سزائے موت اور بدقسمت قیدی

ملک میں سزائے موت پر پابندی ختم ہونے کے بعد دَھڑا دَھڑ لوگوں کو سولی پر لٹکایا جا رہا ہے، صدر مملکت کی جانب سے تقریباً پچانوے فیصد افراد کی موت کی سزا معاف کئے جانے کی اپیلیں مسترد کر دی جا چکی ہیں، جن میں ایسے افراد کی اپیلیں بھی شامل تھیں جن کو کیس لڑنے کے لئے وکیل تک میسر نہیں تھا اور آخر کار اُن کو عدالت کی جانب سے پھانسی کی سزا سنا دی گئی،جس کے بعد اُن کی صدرِ پاکستان کی جانب سے اپیلیں مسترد کرنے کے بعد جینے کی اُمیدیں بھی ختم ہو گئیں ، تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان میں اب تک کسی بڑے مگر مچھ کو سزائے موت نہیں ہوئی، ملک بھر کی جیلوں میں کئی ایسے افراد قتل کے مقدمات میں آئے اور بری ہو گئے مگر تلوار ہمیشہ غریب ہی پر چلائی گئی، ہمارے ملک کے حکمران غریب افراد کو پھانسیاں دیکر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ملک کا قانون بہت سخت ہو چکا ہے اور وہ دہشت گردی کے خلاف حقیقی جنگ لڑ رہے ہیں مگر آخر کب تک وہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتے رہیں گے۔ پاکستان کی مشہور و معروف سماجی شخصیت ڈاکٹر لیلیٰ حسن نے راقم کے کالم کے ذریعے حکومت کو یہ مشورہ دیا ہے کہ کسی کی جان لینا صرف اﷲ کے ہاتھ میں ہے اور کسی کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ کسی دوسرے کی جان لے بیشک جرم ثابت ہونے پر عمر قید کی سزا سنائی جائے مگر کسی کی جان نہ نکالی جائے۔

قتل یا سزائے موت ماضی میں تقریباً ہر معاشرے میں مشق کی جاتی رہی ہے، فی الحال صرف 58ممالک میں یہ سزا قا نونی طور پر فحال ہے جبکہ 95ممالک میں اس سزا پر قانونی طور پر پابندی عائد کی جا چکی ہے ۔ دنیا کے باقی ممالک میں پچھلے دس سال میں کسی کو بھی موت کی سزا نہیں سنائی گئی اور وہاں صرف مخصوص حالات جیسے جنگی جرائم کی پاداش میں ہی سزائے موت دی جا سکتی ہے یہ مختلف ممالک اور ریاستوں میں سرگرم اور متنازعہ معاملہ رہا ہے اور اس بارے میں مختلف معاشروں میں سیاسی اور تہذیبی بنیادوں پر متنوع رائے پائی جاتی ہے۔ یورپی یونین میں سزائے موت پرـ"بنیادی حقوق کے چارٹر"کے مطابق پابندی عائد ہے،گوکہ اس وقت دنیا کے ذیادہ ممالک سزائے موت کو ترک کر چکے ہیں لیکن ایمنسٹی انٹر نیشنل کا کہنا ہے کہ ابھی بھی دنیا کی تقریباً ساٹھ فیصد آبادی ایسے ممالک سے تعلق رکھتی ہے جہاں سزائے موت کا تاحال قانونی حیثیت حاصل ہے، ان ممالک میں ذیادہ گنجان آباد ممالک جیسے امریکہ، چین ، بھارت اور انڈونیشیاء شامل ہیں۔جنگ عظیم دوئم کے بعد دنیا بھر میں سزائے موت پر پابندی کا رجحان دیکھا گیا ہے۔ 1997ء میں سولہ ممالک نے سزائے موت پر پابندی لگا دی۔ 2010ء میں مجموعی طور پر95ممالک نے اب تک سزائے موت پر پابندی عائد کی ہے ۔9ممالک نے غیر معمولی حالات کے علاوہ اس سزا پر پابندی ہے جبکہ 35ممالک نے سزائے موت کا قانون ہونے کے باوجود پچھلے دس سال میں اسے استعمال نہیں کیاہے۔ اور ان ممالک میں یہ قانون خاتمے کی جانب گامزن ہے۔ 58ممالک ایسے پائے گئے ہیں جہاں سزائے موت کا قانونی حیثیت حاصل ہے اور یہاں اس سزا پر عمل درآمد بھی کیا جاتا ہے۔ دنیا میں سب سے ذیادہ سزائے موت چین ، ایران، سعودی عرب، عراق، امریکہ اور ملائشیاء میں دی جاتی ہیں۔دنیا بھر میں سزائے موت پانے والے مجرم کی ہلاکت کے لئے مختلف طریقے استعمال کئے جاتے ہیں، ان طریقوں میں برقی کرسی، گولی باری، سنگ سار، گھٹن، پھانسی اور مہلک زہریلے ٹیکوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں حکمرانوں کی جانب سے جب سزائے موت ختم کئے جانے کا حکم ہوا تو ملک بھر کی جیلوں میں قید ہزاروں قیدیوں پر لرزہ طاری ہو گیا،سابق صدر آصف علی زرداری کے دور حکومت میں کسی قیدی کو سزائے موت نہیں دی گئی بلکہ اُن کو اس سزا سے بچایا گیا جس کی وجہ سے ملک بھر کی جیلوں میں قید ہزاروں قیدی آصف علی زرداری کے اس اقدام کو اب بھی یاد کرتے ہیں ۔ صدر پاکستان ممنون حسین کو چاہیئے کہ وہ سزائے موت پانیوالے قیدیوں کی تمام اپیلوں کا غور سے جائزہ لیں جلد بازی میں کوئی ایسا قدم نہ اُٹھائیں جس سے بے گناہ شخص کی جان چلی جائے اور اس کا جواب اُن کو اﷲ کی عدالت میں دینا پڑے ۔سزائے موت کا قانون صرف اور صرف دہشت گردوں کے لئے بنایا جائے تاکہ اُنہیں عبرت حاصل ہو۔نہ کہ غریب قیدیوں کے لئے جن سے سرزد گناہ ہو ں یا لاپرواہی میں کوئی جرم ہو گیا ہو۔ جبکہ جیل میں قید ہر قیدی پیشہ ور مجرم نہیں ہوتا مگر ہمارے ملک میں حقیقی معنوں میں قانون صرف برائے نام ہو کر رہ گیا ہے۔جس کی آڑ میں صرف غریبوں کی گردن میں پھندا ڈال کر اُنہیں مارا جا رہا ہے۔
Syed Fawad Ali Shah
About the Author: Syed Fawad Ali Shah Read More Articles by Syed Fawad Ali Shah: 101 Articles with 90172 views i am a humble person... View More