقام حاصل نہیں جو انگریزی پڑھنے اورلکھنے والے کو پاکستان میں حاصل ہے ۔ یہاں ہر سطح انگریزی زبان ہی مسلط دکھائی دیتی ہے ۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ جو لوگ انگریزی کے بہت بڑے حامی ہیں وہ بھی چند رٹے رٹائے فقروں کے علاوہ لکھنے اور سوچنے کی صلاحیت سے عاری ہیں ۔آپ جو بات اپنی قومی زبان اردو میں کہہ سکتے ہیں وہ بات اتنی آسانی سے انگریزی میں نہیں کہہ سکتے ۔

حضرات محترم ۔ جب ہماری قومی زبان اردو ہے تو ہمیں اس کو بولنے پڑھنے اور لکھنے میں شرم کیوں محسوس ہوتی ہے ۔ آپ پشاور سے کراچی تک جائیں آپ گلگت سے کوئٹہ تک کا سفر کریں اگر کوئی زبان رابطے کا ذریعہ بنے گی تو وہ زبان اردو ہی ہے ۔ افسوس کہ ہم نے اردو کو ثانی حیثیت دے کے اپنی زبان کو اپنے ہی گھر میں بیگانہ بنا کے رکھ دیا ہے ۔ایسا کیوں ہے......... ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیئے......... یہی وجہ ہے کہ ہمارے 80 فیصد نوجوان صرف انگریزی نہ آنے کی وجہ سے دلبرداشتہ ہوکر تعلیم کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ کر اپنی زندگی کو نہ صرف برباد کرلیتے ہیں بلکہ معاشرے پر بوجھ بن جاتے ہیں۔

اردو ڈائجسٹ کی حیثیت پاکستانی معاشرے میں روشنی کے ایسے مینار جیسی ہے جس میں شائع ہونے والی تحریروں کاایک ایک لفظ آپ کے جذبات ٗ احساسات ٗ امنگوں اور جذبات کا ترجمان بنتاہے ۔آپ کو اردو ڈائجسٹ پڑھتے ہوئے ذہنی اور قلبی سکون محسوس ہوگا ۔ آج آپ کے پاس ہمارا آنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ آپ بھی اردو کے لیے معاشرتی کہانیاں لکھیں ٗ آپ بھی افسانے لکھیں آپ بھی اچھی شاعری لکھیں ۔ آپ میں سے ہی ہمیں اشفاق احمد ٗ احمد ندیم قاسمی ٗ منیر نیازی جیسے ادیب اور شاعر تلاش کرنے ہیں۔اﷲ تعالی نے آپ کو بے پناہ صلاحیتیں عطا کی ہیں ان صلاحیتوں کو صرف چراغ دکھانے کی ضرورت ہے۔ اردو ڈائجسٹ چراغ کی وہی روشنی لے کر آپ کی دہلیز پر دستک دے رہا ہے ۔ اپنی زندگی سے مایوسیاں نکال پھینکیں آپ بھی پروفیسر اسد سلیم شیخ کی طرح قومی سطح پر پہچانے جاسکتے ہیں۔ آپ بھی اردو ڈائجسٹ کے روح رواں اور چیف ایڈیٹر جناب الطاف حسن قریشی کی طرح اردو لکھنے والوں کے رہبر بن سکتے ہیں آپ بھی ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی صاحب کی طرح معاشرے میں مثبت قدریں پروان چڑھانے والی تحریروں کے لکھاری بن سکتے ہیں۔ آپ بھی اردو ڈائجسٹ کے ایگزیکٹو ایڈیٹر جناب طیب اعجاز قریشی کی طرح بہترین منتظم اور ہر دلعزیز لیڈر بن کر پاکستانی قوم کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کرسکتے ہیں ۔ آپ اچھے شاعر بھی بن سکتے ہیں ٗ آپ اچھے ادیب بھی بن سکتے ہیں آپ فلاسفر بھی بن سکتے ہیں ۔ اس مقصد کے لیے آپ کو اپنی زبان اردو کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانا ہوگا ۔ درسی کتابوں کے ساتھ ساتھ اچھے شاعروں کی شاعری پڑھیں ٗ اچھے ادیبوں کی تحریریں پڑھیں اس مقصد کے لیے اردو ڈائجسٹ آپ کی ہر سطح پر راہنمائی کرنے کے لیے تیار ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جہاں اردو لٹریچر کی بات ہوتی ہے وہاں اردو ڈائجسٹ مارکیٹ لیڈر کی حیثیت سے سامنے آتا ہے ۔ اردو ڈائجسٹ کو خود بھی پڑھیے اور اپنے خاندان کے ہر فرد کو اردو ڈائجسٹ پڑھنے کی تلقین بھی کریں اگر آپ اپنے خاندان کو بیہودگی ٗ لچر پن ٗ بے اطمینانی اور ذہنی ٹینشن سے بچانا چاہتے ہیں ۔ تو اردو ڈائجسٹ سے زیادہ موثر اور پاکیزہ قدروں کا ترجمان اور کوئی ڈائجسٹ ٗ میگزین نہیں ہے ۔

اردو ڈائجسٹ ایک میگزین ہی نہیں ہے۔ اردو بولنے والوں ٗ اردو لکھنے والوں ٗاردو پڑھنے والوں اور اردو میں سوچنے والوں کی ماں ہے۔ یہ ڈائجسٹ دور حاضر میں ہرپاکستانی خاندان کے گھرکا فرد بن چکا ہے ۔آج مجھے آپ جیسے باصلاحیتوں نوجوانوں سے مخاطب ہوکر بہت خوشی محسوس ہورہی ہے ۔ اﷲ نے چاہا تو یہ سلسلہ دراز سے دراز ہوتا چلا جائے گا ۔ ہم پاکستان کی ہر یونیورسٹی اور کالجز میں جاکر اپنے باصلاحیت نوجوانو ں کو اردو میں سوچنے ٗ اردو میں لکھنے اور اردو کو پڑھنے کی ترغیب دینے کی خواہش رکھتے ہیں ۔

میری تقریر کے بعد سب ایڈیٹر غلام سجاد نے اردو ڈائجسٹ کا مختصر تعارف کروایا اور اساتذہ کرام اور طلبہ کو اردو ڈائجسٹ کا مستقل قاری بننے کی ترغیب دیتے ہوئے انہیں اردو ڈائجسٹ کے نئے اور کچھ گزشتہ شمارے اعزازی طور پر دیئے ۔اردو ڈائجسٹ کے خوبصورت پرچے جن جن ہاتھوں میں گئے ان نوجوانوں کے چہرے کھلتے گئے ۔اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ اردو ڈائجسٹ ٹیم کی آمد اور اردو ڈائجسٹ کی اعزازی طور پر طلبہ اور ٹیچر کو فراہمی کوایک خوشگوار جھونکے کی مانند محسوس کیاگیا ۔

اس کے بعد ہم پروفیسر اسد سلیم شیخ کی رفاقت میں گورنمنٹ ڈگری کالج برائے خواتین میں پہنچے جہاں کالج کی پرنسپل مسز فریدہ کریم صاحبہ نے ہمارا استقبال کیا اور ہمیں لے کر کالج کے آڈیٹوریم میں پہنچیں جہاں چالیس پچاس کے قریب فورتھ ائیر کی لڑکیاں پہلے سے موجود تھیں ۔ مسز فرید ہ نے اردو ڈائجسٹ ٹیم کی کالج میں آمد کے بارے میں طالبات کو آگاہ کرتے ہوئے مجھے ( محمد اسلم لودھی ) کو اظہار خیال کے لیے بلایا ۔ میں نے مختصر طالبات کو اردو ڈائجسٹ کی دور حاضر میں اہمیت اور افادیت سے آگاہ کرتے ہوئے اسے باقاعدگی سے پڑھنے ٗ خرید کر مستقل پیمانے پر اپنے گھر میں رکھنے اور اردو ڈائجسٹ کے لیے لکھنے کی درخواست کی ۔ طالبات نے اردو ڈائجسٹ کے حوالے سے کی جانے والی گفتگو میں گہری دلچسپی کااظہار کیا اور اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔

دونوں کالجزسے فارغ ہونے کے بعد پروفیسر اسد سلیم شیخ ہمیں لے کر پنڈی بھٹیاں تاریخی شہر دکھانے کے لیے چل پڑے ۔ چھوٹی چھوٹی اینٹوں سے بنا ہوا یہ قدیمی شہر واقعی اپنی مثال آپ تھا ۔ اس کے باوجود کہ بازارکے درمیان نشیب و فراز سے گھومتی ہوئی بہت چھوٹی سڑک دکھائی دی لیکن بازار کی رونقیں اپنی جگہ عروج پر تھیں ۔یہاں پروفیسر صاحب ہمیں ایسی تاریخی اور پرانی عمارت میں لے پہنچے جہاں انجمن اصلاح المسلمین کا کتبہ لگا ہوا اور پرانی طرز کی اونچی چھت والے کمرے میں نواز شاہین سے ملوایا ۔ پروفیسر صاحب نے ہمارا تعارف کروایا ۔ پھر ہمیں ان کے بارے میں بتایا کہ یہ انجمن اصلاح المسلمین جو اس اعتبار سے بہت تاریخی اہمیت کی حامل ہے کہ جہاں اردو اور فارسی کے ساتھ ساتھ قرآن پاک کے بہت پرانے نسخے بھی موجود ہیں ہمیں دو بہت چھوٹے قرآن پاک دکھائے گئے جن کے حروف کو محدب عدسہ سے ہی دیکھاجاسکتا تھا ۔ نہ جانے کتابت کرنے والے نے اس قرآن پاک کو کتنی مشکل سے لکھا ہوگا ۔جناب نواز شاہین نے ہمیں بتایا کہ یہ ادارہ 1932 میں قائم ہوا تھا بلکہ اس ادارے میں مولانا ظفر علی خاں ٗ قدرت اﷲ شہاب ٗ ایم ایم عالم ٗ آزاد کشمیر کے سابق صدر سردار عبدالقیوم بھی تشریف لا چکے ہیں ۔ ہمیں وہ تلوار بھی دکھائی گئی جو پنڈی بھٹیاں شہر کی جانب سے انجمن اصلاح المسلمین نے فضائی سرفروش گروپ کیپٹن ایم ایم عالم کو بھارتی جہاز گرانے پر دی تھی ۔ یہ تلوار ایم ایم عالم نے وصول کرنے کے بعد ایک با رپھر پنڈی بھٹیاں کو لوٹا دی ۔جو اس لائبریری میں موجود ہے ۔ یہاں یہ ذکر بے محل نہیں ہے کہ انجمن اصلاح المسلمین کی جانب سے مرکزی شاہی جامعہ مسجد کی تعمیر ٗ جامعہ عربیہ خیرالعلوم کے قیام جہاں تعلیم حاصل کرنے والوں کی تعداد ۳۵۰ تک پہنچ چکی ہے۔عقیدہ ختم نبوت کے حوالے سے بھی اس ادارے کی بہت خدمات ہیں۔جبکہ اصلاح ماڈل پبلک سکول کے نام سے ایک تعلیمی ادارہ ۱۹۶۰ء سے قائم ہے ۔جہاں اب ہائی سکول بن چکا ہے ۔اس لائبریری میں اردو ٗ عربی ٗ فارسی اور انگریزی کتب کا عظیم اور نادر ذخیرہ بھی موجود ہے جن کی تعداد ۴۰۰۰ سے زیادہ ہے ۔یہاں مذہبی ٗ علمی ٗادبی اور تاریخی اہمیت کی کتابیں موجود ہیں ۔یہاں قدیم قلمی نسخہ جات ٗ مخطوطات عہد رفتہ کے سکہ جات اور بزرگان سلف کی پاکیزہ تحریروں کو بھی خوبصورتی سے محفوظ کیاگیا ہے۔اس اعتبار سے اسے گوجرانوالہ ڈویژن کی سب سے منفرد لائبریری قرار دیاجاسکتا ہے ۔

وقت بہت تیزی سے دوڑ رہا تھا ہمیں واپس لاہور جانے کی فکر بھی لاحق تھی لیکن پروفیسر اسد سلیم شیخ ہمیں اپنے گھر لے آئے جو بہت چھوٹی سی گلی میں تھا لیکن بہت منفرد اور پرانی حویلی جیسا دکھائی دیا اس گھر کو اگر ادبستان کے نام سے پکارا جائے تو غلط نہ ہوگا کیونکہ اس میں باقاعدگی سے ادبی نشستیں ہوتی ہیں پنڈی بھٹیاں شہر کے ادیب ٗ شاعر اور اہل ذوق ہفتے میں ایک دن یہاں جمع ہوکر اپنا اپنا تازہ کلام سناتے ہیں اور جی بھر کے داد وصول کرتے ہیں۔پروفیسر صاحب جس قدر پروقار شخصیت کے حامل انسان ہیں اسی طرح انہوں نے اپنے گھر کو بھی ادبی اور روایتی ماحول فراہم کرکے ایک عظیم رہائش گاہ میں تبدیل کررکھاہے ۔کھانا سادہ لیکن بہت مزے دار تھا پھر چائے کا دور چلا اسی اثنا میں دلا بھٹی سنگت کے جنرل سیکرٹری بشیر دیوانہ بھی آ پہنچے انہوں نے پنجابی کی خوبصورت غزل "ٹالی دے تھلے" سناکر بہت محظوظ کیا ۔ وقت اتنا تیزی سے دوڑ رہا تھا گھڑی پر نظر دوڑائی تو ساڑھے چار بج چکے تھے۔ پروفیسر صاحب نے مجھے اپنی معروف کتاب "دلے دی بار" پیش کی جبکہ میں نے انہیں اردو ڈائجسٹ کا تازہ شمار اور اپنی کتاب "محبت " دی ۔ کتابوں اور محبتوں کے تبادلے کے ساتھ ہی پنڈی بھٹیاں کا یہ تاریخ ساز دورہ اپنے اختتام کو پہنچا اور ہم اس وقت واپس لاہور پہنچے جب شام کے اندھیرے ماحول کو اپنی آغوش میں لے چکے تھے ۔ڈوبتا ہوا سورج کبھی چلتی ہوئی گاڑی کی پشت کی جانب کھسک جاتا تو کبھی وہ ہمارے دائیں جانب نظر آتا ۔ زمین کا چکر ہماری سمجھ سے بالاتر تھا لیکن یہ سوچ ضرور پیدا ہورہی تھی کہ قدرت نے کائنات کو بنا کر واقعی بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہے وہی سورج جو لاہور سے روانہ ہوتے ہوئے ہمارے ساتھ ساتھ چل رہا تھا وہ سورج پوری آب و تاب کے ساتھ پنڈی بھٹیاں میں بھی چمکتا ہوا دکھائی دے رہا تھا ۔بے شک تم اپنے رب کی کس کس نعمت کا شکر ادا کرو گے ۔جس نے کائنات کو روشن کرنے کے لیے سورج کی شکل میں ایسا عظیم الشان کارنامہ انجام دیا ہے جو کائنات میں انسانی وجود کا محرک بنا ہواہے ۔ اس کے ساتھ ہی پنڈی بھٹیاں کا دورہ اختتام کو پہنچا لیکن اس کی خوشگواری یادیں ہمیشہ ہمارے دامن گیر رہیں گی ۔
اس مضمون کی تیاری میں پروفیسر اسد سلیم شیخ کی کتاب "دلے دی بار "سے استفادہ کیاگیا ہے
Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 801 Articles with 763781 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.